نئی دہلی۔ ؍ستمبر۔بچے کسی بھی ملک کا سرمایہ ہوتے ہیں، جنہیں ملک کے بہتر مستقبل کے لئے نشوونما کی ضرورت ہوتی ہیں۔2011 کی مردم شماری سے ظاہر ہے کہ بچہ مزدوری کے معاملے میں 2001 کی مردم شماری کے اعداد وشمار کے مقابلے میں کافی کمی آئی ہے لیکن ان کے بچپن کے تحفظ کے لئے کافی کچھ کئے جانے کی ضرورت ہے۔ ا س مسئلے کی کثیر رخی نوعیت کا احساس کرتے ہوئے حکومت نے ملک میں مرحلے وار طریقہ سے بچہ مزدوری کا خاتمہ کرنے کے لئے ایک جامع اور کثیر رخی طریقہ اختیار کیا ہے۔ حکومت نے بچہ مزدوری( امتناع اور ضابطہ بندی) ترمیمی ایکٹ 2016 تیار کیا ہے جو یکم ستمبر 2016 سے نافذ ہوگیا ہے۔اس ترمیم کے نافذ ہونے سے کسی بھی پیشے یا کام میں چودہ سال سے کم عمر کے بچوں سے کام لینا پوری طرح ممنوع ہوگیا ہے۔ 1986 میں اس قانون کے بنائے جانے کے بعد سے یہ ایک تاریخی اقدام ہےجس سے چودہ سال سے کم عمر کے بچوں کو کام میں لگانے پر پوری طرح پابندی متوقع ہے۔ اس ترمیم کے ذریعہ پہلی بار بچوں کی عمر کو بچوں کی مفت تعلیم اور لازمی تعلیم کے حق کے قانون ،2009 میں مذکورہ بچوں کی عمر سے وابستہ کیاگیا ہے یہ بھی پہلی بار ہوا ہے کہ لڑکپن کی تشریح کی گئی ہے اور چودہ سے اٹھارہ سال کی عمر کے لڑکوں کو بھی اس قانون کے دائرے کار میں لانے کے لئے اس کو وسعت دی گئی ہے۔اس ترمیم کے ذریعہ خطرناک پیشوں اور کاموں میں لڑکوں سے بھی کام لینے پر پابندی عائد کی گئی ہے۔
بچہ مزدوری ( امتناع اور ضابطہ بندی) کا ترمیمی ایکٹ2016 تیار کئے جانے کے بعد قانونی ضابطوں کے نفاذ کو مستحکم کرنے کے لئے حکومت نے کئی اقدامات کئے ہیں۔ان میں ریاستی ایکشن پلان تیار کرنا اور ترمیمی ایکٹ کو نافذ کرنے کے لئے تمام ریاستوں/ مرکز کے زیرانتظام خطوں تک اُسے پہنچانا شامل ہے۔ اس کے علاوہ مذکورہ ایکٹ میں ترمیم کے بعد بچہ مزدوری( امتناع اور ضابطہ بندی) ترمیمی مرکزی رولز تیار کئے گئے اور ایک تکنیکی مشاورتی کمیٹی کے ذریعہ خطرناک پیشوں اور کاموں کی فہرست پر نظر ثانی کی گئی ہے۔ان اقدامات کا خاکہ تیار کرنے کے لئے مختلف متعلقین سے مشورہ کیا گیا ہے۔
بچہ مزدوری کی تمام شکلوں کو ختم کرنے کے لئے بچہ مزدوروں کی باز آباد کاری کے واسطے 1988 میں نیشنل چائلڈ لیبر پروجیکٹ( این سی ایل پی) اسکیم شروع کی گئی تھی۔جس میں پروجیکٹ کے دائرہ کار میں آنے والے تمام بچوں کی شناخت کی گئی اور انہیں بچہ مزدوری سے ہٹایا گیا۔ اور اس طرح مزدوری سے ہٹائے گئے بچوں کو پیشہ وارانہ تربیت کے ساتھ ساتھ قومی دھارے کی تعلیم فراہم کرائی گئی۔اب این سی ایل پی پر نظرثانی کی گئی ہے اسے وسعت دی گئی ہے اور نئے قانونی ضابطوں کے ساتھ اس کا تال میل قائم کیا گیا ہے۔
بچہ مزدوری میں لگے ہوئے بچوں کو شناخت کرنے اور انہیں بچانے کے لئے ضلع، ریاست اور ملکی سطح پر ایک اضافی ادارتی نظام کی تشکیل کرتے ہوئے تبدیلیاں کی گئی ہیں۔اس سلسلے میں تیار کئے گئے اسٹینڈرڈ آپریٹیو پروسیسجر کا مقصد بچہ مزدوروں کی مکمل باز آباد کاری کو یقینی بنانے اور لڑکوں کو خطرناک مزدوری سے بچانے کے لئے تربیت کاروں اور مانیٹرنگ ایجنسیوں کی مدد کرنا ہے تاکہ ہندوستان کو بچہ مزدوری سے پوری طرح پاک کیا جاسکے۔
مرکزی حکومت کو ریاستی حکومت، ضلع اور تمام پروجیکٹ سوسائٹیوں سے جوڑنے کے لئے ایک آن لائن پورٹل پنسل کی ضرورت محسوس کی گئی جس سے اسکیموں کے نفاذ کے لئے ایک نظام قائم کیا جاسکے۔اسی لئے آن لائن پورٹل پنسل کے بارے میں سوچا گیا۔ اس پورٹل میں بچوں کی ٹریکننگ کانظام، شکایت کا کونہ،ریاستی حکومت، قومی بچہ مزدوری پروجیکٹ اور میلان کے ہیڈ شامل ہیں۔
محنت اور روزگار کی وزارت نے بچہ مزدوری کے خاتمہ کے لئے قوانین کے موثر نفاذ کے مقصد سے ایک الیکٹرانک پلیٹ فارم کے طور پر پنسل پورٹل تیار کیا ہے ۔ وزیر داخلہ جناب راجناتھ سنگھ 26ستمبر 2017 کو پرواسی بھارتیہ کیندر، چانکیہ پوری، نئی دہلی میں منعقد کی جانے والی بچہ مزدوری کے بار ے میں قومی کانفرنس میں اس پورٹل کا آغاز کریں گے۔ اس کانفرنس میں ریاستی وزراء محنت اور ریاستوں کے لیبرسیکریٹریز، مرکزی وزارتوں کے سیکریٹریز، ڈسٹرکٹ نوڈل آفیسرز اور نیشنل چائلڈ لیبر پروجیکٹ( این سی ایل پی) کے پروجیکٹ ڈائریکٹرز شرکت کریں گے۔ اس کانفرنس میں نوبل انعام یافتہ جناب کیلاش ستیارتھی مہمان خصوصی ہوں گے جب کہ محنت اور روزگار کے وزیر جناب سنتوش کمار گنگوار کانفرنس کی صدارت کریں گے۔اس کانفرنس میں ایک مفصل تکنیکی اجلاس بھی ہوگا۔