نئی دہلی۔ میرے پیارے ہم وطنو، نمسکار! اس بار، جب میں،‘من کی بات’ کے لیے، جو بھی خطوط آتے ہیں،تبصرے آتے ہیں، مختلف قسم کی جانکاری ملتی ہیں، جب انکی طرف نظر دوڑا رہا تھا، تو کئی لوگوں نے ایک بہت ہی اہم بات یاد کی۔مائی گو پر آرین شری، بینگلورو سے انوپ راؤ، نوئیڈا سے دیویش، تھانے سے سجیت، ان سبھی نے کہا – مودی جی اس بار ‘من کی بات’ کی 75ویں ہے، اسکے لیے آپ کو مبارکباد ۔ میں آپ کا بہت بہت شکریہ ادا کرتا ہوں، کہ آپ نے اتنی باریک بینی سے ‘من کی بات’ کو سنتے رہے ہیں اور آپ جڑے رہے ہیں۔ یہ میرے لیے بہت ہی فخر کا باعث ہے، خوشی کا باعث ہے۔ میری طرف سے بھی، آپ سبھی کو مبارکباد، ‘من کی بات’ کے سبھی سامعین کا شکر گزار ہوں ، کیونکہ آپ کے ساتھ کے بغیر یہ سفر ممکن ہی نہیں تھا۔ ایسا لگتا ہے، جیسے یہ کل کی ہی بات ہو، جب ہم سبھی نے ایک ساتھ مل کر یہ فکری سفر کا آغاز کیا تھا۔ تب 3 اکتوبر، 2014 کو وجے دشمی کا مقدس تہوار تھا اور اتفاق دیکھیے، کہ آج، ہولیکا دہن ہے۔ ‘ایک دیپ سے جلے دوسرا اور ملک روشن ہو ہمارا’ – اس جذبے کے ساتھ چلتے چلتے ہم نے یہ راستہ طے کیا ہے۔ ہم لوگوں نے ملک کے کونے کونے سے لوگوں سے بات کی اور ان کے غیر معمولی کارناموں کے بارے میں جانا۔ آپ نے بھی مشاہدہ کیا ہوگا، ہمارے ملک کے دور دراز کے علاقوں میں بھی، کتنی بے مثال صلاحیت موجود ہے۔ بھارت ماں کی گود میں، کیسے کیسے رتن پل رہے ہیں۔ یہ اپنے آپ میں بھی ایک سماج کے تئیں دیکھنے کا، سماج کو جاننے کا، سماج کی صلاحیت کو پہچاننے کا، میرے لیے تو ایک انوکھا تجربہ رہا ہے۔ان 75 قسطوں کے دوران کتنے کتنے موضوعات سے گزرنا ہوا۔ کبھی ندی کی بات تو کبھی ہمالیہ کی چوٹیوں کی بات، تو کبھی ریگستان کی بات، کبھی قدرتی آفات کی بات، تو کبھی انسانی خدمات بے شمار کہانیوں کا احساس ، کبھی ٹکنالوجی کی ایجاد، تو کبھی کسی انجان گوشے میں، کچھ نیا کر کےدکھانے والے کسی کے تجربہ کی کہانی ۔ اب آپ دیکھیے، کیا صفائی کی بات ہو، چاہے ہماری وراثت کو سنبھالنے کا ذکر ہو، اور اتنا ہی نہیں، کھلونے بنانے کی بات ہو، کیا کچھ نہیں تھا۔ شاید، کتنے موضوعات پرہم نے بات کی ہے تو وہ بھی شاید بے شمار ہو جائیں گے۔ اس دوران ہم نے وقفے وقفے سے عظیم ہستیوں کو خراج عقیدت پیش کی، انکے بارے میں جانا، جنہوں نے ہندوستان کی تعمیر میں بے نظیر خدمات پیش کی ہیں۔ ہم لوگوں نے کئی عالمی امور پر بھی بات کی، ان سے تحریک لینے کی کوشش کی ہے۔ کئی باتیں آپ نے مجھے بتائی، کئی آئیڈیاز دیے،۔ ایک طرح سے، اس فکری سفر میں، آپ، ساتھ ساتھ چلتے رہے، جڑتے رہے اور کچھ نہ کچھ نیا جوڑتے بھی رہے۔ میں آج، اس 75ویں قسط کے موقع پر سب سے پہلے ‘من کی بات’ کو کامیاب بنانے کے لیے، خوشگوار بنانے کے لیے اور اس سے جڑے رہنے کے لیے ہر سامع کا بہت بہت شکر گزار ہوں،۔
