18 C
Lucknow
Online Latest News Hindi News , Bollywood News

صدر جمہوریہ ہند نے چنڈی گڑھ میں خواتین کے ایم سی مہاجن ڈی اے وی کالج کی گولڈن جوبلی تقریبات سے خطاب کیا

Urdu News

نئی دہلی، صدر جمہوریہ ہند جناب رام ناتھ کووند نے چنڈی گڑھ میں 28 فروری 2018 کو خواتین کے ایم سی مہاجن ڈی اے وی کالج کی گولڈن جوبلی  تقریبات میں شرکت کی اور خطاب کیا۔




اس موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے صدر جمہوریہ ہند نے کہا کہ وہ خواتین کے ایم سی مہاجن ڈی اے وی کالج کی گولڈن جوبلی تقریبات میں شرکت کرتے ہوئے خوشی محسوس کررہے ہیں۔ عظیم سماجی مصلح سوامی دیانند سرسوتی اور بھارت کے سابق چیف جسٹس آنجہانی میہر چند مہاجن کے خیالات سے جذبہ پاکر یہ کالج خواتین کی تعلیم کے میدان میں اہم کردار ادا کررہا ہے۔ ایم سی ایم ڈی اے وی کالج نے پچھلی پانچ دہائیوں میں شمالی بھارت میں خواتین کی تعلیم میں زبردست تعاون دیا ہے۔ صدر جمہوریہ نے امید ظاہر کی کہ یہ کالج خطے میں مثالی کردار ادا کرتا رہے گا اور آنے والے پچاس سال میں مزید مقبولیت اختیار کرے گا۔

صدر جمہوریہ نے چنڈی گڑھ کو، آزاد بھارت کے پہلے منصوبہ بند شہر کے طور پر خراج عقیدت پیش کیا۔ انھوں نے کہا کہ یہ ہمارے ملک کی ٹاؤن پلاننگ کے لئے ایک مثال پیش کرتا ہے۔ یہ ’’شہر ہرے بھرے بھارت، سوچھ بھارت اور سوستھ بھارت‘‘ کی علامت ہے۔ انھوں نے اس تعاون کے لئے چنڈی گڑھ کے شہریوں اور منتظمین کو مبارک باد دی۔

صدر جمہوریہ ہند کے خطاب کا متن:




  1. ایم سی ایم – ڈی اے وی خواتین کالج کی گولڈن جوبلی تقریبات کے پروگرام میں آکر مجھے انتہائی خوشی ہوئی ہے۔ عظیم سماجی مصلح سوامی دیانند سرسوتی کے جذبے اور سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس آنجہانی میہر چند مہاجن کے تعاون سے قائم یہ کالج، بیٹیوں کی تعلیم کے میدان میں اہم کردار ادا کررہا ہے۔ آج کا دن اس کالج کی بانی صدر محترمہ شکنتلا رائے اور محترمہ اسنیہ مہاجن کی خدمات کو بھی یاد کرنے کا دن ہے۔ اس موقع پر میں کالج کی منتظمہ کمیٹی، پرنسپل، اساتذہ حضرات، عملہ کے ارکان، سابق اساتذہ کے ساتھ ساتھ موجودہ اور ماضی کے طلبہ کو بھی مبارک باد دیتا ہوں۔
  2. بھارت کے صدر جمہوریہ کے طور پر میں ذمے داری سنبھالنے کے بعد لی کربوزیئر کے ذریعہ ڈیزائن کئے گئے اس شہر کا میرا یہ پہلا سفر ہے۔ چنڈی گڑھ، آزاد بھارت کا پہلا منصوبہ بند شہر ہے۔ ٹاؤن پلاننگ کے معاملے میں چنڈی گڑھ ایک مثال پیش کرتا ہے۔ یہ ’’سرسبز بھارت، سوچھ بھارت اور سوستھ بھارت‘‘ کی مثال ہے۔ اس کی موجودہ شکل میں یہاں کے شہریوں کا گراں قدر تعاون ہے۔ یہاں کے بیدار شہریوں اور منتظمین کے تعاون کے لئے میں انھیں مبارک باد دیتا ہوں۔
  3. اس شہر نے ری سائیکلنگ کے میدان میں قابل ذکر پہل کی ہے، جس کی مثال ہے ’نیک چند کا راک گارڈن‘۔ اس کے پیچھے اس شہر کے منصوبہ سازوں کی دوراندیشی کا تعاون ہے۔ شروعات سے ہی یہاں ری سائیکلنگ، ری یوز، ری جوینیشن پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔ شہر میں پیدا ہونے والے کچرے کا، بچی کھچی چیزوں کا، صنعتی کچرے کا اور قابل تجدید توانائی کا استعمال کرنے میں بھی چنڈی گڑھ نے پہل کی ہے۔
  4. یہ کالج ’دیانند اینگلو ویدک‘ تعلیمی اداروں میں سے ایک ہے۔ سوامی دیانند سرسوتی نے انیسویں صدی میں ہی یہ سمجھ لیا تھا کہ تعلیم اور سماجی اصاح، کسی سماج کو ترقی کے راستے پر لے جانے کا ایک مضبوط وسیلہ ہے۔ سماجی اصلاح کے لئے انھوں نے ’آریہ سماج‘ کا قیام کیا۔ آریہ سماج یعنی ’طرز عمل‘ سے ’خیال‘ سے عظیم شخصیتوں کا سماج۔ وہ خواتین کو بااختیار بنانے کو بہت اہمیت دیتے تھے، اسی لئے انھوں نے بیٹیوں کی تعلیم کے لئے ’لڑکیوں کے کالجوں‘ کا قیام کیا۔ یہی کالج آگے چل کر ڈی اے وی تعلیمی اداروں کی بنیاد بنے


