17.9 C
Lucknow
Online Latest News Hindi News , Bollywood News

صدرجمہوریہ ہند نے جگر اور صفراوی کے انسٹی ٹیوٹ کے دسویں یوم تاسیس کے موقع پر خطاب کیا

Urdu News

نئی دہلی، صدرجمہوریہ ہند جناب رام ناتھ کووند نے آج نئی دہلی میں جگر اور صفراوی سائنسز کے ادارے کے دسویں یوم تاسیس اور تقسیم اسناد کی ساتویں تقریب میں شرکت کی اور اس موقع پر ادارے سے خطاب کیا۔

اس موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے صدرجمہوریہ نے کہا کہ ہندوستان میں ہمیں ایک سال تقریباً 2 لاکھ جگر  ٹرانسپلانٹ کی ضرورت ہے۔ جبکہ ہر سال کچھ ہزار ہی لیور ٹرانسپلانٹ کئے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا  سرکاری ہسپتالوں میں لیور ٹرانسپلانٹ کے پروگرام قائم کئے جانے کی ضرورت ہے جگر اور صفراوی سائنسز کاادارہ اس سلسلے میں ضروری مہارت فراہم کرسکتا ہے۔ لیکن شاید سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس جگر کے عطیہ کے لئے حوصلہ افزائی کی جائے اور اس بارے میں بیداری پھیلائی جائے۔صدرجمہوریہ نے کہا کہ زندگیوں کو بچانے کے لئے اعضاء کی ضرورت اور دستیابی کے درمیان ایک بڑا فرق ہے۔ جگر کے عطیہ کے بارے میں بیداری کی کمی کے نتیجے میں عطیہ دینے والوں کی کمی ہے۔انہوں نے ادارے سے اپیل کی کہ وہ ایک ایسا روڈ میپ تیار کریں جس میں جگر کے عطیہ کی حوصلہ افزائی کے طور طریقے تجویز کئے گئے ہوں۔تاکہ ایسے بنیادی ڈھانچے کو مضبوط کیا جاسکے جو جگر کے ٹرانسپلانٹ کی زیادہ تعداد کی ضرورت کو پوری کرسکے۔

صدرجمہوریہ نے کہا کہ جگر کی بیماریوں کے بڑھتے ہوئے واقعات ہماری غیر صحت مند طرز زندگی سے جڑے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت چار میں سے ایک ہندوستانی فیٹی جگر میں مبتلا ہے اور ہوسکتا ہے ان میں سے دس فیصد کو بہت زیادہ موٹاپے کی وجہ سے جگر کی بیماریاں ہوں ۔ انہوں نے کہا کہ یہ حالت  ذیا بیطس اور دل کی بیماری کے بڑھنے کی ایک علامت ہوسکتی ہے۔ذیا بیطس کی وجہ سے دیگر بیماریوں کے مقابلے جگر کی بیماری کے زیادہ واقعات ہوتے ہیں یہ جگر اور صفراوی سائنسز کے ادارے(آئی ایل بی ایس) جیسے اداروں پر ہے کہ وہ تحقیق کے کام کو آگے بڑھائیں جس سے ہماری طرز زندگی اور جگر کی بیماریوں کے درمیان تعلق کی وضاحت ہوسکے۔ اس تحقیق سے ہمیں طرز زندگی میں تبدیلی پر مبنی احتیاطی دیکھ بھال کے نظام کو فروغ دینے میں مدد ملے گی۔

Related posts

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More