نئی دہلی، پندرہویں مالی کمیشن نے کل نئی دہلی میں بھارت میں آفات میں خطرات کے بندوبست کے لئے فنڈنگ کے موضوع پر بین الاقوامی ورکشاپ مکمل کی۔دو روزہ کانفرنس میں شہر کاری ، آب و ہوا میں تبدیلی، ساحلوں کے کٹاؤ، مقامی آفتیں اور اس سے متعلق قیمت سمیت آفات میں خطرات کے بندوست (ڈی آر ایم) سے متعلق بہت سے معاملات پر تبادلہ خیال کیاگیا۔آفات کے خطرات کو کم کرنے سے متعلق فنڈ کی ضرورت پر بھی تبادلہ خیال ہو۔پندرہویں مالی کمیشن کے چیئرمین جناب این کے سنگھ نے اپنے اختتامی کلمات میں کہا کہ اس بات کی واضح سمجھ ہونی چاہئے کہ حقیقت میں کثیر سطحی خطرات کے ماحول میں (ہائی فریکوئنسی، کم اثر اور دیگر) مٹیگیشن(کمی کرنا)کا حقیقی معنی کیا ہیں۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس بات پر دوبارہ کام کرنے کی ضرورت ہے کہ آفات کے خطرات کے بندوبست کے لئے ٹیکس کے ذریعے یا دیگر ذرائع سے کس طرح سے فنڈ یکجا کئے جاسکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ جی ایس ٹی کی وجہ سے ریاستی حکومت کے مالیہ پر پڑنے والا اثر بہت اہم ہے، کیونکہ کسی بھی آفت کی صورت میں ریاست ہی سب سے پہلے کارروائی کرتی ہے۔انہوں نے کہا کہ آفات سے نمٹنے کے قومی فنڈ (این ڈی آر ایف)کو جی ایس ٹی کے دور میں کس طرح فنڈ فراہم کیا جائے، آفات کے بندوبست سے متعلق فنڈ کے لئے جی ایس ٹی پر اضافی محصول جیسے کچھ پالیسی سطح کے معاملات ہیں،جن پر جی ایس ٹی کونسل کو فیصلہ کرنا ہوگا۔
یہ صرف ڈی آر ایم کے لئے فنڈ مختص کرنے کا معاملہ نہیں ہے، بلکہ اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ جنگلات میں اضافے کے مقصد سے ریاستوں کو دیئے گئے فنڈ کی صورت میں ڈی آر ایم کے لئے مخصوص کئے گئے فنڈ کو استعمال کرنا ہے۔اس طرح کے فنڈ کو مشروط کرنے کے بارے میں فیصلہ کرنا ایک مشکل کام ہے۔ڈی ای اے کے سیکریٹری جناب سبھاش چندر گرگ نے اپنے اختتامی کلمات میں کمیشن پر زور دیا کہ وہ آفات میں خطرات کو کم کرنےکے لئے ایک ڈھانچہ قائم کرے اور اسے ترقیاتی اخراجات کا ایک اٹوٹ حصہ بنائے۔انہوں نے کہا ہمیں آفات کے دوران لوگوں کے تحفظ کے لئے لچکدار مالیہ کے بارے میں سوچنا چاہئے۔ ڈاکٹر پی کے مشرا نے کہا کہ فنڈ کی فراہمی کے معاملے میں خطرات کو کم کرنے سے متعلق مختلف قسم کی سرگرمیوں اور مختلف طرح کی امدادی سرگرمیوں (آفات کے پیمانے کی مناسبت سے ضرورت کا انحصار)جیسے معاملات پر دھیان دینے کی ضرورت ہے۔
کانفرنس میں آفات میں خطرات کے بندوبست کے لئے فنڈ کے مختلف وسائل پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا، جس میں مالی کمیشن کے ذریعے فراہمی، این ڈی آر ایف، ایس ڈی آر ایف، عوام سے وصولی، سی ایس ایس، سی ایس آر اور کثیر جہتی اداروں سے فنڈ کی وصولی شامل ہے۔ خطرات کی منتقلی کے ضمن میں انشونس کمپنیوں کے رول اور ان سے متعلق امور پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔کانفرنس میں یہ بھی مشورہ دیا گیا کہ مالی کمیشن کو ایسے اداروں کو دیکھنا چاہئے جو وسائل کے عمودی تبادلے کو مستحکم کرنے کے لئے وفاقی نظام کے تحت کام کرسکیں اور آفات کے وقت کے دوران ریاستوں کے درمیان مہارت کا تبادلہ کیا جاسکے۔
اس بارے میں بھی خیال ظاہر کیا گیا کہ ملک میں کریڈٹ کے خطرے پر پالیسیوں میں آفات سے ابھرنے اور آفات میں ہونے والے نقصانات سے ابھرنے کی عدم موجودگی سے اثر پڑ تا ہے۔این ڈی آر ایف ، ایس ڈی آر ایف کی مقدار کے بارے میں فیصلہ کرنے کا پیمانہ ایک اہم سوال ہے۔ ڈی آر ایم کی ضروریات بہت متنوع ہوتی ہیں، کیونکہ اس میں راحت رسانی، بحالی ، خطرات کو کم کرنا وغیرہ شامل ہیں۔ اس لئے فیصلہ سازی میں بہت محتاط انداز میں غورو خوض کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ، جو مناسب اعدادوشمار کی دستیابی ، تجزیاتی آلات اور مثالی ماڈل کی دستیابی پر منحصر ہوتا ہے۔ ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ کوئی بھی بحالی کا ماڈل تجرباتی طورپر شروع کیا جاسکتا ہے اور پھر اسے بڑھایا جاسکتا ہے۔ ڈی آر ایم کے فنڈ کے لئے وسائل کی ضرورت ہوگی اور اس کے لئے سرمایہ کاری نہ صرف حکومت کی طرف سے بلکہ پرائیویٹ سیکٹر ، غیر سرکاری تنظیموں اور سول سوسائٹی کی طرف سے بھی کی جاسکتی ہے۔
یو این ڈی پی کے کنٹری ڈائریکٹر محترمہ فراسین پک اپ، بھارت میں عالمی بینک کنٹری ڈائریکٹر ڈاکٹر جنید کمال سمیت کانفرنس میں شامل ہونے والوں نےبھارت میں ڈی آر ایم پر بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد کرنے کے لئے کمیشن کے چیئرمین اور ارکان کا شکریہ ادا کیا۔محترمہ فراسین پک اپ نے کہا کہ آفات اور ترقی ایک دوسرے سے پوری طرح مربوط ہیں۔آفات میں خطرات کو کم کرنے سے متعلق سرمایہ داری پائیدار ترقی کی راہ کا تعین کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یو این ڈی پی نے ‘ملکوں کے خطرات کا انڈیکس’ کا نظریہ متعارف کرایا ہے، تاکہ ڈی آر ایم کے خصوصی اقدامات کے لئے وسائل کو مختص کرنے اور پالیسی تیار کرنے کی رہنمائی کی جاسکے۔ڈاکٹر جنید کمال نے کہا کہ تیزی سے شہرکاری کی جانب بڑھتے ہوئے ملک میں خطرات میں محفوظ رہنے والے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر میں سرمایہ کاری ملک کے مفاد میں ہوگی، جس سے آفات کے اثرات کو برداشت کرنے کی لاگت میں کمی کرنے میں بھی مدد دے گی۔