نئیدہلی: عقیدت اور پاکیزگی سے بھرپور سورج بھگوان کی عبادت کے عظیم تیوہار چھٹ پوجا کی آپ سب ماتاؤں ، بہنو اورسب لوگوں کو بہت بہت چار دن کے اس تیوہار کے موقع پر ہر کنبہ سکھ اورخوشحالی کی خواہش کرتا ہے ۔
آپ سب لوگوں نے دیپا ولی منائی ۔ بھائی دوج اور گووردھن پوجا کا تیوہار منایا پھر دیو دیپا ولی کی تیاری آپ سب کو ان سبھی تیوہاروں کی ایک ساتھ اسٹیج پر موجود مرکزی کابینہ میں میرے رفیق جنان نتن گڈکری جی ، اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ جی ، نائب وزیر اعلیٰ کیشو پرشاد موریہ جی ، اترپردیش سرکار کے وزیر سریش کھنہ جی ، پارلیمنٹ میں میرے ساتھی ڈاکٹر مہندرناتھ پانڈے جی ، شری رام چرت مانس نشاد جی اور یہاں موجود سبھی حضرات اور میرے پیارے وارانسی کے بھائیو اور بہنو!
دسہرے اور دیپا ولی کے تیوہار کے بعد آج ایک بار پھر آپ سبھی کاشی واسیوں سے ملنے کا موقع مجھے ملا ہے ۔ اس بار میری خوش قسمتی رہی کہ مجھے دیپا ولی کے دن باباکیدار ناتھ کے درشن کرنے کا موقع ملا اور اب ایک ہفتہ بعد باباوشو ناتھ کی نگری میں آپ سب سے آشیر واد لینے کا موقع ملا ہے ۔اتراکھنڈ میں ، میں ماتا بھاگیرتھی کی پوجا کرکے انتہائی خوش نصیب ہوگیا اور آج یہاں اب سے کچھ دیر قبل مجھے ماں گنگا کے درشنوں کی خوش قسمتی حاصل ہوئی ۔ آج مہامنا مدن موہن مالویہ جی کا یوم رحلت بھی ہے ۔ ان کے عظیم کاموں کو اور ان کی ریاضت کو آج میں انتہائی ادب واحترام کے ساتھ سرجھکاکر خراج عقیدت پیش کرتا ہوں ۔
کاشی کے لئے ، پوروانچل کے لئے ، مشرقی ہندوستان کے لئے اور پورے ملک ہندوستان کے لئے آج کا دن انتہائی تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔
- آج وارانسی اور پورا ملک اس ترقی کا گواہ بنا ہے ، جو دہائیوں پہلے ہوجانی چاہئے تھی ، لیکن نہیں ہوئی ۔
- آج وارانسی اور پورا ملک اس بات کا بھی گواہ بنا ہے کہ جب عز م لے کر کام بروقت مکمل کئے جاتے ہیں تو اس کی تصویر کتنی عظیم الشان اور کتنی قابل فخر ہوتی ہے ۔
- آج وارانسی اور پورا ملک اس بات کا بھی گواہ بنا ہے کہ نیکسٹ جین انفراسٹکچر (آئندہ نسل کی ڈھانچہ جاتی سہولیات ) کا تصور کیسے ,ٹرانسپورٹ کے طورطریقو ں کی کایا پلٹ کردیتی ہے۔
ملک کے خادم اعلیٰ اور وارانسی کا ممبر پارلیمنٹ ہونے کے رشتے سے میرے لئے آج دوہری خوشی کا موقع ہے ۔اس مقدس سرزمین سے سبھی کا زیادہ سے زیادہ رابطہ تو ہے ہی ، آج اس علاقے میں پانی ،زمین اور خلا کو جوڑنے والی نئی توانائی کی ترویج ہوئی ہے ۔
