نئی دلّی ،بھارت کی نامیاتی زراعت اور باغبانی کی اشیاء کی قوت کو عالمی مارکیٹ میں پیش کرنے کے لئے دوبئی کی ایکسپو – 2020 میں بھارت کے پویلین نے خوراک ، زراعت اور روزگار کے جاری پندرہ واڑے میں ’’ بھارت کا نامیاتی اور باغبانی کا سیکٹر – ویلیو چین کو بڑھا رہا ہے‘‘ کے موضوع پر ایک سیمینار کا انعقاد کیا ۔
اس سیمینار میں ، جس میں بھارتی زراعت کے سیکٹر میں دستیاب مواقع اور بر آمدات کی وسیع صلاحیتوں پر تبادلۂ خیال کیا گیا ، حکومت اور پرائیویٹ سیکٹر کے نمائندوں نے شرکت کی ۔
اپنے افتتاحی کلمات میں زراعت اور کسانوں کی بہبود کی وزارت کے ایڈیشنل سکریٹری جناب پی کے سووین نے کہا کہ ابھرتے ہوئے بھارت میں زراعت ایک اہم سیکٹر ہے ، جو ہندوستانی معیشت میں قابل قدر تعاون کرتا ہے ۔ زراعت سے متعلق آب و ہوا کے 15 زون ، زرخیز زمین ، معدنیات سے بھرپور پانی ، زراعت کے حجم ، اقسام اور معیاری کو بڑھاتا ہے ۔ ہندوستان ، پوری دنیا کی فوڈ باسکیٹ بننے کی راہ پر گامزن ہے اور دنیا کو بہتر زرعی پریکٹس کے ساتھ خوراک اور تغذیہ کی سکیورٹی کی پیشکش کرتا ہے ۔
ملک میں زراعت کے شعبے کی توسیع کی تعریف کرتے ہوئے، جناب سووین نے کہا کہ ’’ ہندوستان نامیاتی باغبانی کی تیز تر ترقی کی تاریخ رقم کر رہا ہے۔ ‘‘ انہوں نے عالمی سرمایہ کاروں پر بھی زور دیا کہ وہ زرعی سپلائی چین میں سرمایہ کاری کریں اور اس شعبے میں حکومت کی جانب سے متعارف کرائی گئی ایف ڈی آئی پالیسیوں سے فائدہ اٹھائیں۔
روم اور اٹلی میں ہندوستانی سفارت خانے میں وزیر ( زراعت ) اور ایف اے او کے نمائندے ڈاکٹر بی راجندر نے کہا کہ ’’ ہمیں اپنی نامیاتی باغبانی کی پیداوار کے معیار کو یقینی بنانے کے لئے بہت زیادہ کوششیں کرنے کی ضرورت ہے اور اپنی بر آمدات کے مواقع کو توسیع دینے کے لئے ، اس طرح کے عالمی پلیٹ فارمز سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے ۔
ہندوستان میں نامیاتی اور باغبانی کی پیداوار کی برآمداتی صلاحیت کے بارے میں بات کرتے ہوئے، زراعت اور کسانوں کی بہبود کی وزارت کے جوائنٹ سکریٹری جناب پریہ رنجن نے کہا کہ ’’ ہماری نامیاتی پیداوار کے معیار کو یقینی بنانے کے لئے، ہمیں سرٹیفیکیشن کے ایک مضبوط نظام کی ضرورت ہے اور حکومت ِ ہند نے نامیاتی مصنوعات کے لئے سرٹیفیکیشن کے دو نظام قائم کئے ہیں۔ انہوں نے مزید اس بات پر زور دیا کہ ہندوستانی نامیاتی اور باغبانی مصنوعات کی بہتر قبولیت کے لئے مناسب فائٹو سینیٹری پروٹوکول کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’ ہم 2030 ء تک پھلوں اور سبزیوں کی عالمی منڈی میں 10 فیصد تک کی حصہ داری بڑھانے کا ہدف رکھتے ہیں ۔ ‘‘
یہ بتانا مناسب ہے کہ وبائی امراض کے باوجود، ہندوستان کی نامیاتی برآمدات میں 20-2019 ء کی سطح کے مقابلے میں 51 فی صد اضافہ ہوا ہے۔ ہندوستان کی نامیاتی برآمدات 21-2020 ء میں 888180 ایم ٹی رہی۔
ہندوستان کے زرعی ماحولیاتی نظام کی متاثر کن رفتار پر روشنی ڈالتے ہوئے، فوڈ اینڈ ایگری بزنس ، کے پی ایم جی کے ساجھیدار جناب کے سری نواس نے کہا کہ ’’ ہندوستان کا شمار زراعت میں برآمدات کرنے والے دس اعلیٰ ترین ملکوں میں ہوتا ہے اور مجموعی برآمدات انتہائی نمایاں شرح سے بڑھ رہی ہیں۔ وبائی چیلنجوں کے باوجود، ہم اس کارنامے کو حاصل کرنے میں کامیاب رہے اور یہ عالمی سطح پر ایک برآمد کنندہ کے طور پر ہندوستان کی پوزیشن کو مضبوط کرتا ہے۔ ‘‘
نامیاتی زراعت اور باغبانی کی پیداوار کے فروغ کے لئے برآمدات پر مرکوز حکمت عملی پر زور دیتے ہوئے ، جناب سری نواس نے کہا کہ ’’ یہ پلیٹ فارم ہمیں باغبانی کے سیکٹر میں ہندوستان کو نمایاں کرنے کے لئے سرمایہ کاروں کے ساتھ بیداری اور صلاحیت کی تعمیر کے بارے میں بات چیت شروع کرنے میں مدد کر رہا ہے۔ زراعت کے اچھے طریقوں کو اپنانا، بہتر فارم گیٹ انفراسٹرکچر، آر اینڈ ڈی میں زیادہ سرمایہ کاری اور ڈیجیٹل انضمام کچھ ایسی حکمت عملیاں ہیں ، جو ہندوستان کی باغبانی کی برآمدات کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کریں گی۔ ‘‘
سیشن میں مختلف اسٹارٹ اپس اور فوڈ پروسیسنگ کے کاروباریوں کی طرف سے کامیابی کی گیارہ کہانیاں پیش کی گئیں ، جس میں کلیدی ویلیو چین اور ہندوستان میں برآمداتی مواقع پر توجہ مرکوز کی گئی۔
’’خوراک، زراعت اور روز گار ‘‘ کا 15 روزہ پروگرام 2 مارچ کو ختم ہوگا۔