نئی دہلی، نائب صدر جمہوریہ ہند جناب ایم وینکیا نائیڈو نے کہا ہے کہ سیکولرزم ہندوستان کے عوام کے ڈی این اے میں شامل ہے۔ اس کے لئے کسی کو یاد دہانی کرانے کی ضرورت نہیں ہے ۔ وہ آج یہاں جناب سنجیو گپتا کی ‘‘ساہس کا دوسرا نام زندگی ’’ کے عنوان سے تصنیف کر دہ کتاب کا اجراء کرنے کے بعد سامعین سے خطاب کر رہے تھے ۔
جناب نائب صدر جمہوریہ نے کہا کہ بچوں کو ذمہ دار شہری بنانے کے لئے ملک کے تمام بچوں کی تربیت دینا کافی اہم ہے اور انہیں آنے والی نسلوں کے لئے روشن مثالیں بنانا ہوگا۔انہوں نے مزید کہا کہ بچے ہمارے ملک اور سماج کے مستقبل ہیں ۔ والدین اور اساتذہ کو بچوں کو رول ماڈل بنانے کے لئے ان کی مدد کرنے کے ماحول بنانا ہوگا۔ طلبا اور بچوں کو ان کی اسکولوں کے تعلیم کے دوران قدریں سکھانی ہوں گی۔ اسے ان کے تعلیمی نصاب کا حصہ بنانا ہوگا۔
نائب صدر جمہوریہ نے کہا کہ بچوں کو گاندھی جی ، چھترپتی شیوا جی ، سبھاش چندر بوس جیسے قومی رہنماؤں اور دوسرے رہنماؤں کے بارے میں بتانا ہوگا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس کتاب میں ایوارڈ یافتہ بچوں کی بہادری کہانیوں پر روشنی ڈالی گئی ہے ۔ اس سے بچوں کو ترغیب حاصل ہوگی۔
اس موقع پر نائب صدرجمہوریہ کی تقریر کا ہندی متن درج ذیل ہے:
سب سے پہلے میں ادیب اور صحافی جناب سنجیو گپتا جی کو ان کی کتاب ‘‘انعام یافتہ بچوں کی ترغیبی جرات مندانہ کہانیاں ’’ کے لئے مبارکباد دیتا ہوں ساتھ ساتھ اس اہم کتاب کے ناشر ‘کتاب گھرپبلیکیشن ’ کو مبارکباد دیتا ہوں ۔
جناب سنجیو گپتا کا یہ کام کافی قابل تعریف ہے ۔ مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی تھی اس سلسلے میں ان کی یہ ساتویں کتاب ہے۔ یہ کہانیاں ان بہادر بچوں کی ہیں جو اپنے جرات مندانہ ، خود اعتمادی، ضبط و تحمل اور سوجھ بوجھ کے دم پر دوسروں کی زندگی بچانے میں کامیاب ہوئے ہیں ۔
یہ ایک ترغیب دینے والی کتاب ہے۔ مجھے امید ہے کہ یہ کتاب ایک پیغام دینے میں کامیابی ہوگی کہ ‘‘ساہس کا دوسرا نام زندگی ’’ ہے۔ عام طور پر ہم سبھی اپنی زندگی جیتے ہیں لیکن وہ زندگی سب سے بہتر ہے جو دوسروں کے لئے جی جاتی ہے ۔ یہ کہنا آسان ہے لیکن خود اپنی زندگی میں اس پر عمل کرنا آسان نہیں ۔ ان بچوں نے دوسروں کی حفاظت اور جرات میں اپنی جانوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اعلیٰ مثالیں قائم کی ہیں۔ یہ ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا ہوگا۔
ہم سبھی جانتے ہیں کہ ہر سال ایسے غیر معمولی طور سے بہادر بچوں کو قومی بہادری انعام سے نوازا جاتا ہے ۔ پورا ملک ان بچوں کو دل سے مبارکباد دیتا ہے۔
بچے ملک کا مستقبل ہوتے ہیں جس ملک کے بچے بہادر ہوتے ہیں دوسروں کی جانوں کی حفاظت کے لئے اپنی زندگی نچھاور کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہتے ہیں اس ملک کا سر فخر سے ہمیشہ بلند رہے گا۔
میں یہ مانتا ہوں کہ سماج میں بہادر لوگوں کا ہونا ضروری ہے اگر ایسا نہیں ہوگا توسماجی کی بنیاد کمزور ہو جائے گی۔ کوئی بھی ملک کمزور بنیاد پر محفوظ نہیں رہ سکتا ہے۔ ان بہادر بچوں کی بہادری کی کہانی کے پیچھے یقینی طور پر اپنی زندگی سے زیادہ دوسری کی زندگی بچانے کا جذبہ کار فرما تھا۔ کسی کے لئے کچھ کر گذرنے کا جذبہ ذہن میں تھا۔ اسی جذبے کی وجہ سے وہ خطروں سے کھیلنے والے بہادر بچے بنے۔