میرے پیارے ہم وطنو، دیکھیے یہ کیسا حسن اتفاق ہے آج مجھے 75ویں ‘من کی بات’ کا موقع ملا اور یہی مہینہ آزادی کے 75 سال کے ‘امرت مہوتسو’کے آغاز کا مہینہ۔ امرت مہوتسو ڈانڈی یاترا کے دن سے شروع ہوا تھا اور 15 اگست 2023 تک چلےگا۔‘امرت مہوتسو’ سے منسلک پروگرام پورے ملک میں مسلسل ہو رہے ہیں، الگ الگ جگہوں سے ان پروگراموں کی تصویریں، جانکاریاں لوگ شیئر کر رہے ہیں۔نمو ایپ پر ایسی ہی کچھ تصویروں کے ساتھ ساتھ جھارکھنڈ کے نوین نے مجھے ایک پیغام بھیجا ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ انہوں نے ‘امرت مہوتسو’ کے پروگرام دیکھے اور طے کیا کہ وہ بھی جد وجہد آزادی سے جڑے کم سے کم 10 مقامات پر جائیں گے۔ ان کی فہرست میں پہلا نام، بھگوان برسا منڈا کے جائے پیدائش کا ہے۔ نوین نے لکھا ہے کہ جھارکھنڈ کے قبائلی مجاہدین آزادی کی کہانیاں وہ ملک کے دوسرے حصوں تک پہنچائیں گے۔ بھائی نوین، آپکی سوچ کے لیے میں آپ کو مبارکباد دیتا ہوں۔
ساتھیو، کسی مجاہدین آزادی کی جد و جہد کی داستان ہو، کسی جگہ کی تاریخ ہو، ملک کی کوئی ثقافتی کہانی ہو، ‘امرت مہوتسو’ کے دوران آپ اسے ملک کے سامنے لا سکتے ہیں، ہم وطنوں کو اس سے جوڑ نے کا وسیلہ بن سکتے ہیں۔آپ دیکھئے گا، دیکھتے ہی دیکھتے ‘امرت مہوتسو’ ایسے بہت سے قابل ترغیب امرت سے بھر جائے گا، اور پھر امرت کی ایسی دھارا بہے گی جو ہمیں ہندوستان کی آزادی کی سو سال تک ترغیب دے گی۔ ملک کو نئی بلندی پر لے جائے گی، کچھ نہ کچھ کرنے کا جذبہ پیدا کرے گی۔ آزادی کے لڑائی میں ہمارے مجاہدین نے کتنے ہی تکلیف اسلئے برداشت کیے ، کیونکہ، وہ ملک کے لیے قربانی کو اپنا فرض سمجھتے تھے۔ ان کی قربانی کی لازوال داستانیں اب ہمیں مسلسل فرائض کی ادائیگی کے لیے راغب کرے اور جیسے گیتا میں بھگوان کرشن نے کہا ہے –
نیتں کورو کرم توں کرم جیایو ہیکرمن:
اسی جذبے کے ساتھ، ہم سب، اپنے مقررہ فرائض کو پوری ایمانداری سے انجام دیں اور آزادی کا ‘امرت مہوتسو’ کا مطلب یہی ہے کہ ہم اپنے عزم کی تجدید کریں۔ ان عزائم کو ثابت کرنے کے لیے جی جان سے مصروف ہو جائیں اور عزم وہ ہو جو سماج کی بھلائی کاہو، دیش کی بھلائی کا ہو،ہندوستان کے روشن مستقبل کے لیے ہو، اور عزم وہ ہو، جس میں، میری ، اپنی، خود کی کچھ نہ کچھ ذمہ داری ہو، میرا اپنا فرض جڑا ہوا ہو۔ مجھے یقین ہے، گیتا کو جینے کا یہ سنہرا موقع ، ہم لوگوں کے پاس ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو، پچھلے سال یہ مارچ کا ہی مہینہ تھا، ملک نے پہلی بار جنتا کرفیو کا لفظ سنا تھا۔ لیکن اس عظیم ملک کے عظیم باشندوں کی عظیم قوت تجربہ دیکھیے، جنتا کرفیو پوری دنیا کے لیے حیران کن بن گیا تھا۔نظم و ضبط کی یہ غیر معمولی مثال تھی، آنے والی نسلیں اس ایک بات پر ضرور فخر کرے گی۔ اسی طرح ہمارے کو رونا واریئر کے احترام ،عزت ، تھالی بجانا، تالی بجانا، دیا جلانا۔ آپ کو اندازہ نہیں ہے کو رونا واریئر کے دل کو کتنا چھو گیا تھا وہ، اور، وہ ہی تو سبب ہے، جو پورےسال بھر،وہ ، بغیر تھکاوٹ محسوس کیے ، بغیر رکے، ڈٹے رہے۔ ملک کے ایک ایک شہری کی جان بچانے کے لیے جی جان سے مصروف عمل رہے۔ پچھلے سال اس وقت سوال تھا کہ کو رونا کی ویکسین کب تک آئے گی۔ ساتھیو، ہم سب کے لیے فخر کی بات ہے، کہ آج ہندوستان ، دنیا کا، سب سے بڑا ٹیکہ کاری پروگرام چلا رہا ہے۔ٹیکہ کاری پروگرام کی تصویروں کے بارے میں مجھے بھوونیشور کی پشپا شکلا جی نے لکھا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ گھر کے بڑے بزرگوں میں ویکسین کے بارے میں جو جوش نظر آ رہا ہے ، اس کا ذکر میں ‘من کی بات’ میں کروں۔ساتھیو درست بھی ہے، ملک کے گوشے گوشے سے، ہم، ایسی خبریں سن رہے ہیں، ایسی تصویریں دیکھ رہے ہیں جو ہمارے دل کو چھو جاتی ہیں۔ یوپی کے جونپور میں 109 برس کی بزرگ ماں، رام دو لیا جی نے ٹیکہ لگوایا ہے، ایسے ہی، دلی میں بھی، 107 سال کے، کیول کرشن جی نےٹیکہ کی خوراک لی ہے۔ حیدرآباد میں 100 سال کے جے چودھری جی نے ٹیکہ لگوائی اور سبھی سے اپیل بھی ہے کہ ٹیکہ ضرور لگوائیں۔ میں ٹوئٹر – فیس بک پر بھی یہ دیکھ رہا ہوں، کہ کیسے لوگ اپنے گھر کے بزرگوں کو ٹیکہ لگوانے کے بعد، انکی فوٹو اَپ لوڈ کر رہے ہیں۔ کیرالہ سے ایک نوجوان آنندن نائر نے تو اسے ایک نیا لفظ دیا ہے – ‘ویکسین سیوا’۔ ایسے ہی پیغامات دلی سے شیوانی، ہماچل سے ہمانشو اوردوسرے کئی نوجوانوں نے بھی بھیجے ہیں۔ میں آپ سبھی سامعین کی ان آراء کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں،۔ ان سب کےدرمیان ، کو رونا سے لڑائی کا منتر بھی ضرور یاد رکھیئے ‘دوائی بھی – کڑائی بھی’۔اور صرف مجھے بولنا ہے – ایسا نہیں ! ہمیں جینا بھی ہے، بولنا بھی ہے، بتانا بھی ہے اور لوگوں کو بھی، ‘دوائی بھی، کڑائی بھی’، اسکے لیے، عہد پر بھی قائم رہنا ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو، مجھے آج اندور کی رہنے والی سومیا جی کا شکریہ ادا کرنا ہے۔ انہوں نے، ایک موضوع کے بارے میں میری توجہ مبذول کرائی ہے اور اس کا ذکر ‘من کی بات’ میں کرنے کے لیے کہا ہے۔یہ موضوع ہے – بھارت کی کرکٹ کھلاڑی متالی راج جی کا نیا ریکارڈ ۔ متالی جی، حال ہی میں بین الاقوامی کرکٹ میں دس ہزار رن بنانے والی پہلی ہندوستانی خاتون کرکٹر بنی ہیں۔ انکی اس کامیابی پر بہت بہت مبارکباد۔ایک روزہ بین الاقوامی میچوں میں سات ہزار رن بنانے والی بھی وہ اکیلی بین الاقوامی خاتون کھلاڑی ہیں۔ خاتون کرکٹ کے شعبہ میں ان کی خدمات بہت شاندار ہے۔ دو دہائیوں سے زیادہ کے کیریر میں متالی راج جی نے ہزاروں لاکھوں کو تحریک دی ہے۔ ان کی سخت جانفشانی اور کامیابی کی کہانی، نہ صرف خواتین کرکٹروں، بلکہ، مرد کرکٹروں کے لیے بھی ایک ترغیب ہے۔
ساتھیو، یہ دلچسپ ہے، اسی مارچ کے مہینے میں، جب ہم یوم خواتین منا رہے تھے ، تب کئی خاتون کھلاڑیوں نے میڈل اور ریکارڈ اپنے نام کیے ہیں۔ دلی میں منعقدہ شوٹنگ میں آئی ایس ایس ایف ورلڈ کپ میں ہندوستان سرفہرست رہا۔ سونے کے تمغے کی تعداد کے معاملے میں ہندوستان بازی ماری۔ یہ ہندوستان کی خواتین اور مرد نشانہ بازوں کے شاندار کارکردگی کی وجہ سے ہی ممکن ہوا۔ اس درمیان پی وی سندھو جی نے بی ڈبلیو ایف سوئس اوپن سوپر 300 ٹورنامنٹ میں چاندی کا تمغہ جیتا ہے۔ آج،تعلیم سے لے کر کاروبار تک، مسلح افواج سے لے کرسائنس و ٹکنالوجی تک، ہر جگہ ملک کی بیٹیاں، اپنی، الگ شناخت بنا رہی ہیں۔ مجھے خاص طور پر اس بات سے خوشی ہے، کہ، بیٹیاں کھیلوں میں، اپنا ایک نیا مقام بنا رہی ہیں۔ پیشہ ورانہ انتخاب کی شکل میں اسپورٹس ایک پسند بن کر ابھر رہا ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو، کچھ عرصہ قبل ہوئی میری ٹائم انڈیا سمٹ آپ کو یاد ہے نا ؟ اس سمّٹ میں میں نے کیا کہا تھا، کیا یہ آپ کو یاد ہے ؟ قدرتی ہے، اتنے پروگرام ہوتے رہتے ہیں، اتنی باتیں ہوتی رہتی ہیں، ہر بات کہاں یاد رہتی ہیں اور اتنا دھیان بھی کہاں جاتا ہے – فطری عمل ہے۔ لیکن، مجھے اچھا لگا کہ میری ایک گزارش کو گرو پرساد جی نے بہت دلچسپی لے کر آگے بڑھایا ہے۔ میں نے اس سمٹ میں ملک کے لائٹ ہاؤس کمپلیکس کے آس پاس سیاحت کی سہولتیں فروغ دینے کے بارے میں بات کی تھی۔ گرو پرساد جی نے تمل ناڈو کے دو لائٹ ہاؤسوں چنئی لائٹ ہاؤس اور مہابلی پورام لائٹ ہاؤس کی 2019 کے اپنے سفر کے تجربات کو شیئر کیا ہے۔ انہوں نے بہت ہی دلچسپ حقائق شیئر کی ہیں جو ‘من کی بات’ سننے والوں کو بھی حیران کریں گی۔ جیسے، چنئی لائٹ ہاؤس دنیا کے ان چنندہ لائٹ ہاؤس میں سے ایک ہے، جس میں الیویٹر موجود ہے۔ یہی نہیں،ہندوستان کا یہ اکلوتا لائٹ ہاؤس ہے، جو شہر کے حدود کے اندر قائم ہے۔ اس میں، بجلی کے لیے شمسی پینل بھی لگے ہیں۔گرو پرساد جی نے لائٹ ہاؤس کےہیرٹیج میوزیم کے بارے میں بھی بات کی، جو میرین نیوی گیشن کی تاریخ کو سامنے لاتا ہے۔ میوزیم میں، تیل سے جلنے والی بڑی بڑی لائٹیں ، کیروسین لائٹ ، پٹرولیم ویپراور قدیم زمانے میں استعمال ہونے والے بجلی کے لیمپ کی نمائش کی گئی ہے۔ ہندوستان کے سب سے قدیم لائٹ ہاؤس مہا بلی پورم لائٹ ہاؤس کے بارے میں بھی گرو پرساد جی نے تفصیل سے لکھا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ اس لائٹ ہاؤس کے بغل میں سینکڑوں برس پہلے، پلو راجا مہیندر ورمن اول کے ذریعہ بنایا گیا ‘الکنیشورمندر’ ہے۔
ساتھیو، ‘من کی بات’ کے دوران، میں نے، سیاحت کے مختلف پہلوؤں پر متعدد بار بات کی ہے، لیکن، یہ لائٹ ہاؤس ٹورزم کے لحاظ سے انوکھے ہوتے ہیں۔ اپنی شاندار تعمیر کے سبب لائٹ ہاؤس ہمیشہ سے لوگوں کی توجہ کا مرکز رہے ہیں۔ سیاحت کو فروغ دینے کے لیے ہندوستان میں بھی71 لائٹ ہاؤس کی شناخت کی گئی ہے۔ ان سبھی لائٹ ہاؤسوں میں ان کی صلاحیت کے مطابق میوزیم، امپی تھیٹر، اوپن ایئر تھیٹر، کیفیٹریا، چلڈرن پارک، ماحول دوست جھونپڑیاں اور لینڈ اسکیپنگ تیار کیے جائیں گے۔ ویسے، لائٹ ہاؤس کی بات چل رہی ہے تو میں ایک انوکھے لائٹ ہاؤس کے بارے میں بھی آپ کو بتانا چاہوں گا۔ یہ لائٹ ہاؤس گجرات کے سریندر نگر ضلع میں جنجھوواڑا نام کے ایک مقام پر ہے۔ جانتے ہیں، یہ لائٹ ہاؤس کیوں خاص ہے ؟ خاص اسلئے ہے کیونکہ جہاں یہ لائٹ ہاؤس ہے، وہاں سے اب ساحل سمندر سو کلومیٹر سے بھی زیادہ دور ہے۔ آپ کو اس گاؤں میں ایسے پتھر بھی مل جائیں گے، جو یہ بتاتے ہیں کہ، یہاں، کبھی، ایک مصروف بندرگاہ رہا ہوگا۔ یعنی اسکا مطلب یہ ہے کہ پہلے ساحلی پٹی جنجھوواڑا تک تھی۔ سمندر کا گھٹنا، بڑھنا، پیچھے ہو جانا، اتنی دور چلے جانا، یہ بھی اس کی ایک شکل ہے۔ اسی مہینے جاپان میں آئی بھیانک سونامی کو 10 سال ہو رہے ہیں۔ اس سونامی میں ہزاروں لوگوں کی جانیں چلی گئی تھیں۔ ایسی ایک سونامی ہندوستان میں 2004 میں آئی تھی۔ سونامی کے دوران ہم نے اپنے لائٹ ہاؤس میں کام کرنے والے، اپنے،14 ملازمین کو کھو دیا تھا، انڈمان نکوبار اور تمل ناڈو میں لائٹ ہاؤس میں وہ اپنی ڈیوٹی کر رہے تھے۔ کڑی محنت کرنے والے،ہمارے ان لائٹ کیپرس کو میں بڑے احترام سے خراج عقیدت پیش کرتا ہوں، اور لائٹ کیپرس کے کام کی بہت بہت ستائش کرتا ہوں،۔
عزیرہم وطنو،زندگی کے ہر شعبے میں نیاپن ، جدت ضروری ہوتی ہے، ورنہ، وہی، کبھی کبھی، ہمارے لیے بوجھ بن جاتی ہے۔ہندوستان کی زرعی شعبہ میں جدت وقت کی ضرورت ہے۔بہت دیر ہو چکی ہے۔ ہم بہت وقت ضائع کر چکے ہیں۔زرعی شعبہ میں روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنے کے لیے، کسانوں کی آمدنی بڑھانے کے لیے، روایتی زراعت کے ساتھ ہی، نئے متبادل کو، نئے نئے اختراعات کو، اپنانا بھی، اتنا ہی ضروری ہے۔سفید انقلاب کے دوران، ملک نے، اس کا مشاہدہ کیا ہے۔ اب شہد کی مکھی کی کھیتی بھی ایسا ہی ایک متبادل بن کرابھر رہا ہے۔شہد کی مکھی کی زراعت ملک میں شہد کرانتی یا شیریں انقلاب کی بنیاد بنا رہی ہے۔ بڑی تعداد میں کسان اس سے وابستہ ہو رہے ہیں، اختراعات کر رہے ہیں۔ جیسے کہ مغربی بنگال کے دارجلنگ میں ایک گاؤں ہے گردم۔ پہاڑوں کی اتنی بلندی ، جغرافیائی دقتیں، لیکن، یہاں کے لوگوں نے شہد کی مکھی کی زراعت کا کام شروع کیا، اور آج، اس جگہ پر بنے شہد کی، مدھو کی، اچھی مانگ ہو رہی ہے۔ اس سے کسانوں کی آمدنی بھی بڑھ رہی ہے۔ مغربی بنگال کے ہی سندر بن علاقوں کا قدرتی آرگینک شہد تو ملک اور بیرون ممالک پسند کیا جاتا ہے۔ایسا ہی ایک ذاتی تجربہ مجھے گجرات کا بھی ہے۔ گجرات کے بناسکانٹھا میں سال 2016 میں ایک پروگرام کا انعقاد ہوا تھا۔ اس پروگرام میں میں نے لوگوں سے کہا یہاں اتنے امکانات ہیں، کیوں نہ بناسکانٹھا اور ہمارے یہاں کے کسان شیریں انقلاب کا نیا باب لکھیں ؟ آپ کو جان کر خوشی ہوگی، اتنے کم عرصے میں، بناسکانٹھا، شہد پیدا کرنے کا اہم مرکز بن گیا ہے۔ آج بناسکانٹھا کے کسان شہد سے لاکھوں روپئے سالانہ کما رہے ہیں۔ایسی ہی ایک مثال ہریانہ کے جمنا نگر کا بھی ہے۔ جمنا نگر میں، کسان،شہد کی کھیتی کرکے، سالانہ، کئی سو ٹن شہد پیدا کر رہے ہیں، اپنی آمدنی بڑھا رہے ہیں۔ کسانوں کی اس محنت کا نتیجہ ہے کہ ملک میں شہد کی پیداوار لگاتار بڑھ رہی ہے، اور سالانہ،تقریبا سوا لاکھ ٹن پہنچا ہے، اس میں سے، بڑی مقدار میں، شہد، بیرون ممالک میں ایکسپورٹ بھی ہو رہا ہے۔