    ۔ ڈی اے وی کے تعلیمی طریقے میں وراثت اور جدت کا علم اور سائنس کا، انگریزی اور ہندی کا، بھارت کی علمی روایت اور مغربی سائنسی زاویے کا عجیب و غریب مرکب ہے۔ اسی تعلیمی نظام نے سابق وزیراعظم اور بھارت رتن جناب اٹل بہاری واجپئی جیسی شخصیت ملک کو دی ہے۔ میں نے بھی کانپور کے ڈی اے وی کالج سے تعلیم حاصل کی ہے۔

خواتین و حضرات!

  1. کسی سماج کی ترقی صحیح معنوں میں تبھی ہوتی ہے جب اس سماج کی خواتین بااختیار اور تعلیم یافتہ ہوں۔ ایک تعلیم یافتہ بیٹی کم سے کم دو پریواروں کو تعلیم کی اہمیت سے واقف کراتی ہے۔ وہ اپنے پریوار کے مستقبل کی بہتر دیکھ بھال کرتی ہے اور آنے والی نسل کو بھی تعلیم  یافتہ بناتی ہے۔
  2. چاہے ثقافتی فن یا کھیل کود کا میدان ہو یا پھر تجارت اور صنعت کا۔ ہماری بیٹیوں نے ملک کا نام ہر شعبے میں روشن کیا ہے۔ اسی سلسلے میں، چنڈی گڑھ کی موجودہ ممبر پارلیمنٹ محترمہ کرن کھیر نے بھی سنیما کی دنیا میں اپنی خاص پہچان بنائی ہے۔
  3. اپنے اپنے شعبوں میں ترجیحی کام کرنے والی چنڈی گڑھ کی بیٹیوں کے ناموں کی ایک لمبی فہرست ہے، لیکن اگر مجھے صرف ایک نام لینا ہو تو میں نیرجا بھنوٹ کا نام لینا چاہوں گا۔ 1986 میں اپنی بہادری سے دہشت گردوں کے منصوبوں کو ناکام کرتے ہوئے نیرجا نے 359 ہوائی مسافروں کی جانیں بچائیں۔ اپنی جان دے کر دوسروں کی جان بچانے والی ایسی بہادر بیٹی پر چنڈی گڑھ کو ہی نہیں، پورے دیش کو ناز ہے۔
  4. پڑھ لکھ کر بیٹیاں، آج نوکریوں میں اپنے ہنر کا استعمال کررہی ہیں، حالانکہ منظم سیکٹر میں ان کا فیصد کم ہے۔ یہ وقت ٹیکنالوجی کا، آرٹیفیشل انٹلیجنس کا اور سروس سیکٹر کا وقت ہے۔ چنڈی گڑھ میں آئی ٹی اور ٹیکنالوجی کی ترقی  کے لئے ٹیکنالوجی پارک بنایا گیا ہے۔ آئی ٹی شعبے میں بیٹیوں کی تعداد میں گزشتہ برسوں میں کافی اضافہ ہوا ہے۔ اسی طرح اعلیٰ تعلیم میں بچیوں کی نامزدگی 16-2015 میں تقریباً 46 فیصد تک ہوگئی ہے، لیکن ٹیکنالوجی اور انجینئرنگ جیسے شعبوں میں ان کی فیصد ابھی بھی کم ہے۔ مجھے امید ہے کہ اس کالج جیسے اداروں اور سماج کی مشترکہ کوششوں سے ان شعبوں میں بھی ہماری بیٹیاں آگے بڑھیں گی۔

