مجھے اے آئی آئی بی کی تیسری سالانہ میٹنگ کے لئے یہاں ممبئی آکر بہت خوشی ہوئی ہے۔ ہمیں خوشی ہے کہ ہمیں بینک اور اس کے ارکان کے ساتھ اپنے تعلقات مزید گہرے کرنے کا یہ موقع ملا ہے۔
اے آئی آئی بی نے جنوری 2016 میں اپنی مالی سرگرمیاں شروع کی تھیں۔ تین سال سے بھی کم عرصے میں اب اس کے 87 ممبر ہیں اور اس کے پاس 100 ارب امریکی ڈالر کا کیپٹل اسٹاک موجود ہے اور اب یہ ایشیا میں اہم رول ادا کرنے کو تیار ہے۔
ایشین انفراسٹرکچر انوسٹمنٹ بینک اپنے عوام کو بہتر مستقبل فراہم کرنے کی ایشیائی ملکوں کی مشترکہ کوششوں کا نتیجہ ہے۔ ترقی پذیر ملکوں کے طور پر ہمیں ایک ہی طرح کے چیلنجوں کا سامنا ہے۔ ان میں سے ایک بنیادی ڈھانچے کی فراہمی کے لئے وسائل کو تلاش کرنا ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ اس سال کی میٹنگ کا موضوع ’’بنیادی ڈھانچے کے لئے فائنانس کی فراہمی: اختراع اور اشتراک‘‘ رکھا گیا ہے۔ پائیدار بنیادی ڈھانچے میں اے آئی آئی بی کی سرمایہ کاری سے اربوں لوگوں کی زندگی پر اثر پڑسکتا ہے۔
ایشیا کو اب بھی تعلیم، حفظان صحت ، مالی خدمات اور باضابطہ روزگار کے مواقع تک رسائی میں عدم مساوات کا سامنا ہے۔
اے آئی آئی بی جیسے اداروں کے ذریعے علاقائی کثیر جہتی وسائل کے حصول میں مدد کے لئے کلیدی رول ادا کرسکتی ہے۔
توانائی اور بجلی ، ٹرانسپورٹیشن ، ٹیلی مواصلات ، دیہی بنیادی ڈھانچہ ، زرعی ترقی ، پانی کی سپلائی اور صفائی ستھرائی ، ماحولیات کا تحفظ ، شہری ترقی اور لاجسٹک جیسے شعبوں کے لئے طویل مدتی فنڈ کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایسے فنڈز پر شرح سود بھی سستی اور پائیدار ہونی چاہئے۔
اے آئی آئی بی نے مختصر مدت میں ایک درجن ملکوں میں 25 پروجیکٹوں کو منظوری دی ہے، جس کے لئے چار ارب امریکی ڈالر کے فنڈ فراہم کئے جائیں گے، یہ ایک اچھی شروعات ہے۔
100 ارب ڈالر کی پونجی کے لئے عہد اور ممبر ملکوں میں بنیادی ڈھانچے کی وسیع ضروریات کے پیش نظر میں اس موقع پر اے آئی آئی بی پر زور دوں گا کہ وہ اپنی فائنانسنگ کو چار ارب ڈالر سے بڑھاکر 2020 تک 40 ارب ڈالر کرے اور 2025 تک یہ 100 ارب ڈال کردی جائے۔
اس کے لئے آسان طریقہ کار اور تیزی سے منظوری کی ضرورت ہے۔ اس کے لئے اعلیٰ معیار کے پروجیکٹوں اور اہم پروجیکٹ تجاویز کی بھی ضرورت ہے۔
مجھے یقین ہے کہ بھارت اور اے آئی آئی بی دونوں ہی اقتصادی ترقی کو زیادہ شمولیت والی اور پائیدار بنانے کے لئے پوری طرح عہد بستہ ہیں۔ بھارت میں ہم بنیادے ڈھانچے کے لئے فنڈ فراہم کرنے کی خاطر نئی طرح کے سرکاری پرائیویٹ ساجھیداری ، بنیادی ڈھانچے کے قرضے کے فنڈ اور بنیادی ڈھانچے کی سرمایہ کاری کے ٹرسٹ قائم کرکے نئے ماڈل نافذ کررہے ہیں۔ ایسے اثاثے ، جنہوں نے اراضی کی تحویل اور ماحولیات اور جنگلات کی منظوری کے مراحل مکمل کرلئے ہیں، وہ نسبتاً کم خطرے والے ہوتے ہیں۔ اس لئے ایسے اثاثوں کے لئے پنشن ، انشورنس اور سرکاری فنڈ جیسے ادارہ جاتی سرمایہ کاری ملنے کی زیادہ امید ہوتی ہے۔
