نئی دہلی: ترقی پذیر ملکوں کی ڈبلیو ٹی او وزارتی میٹنگ آج نئی دہلی میں ختم ہوگئی۔اس وزارتی میٹنگ کا آغاز گزشتہ شب صنعت وتجارت اور شہری ہوابازی کے مرکزی وزیر سریش پربھو کے ذریعے دیئے گئے ایک عشائیے کے ساتھ ہوا تھا۔ڈبلیو ٹی او کے ڈائریکٹر جنرل روبرٹو ازیویدو بھی اس عشایئے میں موجود تھے۔
عشایئے کے موقع پر اپنی تقریر میں سریش پربھو نے کہا کہ نئی دہلی میٹنگ ایسے وقت پر ہورہی ہےجب تجارتی کشیدگیوں میں کمی کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے ہیں اور تحفظ فراہم کرنے والے رجحانات بڑھتے جارہے ہیں۔ لہٰذا یہ انتہائی ضروری ہوگیا ہے کہ اجتماعی طور پر بحث کی جائے اور ایک کثیر جہتی لائحہ عمل کے تعلق سے تبادلہ خیال کیا جائے۔
وزیر تجارت نے مزید کہا کہ نئی دہلی وزارتی میٹنگ بھارت کی طرف سے ایک پہل ہے، جس کا مقصد عمومی مفاد بالخصوص ترقی پذیر ملکوں سے متعلق سبھی امور کے بارے میں آزادانہ اور کھلے طورپر نقطہ ہائے نظر کاتبادلہ کرنااور اس چیز کا پتہ لگانا ہے کہ کیسے ڈبلیو ٹی او اصلاحات سے متعلق مشوروں سے ابھرنے والے چیلنجوں کا اجتماعی طورپر تدارک کیا جاسکے۔
گزشتہ شب عشائیہ کے موقع پر اپنی تقریر میں ڈبلیو ٹی او کے ڈائریکٹر جنرل روبرٹو ازیویدو نے کہا کہ اصلاحات سے متعلق عمل ڈبلیو ٹی او سے متعلق موجودہ بحران کو کم سے کم کرنے کا کام کرے گا۔انہوں نے کہا کہ موجودہ نظام کو نیست و نابود کردینے کی بات صحیح طریقہ کار نہیں ہے اور اس سے مطلوبہ نتائج برآمد نہیں ہوگا۔ڈبلیو ٹی او کے ڈائریکٹر جنرل نے موجودہ نظام کے اندر ہی کام کرنے کا مشورہ دیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ تنازعات کے تصفیے سے متعلق بحران ایک شدید نوعیت کا بحران ہے اور سبھی ملکوں کو اس کا حل نکالنے پر غور کرنا چاہئے۔جس طرح سے کام چل رہاہے اسی طرح چلنے دیاجائے، اس طرح کا نقطہ نظر اب مزید مؤثر نہیں ہے اور سبھی رکن ممالک کو اس کا حل نکالنے کے لئے کام کرنا چاہئے۔
روبرٹو ازیویدو نے کہا کہ اجتماعیت پسندوں کو ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ملکوں کے درمیان ایک تقسیم کی شکل میں نہیں دیکھا جانا چاہئے، کیونکہ اس میں دونوں طرف کے اراکین شامل ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ خصوصی اور امتیاز پر مبنی سلوک کے نظام میں جدت طرازی لائی جانی چاہئے، تاکہ موجود خامیوں کو دور کیا جاسکے۔اگر کمیوں کا تدارک نہ کیا جائے تو یہ دوسری شکل اختیار کرسکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ مثالی طریقہ کار یہ ہے کہ اس کے لئے ایک معیار مقرر کردیا جائے ، کیونکہ امتیاز پہلے سے موجود ہےاور چھوٹے ترقی پذیر ملکوں کے لئے ضروری بھی ہے۔ ڈبلیو ٹی او کے ڈائریکٹر جنرل نے مزید کہا کہ آگے کے لئے بہترین طریقہ یہ ہے کہ ایک تجارتی –سہولیاتی-معاہدہ –قسم کا ماڈل بنایا جائے، جہاں رکن ممالک اپنا بینچ مارک (حوالہ جاتی نقطہ) طے کرسکیں۔
وزارتی میٹنگ کے افتتاحی اجلاس میں آج صبح سریش پربھو نے کہا کہ ترقی پذیر ملکوں میں 7.3بلین لوگ رہ رہے ہیں اور انہیں ترقی کے فوائد سے محروم نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی کیا جاناچاہئے اورڈبلیو ٹی او ایک ایسا ادارہ ہے جو ترقی اور ملکوں کے اندر ہونے والی پیش رفت سے متعلق تشویش کو تجارت کے ذریعے نہ کہ امداد کے ذریعےدور کرتا ہے۔وزیر تجارت نے مزید کہا کہ انہیں یقین ہے کہ نئی دہلی وزارتی میٹنگ کی کوششیں یقینی طورپر ایک ایسے ڈبلیو ٹی او کی طرف رہنمائی کریں گی، جو آج سے کہیں بہتر ہوگا۔
وزیر موصوف نے مزید کہا کہ کثیر جہتی تجارتی نظام اس کے سبھی حصص دار ملکوں کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔یہ سبھی ملکوں کا فرض کہ وہ باہم متصادم مفادات ، مزعومات اور تصورات کا حل نکالیں تاکہ اس گرانقد ادارے کی حفاظت کی جاسکے اور اسے مضبوط بنایا جاسکے۔انہوں نے کہا کہ عدم تفریق ، پیش گوئی کی اہلیت ، شفافیت ، اتفاق رائے سے فیصلہ کرنےکی روایت اور سب سے اہم ترقی کے تئیں عہد بستگی، جنہیں کثیر جہتی تجارتی نظام کے تحت برتا جاتا ہے، ایسی گرانقدر چیزیں ہیں جسے کھویا نہیں جاسکتا۔
وزیر موصوف نے کہا کہ نئی دہلی وزارتی میٹنگ کا نقطہ نظر کثیر جہتی کے اصول کو نئی توانائی اور قوت دینا اور مزید شمولیت پر مبنی فیصلہ سازی کو جگہ دینا ہے۔اس مقصد کے حصول کے لئے یہ ضروری ہے کہ ڈبلیو ٹی او میں اصلاحات کے لئے جو سفارشات پیش کی جائیں ان میں ممکنہ حد تک زیادہ سے زیادہ ترقی پذیر ملکوں کی اجتماعی آراء کو شامل کیاجائے۔
ایک سال قبل 19 سے 20 مارچ 2018ء کے دوران ہندوستان میں ایک غیر رسمی ڈبلیو ٹی وزارتی جلسے کا اہتمام کیا تھا، جس میں ترقی یافتہ اور ترقی پذیر دونوں طرح کے 50 سے زیادہ ممالک نے شرکت کی تھی۔ مارچ 2008ء میں نئی دہلی میں جو جلسہ ہوا تھا، اس میں اس بات پر زور دیا گیا تھا کہ جیسا کہ ڈبلیو ٹی او میں شامل ہےضوابط پر مبنی کثیر جہتی تجارتی نظام کا تحفظ کرنے اور اس کے کام کاج اور اعتبار کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔
وزیر تجارت نے اس امید کا اظہا رکیا کہ نئی دہلی وزارتی میٹنگ ڈبلیو ٹی او مذاکرات میں ترقی کو مرکزی مقام دینے کے فکر کی توثیق کرے گی اور ڈبلیو ٹی او میں اصلاحات کے لئے ایسے مشورے فراہم کرے گی ، جس کی بنیاد میں ترقی ہوگی۔