نئی دہلی، ۔عزت مآب صدرجمہوریہ ہند ، عزت مآب نائب صدر جمہوریہ ،لوک سبھا کی اسپیکر، سابق وزیراعظم عزت مآب دیو گوڑا جی ، مرکزی کابینہ کے میرے ساتھی، پارلیمنٹ کے سبھی معزز ا رکان پارلیمنٹ اور مختلف شعبوں سے یہاں تشریف لائے سبھی موقرمہمانان گرامی۔
قوم کی تعمیر میں کچھ ا یسے لمحے آتے ہیں جس لمحے ہم کسی نئے موڑ پر جاتے ہیں۔ نئی منزل کی طرف پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔آج اس نصف شب کے وقت ہم سب ملکر ملک کے آگے کےراستے کو یقینی بنانے جارہے ہیں۔
کچھ دیر بعد ملک ایک نئے نظام کی طرف چل پڑے گا۔ سوا سو کروڑ اہل وطن اس تاریخی واقعہ کے گواہ ہیں۔ جی ایس ٹی کا یہ عمل، یہ صرف معاشی نظام کے دائرے تک محدود ہے، ایسا میں نہیں مانتا۔ گزشتہ کئی سالوں سے مختلف الگ الگ عظیم شخصیات کی رہنمائی میں ، قیادت میں، الگ الگ ٹیموں کی طرف سے جوکوششیں کی گئی ہیں، وہ ایک طرح سے بھارت کی جمہوریت کی ،بھارت کے وفاقی ڈھانچے کی، Co-operative Federalism کے ہمارے concept کی ایک بہت بڑی مثال کی شکل میں آج یہ موقع ہمارے سامنے آیا ہے۔ اس مقدس موقع پر آپ سب اپنا بیش قیمتی وقت نکال کر آئے ہیں۔ میں تہہ دل سے ا ٓپ کا خیر مقدم کرتا ہوں،آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ یہ جو سمت ہم سب نے متعین کی ہے، جو راستہ ہم نے منتخب کیا ہے، جس نظام کو ہم نے فروغ دیا ہے، یہ کسی ایک ٹیم کی حصولیابی نہیں ہے۔یہ کسی ایک حکومت کی حصولیابی نہیں ہے۔ یہ ہم سب کی مشترکہ وراثت ہے۔ یہ ہم سب کی مشترکہ کوششوں کا نتیجہ ہے۔ اور رات کو 12 بجے اس Central Hall میں ہم اکٹھا ہوئے ہیں۔
یہ وہ جگہ ہے جس جگہ پر اس ملک کی کئی عظیم شخصیات کے نقش قدم سے، اس جگہ نے اپنے آپ کو پاک کیا ہوا ہے، ایسی مقدس جگہ پر ہم بیٹھے ہیں۔ اور اس لئے آج Central Hall، اس واقعہ کے ساتھ ہم یاد کرتے ہیں۔ 9 دسمبر1946 آئین ساز اسمبلی کی پہلی میٹنگ کا یہ گواہ ہے۔ ہم اس جگہ پر بیٹھے ہیں، جہاں آئین ساز اسمبلی کی پہلی میٹنگ ہوئی۔ پنڈت جواہر لال نہرو، مولانا ابو الکلام آزاد، سردار ولبھ بھائی پٹیل، بابا صاحب امبیڈکر، آچاریہ کرپلانی، ڈاكٹر راجندر بابو، سروجنی نائیڈو، یہ سب عظیم انسان پہلی قطار میں بیٹھے ہوئے تھے۔