اب سے کچھ دیر قبل میں نے دریا کی شاہراہ سے یہاں پہنچنے والے ملک کے پہلے کنٹینر بحری جہاز کا خیر مقدم کیا ۔ اس خیر مقدم کے ساتھ ہی 200 کروڑروپے سے زیادہ کی لاگت سے تیار ملٹی موڈل ٹرمنل بھی ملک وقوم کے نام وقف کیا گیا ہے ۔اس کام میں کئی دہائیاں لگ گئیں لیکن آج مجھے از حد خوشی ہے کہ ملک نے جو خواب دیکھا تھا ،اس نے آج کاشی کی دھرتی پر عملی شکل اختیار کرلی ۔ یہ کنٹینر بحری جہاز چلانے کا مطلب یہ ہے کہ مشرقی اترپردیش ، پوروانچل اور مشرقی ہندوستان آبی شاہراہوں کے ذریعہ خلیج بنگال تک جُڑ گیا ہے ۔
آج یہاں بابت پور ہوائی اڈے سے شہر کو جوڑنے والی سڑک رنگ روڈ کاشی کی کنکٹوٹی سے جڑے پروجیکٹس ، بجلی کے تاروں کو زیر زمین کرنے کے منصوبے ، ماں گنگا کو آلودگی سے پاک کرنے کی کوششوں کو طاقت دینے والے متعدد منصوبوں کا بھی افتتا ح اور سنگ بنیاد رکھا گیا ہے۔قریب قریب ڈھائی ہزار کروڑ روپے سے زیادہ کے یہ پروجیکٹ بدلتے ہوئے بنار س کی تصویر کو اور عظیم الشان بنائیں گے۔ان تمام منصوبوں کے لئے آپ سبھی کاشی واسیوں کو پورے پوروانچل کو دل کی گہرائیوں سے مبارکباددیتا ہوں ۔
آزادی کے بعدسے یہ پہلا موقع ہے جب ہم اپنے آبی راستوں کو کاروبار کے لئے اس قدر وسیع سطح پر استعمال کرنے کے اہل ہوئے ہیں۔آپ سبھی کاشی واسی گواہ ہیں کہ جب چار برس پہلے میں نے بنارس اور ہلدیہ کو آبی راستوں سے جوڑنے کی تجویز پیش کی تھی تو کس طرح کا اس کا مذاق اڑایا گیا تھا ،تمام منفی باتیں کہی گئی تھیں لیکن تھوڑی ہی دیر پہلے کولکاتہ سے آنے والے اس جہاز نے ان تمام نکتہ چینیوں کا خود ہی جواب دے دیا ہے ۔ملک کا یہ پہلا کنٹینر بحری جہاز محض مال ڈھلائی کے عمل کا حصہ نہیں ہے بلکہ نیو انڈیا کے نئے ویژن کا بھی جیتا جاگتا ثبوت ہے۔ یہ اس سوچ کی علامت ہے جس میں ملک کے وسائل اورملک کی اہلیت پر بھروسہ کیا جاتا ہے ۔
آج وارانسی میں جو کنٹینر یعنی بحری جہاز آیا ہے اس میں کولکاتہ سے صنعتی سامان آیا ہے۔یہاں سے یہ جہاز فرٹیلائزر لے کر واپس جائے گا یعنی یوپی اور پوروانچل میں فرٹیلائزر سمیت جتنے بھی کارخانے ہیں ،وہاں تیار ہونے والا سامان اب راست طور سے ہندوستان کے سبھی بندرگاہوں تک پہنچ سکے گا۔
یہ تو صرف ایک مثال ہے ۔اب وہ دن دور نہیں جب وارانسی اور آس پاس کے علاقوں میں پیدا ہونے والی سبزیاں اوراناج اور میرے بنکر بھائیوں کے لئے تیار ہونےو الی اشیا اسی آبی شاہراہ سے جایا کریں گی ۔ آپ سوچئے ، یہاں کے کسانوں کے لئے اورچھوٹی صنعتوں سے جڑے لاکھوں لوگوں کے لئے یہ کتنابڑا راستہ کھلا ہے ۔ اپنی صنعتوں کے لئے ، اپنی زراعت کے لئے ان پٹ منگانے ، کچا مال منگانے اور پھر اس میں ویلیو ایڈیشن کرکے اسے واپس بھیجنے میں یہ آبی شاہراہ انتہائی اہم کردار اد ا کرے گی۔
