نئی دہلی، صدرجمہوریہ ہند جناب رام ناتھ کووند نے آج نئی دہلی میں خوراک کو ڈبہ بند کرنے والوں کی کُل ہند انجمن کی پلاٹینم جوبلی کانفرنس کا افتتاح کیا۔
اس موقع پر تقریر کرتے ہوئے صدر جمہوریہ نے کہا کہ خوراک کو ڈبہ بند کرنے والوں کی کُل ہند انجمن نے اپنے مقاصد کے حصول کے لئے برسوں تک سخت محنت کی ہے۔ اس انجمن نے خوراک کی ڈبہ بندی کے چھوٹے اور بڑے یونٹوں کو ایک مشترکہ پلیٹ فارم پر یکجا کردیا ہے۔ اس نے تمام متعلقہ فریقوں کی کوششوں میں رابطہ پیدا کرکے ایک مربوط فوڈ چین قائم کی ہے اور قومی فلاح وبہبود میں بڑا تعاون کیا ہے۔
صدرجمہوریہ نے کہا کہ ہمارے کسانوں کی بے لوث خدمات ، زراعت اور زرعی اشیاء کی ڈبہ بندی کی صنعت میں تکنیکی جدید کاری کی سخت محنت کا یہ نتیجہ ہے کہ آج بھارت میں خوراک کی کوئی کمی نہیں ہے۔ جب بھی زرعی اشیاء اور یہاں تک کہ ڈبہ بند خوراک کی بات آتی ہے ہمارے پاس سبھی میں اضافی ذخائر موجود ہیں۔ ہماری عالمی منڈی میں حصہ داری بڑھتی جارہی ہے۔ اب وہ وقت آگیا ہے کہ ہم اپنی خواہشات میں اضافہ کرتے ہوئے اپنے اقتصادی فوائد لیکن اپنے کسانوں کی خوشحالی کو زیادہ ترجیح دیتے ہوئے کام کریں۔
صدرجمہوریہ نے کہا کہ ہمیں کھیت سے کھانے کی میز تک کی ویلیو چین میں موجود خلیج کو پورا کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کسانوں کو اپنی فصل کی جو قیمت ملتی ہے اور صارفین جو خوراک کے لئے قیمت ادا کرتے ہیں ، ملک میں اور بین الاقوامی سطح پر ، دونوں جگہ ، قیمتوں کا فرق بہت زیادہ ہے۔ اس لئے اس فرق کو کم کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سے مانگ اور سپلائی کی سکیورٹی کے ساتھ ساتھ کھیتی کو ایک پیشے کے طور پر اپنائے جانے میں پائیداری کو یقینی بنایا جاسکے گا۔ کسان کی خوشی کے بغیر اور کھیتوں میں پورے دن کام کرنے والے مزدوروں کو تحریک دلائے بغیر خوراک کی ڈبہ بندی کی صنعت ختم ہوسکتی ہے۔ کیونکہ اسے بنیادی اشیاء یعنی زرعی اشیاء دستیاب نہیں ہوں گی۔ اس لئے کسان صرف ایک سپلائر نہیں بلکہ یہ صنعت کا ایک ایسا ساجھیدار ہے جسے الگ نہیں کیا جاسکتا۔
ہندوستان میں خوراک کے زیاں کی شرح کی طرف اشارہ کرتے ہوئے صدر جمہوریہ نے کہا کہ خوراک کا زیاں صرف اقتصادی طور پر ہی نقصان دہ نہیں بلکہ یہ اخلاقی طور پر بھی درست نہیں ہے۔ ہمارا ملک آمدنی اور اسراف میں نا برابری والا ملک ہے، خوراک کے زیاں کو بہتر اور زیادہ معقول تقسیم کاری سے روکا جاسکتا ہے۔ یہ ہمیں اپنے عوام کے زیادہ بڑے طبقے کی خدمت میں مددگار ہوگا۔ فصل کٹنے کے بعد زیاں اور زیادہ توجہ طلب ہے۔ چند برس پہلے فصل کی کٹائی کے بعد انجینئرنگ اور ٹیکنالوجی کے مرکزی ادارے کے ذریعے جاری کردہ ایک رپورٹ میں تخمینہ پیش کیا گیا تھا کہ تقریبا ایک لاکھ کروڑ روپے کی خوردنی اشیاء ضائع ہوجاتی ہیں۔ یہ ایک بڑا نقصان ہے۔ ہمارے کسانوں کی اکثریت اپنی روزی روٹی کے لئے کھیتی کرتی ہے، ان کی پیداوار ، ان کے روزگار کا وسیلہ ہے ۔ اگر اس سے نقصان پہنچا یا ذخیرہ کرنے کی سہولیات کی کمی کی وجہ سے یہ برباد ہوا تو بے گناہ کسانوں کی روزی متاثر ہوگی ۔
صدرجمہوریہ نے کہا کہ خوراک کو ڈبہ بند کرنے والی صنعت کے لئے یہاں ایک بڑا رول ہے۔ یہ صنعت کسانوں اور دور دراز کی منڈیوں کے درمیان ایک پل کا کام انجام دے کر خوراک کی ایک ویلیو چین قائم کرسکتی ہے۔ صنعت خاص اشیاء کے لئے کسانوں کے ساتھ طویل مدتی کنٹریکٹ بھی کرسکتی ہے اور یہ کولڈ چین ، تیزی کے ساتھ نقل وحمل اور خوردنی اشیاء کے بندوبست اور ٹیکنالوجی کی شکل میں بنیادی ڈھانچے کے فروغ میں سرمایہ کاری کرسکتی ہے اور خوردنی اشیاء کو زیادہ عرصے تک محفوظ اور قابل استعمال بناسکتی ہے اور اس طرح یہ کسانوں کے لئے سود مند ثابت ہوسکتی ہے۔