نئی دہلی، وزیر داخلہ جناب راج ناتھ سنگھ نے دلی پولیس کے ڈی سی پی جنوب مغربی ضلع کے دفتر اور پولیس اسٹیشن اور دلی پولیس رہائشی کمپلیکس کا آج یہاں افتتاح کیا۔ انہوں نے دلی پولیس کی کُل خواتین ایس ڈبلیو اے ٹی ٹیم کے انڈکشن یعنی شمولیت سے متعلق تقریب کی صدارت بھی کی۔ دلی کے لیفٹیننٹ گورنر جناب انل بیجل، دلی پولیس کمشنر جناب امولیہ پٹنائک اور سینئر افسران بھی اس موقع پر موجود تھے۔
اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے جناب راج ناتھ سنگھ نے کہا کہ نئے کمپلیکس کی تعمیر سے محکمے کی بنیادی ڈھانچہ ضرورت کو استحکام حاصل ہوتا ہے اور متعلقہ عملے میں اپنے فرائض منصبی کے تئیں نئی توانائی جاگتی ہے او ر اس کے نتیجے میں عام شہریوں کو فائدہ ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سماج کو دلی پولیس سے بہت سی توقعات ہیں اور ان توقعات پر پورا اترنے کے لئے کام کاج کے مقام کو جدید تر بنانا ضروری ہے۔ ساتھ ہی ساتھ کام کاج کے ماحول کو بہتر بنانا بھی لازمی ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کسی بھی ادارے کی کامیابی کاانحصار اس پر ہوتا ہے کہ اس کے بنیادی ڈھانچے کی نوعیت کیا ہے۔ اس حقیقت کو پیش نظر رکھتے ہوئے حکومت نے دلی پولیس کے لئے فنڈ کی تخصیص ، جو 18-2017 میں 6378.18کروڑ روپے کے بقدر تھی، اسے 19-2018 میں بڑھا کر 7426.98کروڑ روپےکر دیا گیا ہے۔جس کے نتیجے میں 15فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ حکومت نے جرائم کی روک تھام کی شاخ سے متعلق اکائی کے لئے چہرے پہچاننے کے نظام کے حصول کو بھی منظوری دے دی ہے اور سِم کارڈ سمیت کانسٹبلوں کو ای-بیٹ بُک فراہم کرائی گئی ہے اور 2700ہینڈ ہیلڈ ڈوائس بھی فراہم کرائے گئے ہیں۔
وزیر داخلہ نے اس امر پر مسرت کا اظہار کیا کہ دلی پولیس نے 40 خواتین کمانڈو ز کو اسپیشل سیل کے تحت اینٹی ٹیررزم یعنی مانع دہشت گرد ڈیوٹی کے لئے شامل کرکے کُل خواتین ایس ڈبلیو اے ٹی ٹیم بنائی ہے۔ اس ٹیم کو این ایس جی نے تربیت دی ہے۔ اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ ایس ڈبلیو اے ٹی کمانڈوز جو سب کی سب خواتین ہوں گی، انہیں یوم آزادی کی تقریبات کے دوران تعینات کیا جائے گا۔ جناب راج ناتھ سنگھ نے دلی پولیس کے ذریعے خواتین کو با اختیاربنانے کی سمت میں کی گئی اس پہل قدمی کے لئے مبارکباد پیش کی۔ انہوں نے کہا کہ دلی پولیس نے خواتین کو وہ موقع فراہم کیا ہے، جس کے ذریعے یہ خواتین ایک نئی ذمہ داری کو اختیار کر کے اپنی اہلیت ثابت کر سکتی ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اِن تمام خواتین پولیس اہلکاران کا تعلق شمال مشرقی ریاستوں سے ہے۔ انہوں نے اس کو دلی پولیس کے تحت مختلف خطوں کو یکجا اور مربوط کرنے کی ایک مثال قرار دیا۔ انہوں نے تقریباً 3 لاکھ طالبات، کام کاجی خواتین اور گھر سنبھالنے والی عورتوں کو اپنی حفاظت آپ کرنے کی تربیت دینے کے لئے بھی دلی پولیس کو مبارکباد پیش کی اور اس کی ستائش کرتے ہوئے کہا کہ اس طریقے سے دلی پولیس نے انہیں خودمختار بنا دیا ہے۔
خواتین کی سلامتی کو مدنظر رکھتے ہوئے انہوں نے کہاکہ 2017 میں خواتین کی از خود آپ حفاظت سے متعلق تربیت جیسی پہل قدمیوں سمیت 2017 میں 10.13کروڑروپے کی رقم جاری کی گئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ دلی پولیس میں خواتین کی نمائندگی میں مرکز کے ذریعے خواتین کو پولیس فورس میں 33فیصد کا ریزرویشن فراہم کرنے کے فیصلے کے بعد کانسٹبل اور سب انسپکٹر کی سطح پر دلی سمیت مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں تعداد کے لحاظ سے اضافہ درج کیا گیا ہے۔
وزیر داخلہ نےکہا کہ شہریوں کو دلی پولیس کی متعدد دیگر اہم اسکیموں کے ذریعے فوائد حاصل ہوئے ہیں۔ انہوں نے ‘‘آنکھیں اور کان اسکیم’’، پرہری یوجنا، آپریشن ملاپ، مانع آٹو سرقہ ایپ، آن لائن پی سی سی، سینئر سٹیزن ایپ اور لاسٹ رپورٹ جیسی اسکیموں کا بھی ذکر کیا۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ یہ تمام اسکیمیں دلی پولیس کی جدید کاری کے تئیں نئے طریقۂ کار اپنائے جانے کی جانب اشارہ کرتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ دلی پولیس میں 12ہزار اضافی عملے کو بھرتی کرنے کی تجویز زیر غور ہے۔ اس میں سے 3139 پولیس اہلکاران کو بھرتی کیا جا چکا ہے۔ اس کے علاوہ حکومت نے 2016 میں 4227 اسامیاں نکالی تھیں اور اس سال 3139اسامیوں کی گنجائش نکالی ہے اور اس طریقے سے جرائم کی تفتیش کو قانون و انتظام بنائے رکھنے کے کام سے علیحدہ کر دیا گیا ہے تاکہ مجرموں کو سزا دلوانے کی تعداد میں اضافہ ہو سکے۔
جناب راج ناتھ سنگھ نے کہا کہ دلی پولیس قومی خطہ راجدھانی کی پولیس ہے ۔ لہذا اسے ایک قائدانہ کرادار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ اسے دیگر ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کی پولیس کے لئے ایک رول ماڈل یا نمونے کے طور پر بھی خود کو پیش کرنے کی ضرورت ہے اور اس کے ذریعے اپنائے جانے والے طریقۂ کار پولیس کے بہترین طریقہ ہائے کار ہی ہونے چاہئیں۔ انہوں نے پولیس کی نظریاتی تبدیلی پر بھی زور دیا۔ اس مقصد کے حصول کے لئے وزیر داخلہ نے ہدایات جاری کیں کہ سینئر افسران کو چند مواقع پر پٹرولنگ یعنی گشت کے لئے بذات خود جوانوں کے ساتھ جانا چاہئے تاکہ وہ عوام دوست طریقۂ کار اپنا سکیں اور اسے بھی پولیس کی سرگرمیوں کا ایک جز و سمجھیں۔