اس ایوان میں جہاں کبھی 14 اگست، 1947کی رات کو 12 بجے، ملک کی آزادی کا عظیم واقعہ رونما ہوا، یہ جگہ ان کا گواہ ہے۔ 26 نومبر، 1949 کو ملک نے آئین کو تسلیم کیا۔ یہی جگہ اس عظیم واقعہ کا بھی گواہ بنا ہے۔ اور آج کئی سالوں کے بعد ایک نئے معاشی نظام کے لئے، وفاقی ڈھانچے کی ایک نئی طاقت کے لئے جی ایس ٹی کی شکل میں اسی مقدس جگہ سے بڑھ کرکے میں سمجھتا ہوں کوئی اور جگہ نہیں ہو سکتی ہے اس کام کے لئے۔ آئین پر غوروخوض 2 سال، 11 ماہ اور 17 دن تک چلا تھا۔ ہندو ستا ن کے گوشے گوشے سے دانشور اس بحث میں حصہ لیتے تھے۔ رضا مندی اور ناراضگی ہوتی تھی، سب مل کر بحث کرتے تھے، راستے تلاش کرتے تھے۔کبھی اس طرف، کبھی اس طرف نہیں جا پائے تو بیچ کا راستہ تلاش کرکے چلنے کی کوشش کرتے تھے۔ ٹھیک اسی طرح یہ جی ایس ٹی بھی ایک طویل غوروخوض کےعمل کا نتیجہ ہے۔ تمام ریاستوں نے یکساں طور پراور مرکزی حکومت نے اسی کی برابری میں کئی سالوں تک بحث کی ہے۔ پارلیمنٹ میں اس کے سابق ارکان پارلیمنٹ نے مسلسل اس پر بحث کی ہے۔ ایک قسم سے Best brains of the country، انہوں نے مسلسل اس کام کو کیا ہے اور اسی کا نتیجہ ہے کہ آج جی ایس ٹی کو ہم عملی شکل لیتے دیکھ سکتے ہیں۔
جب آئین بنا تو آئین نے پورے ملک کے شہریوں کو یکساں مواقع، مساوی حقوق، اس کے لئے طے شدہ نظام کی تشکیل کر دی تھی۔اور آج جی ایس ٹی ایک طرح سے سبھی ریاستوں کے موتیوں کے ایک دھاگے میں پرونے کی اور معاشی نظام کے اندر ایک ہموار نظام لانے ایک اہم کوشش ہے۔ جی ایس ٹی ایک Co-operative Federalism کی ایک مثال ہے جو ہمیں ہمیشہ ہمیش اور زیادہ ساتھ مل کر چلنے کی طاقت دے گی۔ اس GST Council نے مرکز اور ریاست میں مل کر کے اس نظام کو تیار کیا ہے، جس میں غریبوں کے لئے جو پہلے دستیاب خدمات تھیں، ان ساری خدمات کو برقرار رکھا ہے۔ٹیم کوئی بھی ہو، حکومت کہیں کی بھی ہو، غریبوں کے تئیں حساسیت اس جی ایس ٹی کے ساتھ جڑے ہوئے تمام لوگوں نے یکساں طور پر اس کی فکر کی ہے۔ جن جن لوگوں نے کیا ہے، ارون جی نے تفصیل سے کہا تھا، میں اس کا اعادہ کرنا نہیں چاہتا ۔ میں ان سب کو بھی مبارکباد دیتا ہوں۔ اس عمل کو جن جن لوگوں نے آگے بڑھایا۔ ان سب کو میں مبارک باد دیتا ہوں۔
آج GST Council کی 18 ویں میٹنگ ہوئی اور تھوڑی دیر کے بعد GST لاگو ہوگا۔ یہ بھی اتفاق ہے کہ گیتا کے بھی 18 باب تھے اور GST Council کی بھی 18 ميٹنگیں ہوئیں اور آج ہم اس کامیابی کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔ یہ ایک طویل عمل تھا، محنت تھی، اندیشے اور یقین کی کیفیت تھی۔ ریاستوں کے ذہن میں گہرے سوال تھے۔ لیکن محنت اور دماغ کی جتنی بھی طاقت استعمال میں لائی جا سکتی ہے لا کر کے اس کام کو پورا کیا ہے۔ چانکیہ نے کہا تھا ید درن ید درادیم، ید چ درے، ويوستھتم