ساتھیو،شہد کی مکھی کی زراعت میں صرف شہد سے ہی آمدنی نہیں ہوتی، بلکہ بی ویکس بھی آمدنی کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے۔دوا سازی کی صنعت، خوراک کی صنعت، کپڑا اور زیبائش کی صنعتیں ، ہر جگہ بی ویکس کی مانگ ہے۔ ہمارا ملک فی الحال بی ویکس درآمد کرتا ہے، لیکن، ہمارے کسان، اب یہ صورتحال ، تیزی سے بدل رہے ہیں۔ یعنی ایک طرح سے خود انحصار ہندوستان مہم میں مدد کر رہے ہیں۔ آج تو پوری دنیا آیوروید اورنیچرل ہیلتھ پروڈکٹس کی جانب دیکھ رہی ہے۔ ایسے میں شہد کی مانگ اور بھی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ میں چاہتا ہوں، ملک کے زیادہ سے زیادہ کسان اپنی کھیتی کے ساتھ ساتھ شہد کی زراعت سے بھی جڑیں۔ یہ کسانوں کی آمدنی بھی بڑھائے گا اور ان کی زندگی میں مٹھاس بھی گھولے گا۔
میرے پیارے ہم وطنو،ابھی کچھ دن پہلےورلڈ اسپیرو ڈےمنایا گیا۔ اسپیرو یعنی گوریا۔ کہیں اسے چکلی بولتے ہیں، کہیں چمنی بولتے ہیں، کہیں گھان چرکا کہا جاتا ہے۔ پہلے ہمارے گھروں کی دیواروں میں، آس پاس کے پیڑوں پر گوریا چہکتی رہتی تھی۔ لیکن اب لوگ گوریا کو یہ کہہ کر یاد کرتے ہیں کہ پچھلی بار، برسوں پہلے، گوریا دیکھا تھا۔ آج اسے بچانے کے لیے ہمیں کوششیں کرنی پڑ رہی ہیں۔ میرے بنارس کے ایک ساتھی اندرپال سنگھ بترا جی نے ایسا کام کیا ہے جسے میں، ‘من کی بات’ کے سامعین کو ضرور بتانا چاہتا ہوں۔ بترا جی نے اپنے گھر کو ہی گوریا کا آشیانہ بنا دیا ہے۔ انہوں نے اپنے گھر میں لکڑی کے ایسے گھونسلے بنوائے جن میں گوریا آسانی سے رہ سکے۔ آج بنارس کے کئی گھر اس مہم سے جڑ رہے ہیں۔ اس سے گھروں میں ایک غیر معمولی قدرتی ماحول بھی بن گیا ہے۔ میں چاہوں گا قدرتی ، ماحولیات ،جاندار، پرندے جن کے لیے بھی بن سکے، کم زیادہ کوششیں ہمیں بھی کرنی چاہیئے۔ جیسے ایک ساتھی ہیں وجے کمار کا بی جی۔ وجے جی اوڈیشہ کے کیندرپاڑا کے رہنے والے ہیں۔ کیندرپاڑا سمندر کے کنارے ہے۔ اسلئے اس ضلع کے کئی گاؤں ایسے ہیں، جن پر سمندر کی اونچی لہروں اور طوفان کا خطرہ رہتا ہے۔ اس سے کئی بار بہت نقصان بھی ہوتا ہے۔ وجے جی نے محسوس کیا کہ اگر اس قدرتی تباہی کو کوئی روک سکتا ہے تو وہ قدرت ہی روک سکتی ہے۔ پھر کیا تھا – وجے جی نےبڑاکوٹ گاؤں سے اپنا مشن شروع کیا۔ انہوں نے 12 سال، ساتھیوں، 12 سال، محنت کرکے، گاؤں کے باہر، سمندر کی جانب 25 ایکڑ میں مینگروو کا جنگل کھڑا کر دیا۔آج یہ جنگل اس گاؤں کی حفاظت کر رہا ہے۔ایسا ہی کام اوڈیشہ کے ہی پردیپ ضلع میں ایک انجینئر امریش سامنت جی نے کیا ہے۔امریش جی نے چھوٹے چھوٹے جنگل لگائے ہیں، جن سے آج کئی گاؤں کی حفاظت ہو رہی ہے۔ساتھیو،اس طرح کے کاموں میں، اگر ہم، سماج کو ساتھ جوڑ لیں، تو بڑے نتائج سامنے آتے ہیں۔جیسے، تمل ناڈو کے کوئمبٹور میں بس کنڈکٹر کا کام کرنے والے مرمتھو یوگناتھن جی ہیں۔ یوگناتھن جی، اپنی بس کے مسافروں کو ٹکٹ دیتے ہیں، تو ساتھ میں ہی ایک پودا بھی مفت دیتے ہیں۔اس طرح یوگناتھن جی نہ جانے کتنے ہی پیڑ لگوا چکے ہیں۔یوگناتھن جی اپنے تنخواہ کا کافی حصہ اسی کام میں خرچ کرتے آ رہے ہیں۔اب اسکو سننے کے بعد ایسا کون شہری ہوگا جو مرمتھو یوگناتھن جی کے کام کی تعریف نہ کرے۔میں دل سے ان کی کوششوں کو بہت مبارکباد دیتا ہوں، انکے اس قابل ترغیب کام کے لیے۔