آپ کا پیار ، آپ کے جوش کا بہت بہت شکریہ ! مجھے بولنے دیجئے اور لوگ بھی سننا چاہتے ہیں ۔ آپ کے جوش کے لئے آپ کے پیار کے لئے میں دل کی گہرائیوں سے ممنون ہوں لیکن یہ توانائی ذرا بچاکر رکھئے ۔2019 میں پھر اس کی ضرورت پڑے گی ،تو میں اب بولوں ، آپ سکون سے سنیں گے یا پھر مودی مودی کرتے رہیں گے ۔ میں آپ کا بہت ممنون ہوں ۔ اتنے پیار کے لئے اتنے جوش کے لئے ،لیکن آج بہت بڑی تعداد میں کاشی کے لئے اس بات کی باریکیوں کو جاننا اور سمجھنا چاہتے ہیں ۔ یہ تبدیلی کیسے آنے والی ہے ۔اسے میں ذرا باریکی سے سمجھانے کی کوشش کررہا ہو ں ۔
آنے والے دنوں میں جب وارانسی میں تعمیر کئے گئے ملٹی موڈل ٹرمنل سے رو-روسروس شروع ہوگی ، تو طویل فاصلہ طے کرنے کے لئے آپ کو ایک اور نیا متبادل دستیاب ہوگا۔ بڑے بڑے ٹینکر ،ٹرک ،بسیں ، کاریں ، جہاز کے ذریعہ سیدھے طور سے دوسرے شہروں تک پہنچ جائیں گی۔
آج جتنا سامان اس جہاز میں آیا ہے ،اگر اسے سڑک سے لایا جاتا تو اس کے لئے 16 ٹرک استعمال کرنے پڑتے ۔ یہی نہیں بلکہ آبی راستے سے لانے کے نتیجے میں فی کنٹینر ساڑھے چار ہزار روپے کی بچت بھی ہوئی ہے ۔ مطلب یہ کہ یہ جو سامان آیا ہے ،اس میں 70-75 ہزارروپے کی بچت ہوئی ہے ۔ یعنی اس آبی راستے سے وقت اور پیسے دونوں کی بچت ہوگی ۔سڑک پر بھیڑ بھاڑ بھی کم ہوجائے گی ۔ ایندھن کا خرچ بھی کم ہوجائے گا اور گاڑیوں سے پھیلنے والی آلودگی سے بھی راحت ملے گی ۔
ایک زمانہ تھا جب ہمارے ملک کی ندیوں میں بڑے بڑے جہاز چلاکرتے تھے لیکن آزادی کے بعد کے برسوں میں ان آبی راستوں کو مضبوط کرنے کے بجائے انہیں نظر انداز کیا گیا ۔ ملک کا نقصان کیا گیا ۔ آپ سوچئے ! ملک کی طاقت اور ہماری ندیوں کی طاقت کے ساتھ سابقہ سرکاروں نے کتنی ناانصافی کی ہے ۔ملک کی طاقت اور اہلیت کے ساتھ ہونے والی اس ناانصافی کو ختم کرنے کا کام ہماری سرکار کررہی ہے ۔آج ملک میں 100سے زائد واٹر ویز پر کام ہورہا ہے ۔وارانسی – ہلدیہ واٹر ویز بھی ان میں سے ایک ہے۔وارانسی سے ہلدیہ تک کے فاصلے کے درمیان فرکا ، صاحب گنج اوربکسر میں 5000 کروڑروپے کی لاگت سے متعدد سہولیات کو فروغ دیا جارہا ہے ۔اس واٹر ویز سے اترپردیش ہی نہیں بلکہ بہار ، جھارکھنڈ ، مغربی بنگال یعنی مشرقی ہندوستان کے ایک بڑے حصہ کو فائدہ پہنچے گا۔
یہ آبی شاہراہ صرف ہمارے سازوسامان کی ڈھلائی کے ہی کام نہیں آئے گی بلکہ یہ ہماری سیاحت کو ، مشرقی ہندوستان میں واقع تیرتھوں کو مشرق ایشیائی ملکوں سے جوڑنے کے کام بھی آنے والا ہے ۔وارانسی سمیت پوروانچل اور مشرقی ہندوستان کے متعدد علاقے وقت کے ساتھ ساتھ بحری جہاز کی سیاحت کے لئے بھی جانے جائیں گے اور یہ سارا کام کاشی کی ثقافت اور کاشی کی تہذ یب کے مطابق ہی ہوگا ۔رواتی کاشی کے جدید چہرے کے تصور کے ساتھ ترقی کا نقشہ سفر کرے گا۔