تت سروم تپسا سادھيم تپوهردوتكرمم چانکیہ کے اس جملے نے ہمارے GST کے پورےعمل کو بڑے ہی اچھے طریقے سے بیان کیا ہے۔ کوئی چیز کتنی ہی دور کیوں نہ ہو، اس کا ملنا کتنا مشکل کیوں نہ ہو، وہ پہنچ سے کتنی ہی باہر کیوں نہ ہو، مشکل اور کڑی محنت سے اسے بھی حاصل کیا جا سکتا ہے اور یہ آج ہوا ہے۔ ہم تصور کریں کہ ملک آزاد ہوا، 500 سے زیادہ ریاستیں تھیں۔ اگر سردار ولبھ بھائی پٹیل نے ان ریاستوں کو ملا کر ملک کو ایک نہ کیا ہوتا، ملک کا انضمام نہ کیا ہوتا تو بھارت کا سیاسی نقشہ کیسا ہوتا؟ کیسا انتشار ہوتا! آزادی ہوتی لیکن ملک کا وہ نقشہ کیسا ہوتا؟ جس طرح سے سردار ولبھ بھائی پٹیل نے ریاستوں کو ملا کر ایک قومی انضمام کا بہت بڑا کام کیا تھا، آج GST کے ذریعے اقتصادی انضمام کا ایک اہم کام ہو رہا ہے۔ 29 ریاستیں، 7 مرکز کے زیر انتظام علاقے، مرکز کے 7 ٹیکس، ریاستوں کے 8 ٹیکس اور ہر چیزوں کے الگ الگ ٹیکس کا حساب لگائیں تو 500 طرح کے ٹیکس کہیں نہ کہیں اپنا Role Play کر رہے تھے۔ آج ان سب سے نجات پا کر اب گنگا نگر سے لے کر ايٹانگر تک، لیہہ سے لے کر لکش دیپ تک One Nation One Tax، یہ خواب ہمارا پورا ہوکر رہے گا۔ اور جب اتنے سارے ٹیکس، 500، الگ الگ حساب لگائیں 500 ٹیکس۔ معروف سائنسداں البرٹ آئنسٹنائن نے ایک بار بڑی دلچسپ بات کہی تھی۔ انہوں نے کہا تھا کہ دنیا میں اگر کوئی چیز سمجھنا سب سے زیادہ مشکل ہے تو وہ ہے Income Tax۔ یہ البرٹ آئنسٹنائن نے کہا تھا۔ میں سوچ رہا تھا اگر وہ یہاں ہوتے تو پتہ نہیں یہ سارے ٹیکس دیکھ کر کیا کہتے، کیا سوچتے؟ اور اس لئے ، اور ہم نے دیکھا ہے کہ مصنوعات کے اندر کی پیداوار میں تو زیادہ کوئی بہت فرق نہیں ہوتا ہے لیکن جب Product باہر جاتا ہے تو ریاستوں کے الگ الگ ٹیکس کی وجہ سے عدم مساوات نظر آتی ہے۔
ایک ہی چیز کے دہلی میں ایک دام ہوگا، 25-30 کلومیٹر گروگرام میں دوسرا چارج لگے گا اور ادھر نوئیڈا میں گئے تو تیسرا ہوگا۔کیوں، کیونکہ ہریانہ کا ٹیکس الگ، اترپردیش کا ٹیكس الگ اور دہلی کا الگ۔ ان ساری مختلف حالتوں کی وجہ سے عام شہری کے ذہن میں سوال اٹھتا تھا کہ میں گروگرام میں جاتا ہوں تو یہی چیز مجھے اتنے میں مل جاتی ہے، وہی چیز نوئیڈا میں جاؤں تو اتنے میں ملتی ہے اور دہلی میں جاتا ہوں تو اتنے میں ملتی ہے۔ ایک طرح سے ہرکسی کے لئے کفیوژن کی صورتحال رہتی تھی۔ اب سرمایہ کاری میں بھی بیرون ملک کے لوگوں کے لئے یہ سوال رہتا تھا کہ بھئی کس طرح کا انتظام ہم سمجھتے ہیں اور کام کہیں سوچتے ہیں تو دوسری ریاست میں دوسرا بندوبست سامنے آتا ہے اور ایک کنفیوژن کا ماحول بنا رہتا تھا۔ آج اس سے نجات حاصل کرنے کی جانب ہم آگے بڑھ رہے ہیں۔