پیارے طلباء!




  1. یہ ضروری ہے کہ آپ سبھی طلباء ملک اور سماج کے تئیں اپنی ذمے داری کو سمجھیں۔ اپنی نجی اور کاروباری زندگی میں ہم آہنگی قائم کرتے ہوئے آگے بڑھیں۔ ایسی ہم آہنگی کے دم پر ہی ہم ایک ترقی یافتہ ملک بن سکتے ہیں۔ اس لئے، ہر کالج کے ہر طالب علم کی یہ کوشش ہونی چاہئے کہ اس کے علم کا استعمال ملک کے لئے ہو اور سماج کے غریب سے غریب شخص کی بہتری کے لئے ہو۔

خواتین و حضرات!

  1. مردوں کی برتری والے سماج میں خواتین کو زندگی بھر، ہر قدم پر رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس حالت سے باہر کیسے نکلا جائے؟ میری سمجھ سے، اگر والدین اور اہل خانہ بیٹیوں کو کھلے میں جینے کی آزادی دیں گے، ان کو نظریاتی اور سماجی آزادی دیں گے، ان کو نئے نئے شعبوں کا تجربہ حاصل کرنے کے لئے حوصلہ افزائی کریں گے، تو بیٹیوں کی خوداعتمادی بڑھے گی۔ وہ نئی بلندیوں پر پہنچیں گی۔ ابھی گزشتہ ہفتے فلائنگ آفیسر اونی چترویدی نے اکیلے ہی فائٹر جہاز اڑاکر  بھارت کی تاریخ میں اپنا نام درج کرایا ہے۔ ہریانہ کی فوگاٹ بہنوں نے بھی یہی دکھایا ہے کہ کوئی بھی شعبہ بیٹیوں کے لئے ’تابو‘ نہیں ہوتا۔ پی وی سندھو، ثانیہ مرزا، سائنا نہوال اور ارونا ریڈی کے والدین نے اگر انھیں آزادی نہ دی ہوتی اور ان کی حوصلہ افزائی نہ کی ہوتی تو وہ ملک کے لئے بڑی کامیابی کیسے حاصل کرتیں؟
  2. خواتین پر اہل خانہ کی ذمے داریاں بھی خوب ہوتی ہیں، لیکن یہ ذمے داریاں ان کے راستے کی رکاوٹ نہیں بننی چاہئیں۔ ایسی مثال منی پور کی ایم سی میریکام نے پیش کیا۔ انھوں نے عائلی زندگی میں داخل ہونے کے بعد بھی باکسنگ کے کھیل میں شال ہونا اور جیتنا بند نہیں کیا۔ وہ ہر بھارتی خاتون کے لئے تحریک کا وسیلہ ہیں۔
  3. ایم سی ایم کالج نے ان پانچ دہائیوں میں شمالی بھارت میں خواتین کی تعلیم میں اچھی شراکت داری پیش کی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اس شعبے کے ایک مثالی کالج کی شکل میں یہ آگے بھی کام کرتا رہے گا۔ امید ہے کہ آنے والے 50 برسوں کے بعد جب اس کالج کی صدی تقریبات منائی جائیں گی تو کالج کا نام بھارت کے تعلیمی نقشے پر متاثرکن طور پر درج ہوگا۔ خواتین کی ایم سی ایم- ڈی اے وی کالج نت نئی بلندیاں حاصل کرے، اس کے لئے میں آپ سبھی کو نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔

Related posts

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More