19.9 C
Lucknow
Online Latest News Hindi News , Bollywood News

صد ر جمہوریہ ہند کا مدھیہ پردیش میں سدگرو کبیر مہوتسو سے خطاب

President of India in Madhya Pradesh; addresses Sadguru Kabir Mahotsav
Urdu News

گزشتہ کئی دہائیوں سے میں مسلسل  مدھیہ پردیش  کے رابطہمیں رہا ہوں۔  اسی لئے  مدھیہ پردیش  میرے لئے نیا نہیں ہے۔ لیکن صدر جمہوریہ  کے طور پر میں  یہ  میرا  پہلا  مدھیہ پردیش کا دورہ ہے۔  آج اس  مہوتسو  میں آنے پر مجھے   مدھیہ پردیش  کے عوام  کی ہمدردہ پانے کے ساتھ ساتھ   سنت کبیر کا  آشیرواد بھی مل رہا ہے۔

مدھیہ پردیش  حکومت نے اس تقریب کا انعقاد کرکے   سنت کبیر کے ساتھ ساتھ سماج کے سبھی کمزور  ،  دلت  ، محروم اور پسماندہ طبقات کے تئیں    ا حترام کا اظہار کیا ہے۔   آ ج ہم سب    مشترکہ تعاون کے ساتھ آگے بڑھ  رہے ہیں۔

 مجھے خوشی ہے کہ  وزیراعلی شیوراج سنگھ چوہان کی زیر قیادت  ریاستی حکومت     ہمہ گیر ترقی کے  تئیں مصروف عمل ہے۔ ہمہ گیر ترقی کے ذریعہ سب کو یکسانیت کی بنیاد پر  آگے بڑھنے کا موقع ملتا ہے اور یہی یکسانیت اور مساوات سنت کبیر کی زندگی کا  اہم پیغام ہے۔

 مدھیہ پردیش   کو بھارت کا دل سمجھا جاتا ہے۔   راجہ بھوج کے ذریعہ قائم  بھوپال شہر میں ہر سال بڑے پیمانے پر   منائی جانے والی اس تقریب میں  بڑی تعداد میں سنت کبیر کے عقیدت مندوں  اور  مداحوں کو   دیکھ کر  میں  پرجوش ہوں۔

 مدھیہ پردیش کے جس بھی  حصہ کی جانب آپ دیکھتے ہیں  ،  اس کی  ایک الگ ہی کہانی ملتی ہے  ۔ سمراٹ اشوک کے ذریعہ  بنایا گیا    سانچی ستوپ   اور امرکنٹک میں   نرمدا کے کنارے بنا     پہلا جینت  تیرتھرکر کرشی دیو  جی کا مندر   بودھ اور جین دھرم کے گہرے    اثرات کا نتیجہ ہے۔    اونکریشور کے   کےمشہور گرودوارے کے ساتھ    یہ  چیز جڑی ہوئی ہے کہ    اپنےجنوب  کے دورے کے دوران    گروونانک دیو جی یہاں رکے تھے  ۔ اجین کا مہاکنبھ   عالمی شہر ت یافتہ ہے۔      رام کتھا روایت  میں  پربھو رام کی   چترکوٹ کی بہت اہمیت ہے۔

عظیم  شاعر کالی داس   اور سنت اور سمراٹ بھرتی ہری   جنہیں ہم   بھرتھری کے نام سے بھی جانتے ہیں  ، مدھیہ پردیش کے  انمول ہیں۔ رانی درگا وتی کی بہادری سے لے کر    اہیلیا بائی   ہولکر کی کہانیاں پورے بھارت کے لوگوں  کو چھوتی ہیں۔

مجھے  بندیل کھنڈ کی رانی جھلکاری بائی کو گلہائے عقیدت پیش کرنے کا موقع مل رہا ہے۔   سنگیت  سمراٹ تان سین سے لے کر    عظیم گلوکارہ   لتا منگیشکر تک   عظیم سنگیت کی دھارا بہانے والی ہستیاں   اسی   سرزمین کی پیداوار ہیں۔   مدھیہ پردیش کی  زمین نے  متعدد رتن پیدا کئے ہیں۔ لیکن میں نے کچھ ہی  ناموں کا تذکرہ کیا ہے۔

ہمارے آئین اور ہمارے   نئے سماج کے معمار    بابا صاحب بھیم  راؤ امبیڈکر مدھیہ پردیش کی اسی زمین پر پیدا ہوئے تھے۔  مدھیہ پردیش کے سپوت   ، ملک کے سابق صدر جمہوریہ  ڈاکٹر شنکر دیال شرما نے پورے  ملک کی ترقی کے لئے     اپنی اہم ترین خدمات پیش کی تھیں۔   مدھیہ پردیش کی زمین نے ہی    ملک کو   ‘‘بھارت رتن’’ اٹل بہاری واجپئی جیسا  وزیراعظم دیاہے۔

