17.2 C
Lucknow
Online Latest News Hindi News , Bollywood News

تعلیم اور صنعت کے درمیان وسیع تر رابطے کو یقینی بنانے کے لئے تعلیمی نظام کی تشکیل نوکی جانی چاہئے:نائب صدر جمہوریہ

Urdu News

نئی دہلی، نائب صدر جمہوریہ ہند جناب ایم وینکیا نائیڈو نے کہا کہ تعلیم و صنعت کے درمیان وسیع تر رابطے کو یقینی بنانے کے لئے تعلیمی نظام کی تشکیل نو کی جانی چاہئے، تاکہ طلباء کو روزگار کے قابل بنایا جاسکے۔

جناب ایم وینکیا نائیڈو آج چنئی میں ویل ٹیک یونیورسٹی میں ایک اجتماع سے خطاب کررہے تھے۔اس موقع پر تمل ناڈو کے گورنر جناب بنواری لال پروہت اور دیگر معززین  بھی موجود تھے۔

نائب صدر جمہوریہ نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ حکومت ،تعلیمی برادری اور صنعت تعلیمی نظام کی تشکیل نو  کے معاملے  پر غوروخوض کرنے کے لئے ایک ساتھ آئیں، تاکہ  اعلیٰ تعلیمی اداروں کے پورٹل  سے باہر نکلنے والے طلباءروزگار کے قابل ہوں یا وہ خود روزگار کے قابل بنیں۔

 اس سے قبل جناب نائیڈو نے یونیورسٹی کے ندھی- سی او ای لیب کا معائنہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ بزنس اِنکیوبیشن کو اقتصادی ترقی اور روزگار پیدا کرنے کے لئے ایک اہم وسیلہ کی حیثیت سےعالمی سطح پر تسلیم کیا گیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اینوویشن (اختراع)، اِنکیوبیشن اور اسٹارٹ اَپ  آج کی دنیا میں سرخیوں میں رہنے والے الفاظ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ ممالک اور معاشرے جو معلومات پر مرکوز ہیں اور تکنیک پر مبنی ہیں، وہ عالمی معیشت میں اہم رول ادا کریں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہندوستان میں ہم سبھی کے لئے یہ وقت مواقع پر قبضہ کرنے اور اختراع و ٹیکنالوجی پر مبنی صنعت کے کلچر کو فروغ دینے  کا ہے۔

نائب صدر جمہوریہ نے تحقیق پر مبنی تدریس اور تعلیم و تعلم کے اعلیٰ طریقہ کار پر توجہ مرکوز کرنے کے لئےاس ادارے کی تعریف کی۔ انہوں نے مزید کہا کہ اختراع اور صنعت دوہری انجن بننے جارہے ہیں، جو  ہندوستان کو اقتصادی خوشحالی اور سماجی شمولیت کے نئے عہد میں لے جائیں گے۔

نائب صدر جمہوریہ ہند کے خطاب کا متن درج ذیل ہے:

‘‘مجھے آج صبح سویرے آپ سبھی سے مل کر اورآپ کے ادارے کے باوقار ندھی-سی او ای لیب کے ذریعے فروغ دیئے جارہے اختراع پر مبنی اسٹارٹ اَپ کے طلباء، اساتذہ اور صنعت کاروں کے ساتھ تبادلہ خیال کرکے نہایت خوشی محسوس ہورہی ہے۔

مجھے مطلع کیا گیا ہے کہ پہلے مرحلے میں منظور شدہ اس طرح کے6 سی او ای کے درمیان نجی سیکٹر میں یہی صرف ایک  واحدمہارت کا مرکز ہے۔

میں ویل ٹیک کے بانی  پروفیسر کرنل ویل آر رنگا راجن اور ڈاکٹر سگُتھلا رنگاراجن کی متعدد تعلیمی پروگراموں کے ذریعے معیاری تعلیم فراہم کرنے کے لئے تعریف کرنا چاہوں گا۔

مجھے یہ بھی مطلع کیاگیا ہے کہ اس ادارے میں ملک اور بیرون ملک کے تمام خطوں سے تعلق رکھنے والے طلباء موجود ہیں۔ یہ طلباء مختلف طبقات کی نمائندگی کرتے ہیں۔اس طرح سے یہ طلباء اس ادارے کوثقافتی تنوع کے حامل ہندوستان کے سب سے اہم تعلیمی مراکز میں سے ایک ادارہ بناتے ہیں۔

بزنس اِنکیوبیشن کو اقتصادی ترقی اور روزگار پیدا کرنے کے ایک اہم وسیلے کے طورپر  عالمی سطح پر تسلیم کیا گیاہے۔

اس بات کو ذہن میں رکھتے ہوئےڈپارٹمنٹ آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (ڈی ایس ٹی)کا شعبہ برائے  اختراع اور صنعت اپنے فلیگ شپ پروگرام ‘‘ٹیکنالوجی بزنس انکیوبیٹر کے ذریعے ٹیکنالوجی پر مبنی اسٹارٹ اپ کو تعاون فراہم کررہاہے۔

