نئی دہلی، زراعت اور کاشتکاروں کی فلاح و بہبود کے مرکزی وزیر جناب رادھاموہن سنگھ نے کہا ہے کہ زراعت اور دودھ کی صنعت کا کاروبار ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم کی حیثیت رکھتے ہیں اور اس کے ذریعے مویشی پالنے والوں کی سماجی اور اقتصادی حالت کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لئے پیداوار بڑھانے کے مقصد سے اچھی کوالٹی کے حامل مویشیوں کی موجودگی ضروری ہے۔ قومی یوم دوھ کے موقع پر ، جسے راشٹریہ گوکل مشن کے تحت منایا جا رہا ہے، 10مادہ تولید کے مراکز کی شناخت مخصوص منتخبہ تولیدی مادے کی بہم رسانی کے مراکز کے طور پر کی گئی ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ تعداد میں مادہ مویشی پیدا کئے جا سکیں۔ اتراکھنڈ اور مہاراشٹر میں دو مراکز کے قیام کو منظوری دی گئی ہے۔ رِشی کیش، اتراکھنڈ میں مادہ تولید کی بہم رسانی کے فاؤنڈیشن کا سنگ بنیاد جون 2018 میں رکھا گیا تھا۔ اس کے علاوہ اِنڈس چِپ کو دیسی نسلوں کے جنوم کے انتخاب کے لئے وضع کیا گیا ہے اور 6ہزار ڈیری جانوروں کو اس کے استعمال کے ذریعے تجزیئے کے عمل سے گزار ا گیا ہے۔ انہوں نے مطلع کیا ہے کہ آر جی ایم کے تحت 13 ریاستوں میں 20 گوکل گراموں کے قیام کے لئے 197 کروڑ روپے کے اخراجات کے ساتھ منظوری دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ اس اسکیم کے تحت پشوسنجیونی عنصر کے تحت دودھ دینے والے 9 جانوروں کو یوآئی ڈی یعنی منفرد شناختی آلہ کے ذریعے شناخت کے تحت لایا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بھارت کے ذریعےدنیا کے سب سے بڑے دودھ پیدا کرنے والے ملک کا رتبہ حاصل کرنے کا سہرا مویشی پالنے والے کاشتکاروں کے سر جاتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ بھارتی حکومت کی اسکیمیں بھی اس میں اپنا تعاون دیتی رہی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ملک میں 20 جنین منتقلی ٹیکنالوجی مراکز (ای ٹی ٹی) قائم کئے جا رہے ہیں اور اب تک 19 مراکز کے لئے منظوری دی جا چکی ہے۔ یہ مراکز اعلیٰ جینیاتی خوبیوں والےنَر سانڈ دیسی نسلوں میں سے تیار کر رہے ہیں۔
جناب سنگھ نے مزید کہا کہ کاشتکاروں کی آمدنی دو گنا کرنے کے لئے حکومت نے نومبر 2016 میں ای-پشوہاٹ (https://epashuhaat.gov.in/) پورٹل لانچ کیا ہے۔ یہ پورٹل کاشتکاروں، افزائش نسل کرنے والوں اور دیگر ایجنسیوں کو بیماریوں سے مبرا جرم پلازم تک رسائی حاصل کرنے میں مدد دے رہا ہے۔ جرم پلازم کے تحت زندہ جانور اور یخ بستہ مادۂ تولید اور جنین بھی شامل ہیں۔ اب ایک موبائل ایپلی کیشن ای-پشوہاٹ (جی پی ایم ایس ٹرانس پورٹل) وضع کیا گیا ہے اور اسے یو ایم اے این جی( متحدہ موبائل ایپلی کیشن برائے نئے عہد کی حکمرانی ) ایپلی کیشن سے مربوط کر دیا گیا ہے۔ کاشتکار اب اپنے موبائل فون پر یو ایم اے این جی ایپ ڈاؤن لوڈ کر سکتے ہیں اور گوگل کی مدد سے جانکاری حاصل کر سکتے ہیں۔ یہ کاشتکار اب 100 کلو میٹر کے دائرے میں کہاں بیماریوں سے مبرا جرم پلازم خدمات دستیاب ہیں، کی جانکاری حاصل کر سکتے ہیں۔ اب تک ای-پشوہاٹ (جی پی ایم ایس ٹرانس پورٹل) خودکار طور پر ڈاؤن لوڈ کیا جا چکا ہے اور ایک کروڑ درج رجسٹر یو ایم اے این جی استفادہ کنندگان کے لئے دستیاب ہے۔
وزیر موصوف نے مطلع کیا کہ اس سال حکومت نے دودھ کی ڈبہ بندی اور بنیادی ڈھانچہ جاتی فنڈ (ڈی آئی ڈی ایف) نام کی ایک نئی اسکیم شروع کی ہے۔ اس کا مقصد 50،000گاؤوں میں 95لاکھ دودھ پیداوار کرنے والوں کو فائدہ پہنچانا ہے اور متعدد ہنرمند اور نیم ہنرمنداور غیر ہنرمند کارکنان کو راست اور بالواسطہ طور پر روزگار بہم پہنچانا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دودھ کی صنعت سے متعلق صنعت کاری ترقیات اسکیم کے تحت دودھ کی پیداوار سے لے کر مارکیٹنگ تک کے مختلف النوع سرگرمیوں میں ازخو د روزگار کے مواقع فراہم کرانے کی غرض سے مالی امداد فراہم کرانے کی گنجائش رکھی گئی ہے۔ اس کے تحت 3لاکھ 31 ہزار 314 ڈیری یونٹوں کو قائم کیا گیا ہے اور حکومت کی جانب سے 1401.96کروڑروپے کی سبسڈی فراہم کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ عالمی بینک کے سرمائے سے ڈیری ترقیات وغیرہ کے لئے قومی ڈیری منصوبہ مرحلہ ایک کا قومی پروگرام بھی چلایا جا رہا ہے۔ یہ پروگرام ریاستی حکومتیں دودھ کی صنعت سے وابستہ امداد باہمی کے اداروں اور ریاست سے وابستہ وفاقوں کی مدد سے چلا رہی ہیں۔