ارون جی نے بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے کہ جی ایس ٹی کی وجہ سے ایک طرح کا بندوبست ہو، انٹری ٹیکس ہو، سیلز ٹیکس ہو، ویٹ نہ ہو، نہ جانے کتنی چيزیں، سارا بیان انہوں نے تفصیل سے کیا سب ختم ہو جائے گا۔ ہم جانتے ہیں کہ ہم انٹری کے ٹول پر گھنٹوں تک ہماری گاڑیاں کھڑی رہتی ہیں۔ ملک کا اربوں کھربوں کا نقصان ہوتا ہے۔ ایندھن کے جلنے کی وجہ سے ماحول کا بھی اتنا ہی نقصان ہوتا ہے۔ اس سارے بندوبست کے مماثل نہ ہونے کی وجہ سے ایک طرح سے ان ساری بدنظمیوں سے ایک نجات کا راستہ ہمیں حاصل ہوگا۔کبھی کبھار خاص کر صبح کے وقت پہنچنا بہت ضروری ہوتا تھا لیکن وہ جب وہ نہیں پہنچتا تھا تو اس کی وجہ اس پہنچانے والے کا بھی نقصان ہوتا تھا اور جو پروسیسنگ کرتا تھا اس کا بھی نقصان ہوتا تھا۔ ان ساری بدنظمیوں سے آج ہم نجات پا رہے ہیں اور ہم آگے بڑھ رہے ہیں۔
جی ایس ٹی کے طور پر ملک ایک جدید ٹیکسیشن نظام کی طرف آج قدم رکھ رہا ہے۔ بڑھ رہا ہے۔ ایک ایسا نظام ہے جو زیادہ آسان ہے، زیادہ شفاف ہے۔ ایک ایسا نظام ہے جو کالے دھن کو اور بدعنوانی کو روکنے میں ایک موقع فراہم کرتا ہے۔ ایک ایسا نظام ہے جو ایمانداری کو موقع دیتا ہے۔ جو ایمانداری سے کاروبار کرنے کے لئے ایک امنگ، جوش، کرنے کا انتظام کرتا ہے۔ ایک ایسا نظام ہے جو نئی حکمرانی کے طرز عمل کو بھی لے کر آتا ہے اور جس کے ذریعے جی ایس ٹی ہم لے کر آئے ہیں۔ ساتھیوں، ٹیکس دہشت گردی اور انسپکٹر راج ، یہ بات کوئی نئی نہیں ہے۔ہم بہت دنوں سے یہ الفاظ سنتےآئے ہیں۔ پریشانی بھگتنے والو سے ہم نے اس فکر کا تجربہ کیا ہے اور جی ایس ٹی کی اس نظام کی وجہ سے ٹیکنالوجی کے لئے ساراٹرائل ہونے کی وجہ سے اب افسر شاہی۔ سب کے لئے گرے ایریا کا خاتمہ ہورہا ہے۔ اس کی وجہ جو عام تاجروں کو، عام کاروباریوں کو افسروں کے کی طرف سے جو پریشانیاں ہوتی رہی ہیں، اس سے نجات کاراستہ۔ اس جی ایس ٹی ذریعےکوئی ایماندار تاجر بے وجہ پریشان ہو وہ دن اس کے ساتھ ختم ہونے کے پورے امکانات اس جی ایس ٹی کے اندر ہیں۔ اس پورے نظام میں چھوٹے تاجروں کو 20 لاکھ تک کا کاروبار کرنے والوں کو مکمل طور پر نجات دے دی گئی ہے اور جو 75 لاکھ تک ہیں، ان کو بھی کم از کم ان چیزوں سے جڑنا پڑے گا اس کا انتظام ہے۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ ڈھانچے میں لانے کے لئے کچھ انتظامات کیے گئے ہیں، لیکن وہ کم از کم انتظامات برائے نام بندوبست کیے گئے ہیں اور اس کی وجہ سے عام انسان ،اس کے لئے اس نئے نظام سے کوئی بوجھ ہونے والا نہیں ہے۔