جدید سہولتوں کے ساتھ یہ قدیمی راستے ،قدرت ،ثقافت اور ایڈونچر کے سنگم کے مقامات بننے والے ہیں۔ وارانسی ہو ، بھدوہی ہو یا مرزا پور ہو ، یہ قالین کی صنعت کے مرکز رہے ہیں اور اب یہ ملک کے ٹیکسٹائل ایکسپورٹ کا بھی گلوبل حق بن رہے ہیں ۔ ابھی پچھلے مہینے ہی پہلی بار دین دیال دستکاری مرکز میں بہت ہی کامیابی کے ساتھ انڈیا کارپیٹ ایکسپو کا اہتمام کیا گیا ۔میں نے دلی سے اس ایکسپو کا آغاز کیا ۔وارانسی سے کولکاتہ تک نیشنل واٹر ویز کے آغازسے اس سیکٹر سے جڑے لوگوںکو بھی بہت فائدہ ہوگا ۔ انہیں ایکسپورٹ میں بہت مدد ملے گی۔
آسانی کا سہولت سے گہرا رشتہ ہوتا ہے اور سہولتیں کبھی کبھی باعث فخر بھی بن جاتی ہیں ۔ بابت پور ہوائی اڈے سے جوڑنےوالی عالمی معیار کی سڑک اس کی روشن مثال ہے ۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ لوگ دور دور سے سیلفی لینے آتے ہیں ۔ پورے سوشل میڈیا پر بنارس چھایا ہوا ہے ۔ یہ راستہ چھایا ہوا ہے۔ ابھی تیوہاروں کا وقت ہے ، آپ میں سے جو بھی اس بار ہوائی جہاز سے گھر آیا ہوگااسے بابت پور ہوائی اڈے سے آتے ہوئے انتہائی فخر کا احساس ہوا ہوگا۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ کچھ دن کے لئے باہر گئے ہوئے لوگ اب شہر میں واپس آرہے ہیں تو انہیں یقین ہی نہیں ہورہا ہے کہ وہ اسی ہرہوا اور ترنا-شیو پور کے راستے سے گزر رہے ہیں ۔ وہ بھی دن یاد کیجئے جب اسی سڑک پر جام کی وجہ سے آپ کی فلائٹ چھوٹ جاتی تھی۔ ائیر پورٹ جانے کے لئے کئی گھنٹے پہلے نکلنا ہوتا تھا ،سڑک کے گڑھے آپ کو رلا دیتے تھے لیکن اب صورتحال بد ل گئی ہے ۔
800 کروڑروپے سے زائد کی لاگت سے بابت پور ہوائی اڈے کو شہر سے جوڑ نے والی سڑک نہ صرف چوڑی ہوگئی ہے ،چار لین کی ہوگئی ہے بلکہ ملک وبیرون ملک کے سیاحوں کو اپنی طرف کھینچنے لگی ہے ۔اس سڑک سے کاشی واسیوں کا اور یہاں آنے والے سیاحوں کا وقت تو بچے گا ہی ،ساتھ ہی جو ن پور ،سلطان پور اورلکھنؤ تک کا سفر بھی آسان ہوجائے گا ۔شہر کے رنگ روڈ کا پہلا مرحلہ بھی آج کاشی واسیوں کے نام وقف کیا گیا ہے ۔ تقریباََ 760 کروڑروپے کی لاگت سے تعمیر کی جانے والی اس سڑک سے گورکھپور ، لکھنو ٔ ،اعظم گڑھ اور ایودھیا کی طرف جانے والی گاڑیوں کو شہر میں انٹری کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔
سڑک کے یہ دونوں پروجیکٹ شہر بنارس کی دہائیوں کی مانگ تھے ۔ میں نے وزیر اعظم بننے کے 6 ماہ کے اندر ہی ان منصوبوں کو تیزی سے مکمل کرنے کی کوشش کی ۔ اب آپ کے تعاون سے یہ دونوں پروجیکٹ مکمل ہوچکے ہیں ۔اب رنگ روڈ کے دوسرے مرحلے کا کام تیزی کے ساتھ جاری ہے ،اسے بھی جلد ہی مکمل کرلیا جائے گا۔
اس پروجیکٹ سے جہاں ایک طرف شہر بنارش میں جام کا مسئلہ کم ہوجائے گا، وہیں آلودگی میں بھی کمی آئے گی اور آپ کا وقت بھی بچے گا۔اس سے سیاحوں کا سارناتھ جانابھی آسان ہوجائے گا۔ رام نگر میں جو ہیلی پورٹ بننے والا ہے ، میں نے ابھی کچھ دیر پہلے جس کا سنگ بنیاد رکھا ہے ،اس سے بھی سیاحت کو خصوصی فائدہ حاصل ہوگا۔
کلکٹوٹی سے سیاحت اور روز گار میں تو اضافہ ہوتا ہی ہے ، ملک پر اعتبار اور نظا م پر اعتماد بھی بہت بڑھ جاتا ہے ۔آج ہی بنارس میں جن پروجیکٹس کا افتتاح اور سنگ بنیاد رکھا گیا ہے ،اس سے بھی یہاں کے نوجوانوں کے لئے روز گار کے ان گنت مواقع دستیاب ہوئے ہیں۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کی قیادت میں چل رہی سرکاروں کے لئے ملک اور اہالیان ملک کی ترقی ، یہی ہمارا سب کچھ ہے ۔ اب ملک صرف اور صرف ترقی کی سیاست چاہتا ہے ۔عوام اپنے فیصلے ترقی دیکھ کر کرتے ہیں ، ووٹ بینک کی سیاست دیکھ کر نہیں گزشت چار برسوں میں کس قدر تیزی کےساتھ جدید انفراسٹکچر کی ترقی ہوئی ہے ، وہ اب صاف نظر آرہی ہے ۔دور دراز کے مقامات پر نئے نئے ہوائی اڈے ،قبائلی علاقوں ، شمال مشرقی خطے میں پہلی بار پہنچنے والی ٹرین دیہی سڑکوں اور شاندار نیشنل ہائی ایکسپریس کا جال یہ ہماری سرکار کی پہچان بن چکا ہے ۔
ہم نے صر ف وسائل پر ہی زور نہیں دیا ہے بلکہ صفائی ستھرائی اور صحت جیسی عام انسانی زندگی کی ضرورتو ں پر بھی سنجیدگی سے کام کیا ہے ۔دیہی صفائی کا جو دائرہ 2014 میں ہمارے برسر اقتدار آنے سے پہلے 40 فیصدسے بھی کم تھا وہ اب 95 فیصد سے زائد ہو چکا ہے ۔ آئشمان بھارت کی اسکیم کی وجہ سے غریب سے غریب شخص کا سنگین مرض کی صورت میں علاج یقینی بنادیا گیا ہے ۔اس اسکیم کے تحت اب تک دولاکھ سے زیادہ لوگوں کو مفت علاج کی سہولت حاصل ہوئی ہے ۔اس اسکیم کو اب تک 40 دن سے زیادہ کا وقت نہیں ہوا ہے ۔
ہم نے انسان کی صحت کی ہی فکر نہیں کی بلکہ ہماری زندگی کے دھارے کی حیثیت رکھنے والی ہماری ندیوں کو بھی صاف ستھرا بنانے کا عزم کیا ہے ۔اسی جذبے کے ساتھ ماں گنگا کی صفائی کے لئے جاری مشن نمامی گنگے آج نئے پڑاؤ پر پہنچ چکا ہے ۔
گنگا جی میں ملنے والے گندے پانی کے ٹریٹمنٹ کے لئے 400 کروڑ روپے سے زائد کے چار پروجیکٹس کا افتتاح ابھی کچھ دیر پہلے ہی مجھے سنگ بنیاد رکھنے کا موقع ملا ہے ۔ دیما پور میں سیور ٹریٹمنٹ سے جڑے تین پلانٹ آنے والے متعدد برسوں تک شہر کی گندگی کو ماں گنگا میں ملنے سے بچانے والے ہیں ۔ رام نگر کا پلانٹ بھی جلد ہی ماں گنگا کی خدمت کے لئے تیار ہوجائے گا۔