دوسرا اقدام قومی سرمایہ کاری اور بنیادی ڈھانچے کا فنڈ (این آئی آئی ایف) ہے۔ اس کا مقصد گھریلو اور بین الاقوامی وسائل دونوں سے بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری کو راغب کرنا ہے۔ اس فنڈ کو اے آئی آئی بی کے ذریعے 200 ملین امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری کے وعدے کے ساتھ کافی فروغ ملا ہے۔
بھارت دنیا میں سب سے بہتر سرمایہ کاری دوست معیشتوں میں سے ایک ہے۔ سرمایہ کار ترقی اور مجموعی معیشت کے استحکام کو دیکھتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ سیاسی استحکام اور معاون ریگولیٹری نظام موجود ہو تاکہ ان کی سرمایہ کاری کے تحفظ کو یقینی بنایا جاسکے۔بڑے پیمانے پر سرگرمیوں اور قدر میں زیادہ اضافے کے پیش نظر سرمایہ کار بڑی گھریلو مارکیٹ ، ہنر مند لیبر کی دستیابی اور بہتر ٹھوس بنیادی ڈھانچے کی دستیابی سے بھی راغب ہوتا ہے۔ ان تمام پیمانوں پر بھارت بہت اچھے مقام پر ہے اور اس کی کارکردگی بھی بہت اچھی ہے۔ آیئے میں آپ کے سامنے اپنے کچھ تجربات اور کامیابیوں کو پیش کروں۔
بھارت عالمی معیشت میں ایک تابناک مقام کے طور پر ابھرا ہے جو عالمی معیشت کے فروغ کو بھی آگے بڑھارہا ہے۔ 2.8 ٹریلین امریکی ڈالر کے سائز کے ساتھ بھارت دنیا میں ساتواں سب سے بڑا ملک ہے۔ قوت خرید کے معاملے پر یہ تیسرا سب سے بڑا ملک ہے۔ 2017 کی چوتھی سہ ماہی میں ہم نے 7.7 فیصد کی شرح ترقی حاصل کی ہے اور 2018 میں ہماری شرح ترقی 7.4 فیصد رہے گی۔
ہماری کلّی معاشی بنیادیں مستحکم قیمتوں، ترقی کرتے ہوئے بیرونی سیکٹر اور ٹھوس مالی صورت حال کے ساتھ بہت مضبوط ہیں۔ تیل کی قیمتوں میں اضافے کے باوجود افراط زر پوری طرح کنٹرول میں ہے۔ حکومت مالی استحکام کی راہ پر سختی کے ساتھ گامزن ہے۔ جی ڈی پی کے تناسب سے حکومت کے قرضوں میں مسلسل کمی آرہی ہے اور بھارت نے ایک طویل انتظار کے بعد ریٹنگ میں اضافہ حاصل کیا ہے۔
بیرونی سیکٹر بھی پوری طرح مستحکم ہے۔ 400 ارب امریکی ڈالر سے زیادہ کے ہمارے زر مبادلہ کے ذخائر ہمیں کافی تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ بھارتی معیشت میں عالمی اعتماد میں اضافہ ہورہا ہے۔ ایف ڈی آئی کی کل آمد میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے اور پچھلے چار برسوں کے دوران 222 ارب امریکی ڈالر سے زیادہ کی ایف ڈی آئی موصول ہوئی ہے ۔ یو این سی ٹی اے ڈی کی عالمی سرمایہ کاری رپورٹ کے مطابق بھارت دنیا میں ایف ڈی آئی کے لئے سب سے پسندیدہ ملک بن چکا ہے۔
بیرونی سرمایہ کار کے نقطہ نظر سے بھارت انتہائی کم خطرے والی سیاسی معیشت ہے۔ حکومت نے وسیع سرمایہ کاری کے لئے بہت سے اقدامات کئے ہیں۔ ہم نے کاروبار کے لئے شرائط وضوابط کو آسان بنایا ہے اور جرات مند اصلاحات کی ہیں۔ ہم نے سرمایہ کاروں کو ایسا ماحول فراہم کیا ہے جو مؤثر ، شفاف اور بھروسے مند ہے۔
ہم نے ایف ڈی آئی نظام میں نرمی کی ہے ۔ آج زیادہ تر شعبوں میں خودکار طریقے سے ایف ڈی آئی کی منظوری دی جاتی ہے۔