ساتھیو، جی ایس ٹی کا انتظام یہ بڑی بڑی اقتصادی زبان میں جو بولا جاتا ہے،وہاں تک محدود نہیں ہے۔ بڑے بڑے الفاظ اس کے ساتھ جوڑےجاتے ہیں، لیکن اگر سادہ زبان میں کہو کہ ملک کے غریبوں کے مفاد کے لیے یہ انتظام سب سے زیادہ بامعنی ہونے والا ہے۔ آزادی کے 70 سال کے بعد بھی ہم غریبوں تک جو پہنچا نہیں پائے ہیں، ایسا نہیں کہ کوششیں نہیں ہوئی ہیں۔ تمام حکومتوں نے کوششیں کی ہیں، لیکن وسائل کی حدود رہی ہیں کہ ہم ہمارے ملک کے غریب کو اس کی ضروریات کی تکمیل میں کہیں نہ کہیں کمی کا سامنا رہا ہے۔
اگر ہم اپنے وسائل کو منظم ڈھنگ سے اور بوجھ کسی ایک پر نہ جائے، بوجھ ہٹ جائیں اورافقی ہو جایئیں۔جتنا ہم بوجھ کم کریں، اتنا ہی ملک کو عمودی لے جانے کی سہولت بڑھتی ہے۔ اور اس وجہ سے اس سمت میں جانے کا کام، اب وہ كچا بل، پکا بل، یہ سارے کھیل ختم ہو جائیں گے اور بڑی آسانی ہو جائے گی۔ اور مجھے یقین ہے کہ چھوٹے موٹے تاجر بھی یہ جو غریب کو فائدہ ملنے والا ہے، وہ ضرور اس کو منتقل کریں گے ، تاکہ غریب کا بھلا ہو اور لوگوں کو آگے بڑھانے کے لیے بہت بہت کام آنے والا ہے۔
کبھی کبھی خدشات پیدا ہوتے ہیں کہ یہ نہیں ہو گا، ڈھکانا نہیں ہوگا، فلانا نہیں کریں گے اور ہمارے ملک میں ہم جانتے ہیں کہ جب گیارہویں اور بارہویں نتائج آن لائن دینے کا آغاز کیا اور ایک ساتھ سب گئے جب، تو سارا ہینگ اپ ہو گیا اور دوسرے دن خبر یہی بن گئی کہ ایسا ہو گیا۔ آج بھی کافی ایسا ہی ذکر ہورہا ہے۔
یہ بات درست ہے کہ ہر کسی کو ٹیکنالوجی نہیں آتی، لیکن ہر خاندان میں دسویں، بارہویں کا اگر طالب علم ہے تو اس کو یہ ساری چیزیں آتی ہیں۔ کوئی مشکل کام نہیں، اتنا آسان ہے، گھر میں 10 ویں، 12 ویں کا طالب علم بھی رہتا ہے، وہ چیزیں چھوٹے چھوٹے تاجر کو بھی اور وہ مدد کر سکتا ہے، ایک راستہ نکال سکتا ہے۔
جو لوگ خدشات رکھتے ہیں، میں کہتا ہوں برائے مہربانی ایسا نہ کریں۔ ارے پرانا ڈاكٹر ہو، آپ اسی سے اپنی آنکھیں لگاتارچیک کرواتے ہو، وہ ہی ہر بار آپ کے نمبرنکالتا ہو ،آپ کا چشمہ بنانے والا بھی طے شدہ ہو، آپ وہاں اپنے نمبر بنواتے ہو اور پھر بھی جب نیا نمبر والا چشمہ آتا ہے تو ایک آدھ دو دن تو آنکھ اوپر نیچے کرکے ایڈجسٹ کرنا پڑتا ہے۔ یہ بس اتنا ہی ہے۔ اور اس وجہ سے تھوڑا سا ہم کوشش کریں گے اس نظام کے ساتھ ہم آسانی سے جڑ جائیں گے اور اس وجہ سے میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ افواہوں کے مارکیٹ کو بند کریں اور اب جب ملک چل پڑا ہے تو کامیاب کیسے ہو۔ ملک کے غریب لوگوں کی بھلائی کے لئے کس طرح کام ہو، اس پر ہم لے کر چلیں اورتب جا کر جی ایس ٹی کے اس فیصلے کا عالمی اقتصادی دنیا میں ایک بہت ہی مثبت اثر مرتب ہوا ہے۔