پیارے طلباء؍ محققین

اِینوویشن ، انکیوبیشن اور اسٹارٹ اپ آج کی دنیا میں سرخیوں میں رہنے والے الفاظ ہیں۔ وہ ممالک اور معاشرے جو معلومات پر مرکوز اور ٹیکنالوجی پر مبنی ہیں ، وہ عالمی معیشت میں اہم رول ادا کریں گے۔ہندوستان میں ہمارے  لیے یہ وقت مواقع پر قبضہ کرنے اور اختراع وٹیکنالوجی پر مبنی صنعت کے کلچر کو فروغ دینے کا ہے۔

ہمیں چوتھے صنعتی انقلاب میں ایک معقول اور مؤثر کردار ادا کرنے کے لئے آگے رہنا ہوگا۔ دیگرمتعدد ملکوں کے برعکس ہندوستان ایک فائدہ مند پوزیشن میں ہے۔ہندوستان کے پاس زبردست آبادی موجود ہے ، جو کہ استعمال میں لائے جانے کے لئے منتظر ہے۔ایسی دنیا میں جہاں عمر رسیدہ لوگوں کی تعداد کافی ہے، ہندوستان کے پاس سب سے زیادہ نوجوان آبادی موجود ہے۔2020ء تک ہندوستان میں اوسط عمر صرف 28ہوگی، جبکہ اس کے مقابلے چین اور امریکہ میں اوسط عمر 37، مغربی یوروپ میں اوسط عمر 45 اور جاپان میں اوسط عمر 49 ہوگی۔

35برس کی عمر کے نیچے  کےتقریباً 65 فیصد آبادی کے ساتھ ہمیں اس وسیع انسانی  سرمایہ کو ہندوستانی معیشت کی طاقت کو کئی گنا بڑھانے والی قوت میں تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لئے ہمیں نوجوانوں کو ٹیکنالوجی کی سطح پر بااختیار بنانا ہوگا۔صنعت کاری کسی بھی ملک کی معیشت کو ترقی کرنے اور روزگار پیدا کرنے میں مدد فراہم کرتی ہے۔

تعلیم کسی بھی ملک کی ترقی کے لئے بنیاد قائم کرتی ہے۔آج ہندوستان  بڑی تعداد میں اعلیٰ تعلیمی ادارے  رکھنے والے ممالک میں سے ایک ہے۔عالمی سطح پر تعلیمی میدان میں ہندوستان ایک اہم مقام کا حامل ہے۔

آج، تعلیم کے میدان میں عالمی مقابلہ آرائی کا سامنا کرنے کے لئے ملک کے پاس اختراع پر توجہ دینے کا موقع ہے لیکن اس کے لئے عالمی پیمانے کے تعلیمی معیار کو حاصل کرنے کے واحد مقصد کے ساتھ  نصاب  (کریکولم) کی تعمیر نو سے لے کر بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانے کے لئے زبردست یکسر بدلاؤ کی ضرورت ہے۔

ہر سال لاکھوں انجینئر گریجویشن کو پیدا کرنے کے ساتھ، ملک میں وقت کی اہم ضرورت ہے کہ انہیں صحیح ایکو نظام میں نئے نظریات، کامیابیوں، مواقع اور اختراعات مہیا کرائی جائیں  تاکہ وہ ہندوستان کو اسٹارٹ اپس اور ٹیکنالوجی پر مبنی ترقیاتی منصوبوں میں لیڈر بنائے۔ اس لئے یہ معمول کی طرح صرف کاروبار نہیں ہوسکتا ہے۔ ہمیں دنیا کے ساتھ آگے بڑھنے کے لئے تیز رفتار ٹیکنالوجی پر مبنی ایکسلیٹر کو دبانے کی ضرورت ہے جس  سےمستقبل کے لئے صحیح رفتار قائم کرے گا۔

بے شک، ٹیکنالوجی پر مبنی نئے ادارے خطروں کا سامنا کرتے ہیں اور ان کی کامیابیوں کے امکانات کو بڑھانے کے لئے اہل اور قابل اعتماد ماحول جیسے ندھی (این آئی ڈی ایچ آئی) سینٹر آف ایکسیلینس (این آئی ڈی ایچ آئی۔ سی او ای) کی ضرورت ہوتی ہے۔

مجھے بتایا گیا ہے کہ ندھی۔ سی او ای کا بنیادی مقصد نئی ٹیکنالوجی / معلومات/ جدت پر مبنی اسٹارٹ اپس کے اثرات مرتب کرنا، تعلیمی، مالی اداروں، صنعتوں اور دیگر اداروں کے درمیان ایک نیٹ ورک کے قیام کے ذریعہ ایک متحرک اسٹارٹ اپ نظام قائم کرنا اور ملازمتوں، دولت اور کاروبار کو قومی ترجیحات کے ساتھ تال میل بنانا ہے۔