میرے پیارے ہم وطنو، ویسٹ سے ویلتھ یعنی کچرے سے کنچن بنانے کے بارے میں ہم سب نے دیکھا بھی ہے، سنا بھی ہے، اور ہم بھی اوروں کو بتاتے رہتے ہیں۔ کچھ اسی طرح فضلہ کو قیمت میں بدلنے کا بھی کام کیا جا رہا ہے۔ایسی ہی ایک مثال کیرالہ کے کوچی کے سینٹ ٹیریسا کالج کا ہے۔مجھے یاد ہے کہ 2017 میں، میں اس کالج کے کیمپس میں، ایک بُک ریڈنگ پر مبنی پروگرام میں شامل ہوا تھا۔اس کالج کے طلباء دوبارہ استعمال شدہ کھلونا بنا رہے ہیں، وہ بھی بہت ہی تخلیقی طریقے سے۔یہ طلباء پرانے کپڑوں، پھینکے گئے لکڑی کے ٹکڑوں،بیگ اور بکس کا استعمال کھلونے بنانے میں کر رہے ہیں۔کوئی طالب علم معمہ بنا رہا ہے تو کوئی کار اور ٹرین بنا رہا ہے۔یہاں اس بات پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے کہ کھلونے محفوظ ہونے کے ساتھ ساتھ بچوں کے لیے ماحول دوست بھی ہوں۔ اور اس پوری کوششوں کی ایک اچھی بات یہ بھی ہے کہ یہ کھلونے آنگن باڑی کے بچوں کو کھیلنے کے لیے دیے جاتے ہیں۔آج جب ہندوستان کھلونوں کی مینوفکچرنگ میں کافی آگے بڑھ رہا ہے تو فضلہ سے قیمت کی یہ مہم یہ اختراعی استعمال بہت معنی رکھتے ہیں۔
آندھرا پردیش کے وجےواڑا میں ایک پروفیسر شرینواس پدکانڈلا جی ہیں۔ وہ بہت ہی دلچسپ کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے آٹو موبائل اسکریپ سے مجسمے بنائے ہیں۔ ان کے ذریعہ بنائے گئے یہ شاندار مجسمے عوامی پارکوں میں لگائے گئے ہیں اور لوگ انہیں بہت جوش و خروش سے دیکھ رہے ہیں۔ الیکٹرونک اور آٹو موبائل فضلہ کی ری سائیکلنگ کا یہ اختراعی استعمال ہے۔ میں ایک بار پھر کوچی اور وجے واڑا کی ان کوششوں کی ستائش کرتا ہوں، اور امید کرتا ہوں کہ مزید لوگ بھی ایسی کوششوں میں آگے آئیں گے۔
میرے پیارے ہم وطنو،ہندوستان کے لوگ دنیا کے کسی خطے میں جاتے ہیں تو فخر سے کہتے ہیں کہ وہ ہندوستانی ہیں۔ ہم اپنے یوگ، آیوروید، فلسفہ نہ جانے کیا کچھ نہیں ہے ہمارے پاس جس کے لیے ہم فخر کرتے ہیں ، فخر کی باتیں کرتے ہیں ساتھ ہی اپنی مقامی زبان ، بولی، پہچان، پوشاک ، کھان پان اس پر بھی فخر کرتے ہیں۔ہمیں نیا تو پانا ہے، اور وہی تو زندگی ہوتی ہے لیکن ساتھ ساتھ قدیم کو گنوانا بھی نہیں ہے۔ ہمیں بہت محنت کے ساتھ اپنے آس پاس موجود لامحدود ثقافتی ورثے کو فروغ دینا ہے ، نئی نسل تک پہنچانا ہے۔یہی کام، آج، آسام کے رہنے والے ‘سکاری ٹسو’ بہت ہی لگن کے ساتھ کر رہے ہے۔ کربی انلونگ ضلع کے ‘سکاری ٹسو’ جی پچھلے 20 سالوں سے کربی زبان کی دستاویز تیار کر رہے ہیں۔کسی زمانہ میں کسی عہد میں ‘کربی قبائلی بھائی بہنوں کی زبان ‘کربی’آج قومی دھارے سے غائب ہو رہی ہے۔جناب ‘سکاری ٹسو’ جی نے طے کیا تھا کہ اپنی اس پہچان کو وہ بچائیں گے ، اور آج ان کی کوششوں سے کربی زبان کی کافی جانکاری دستاویز کی شکل میں تیار ہوگئی ہے۔ انہیں ان کوششوں کے کے لیے کئی جگہ ان کی ستائش بھی ہوئی ہے۔ اور ایوارڈبھی ملے ہیں۔‘من کی بات’ کے ذریعہ جناب ‘سکاری ٹسو’ جی کو میں تو مبارکباد دیتا ہی ہوں، لیکن ملک کے کئی کونے میں اس طرح کئی کامل افراد ہوں گے جو ایک کام لے کر کے کوشاں رہتے ہو ں گے میں ان سب کو بھی مبارکباد دیتا ہوں۔