بھارت میں جو سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں ان کے لئے بھی ایک قسم کا انتظام بہت آسانی سے وہ سمجھ پاتے ہیں اور اس کو چلا پاتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ بھارت میں اور آج دنیا کی ایک مقبول عام منزل کی شکل میں سرمایہ کاری کے لئے پسندیدہ مقام کے طور پر ہندوستان کو ہر طرح سے قبولیت ملی ہے اور اس کے لئے میں سمجھتا ہوں کہ ایک اچھی سہولت عالمی تجارت سے وابستہ لوگوں کو بھی بھارت کے ساتھ تجارت کرنے کے لیے ملے گی۔
جی ایس ٹی ایک ایسانظام ہے جو ملک کی تجارت کو ، اس میں جو عدم توازن ہے، اس عدم توازن کو ختم کرے گا۔ جی ایس ٹی ایک ایسا نظام ہے جس سے برآمدات کی صورتحال کو بڑی تقویت ملے گی اور جی ایس ٹی ایک ایسا نظام ہے جس کی وجہ سے بھارت میں جو ریاستیں باقاعدگی سے ترقی سے ہمکنار ہوئی ہے، ان کو ترقی کے فوری مواقع حاصل ہوئے ہیں ، لیکن جو ریاستیں پسماندہ رہ گئی ہیں ان کو وہ موقع تلاشنے میں بہت دم گھونٹنا پڑتا ہے۔ ان ریاستوں کا کوئی قصور نہیں ہے۔ قدرتی اثاثوں سے مالا مال ہیں۔ ہمارا بہار دیکھیں، ہمارا مشرقی اتر پردیش دیکھیں، ہمارا مغربی بنگال دیکھیں، ہمارا شمال مشرق دیکھیں، ہمار ا اڑیسہ دیکھیں، وسائل ، قدرتی وسائل سے بھرے پڑے ہیں، لیکن اگر ان کو یہ نظام، جب ایک قانون کا نظام مل جائے گا ، میں صاف دیکھ رہا ہوں کہ ہندوستان کے مشرقی حصہ کی ترقی میں میں جو کچھ بھی کمی رہ گئی ہے، اس کو پورا کرنے کا سب سے بڑا موقع، سب سے بڑا موقع اس سے ملنے والا ہے۔ ہندوستارن کی تمام ریاستوں کی ترقی کے یکساں مواقع حاصل ہونا، یہ اپنے آپ میں ترقی کی راہ پر آگے بڑھنے کا ایک بہت بڑا موقع ہے۔
جی ایس ٹی ایک طرح سے ہماری ریلوے جیسا ہے۔ریلوے مرکز اور ریاستیں مل کر چلاتے ہیں، پھر بھی بھارتی ریل ہم اسے بھارتی ریل کی شکل میں دیکھتے ہیں۔ریاست کے اندر مقامی طور پر مدد ملتی ہے۔ یکساں طور پر ہم دیکھتے ہیں ۔ہمارے مرکزی سروسز کے افسران مرکز اور ریاستوں میں پھیلے ہوئے ہیں پھر بھی دونوں طرف سے ملا کر چلا سکتے ہیں۔ ایک جی ایس ٹی نظام ایسا انتظام ہے کہ جس میں پہلی بار مرکز اور ریاستوں کے لوگ مل کر مقررہ سمت میں کام کرنے والے ہیں۔یہ اپنے آپ میں ایک ہندوستان، اعلیٰ ہندوستان کے لئے سب سے بہترین انتظام آج ہو رہا ہے اور جس کا اثر آنے والے دنوں میں پڑے گا اور آنے والی نسلیں ہمیں فخر کے ساتھ قبول کریں گی۔
