نئی دہلی، مرکزی وزیر ڈاکٹر جتیندر سنگھ نے آج یہاں کہا کہ کووڈ کے بعد کے دور میں ج کی ضرورت اس بات کی ہے کہ انفیکشن والی بیماریوں کے مطالعہ اور بندوبست پر ازسرنو توجہ مبذول کی جائے اور میڈیکل نصاب تعلیم کے لئے بھی یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے اندر اس کو جگہ دے۔
ڈاکٹر جتیندر سنگھ نیشنل میڈیکل ٹیچنگ انسٹی ٹیوٹس کے سربراہوں اور نمائندوں کی ایک ورچول کانفرنس سے خطاب کررہے تھے۔ ان اداروں میں آل انڈیا انسٹی آف میڈیکل سائنسیز (ایمس) نئی دہلی، پی جی آئی چنڈی گڑھ، ریجنل انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسیز (آر آئی ایم ایس) منی پور، نارتھ ایسٹرن اندرا گاندھی ریجنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ اینڈ میڈیکل سائنسیز (این ای آئی جی آر آئی ایچ ایم ایس) شیلانگ اور شیر کشمیر انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسیز، سری نگر شامل ہیں۔ جن لوگوں نے اس موقع پر اپنا پرزنٹیشن دیا ان میں پی جی آئی چنڈی گڑھ کے ڈاکٹر جگت رام، ایمس کے ڈاکٹر شکتی گپتا، این ای آئی جی آر آئی ایچ ایم ایس کے ڈاکٹر پی بھٹاچاریہ، آئی آر ایم ایس کے ڈاکٹر اے شانتا سنگھ، ایس کے آئی ایم ایس کے ڈاکٹر اے جی آہنگر اور جی ایم سی جموں کے ڈاکٹر نصیب چند ڈیگرا شامل ہیں۔
ڈاکٹر جتیندر سنگھ نے کہا کہ آزادی سے قبل اور آزادی کے فوراً بعد کے ادوار میں کلینکل ٹریننگ میں انفیکشن سے ہونے والی بیماریاں، ہندوستان میں میڈیکل تعلیم کا اہم جزو ہوا کرتی تھیں ۔ میڈیکل تعلیم میں اس چیز کو اس قدر اہمیت حاصل تھی کہ متعدد مغربی ممالک سے ڈاکٹروں کو ہندوستان میں تعینات کیا جاتا تھا، تاکہ وہ ٹروپیکل ڈیسیز میں اپنا انٹرنشپ کریں، کیونکہ بیماریاں وہاں مشکل سے ہی ہوتی تھیں۔ متعدد مغربی محققین ٹیوبرکلوسس، لیپروسی اور سیکسولی ٹرانسمیٹڈ ڈیسیز جیسی بیماریوں پر تحقیق کرنے کے لئے ہندوستان آئے۔
تاہم گزشتہ تین دہائیوں میں ہندوستان میں بیماریوں سے متعلق منظرنامہ غیرمتعدی امراض کی طرف منتقل ہوگیا اور اس وجہ سے میڈیکل تعلیم میں ڈائبٹیز میلیٹس، کورونیری امراض قلب جیسی میٹابولک اور ویسولر امراض پر زیادہ توجہ دی جانے لگی، جبکہ انفیکشن والی بیماریاں اعلیٰ قسم کی اینٹی- مائیکروبیل ڈرگ کی ایجاد کے سبب پس پشت چلی گئیں۔ ڈاکٹر جتیندر سنگھ نے کہا کہ تاہم کووڈ نے اچانک پوری دنیا بالخصوص طبی برادری کو جگا دیا ہے کہ وہ اس بات کو محسوس کریں کہ انفیکشن والی بیماریوں کا دور ابھی ختم نہیں ہوا ہے۔
ڈاکٹر جتیندر سنگھ نے کہا کہ ہندوستان کی طبی برادری کو اپنے مغربی ہم منصبوں پر اس معنی میں ایک گونا برتری حاصل ہے، کیونکہ یہاں میڈیسن کی پریکٹس فطری طور پر ایسے پریسکرپشن کی طرف مائل ہوگئی جو کہ صفائی ستھرائی اور ایک دوسرے سے ہونے والے انفیکشن کی روک تھام پر مبنی تھی۔ لہٰذا انھوں نے کہا کہ کووڈ کے پس منظر میں بھی ہندوستان کی طبی برادری نے طبی بندوبست کی نئی معمولات کی طرف خود کو تیزی کے ساتھ موڑ لیا۔
ڈاکٹر جتیندر سنگھ نے کہا کہ ہندوستان کے پیشرو اکیڈمک اداروں کے اوپر یہ ذمے داری ہے کہ وہ طبی نصاب کے مخصوص پہلوؤں پر ازسرنو زور دیں، کیونکہ یہ وہ ادارے ہیں جنھیں ملک بھر کے 400 سے زیادہ میڈیکل کالجوں کے اساتذہ کو ٹریننگ دینے کا امتیاز حاصل ہے۔ ہم کورونا وائرس کے اوپر قابو پاسکتے ہیں، لیکن یہ آخری وائرس ہو جس سے ہمیں نبردآزما ہونا ہے، یہ ضروری نہیں۔
ڈاکٹر جتیندر سنگھ نے کہا کہ ایمس، نئی دہلی اور پی جی آئی چنڈی گڑھ نے ہمیشہ قائدانہ رول ادا کیا ہے اور انھوں نے امید ظاہر کی کہ میڈیکل کی تعلیم اور میڈیکل بندوبست کے معاملے میں نئے معمولات سے متعلق نئے پروٹوکول بھی ان اداروں سے ابھرکر سامنے آئیں گے۔