16.3 C
Lucknow
Online Latest News Hindi News , Bollywood News

ایم سی اے نے ذمہ دار کاروباری عمل سے متعلق قومی رہنما خطوط جاری کئے

Urdu News

نئیدہلی، مارچ۔کارپوریٹ امور کی وزارت نے کاروبار سے متعلق سماجی، ماحولیاتی اور اقتصادی ذمہ داریوں کے قومی رضاکارانہ رہنما خطوط  2011 (این وی جی) پر نظر ثانی کی ہے اور ذمہ دارانہ کاروباری عمل سے متعلق قومی رہنما خطوط (این جی آر بی سی) مرتب کئے ہیں۔یہ رہنما خطوط کاروباریوں پر زور دیتے ہیں کہ وہ تمام اصولوں پر پوری ایمانداری سے عمل در آمد کیا جائے۔

یہ اصول مندرجہ ذیل ہیں:

  • کاروباری اکائیوں کو خودحکمرانی کےلئے تمام اخلاقی، شفافیت اور جوابدہی کے طریقوں کو پوری ایمانداری سے اپنانا چاہئے۔
  • کاروباری اکائیوں کو اشیا اور خدمات اس طور پر فراہم کرنا چاہئے، تو پائیدار اور محفوظ ہو۔
  • کاروباری اکائیوں کو ویلیو چین میں شامل سبھی فریقوں سمیت تما م ملازمین کی فلاح و بہبود کا احترام کرنا چاہئے اور فروغ دینا چاہئے۔
  • کاروباری اکائیوں کو تمام  متعلقہ فریقوں  کے لئے جوابدہ ہونا چاہئے اور ان کے مفادات کا احترام کرنا چاہئے۔
  • کاروباری اکائیوں کو انسانی حقوق کا احترام کرنا چاہئے اور انہیں فروغ دینا چاہئے۔
  • کاروباری اکائیوں کو ماحولیات کے تحفظ اور بحال کرنے کی کوششوں کا احترام کرنا چاہئے اور خود کوششیں کرنی چاہئے۔
  • کاروباری اکائیوں کو عوام اور ریگولیٹری پالیسیوں پر اثر انداز ہوتے ہوئے ذمہ دارانہ اور شفاف طور پر عمل کرنا چاہئے۔
  • کاروباری اکائیوں کوشمولیت والے فروغ اور یکساں ترقی کو فروغ دینا چاہئے۔
  • کاروباری اکائیوں کو اپنے صارفین کے ساتھ ذمہ دارانہ طریقےسے  بات چیت کرنی چاہئےاور انہیں پوری طرح مطمئن کرنا چاہئے۔

کارپوریٹ امور کی وزارت کمپنیوں کے ذریعے ذمہ دارانہ کاروباری عمل کو یقینی بنانے کے لئے مختلف اقدامات کر رہی ہے۔ کاروباری ذمہ داری کے نظریئے کو اصل دھارے میں شامل کرنے کے پہلے قدم کے طور پر  2009 میں کارپوریٹ سماجی ذمہ داری سے متعلق رضاکارانہ خطوط جاری کئے گئے تھے۔ ان رہنما خطوط کو بعد میں  کاروباری اکائیوں کی سماجی، ماحولیاتی اور اقتصادی ذمہ داریوں سے متعلق قومی رضاکارانہ رہنما خطوط 2011 (این وی جی ایس) میں تبدیل کیا گیا تھا، جس کے لئے حکومت کے علاوہ کاروباریوں ، تعلیمی اداروں اور سول سماج کی تنظیموں کے ساتھ صلاح و مشورہ کیا گیا تھا۔ این وی جی کو بھارت کی سماجی-ثقافتی پس منظر اور ترجیحات سمیت عالمی سطح کے بہترین طریقۂ کار کی بنیاد پر مرتب کیا گیا تھا۔

پچھلی ایک دہائی کے دوران  ملک اور بین الاقوامی سطح پر کئی  تبدیلیاں آئی ہیں اور کاروباری اکائیوں کو زیادہ پائیدار اور زیادہ ذمہ دار پایا گیا ہے۔ ان میں زیادہ تر اقوام متحدہ کے کاروبار اور حقوق انسانی سے متعلق رہنما اصولوں (یو این جی پی ایس) سے پہلےہی اپنی ذمہ داری نبھا رہے تھے۔ اس کی وجہ سے رہنما خطوط پر نظر ثانی کی ضرورت کو اُجاگر کیا گیا۔ ان میں سے کچھ کمپنی ایکٹ 2013 میں پہلے ہی شامل ہیں۔ یہ قانون کمپنی کے ڈائرکٹر پر اضافی ذمہ داری ڈالتا ہے کہ  کمپنی کے مقاصد کو فروغ دینے کی خاطر انہیں رہنما خطو ط پر عمل درآمد کیا جائے۔ اس کے علاوہ یو این جی پی کے بھارت کے ذریعے نفاذ سے پوری طرح ظاہر ہوتا ہے کہ  ’’تحفظ فراہم کرنا، احترام کرنا اور مسائل کو حل کرنے کا فریم ورک بھارت کے  پائیدار ترقیاتی اہداف کے عزم کی عکاسی کرتا ہے۔ بھارت کے سکیورٹی اور ایکسچینج بورڈ، سیبی نے 2012 میں اپنے لسٹنگ ریگولیشن کے ذریعے ملک کی 100اعلیٰ ترین کمپنیوں  پر یہ ذمہ داری عائد کی تھی کہ وہ ماحولیاتی، سماجی اور حکمرانی کے پس منظر میں اپنی کاروباری ذمہ داری رپورٹ ( بی آر آر)  داخل کریں۔ بی آر آر کی یہ رپورٹیں کاروباری اکائیوں کو این وی جی  کےاصولوں کو اپنائے جانے اور ریگولیٹری مالی امداد کے علاوہ فریقین کے ساتھ زیادہ با معنیٰ کاروبار کو پھیلانے کی کوشش کریں۔ اس  معاملے کو 16-2015  میں اعلیٰ ترین 500 کمپنیوں تک توسیع دی گئی تھی۔ یہ پہلی مرتبہ ہے، جب بھارت میں کمپنیوں کے درمیان رضاکارانہ پائیدار رپورٹنگ کے لئے تیارکیا گیا۔

این وی جی کو تا حال بنانے اور این جی آر بی سی کو مرتب کرنے کے لئے کارپوریٹ امور کی وزارت نے کاروباری ذمہ داری رپورٹنگ (بی آر آر) پر ایک کمیٹی تشکیل دی ہے تاکہ بی آر آر کے فارمیٹ کو درج شدہ اور غیر درج شدہ کمپنیوں     میں اپنایا جا سکے۔ غیر مالی رپورٹنگ کاروباری اکائیوں اور ان اکائیوں کی    قرض حاصل کرنے کی استطاعت میں اضافہ مسلسل بڑھتا جا رہا ہے۔ مجوزہ فارمیٹ سے  غیر مالی رپورٹنگ کے فارمیٹ یعنی عالمی رپورٹنگ اقدامات (جی آر آئی) اور مربوط رپورٹنگ (آئی  آر) اور  این جی  آر بی سی کے پس منظر میں ایس ڈی جی  کے لئے زیادہ رابطوں کی عکاسی کرتے ہیں۔ کارپوریٹ امور کی وزارت کاروبار اور انسانی حقوق (این اے پی)  پربھارت کے قومی ایکشن پلان کو تیار کرنے کے لئے 2020  تک  مختلف وزارتوں اور ریاستی حکومتوں کے ساتھ تبادلۂ خیال میں مصروف ہے۔

Related posts

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More