میں آج چترکوٹ میں     نانا جی دیش مکھ  کی عظیم خدمات کا   خصوصی طور پر تذکرہ کرنا چاہتا ہوں ۔ وہاں غریبو ں کے لئے بڑے پیمانے پر کام ہورہا ہے۔ وہاں کی چھوٹی گھریلو صنعتوں کافائدہ   لاکھوں لوگوں تک پہنچتا ہے۔    دہلی میں  آج صبح میں  نے ایک پروگرام میں حصہ لیا ۔ ہمارے ملک میں  بہت سے لوگوں کو بیماری کی وجہ سے     اعضا کی پیوند کاری کی ضرورت ہوتی ہے    لیکن  بہتر علاج کے لئے   ضروری اعضا نہ مل پانے کے سبب انہیں    تکلیف جھیلنی پڑتی ہے اور کبھی کبھی زندگی سے بھی ہاتھ دھونا پڑتا ہے۔    انسانیت سے محبت کرنے   کے  سنت کبیر کے آدرشوں پر چلتے ہوئے ہمارےملک  کے باشندے اپنے جسمانی اعضا    جیسے دل ، گردہ  ،   وغیرہ کا عطیہ کرسکتے ہیں اور اس    جذبہ کی تشہیر کرسکتے ہیں اس سے متعدد لوگوں کی زندگی بہتر ہوسکتی ہے اور    مختلف لوگوں کو  نئی زندگی  مل سکتی ہے۔   نانا جی دیش مکھ نے  اپنی موت کے بعد   اعضا کے  عطیہ کا فیصلہ کرکے   ایک زبردست مثال پیش کی ہے۔    میں سنت کبیر  کے اس مہوتسو میں   ملک کے باشندوں سے    انسانی محبت پر مبنی   اعضا کے عطیہ کی اپیل کرتا ہوں۔

 مدھیہ پردیش نے  معاشی ترقی کے شعبے میں    متعدد کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ آج ملک میں  مدھیہ پردیش کی کامیابی پر  متعد د مطالعات   کا اہتمام کیا جارہا ہے   اور دیگر ریاستوں میں   یہاں کے منصوبوں سے    سیکھا جارہا ہے۔   پچھلی ایک دہائی کے دوران  مدھیہ پردیش کا ڈی جی پی ایک لاکھ کروڑ روپے سے بڑھ کر پانچ لاکھ کروڑ روپے تک پہنچ گیا ہے۔      لیکن یہ کامیابی   اس لئے زیادہ قابل ستائش ہے کہ   یہ   ہمہ گیر ترقی    اور حساس سوچ پر  مبنی ہے۔  اس سلسلہ میں میں خاص طو رپر     لاڈلی لکشمی یوجنا   کا ذکر کرنا چاہوں گا جس کے ذریعہ  بیٹیوں کے تئیں سماج کے نظریہ   میں تبدیلی آئی ہے    اور جس کے ذریعہ  پورے ملک کے سامنے ایک مثال پیش کی جارہی ہے۔   وزیراعلی شیو راج  سنگھ کی قیادت میں ہوئے کاموں سے زراعت اور دیہی علاقوں میں قابل ذکر ترقی ہوئی ہے اور کسانوں  کو بہت زیادہ فائدہ ہوا ہے۔  قطار میں کھڑے آخری شخص کو  عزت اور اہمیت دینے     کے سنت کبیر کے درس کو لے کر   مدھی پردیش حکومت  آگے بڑھ رہی ہے۔

مدھیہ پردیش انتظامیہ کو  میں اس پہل کیلئے مبارکباد دینا چاہتا ہوں کہ ہندوستانی شاعری کیلئے ہر سال ایک شاعر کو قومی کبیر اعزاز سے نوازا جاتا ہے۔ یہ اعزاز سنت کبیر کی مفکرانہ روایت کو آگے بڑھانے اور والے شاعروں کو حوصلہ بخشتا ہے۔ میں آج انعام پانے والے چاروں شاعروں کو مبارکباد دیتا ہوں اور ان کے تعاون اور خدمات کی سراہنا کرتا ہوں۔

ایک جولاہے کے کنبے میں پلے بڑھے سنت کبیر نے نا انصافی  ، دکھاوے سے پاک، برابری اور سادگی پر مبنی سماج کا تانا بانا بُنا۔ سَد گروکبیر جتنے بڑے سنت تھے، اس سے بھی بڑے سماجی مصلح تھے۔ سنت کی شکل میں کبیر صاحب کا قد کتنا اونچا تھا، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ گرو نانک دیو جی اپنے اقوال میں سنت کبیر کی بانی کا ذکر کیا کرتے تھے۔ سکھ فرقے کیلئے  انتہائی مقدس گروگرنتھ صاحب میں سنت کبیر کی وانی بہت بڑی تعداد میں یکجا کی گئی ہے۔