نائب صدر جمہوریہ نے کہا کہ جیسا کہ آپ سب کو آگاہی ہے، صنعت سازی سے کسی ملک کی معاشی ترقی اور نئی ملازمتوں کے مواقع پیدا کرنے میں مدد ملتی ہے۔ آج ہندوستان دنیا میں سب سے تیزی سے بڑھتی ہوئی معیشتوں میں شامل ہے اور آئندہ 10، 15 برسوں میں اس کے دنیا کی تیسری سب سے بڑی معیشت بننے کا امکان ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آنے والے برسوں میں خدمات کا شعبہ معاشی ترقی کے فروغ میں اہم کردار ادا کرے گا۔

نائب صدر جمہوریہ نے طلبا/ محققین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ برس گلوبل  انوویشن انڈیکس میں ہندوستان  57 ویں مقام پر تھا جبکہ بہت سے چھوٹے ممالک ہندوستان سے آگے ہیں۔ ہمیں اپنے اعلی تعلیمی نظام، خصوصی طور پر انجینئرنگ اور سائنس اسٹریم   کی جدت کاری  پر توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ طلبا جو، ان اداروں سے پاس ہوکر نکلیں تووہ ملک اور بڑے پیمانے پر دنیا کو درپیش مسائل کے حل کے لئے تخلیق اور جدید اختراع کا استعمال کرکے حل نکالنے میں مدد کریں۔

سیکھنے سکھانے کے طریقوں کے فیسی لیٹیشن میں تبدیل کرنا چاہیے جہاں طلبا سرگرم طور پر اس کا حصہ ہوں۔ ہمیں اپنے نصاب (کریکولا)، انفرا اسٹرکچر، پیڈا گوجی، اور ایکزامینیشن طریقوں اور ٹیکنالوجی ٹولز کو بدلتے رہنا چاہیے۔

جدید دنیا کو آج کثیر جہتی چیلنجوں کا سامنا ہے۔ جہاں ایک طرف شہر کاری اور صنعتی کاری کو فروغ مل رہا ہے تو وہیں دوسری جانب دیہی اور زرعی دنیا میں  نا امیدی بھی بڑھ رہی ہے۔ اس کے خلاف آب و ہوا میں تبدیلی، آلودگی کی سطحوں میں اضافہ، توانائی کی بڑھتی ہوئی ضروریات، غربت کا خاتمہ اور ناخواندگی بہت بڑے چیلنج ہیں جنہیں اختراع اور آؤٹ آف باکس نظریات کے ساتھ حل کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک اہم پہلو جس پر سرکاری اور نجی شعبے دونوں کو توجہ دینے کی ضرورت ہے، وہ تحقیق اور ترقی (آر این ڈی) کے لئے فنڈس قائم کرنا ہے۔

اسی طرح اکیڈمیا اور صنعت کے درمیان رابطوں کو بھی نامیاتی طور پر فروغ دینے کی ضرورت ہے۔

نائب صدر جمہوریہ جناب کووند نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ویل ٹیک اپنے ویل ٹیک ٹیکنالوجی بزنس انکیو بیٹر کے ذریعہ صنعت سازوں / کاروباری اداروں کے فروغ اور تعاون میں اہم کردار ادا کررہا ہے، یہ بھی بہت مسرت کا مقام ہے کہ ویل ٹیک ٹی بی آئی پر قائم سہولیات کے استعمال کے  ذریعہ 103 نوجوان اختراع کاروں نے ویل ٹیک ٹی بی آئی کی تحریک و ترغیب سے متاثر ہوکر اپنی خود کی کمپنیاں قائم کی ہیں۔

مجھے یہ جان کر بے حد مسرت ہے کہ کیو ایس چوٹی سطح کی یونیورسٹیوں کے درمیان ویل ٹیک ہندوستان سے سی ڈی آئی او (کنسیونگ۔ ڈیزائننگ۔ امپلیمنٹنگ۔آپریٹنگ) کی اولین اور واحد رکن ہے۔ مجھے یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اس ادارے نے طلبا اور اساتذہ میں ریسرچ کلچر پیدا کرنے کے لئے، سی ڈی آئی او اپروج کےتعاون کے ذریعہ سائنٹفک، بین ضابطہ (انٹر ڈسپلنری)، کروس پروفیشنل ریسرچ میں شامل کیا ہے۔

یہ بھی جان کر خوشی ہوئی ہے کہ ادارے تنقیدی اور کریٹکل سوچ پیدا کرنے کے لئے انٹینسیوٹیچنگ اور لرننگ مشقوں پر توجہ دے رہے ہیں۔ اختراع اور صنعت سازی ایسے جڑواں انجن بننے والے ہیں جو ہندوستان کو معاشی خوشحالی اور سماجی شمولیت کے ساتھ نئے دور میں قدم رکھنے میں مدد کریں گے۔

آخر میں نائب صدر جمہوریہ نے اپنی  نیک خواہشات پیش کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی کامیابیوں کے لئے میری نیک خواہشات اور مبارکباد!

Related posts

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More