2022 میں ہندوستان کے آزادی کے 75 سال مکمل ہو رہے ہیں ۔ نیو انڈیا کا خواب لیکر ہم چل پڑے ہیں۔ سوا سو کروڑ ملک کے لوگ نیا ہندوستان بنانے کا خواب لیکر چل رہے ہیں اور اس لئے بھائیوں اور بہنوں ، جی ایس ٹی ایک اہم رول ادا کرے گا اور ہم لوگوں نے جس طرح سے محنت کی ہے لوک مانیہ تلک جی نے جو گیتا کا راز لکھا ہے اس گیتا کے راز کے اختتام پر انہوں نے وید کا ایک منتر بھی اس میں شامل کیا ہے ۔اور لوک مانیہ تلک جی نے کہا کہ ۔ اس کا ذکر کیا ہے ، بنیادی طور پر وہ رگ وید کا ایک شلوک ہے۔
سوانواه: آکرتی : سمانا ردينواه: سمان وستا وہ منو يتھاوا سوسہاستی آپ لوگوں کا عزم ، ارادہ اور جذبہ یکساں رہے ، آپ لوگوں کے دل یکساں رہیں ، جس سے آپ لوگوں کا آپسی کام کاج ایک ساتھ اچھی طرح سے ہو سکے، اس جذبے سے لوک مانیہ تلک جی نے ہمیں آج نتیجہ دیا ہے ۔ جی ایس ٹی نیو انڈیا کے ٹیکس کا نظام ہے ۔ جی ایس ٹی ڈجیٹل ہندوستان کا ٹیکس نظام ہے ۔ جی ایس ٹی صرف ایز آف ڈوئنگ بزنس نہیں ہے، بلکہ جی ایس ٹی وے آف ڈوئنگ بزنس کی بھی ایک سمت دے رہا ہے۔ جی ایس ٹی ایک ٹیکس ریفورم نہیں ہے لیکن وہ معاشی ریفورم کا بھی ایک اہم قدم ہے ۔ جی ایس ٹی اقتصادی یا معاشی ریفورم سے بھی آگے ایک سماجی ریفورم کا بھی نیا طبقہ ہے جو ایک ایمانداری کے اتسو کی جانب لے جانے والا بن رہا ہے ۔قانون کی زبان میں جی ایس ٹی گڈس اینڈ سروس ٹیکس کے روپ میں بھی جانا جاتا ہے لیکن جی ایس ٹی سے جو فائدے ملنے والے ہیں اور اس لئے میں کہوں گا کہ قانون بھلے ہی کہتا ہو کہ گڈس اینڈ سروس ٹیکس، لیکن حقیقت میں یہ گڈ اینڈ سمپل ٹیکس ہے اور گڈ اس لئے کہ ٹیکس پر ٹیکس جو لگتے تھے ، اس سے آزادی مل گئی ہے۔ سمپل اس لئے ہے کہ پورے ملک میں ایک ہی فارم یا شکل ہوگی ، ایک ہی نظام ہوگا اور اسی نظام سے چلنے والا ہے اور اس لئے اسے ہمیں آگے بڑھانا ہے۔
میں آج اس موقع پر عزت مآب صدر جمہوریہ جی نے وقت نکالکر ، کیوں کہ اس سارے سفر کے وہ سبھی ایک ساتھی رہے ہیں، ہم سفر رہے ہیں؛اس کے ہر پہلو کو انہوں نے بہت اچھی طرح دیکھا ہے ، جانا ہے ، کوشش کی ہے ان کی رہنمائی میں اس اہم تاریخی گھڑی میں ہم سب کے لئے ایک بہت بڑی ترغیب کا سبب بنے گی۔نئی اومنگ اور جذبہ ملے گا اور اس کو لیکر ہم آگے چلیں گے۔ میں عزت مآب صدر جی کا بیحد ممنون کی وہ آج آئیں ہم سب کی رہنمائی کرنے کے لئے اور ان کی باتیں ہم سب کو ایک نئی ترغیب دیتے رہیں گے، اسی ایک جذبے کے ساتھ میں ایک بار پھر اس کوشش کے ساتھ جڑے ہوئے ہر کسی شخص کے لئے احسان مند ی ظاہر کرتے ہوئے اپنی آواز کو آرام دیتا ہوں اور عزت مآب صدر جی سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ ہماری رہنمائی کریں۔