اشیاء اور خدمات ٹیکس (جی ایس ٹی) ، جو سب سے اہم اصلاحات میں سے ایک ہے، نافذ کیا جاچکا ہے۔ اس کا نفاذ ایک ٹیکس کے اصول پر ہوتا ہے۔ اس سے ٹیکس کی اقسام میں کمی آئی ہے ، شفافیت میں اضافہ ہوا ہے اور لاجسٹک کی صلاحیت میں اضافہ ہوا ہے۔ ان سب چیزوں کے نتیجے میں کسی بھی سرمایہ کار کو بھارت میں کاروبار کرنا زیادہ آسان ہوگیا ہے۔
عالمی سرمایہ کاروں نے ان تبدیلیوں کا اچھا نوٹس لیا ہے۔ بھارت عالمی بینک کی ’کاروبار کرنے میں آسانی سے متعلق رپورٹ 2018‘ میں تین برسوں میں 42 ویں مقام پر پہنچ گیا ہے اور اس طرح یہ سب سے بہتر 100 ملکوں میں شامل ہوگیا ہے۔
بھارتی مارکیٹ میں ترقی کی شرح اور سائز کی وجہ سے کافی امکانات ہیں۔ بھارت کی فی کس آمدنی پچھلے 10 برسوں میں دوگنی ہوئی ہے اور ہمارے پاس 300 ملین سے زیادہ اوسط آمدنی والے صارفین موجود ہیں۔ ان کی تعداد اگلے 10 برسوں میں دوگنی ہونے کی امید ہے۔بھارت کے سائز اور بڑے پیمانے کی ضروریات سرمایہ کاروں کو ایک اضافی اقتصادی فوائد فراہم کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہندوستان میں ہاؤسنگ پروگرام کے تحت شہری علاقوں میں 10 ملین مکانوں کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔ یہ تعداد کئی ملکوں کی مجموعی ضرورت سے بھی زیادہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مکانوں کی تعمیر میں نئی ٹیکنالوجی کا استعمال ایک اضافی فائدہ ہوگا۔
ایک اور مثال بھارت میں قابل تجدید توانائی پروگرام کی ہے۔ ہم نے 2022 تک قابل تجدید توانائی کی صلاحیت 175 گیگا واٹ تک پہنچانے کا ہدف مقرر کیا ہے اس میں شمسی توانائی کی صلاحیت تقریبا 100 گیگا واٹ (جی ڈ بلیو) ہوگی۔ اس کے علاوہ ہم ان اہداف سے تجاوز کرنے کی طرف گامزن ہیں۔ ہم نے 2017 میں روایتی توانائی سے زیادہ قابل تجدید توانائی کی صلاحیت میں اضافہ حاصل کیا ہے۔ ہم بین الاقوامی شمسی اتحاد کی شکل میں شمسی توانائی کو اصل دھارے میں شامل کرنے کی مشترکہ کوششیں کررہے ہیں۔اس اتحاد کا مقصد 2030 تک ایک ٹریلین امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری سے شمسی توانائی کے ایک ہزار گیگا واٹ تیار کرنا ہے۔
بھارت، ای- موبلٹی پر کام کررہا ہے۔ ہمیں ٹیکنالوجی، خاص طور پر ذخیرہ کرنے سے متعلق ٹیکنالوجی کا سامنا ہے۔ ہم اس سال عالمی موبلٹی کانفرنس کی میزبانی کریں گے۔ مجھے امید ہے کہ ہمیں آگے بڑھنے میں مدد دے گی۔
بھارت میں ہم تمام سطحوں پر کنکٹی وٹی میں اضافہ کررہے ہیں۔ بھارت مالا اسکیم کا مقصد قومی راہداریوں اور شاہراہوں کی تعمیر کے ساتھ سڑک رابطوں کو بہتر بنانا ہے ۔ ساگر مالا پروجیکٹ بندرگاہوں کی کنکٹی وٹی ، ان کی جدید کاری اور بندرگاہوں سے متعلق صنعتوں کو ترقی دینا ہے۔ مال برداری کی مخصوص راہداریاں تیار کی جارہی ہیں تاکہ ریلوے کے ہمارے نیٹ ورک میں بھیڑ بھاڑ کو کم کیا جاسکے۔ جل مارگ وکاس پروجیکٹ اندرونی تجارت کے لئے قومی آبی وسائل کو ٹرانسپورٹ کے لئے استعمال کرنے کی صلاحیت میں اضافہ کرے گا۔ ہماری اڑان اسکیم علاقائی ہوائی اڈوں کی ترقی اور بہتر فضائی رابطوں کے لئے کام کررہی ہے۔ ایک ایسا شعبہ جس کے بارے میں، مجھے یقین ہے کہ اس پر کام نہیں ہوا ہے اور جس پر توجہ دئے جانے کی ضرورت ہے، وہ بھارت کی طویل ساحلی پٹی کو ٹرانسپورٹیشن اور مال برداری کے لئے استعمال کرنا ہے۔