ہماری سرکار گنگا جی کا پیسہ پانی میں نہیں بہا رہی ہے بلکہ گنگا جی میں جو گندا پانی آرہا ہے ،اسے صاف کرنے میں لگا رہی ہے ۔ نمامی گنگے مشن کے تحت اب تک 23 ہزارکروڑ روپے کے پرجیکٹوں کو منظوری دی جاچکی ہے ۔ پانچ ہزارکرٰوڑ روپے کے پروجیکٹوں پر کام جاری ہے ۔دریائے گنگا کے کنارے آباد اب تقریباََ سبھی گاؤں کھلے میں رفع حاجت کی لعنت سے پاک ہوکچے ہیں ۔ یہ پروجیکٹ گنگوتری سے گنگاساگر تک ماں گنگا کو بغیر کسی قسم کی روک ٹوک کے صاف اور نرمل بنانا ہمارے عز کا حصہ ہے ۔
آج اگر یہ مہم تیز رفتاری سے آگے بڑھ رہی ہے تو اس کی پشت پر جن بھاگیداری ہے ۔ندیوں کے تئیں ہمارے ہر شہری کے دل میں بیدار ہونے والا ذمہ داری کا جذبہ ہے ، ورنہ ماں گنگا کی صفائی کے نام پر پرانی سرکاروں نے کس طرح ہزاروں کروڑ روپے بہا دئے ، یہ ہم بخوبی جانتے ہیں ۔
آج یہاں وارانسی کے کچھ علاقوں میں بجلی سدھار کے کچھ کاموںکا بھی افتتاح ہوا ہے ۔ پرانی کاشی کے علاوہ کچھ اور علاقوں میں بھی جے پی ڈی ایس کے تحت کام پورا ہوچکا ہے ۔ بجلی کے تاروں کا جو جال لٹکا رہتا تھا ، وہ اب انڈر گراؤنڈ ہوچکا ہے ۔ یہ بھی ہمارے خوابوں کی عملی تعبیر کی سمت میں ایک اہم قدم ہے ۔ آنے والے دنوں میں شہر کے دیگر علاقوں میں بھی اس کام کو فروغ دیا جائے گا۔
آپ کی کوششوں اور آپ کی حوصلہ افزائی سے آج صدیوں قدیم کاشی کی نئی تصویر دیش دنیا کے سامنے آنے لگی ہے ۔ اب ہمیں اس کا سلامت رکھنا ہے ، محفوظ رکھنا ہے تاکہ ہمارے اس قابل فخر شہر کی تاریخ اورستائش دنیا بھر میں ہوتی رہے ۔
اگلے سال جنوری میں غیر مقیم ہندوستانیو ں کا میلہ یعنی نان ریذیڈنٹ انڈین فیسٹول کا اہتمام بھی کاشی کی مقدس سرزمین پر کیا جائے گا۔اس اہتمام کے لئے میں بھی آپ لوگوں کی طرح ہی ملک اور بیرون ملک سے آئے لوگوں کا استقبال کرنے کے لئے وارانسی میں موجود رہوں گا ۔ اُن دنوں پریاگ راج میں اردھ کمبھ کا اہتما م ہورہا ہوگا ۔وہاں سے بھی متعدد لوگ وارانسی آئیں گے ۔
ہم سبھی کی خواہش ہے کہ دنیا کے سب سے قدیم شہر کاشی کا وقار اور اچھی سہولیات کا ایسا سنگم ہو کہ کاشی کی یاد یہاں آنے والوں کی زندگی میں امٹ ہوجائے ۔ایسا ماحول پیدا ہوکہ لوگ با ربار یہاں آئیں ۔
آخر میں ، میں ایک بار پھر آپ سبھی کو ان تمام سہولتوں کے لئے ترقی کے نئے نئے پروجیکٹس کے لئے دل کی گہرائی سے مبارکباد دیتا ہوں ۔ آپ سبھی کو پوروانچل اور مشرقی ہندوستان کے میرے ساتھیوں کو چھٹ پوجا کی ایک بار پھر نیک خواہشات پیش کرتا ہوں ۔ جے چھٹھی میّا ہرہر مہادیو !