میرے پیارے ہم وطنوں،کوئی بھی نئی شروعات ہمیشہ بہت خاص ہوتی ہیں۔نئی شروعات کا مطلب ہوتا ہےنئے امکانات، نئی کوششیں اور نئی کوششوں کا مطلب ہے نئی توانائی اور نیا جوش۔یہی وجہ ہے کہ مختلف ریاستوں اور علاقوں میں الگ الگ راجیوں اور شیتروں میں اور تنوع سے بھری ہماری ثقافت میں کسی بھی شروعات کو اتسو کے طور پر منانے کی روایت رہی ہے۔اور یہ وقت نئی شروعات اور نئے اتسو کی آمد کا ہے۔ہولی بھی تو بسنت کو اتسو کے طور پر ہی منانے کی ایک روایت ہے۔جس وقت ہم رنگوں کے ساتھ ہولی منارہے ہوتے ہیں، اسی وقت ، بسنت بھی، ہمارے چاروں جانب نئے رنگ بکھیر رہا ہوتا ہے۔ اسی وقت پھولوں کا کھلنا شروع ہوتا ہے اور قدرت زندہ ہو اٹھتی ہے۔ملک کے مختلف علاقوں میں جلد ہی نیا سال بھی منایا جائے گا۔چاہے اگادی ہو یا پوتھنڈو، گڑی پڑوا ہو یا بیہو، نورہ ہو یا پوئیلا، یا پھر بوئیشاکھ ہو یا بیساکھی – پورا ملک ، امنگ، جوش اور نئی امیدوں کے رنگ میں شرابور نظر آئے گا۔ اسی وقت کیرالہ بھی خوبصورت تہوار وشو مناتا ہے۔اسکے بعد، جلد ہی چیتر نوراتری کا مقدس موقع بھی آ جائے گا۔ چیتر مہینے کے نوویں دن ہمارے یہاں رام نومی کا تہوار ہوتا ہے۔ اسے بھگوان رام کے جنم اتسو کے ساتھ ہی انصاف اورپراکرم کے ایک نئے عہد کی شروعات کے طور پر بھی منایا جاتا ہے۔اس دوران چاروں طرف دھوم دھام کے ساتھ ہی بھکتی کے جذبے سے بھرا ماحول ہوتا ہے، جو لوگوں کو اور قریب لاتا ہے، انہیں خاندان اور سماج سے جوڑتا ہے، آپسی رشتوں کو مضبوط کرتا ہے۔ان تہواروں کے موقع پر میں سبھی ہم وطنوں کو نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔
ساتھیو،اس دوران 4 اپریل کو ملک ایسٹر بھی منائے گا۔عیسی مسیح کے دوبارہ زندہ ہونے کے اتسو کی شکل میں ایسٹر کا تہوار منایا جاتا ہے۔ علامتی طور پر کہیں تو ایسٹر زندگی کی نئی شروعات سے جڑا ہے۔ایسٹر امیدوں کے دوبارہ زندہ ہونے کی علامت ہے۔
On this holy and auspicious occasion, I greet not only the Christian Community in India, but also Christians globally.
میرے پیارے ہم وطنو، آج ‘من کی بات’ میں ہم نے ‘امرت مہوتسو’ اور ملک کے لیے اپنے فرائض کی بات کی۔ہم نے دیگر تہواروں کا بھی ذکر کیا ۔ اسی دوران ایک اور تہوار آنے والا ہے جو ہمارے آئینی حقوق اور فرائض کی یاد دلاتا ہے۔ وہ ہے 14 اپریل – ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر جی کا یوم پیدائش ۔اس بار ‘امرت مہوتسو’ میں تو یہ موقع اور بھی خاص بن گیا ہے۔مجھے یقین ہے، بابا صاحب کی اس یوم پیدائش کو ہم ضرور یادگار بنائیں گے، اپنے فرائض عہد لے کر انہیں خراج عقیدت پیش کریں گے۔ اسی امید کے ساتھ، آپ سبھی کو تہواروں کی ایک بار پھر نیک خواہشات ۔آپ سب خوش رہیں، صحت مند رہیں، سوستھ رہیے، اور خوب خوشی منائیں۔ اسی آرزو کے ساتھ پھر سے یاد کراتا ہوں، ‘دوائی بھی – کڑائی بھی’۔بہت بہت شکریہ ۔