جوئے اور سٹّے کی غیر قانونی کاروبار کے خلاف آواز اٹھانے والی آگرہ کی نازیہ ، مدھو کوڈوبنے سے بچانے میں اپنی زندگی کی قربانی دینے والی کرناٹک کی نترا وتی خود بری طرح بس حادثے میں زخمی ہوتے ہوئے بھی سات بچوں کو بچانے والے پنجاب کے کرن بیر سنگھ ، آگ کی شعلوں میں گھرے بچوں کو بچانے والے میگھالیہ کے بیٹ شواجان پین لانگ کی بہادر ی اور بہت سارے بچوں کے ایسی کہانیوں میں ہمیں ایک بات یکساں طور پر دیکھنے کو ملتی ہے کہ جو ڈر پر قابو پا گیا وہ جیت گیا۔ ایسے بہادر بچے ایک نئی کہانی لکھتے ہیں اور ان کہانیوں میں تین وہ بچے بھی شامل ہیں جنہوں نے دوسروں کی حفاظت کرتے ہوئے اپنی عظیم ترین قربانی دی ہے ۔ اس موقع پر میں ان بچوں کے تئیں اپنی منکسرانہ خراج عقیدت پیش کر تا ہوں۔
انعام پانے والے بچوں میں زیادہ تر وہ بچے ہیں جو ملک کے دور دراز کے گاؤ ں کے رہنے والے ہیں۔ ان بچوں نے روز مرہ کی زندگی کی دشواریوں کا سامنا کرتے ہوئے غیر معمولی حوصلے کا مظاہرہ کیا۔ میں ان کے والدین اور اساتذہ کو سلام کرتاہوں ، جنہوں نے ان بچوں کو حوصلہ منداور بہادر بننے کی ترغیب دی۔ والدین اور استاد کا مقام ہماری زندگی میں اہم ہوتا ہے۔
میں یہ مانتا ہوں کہ یہ کتاب ملک کے دیگر بچے پڑھیں گے تو انہیں بھی سماج کے لئے کچھ کرنے کی ترغیب ملے گی۔آج ہمیں ایسے بہادر بچوں پر فخر ہے۔
آج ہمارے سماج کے لئے بہت ضروری ہے کہ بچوں کو ملک کا ایک ذمہ دار شہری بننے کے لئے بچپن سے ہی تعلیم دی جائے۔سماجی پیغامات کی اشاعت اور سماجی برائیوں کے خاتمے کے لئے بچے ہی صحیح پیامبر ہوتے ہیں۔ ملک میں بچوں کے لئے محفوظ ماحول تیار کرنے کے سلسلے میں یہ اہم ہے کہ سماج کی ذہنیت میں تبدیلی لائی جائے۔ بچوں کے تئیں بڑھتے ہوئے جرائم تشویش کا موضوع ہے۔
اس موقع پر میں والدین سے بھی کہنا چاہوں گا کہ وہ بچوں میں سستی، بدنظمی اور بڑھتے تشدد وغیرہ کی ذمہ داری عام طورپر اسکول یا سماجی ماحول یا صحت پر ڈال دیتے ہیں۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ ان میں سے زیادہ تر برائیوں کے لئے خاندانی ماحول بھی اتنا ہی ذمہ دار ہوتا ہے۔ حال ہی میں اسکولوں میں پیش آئے تشدد کے واقعات کو پیش نظر رکھتے ہوئے اور بچوں میں بڑھتی ہوئی جارحیت کی جانب بھی توجہ دلانا چاہوں گا۔ والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں میں خود بھی معقول فیصلے کرنے کی صلاحیت کو فروغ دیں۔ اس کے لئے یہ ضروری ہے کہ بچوں اور والدین کے درمیان بات چیت کا ایک کھلا ماحول ہونا چاہئے۔
اگر خاندان اور والدین شروع سے ہی بچے کی سرگرمیوں پر توجہ دیں اور بچوں کی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے میں اپنا پورا تعاون دیں تو یقیناً ہی بچے مہذب ، بے خوف ، خود کفیل بنیں گے اور وہ نئے صحت مند معاشرے کے معمار ثابت ہوں گے۔مستقبل کے سماج کی تعمیر انہی بچوں کو کرنی ہے۔ یہ بچے ہی کل کے ملک کا مستقبل ہوں گے۔
اس موقع پر میں ہر اہل وطن سے یہ اپیل کرنا چاہتاہوں کہ وہ بچوں کے لئے ایک رول ماڈل بنیں اور ان پر فخر کریں۔ میں ایوارڈ جیتنے والے سبھی بچوں ، ان کے والدین اور ان کے اساتذہ کو مبارکباد دیتا ہوں اور امید کرتا ہوں کے اس کتاب میں جمع کی گئی کہانیوں کی بڑے پیمانے پر نشرو اشاعت کی جائے گی، تاکہ اس میں جو پیغام مضمر ہیں وہ سبھی اہل وطن تک پہنچے۔
ایسے بہادر بچوں کے لئے ملک جو بھی کرے ، کم ہے۔ مجھے یہ جان کر خوشی ہے کہ انڈین کونسل فار چائلڈ ویلفئر ان ہونہار بچوں کو اسکولی تعلیم ختم کرنے تک مالی امداد دیتی ہے اور اندرا گاندھی اسکالر شپ اسکیم کے تحت پیشہ وارانہ تعلیم حاصل کرنے کے لئے بھی انہیں اسکالر شپ دستیاب کراتی ہے۔ اس تعاون سے ان بچوں کا مستقبل یقینی بن سکے گا۔ میرا ماننا ہے کہ ان بچوں کو آفات بندوبست ، سول ڈیفنس ، قومی سروس اسکیم(این ایس ایس) اور این سی سی کے تحت بھی تربیت دی جانی چاہئے۔
سیکولرزم بھارت کے لوگوں کے خمیر (ڈی این اے) میں ہے اور اس کی یاد دلانے کی ضرورت نہیں ہے۔
آخر میں ان بہادر بچوں کے روشن مستقبل کے لئے نیک خواہشات پیش کرتا ہوں اور جناب سنجیو گپتا جی کو ان کی قابل ستائش کوشش کے لئے مبارکباد دیتاہوں۔