ہم جب بھی بنیادی ڈھانچے کے روایتی نظریہ کے بارے میں بات کرتے ہیں ، تو میں ان بنیادی ڈھانچوں کے بار ے میں بتانا چاہوں گا جن پر بھارت کام کررہا ہے۔ بھارت نیٹ کے تحت پورے ملک میں آخری کونے تک انٹرنیٹ کنکٹی وٹی فراہم کرنے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔ بھارت میں 460 ملین انٹرنیٹ استعمال کرنے والے اور 1.2 ارب موبائل فون استعمال کرنے والے موجود ہیں۔ ہم ڈیجیٹل پیمنٹ کی ادائیگی کو فروغ دے رہے ہیں۔ ہمارے یوپی آئی اور بھیم ایپ اور رو-پے کارڈ میں بھارت میں ڈیجیٹل معیشت کے وسیع امکانات کو ظاہر کیا ہے۔ امنگ ایپ کے ذریعے شہریوں کو ان کے موبائل پر 100 سے زیادہ سرکاری خدمات دستیاب کرائی گئی ہیں۔ ہمارا ڈیجیٹل انڈیا مشن کا مقصد دیہی شہری ڈیجیٹل عدم مساوات کو ختم کرنا ہے۔
زراعت بھارتی معیشت کی شہ رگ ہے ۔ ہم ویئر ہاؤسز اور کولڈ چین ، خوراک ڈبہ بندی ، فصلوں کا انشورنس اور متعلقہ سرگرمیوں میں سرمایہ کاری کو فروغ دے رہے ہیں۔ ہم پانی کے بہترین استعمال کے ساتھ ساتھ پیداوار میں اضافہ کو یقینی بنانے کے لئے مائیکرو آبپاشی کو فروغ دے رہے ہیں۔ میں چاہوں گا کہ اے آئی آئی بی اس شعبے میں سرمایہ کاری کے امکانات پر غور کرے اور ہمارے ساتھ جڑے۔
ہمارا مقصد 2022 تک ہر غریب اور بے گھر کو بیت الخلاء ، پانی اور بجلی کے ساتھ مکانات فراہم کرنا ہے۔ ہم کچرے کےمؤثر بندوبست کے لئے بھی مختلف حکمت عملی پر غور کررہے ہیں۔
ہم نے حال ہی میں قومی صحت تحفظ مشن ، آیوش مان بھارت، کا آغاز کیا ہے۔ یہ 100 ملین غریب اور محروم کنبو ں کو سالانہ 7000 ڈالر سے زیادہ کا حفظان صحت کا احاطہ فراہم کرے گا۔ حفظان صحت کی سہولیات کی توسیع کے نتیجے میں بڑی تعداد میں روزگار پیدا ہوں گے۔ اس کی وجہ سے اعلیٰ معیار کی ادویات اور دیگر طبی ٹیکنالوجی اور سازوسامان کی پیداوار کو فروغ ملے گا۔
اس کے علاوہ حکومت کی حفظان صحت کے فوائد کی یقین دہانی کے ساتھ ایک کنبے کی گئی بچت کو دیگر استعمال اور سرمایہ کاری کے لئے بہتر طور پر استعمال کیا جاسکے گا۔ اس کے نتیجے میں ایک غریب خاندان کے ہاتھوں میں زیادہ آمدنی پہنچ سکے گی۔ جس سے معیشت کی مانگ میں اضافہ ہوگا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس سے سرمایہ کاروں کے لئے وسیع امکانات پیدا ہوں گے۔
اقتصادی بحالی کی ہندوستان کی کہانی ایشیا کے بہت سے دوسرے علاقوں کی عکاسی کرتی ہے۔ اب یہ براعظم عالمی معاشی سرگرمیوں میں مرکزی سطح پر پہنچ گیا ہے اور یہ دنیا میں ترقی کا اصل انجن بن چکا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں جسے بہت سوں نے ایشیا کی صدی قرار دیا ہے۔
ایک نیا بھارت طلوع ہورہا ہے۔ یہ ایک ایسا بھارت ہے جو سب کے لئے اقتصادی مواقع، علم پر مبنی معیشت ، جامع ترقی ، ابھر نے والے اور ڈیجیٹل بنیادی ڈھانچے کے ستونوں پر ایستادہ ہے۔ ہم اے آئی آئی بی سمیت ترقی کے سبھی ساجھیداروں کے ساتھ اپنے تعلقات کو جاری رکھنے کے منتظر ہیں۔ آخر میں، میں امید کرتا ہوں کہ اس فورم میں ہونے والی گفتگو مفید اور سب کے لئے فائدہ مند ہوگی۔