سنت کبیر کا مدھیہ پردیش سے گہرا رشتہ رہا ہے۔ باندھو گڑھ میں سنت کبیر نے طویل عرصے تک قیام  کیاتھا۔ کبیر پنتھ کی ابتدا ان کے محبوب شاگرد دھرم داس جی نے باندھو گڑھ سے ہی کی تھی۔ باندھو گڑھ کی کبیر گپھا ایک تیرتھ مقام ہے ۔ سنت کبیر کو ماننے والے بھکتوں کے آشرم ساگر، داتیا اور دیگر مقامات پر ہیں، جو کہ کبیر درشن کے اہم مرکز ہیں۔

یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوتی ہے کہ سنت کبیر کا مدھیہ پردیش سے ایک گہرا زندگی بھر کا رشتہ تھا۔ مدھیہ پردیش میں کبیر گانے کی روایت میں متعدد بڑے گلوکار اور حلقے ہیں، جن میں سے کئی آج یہاں موجود ہیں ۔ انہیں گلوکاروں کی وجہ سے کبیر وانی آج قومی موسیقی کے سلسلے کا اہم حصہ ہے۔ آنجہانی کمار گندھرو جی نے دیواس میں رہ کر برسوں موسیقی کا ریاض کیا اور سنت کبیر کے بھجنوں کو اپنے طریقے سے گایا۔

عظیم مفکر ہونے کے ساتھ ساتھ سنت کبیر ایک  بیباک سماجی مصلح تھے۔ سماج میں پھیلی برائیوں، آپسی بھیدبھاؤ، عدم مساوات، دکھاوے ، بے مقصد اہنکار، ان سب پر سنت کبیر نے سخت تنقید کی اور سماج سے مٹادینے کا عزم کیا۔ انہوں نے مساوات اور ہم آہنگی کا جو راستہ ہمیں دکھایا ہے، وہی ہمارے سماج کو صحیح سمت میں لے جانے والا راستہ ہے۔ سنت کبیر کی تعلیم سماج کیلئے مشعل راہ ہے۔ ان کے مطابق سماج کی بھلائی سادگی اور نرمی میں ہے۔ انہوں نے سماج کو توہم پرستی سے آزاد کرانے کیلئے خود مثال پیش کی۔ ایسا کہا جاتا ہے کہ کاشی میں مرنے والے ہر شخص کو نجات ملتی ہے۔ سنت کبیر نے اس  عقیدے کو توڑنے کی ہمت دکھاتے ہوئے یہ فیصلہ کیا کہ وہ کاشی میں اپنی جان نہیں تیاگیں گے اور وہ کاشی چھوڑ کر مگہر چلے گئے تھے۔ سماج میں پیدا ہونے والی توہم پرستی کو اور ناانصافی کو ہمت کے ساتھ ختم کرنے کی کوشش کرنا ہی صحیح معنوں میں بے خوفی اور جدیدیت بھی ہے۔ سنت کبیر کی یہی خصوصیت بابا صاحب ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر کی زندگی اور خیالات میں دیکھنے کو ملتی ہے۔ اس طرح سنت کبیر کے اصولوں کا اثر ہندوستان کے آئین میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ ہمارے آئین میں موجود انصاف، آزادی اور بھائی چارے کی مثال ڈاکٹر امبیڈکر کے غوروفکر پر سنت کبیر کی روایت کے اثر کی مثال ہیں۔

سنت کبیر بہت گہرے معنوں میں کمزور لوگوں کے حامی تھے۔ ساتھ ہی وہ کمزوروں کی طاقت سے بھی واقف تھے۔ ان کا ماننا تھا کہ سماج میں طاقتورلوگ کمزور پر ظلم نہ کریں، کیونکہ یہ سماج کے حق میں نہیں ہے۔ اس لئے انہوں نے کہا ہے کہ

نِربل کو نہ ستائیے، جاکی موٹی ہائے

موئی کھال کی سانس سو، لوح بھسم ہوئی جائے

مدھیہ پردیش کی موجودہ سرکار اسی سوچ کے ساتھ مدھیہ پردیش کی ترقی کر رہی ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ مدھیہ پردیش کی عوام اور سرکار مل جُل کر سد گرو سنت کبیر کے اصولوں کے مطابق مدھیہ پردیش کی تعمیر میں لگی ہوئی ہے۔ یہ ترقی کا سفر لگاتار ترقی کی طرف گامزن رہے۔  یہی میری دلی تمنا ہے۔

Related posts

Leave a Comment

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More