نئیدہلی: نائب صدر جمہوریہ ہند جناب ایم وینکیا نائیڈو نے کہ مہاتما گاندھی کی شخصیت دنیا کی ان چند عظیم ترین انقلابی شخصیات میں شمار ہوتی ہے ، جن کا مشاہدہ دنیا نے اب تک کیا ہے اور صرف انہی کی تحریکات خون خرابے سے مبرہ اور پرامن تھیں۔ موصوف ایف آئی سی سی آئی – آدتیہ برلا مرکز برائے عمدگی کے زیر اہتمام مہاتما گاندھی کے 150 ویں یوم پیدائش کے موقع پر منعقدہ یادگاری تقریب سے خطاب کررہے تھے۔
نائب صدر جمہوریہ نے کہا کہ مہاتما گاندھی کو اس آب وگل کی دنیا کو چھوڑے 6 دہائیاں گزر چکی ہیں ۔تاہم ان کی تعلیمات ان کے ہم وطنو ں کی یادوں میں آج بھی تازہ ہیں۔ انہوں نے ایف آئی سی سی آئی اور بھارتی صنعت کو مہاتما گاندھی کی زندگی اور ان کے عہد پر مشتمل اس طرح کی تقریب کا اہتمام کرنے کے لئے مبارکباد پیش کی ۔انہوں نے امید ظاہر کی اس طرح کی دیگر تقریبات کا بھی اہتمام کیا جائے گا تاکہ پوری دنیا کے لئے مہاتما گاندھی کا عظیم نظریہ سب پر واضح ہوسکے ۔اس نظر یہ کا احیاہو اور نسل در نسل اس سے روشنی حاصل کرتی رہے۔
جناب نائیڈو نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ گاندھی جی کے آزادی ،وقار اور مساوات کے اصول زمان ومکاں کی قید میں محدود نہیں تھے بلکہ ان کی افادیت آفاقی نوعیت کی ہے اور ان کی قدروقیمت کو وقت کی گرد دھندلا نہیں سکتی ۔ انہوں نے امن ، عدم تشدد ،رواداری ، ہم آہنگی کی تعلیم دی اور اس پورے عمل کے دوران کرشماتی طور پر جد وجہد آزادی کے لئے بھارت کو ترغیب فراہم کی اور پوری دنیا میں انسانی شہری حقوق کی تحریکات کو ایک نئی رفتار عطا کی ۔
نائب صدر جمہوریہ نے کہا کہ ترقیات کے لئے ڈیزائن اور نافذ کئے جانے والے پروگرام اور پالیسیاں اس انداز سے وضع کی جانی چاہئیں کہ ان میں مہاتما گاندھی کے تصور کی شمولیت ہو ، جو انہوں نے بھارت کے لئے کیا تھا یعنی ناداری سے مبرہ ، تفریق سے پاک اور سماجی قبیح رسموں سے عاری سماج کی تشکیل ۔ انہوں نے کہا کہ گاندھی جی خود کفالت کے اصول میں پکا یقین رکھتے تھے اور یہ بھی کہا کہ وہ لگاتار سودیشی کی بات کیا کرتے تھے ۔انہوں نے خود کفیل مثالی گاؤوں کی تشکیل کی خواہش کی تھی اور یہ بھی کہا تھا کہ بھارت کی روح گاؤوں میں بستی ہے ۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم ان کی خواہشات کا احترام کریں اور اپنے گاؤوں کی جانب لوٹیں ۔
جناب صدر جمہوریہ ہند نے ماضی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ گاندھی جی اس اصو ل میں پختہ یقین رکھتے تھے کہ صفائی ستھرائی الوہیت کے مساوی مقام ہے ۔ انہوں نے محسوس کیا کہ سیاسی آزادی سے کہیں زیادہ ضروری صفائی ستھرائی ہے اور آج سووچھ بھارت ابھیان اسی بڑے پیمانے کی عالمی تحریک کی شکل لے چکا ہے اور اس میں اتنی ہی توانائی مضمر ہے جس پر مہاتما گاندھی کو فخر ہوتا ۔
جناب نائیڈو نے کہا کہ گاندھی جی مساوات میں یقین رکھتے تھے اور لگاتار خواتین اختیاری کی باتیں کرتے تھے ۔ انہوں نے یاد دہانی کرائی کہ گاندھی جی بذات خود اینی بیسنٹ ، سروجنی نائیڈو جیسی معروف خواتین سے متاثر تھے ۔ انہوں نے بھارت کے پالیسی سازوسے گزارش کی کہ وہ صنفی مساوات اور خواتین کی اختیار کاری جیسے امور کو ہمارے ترقیاتی ایجنڈے میں مرکز ی حیثیت دیں ۔
نائب صدر جمہوریہ ہند نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ انتیودیہ یا نادار ترین فرد یعنی عوام میں سے سب سے محروم ترین فرد کو اوپر اٹھانا مہاتما گاندھی کے دل سے قریب ترین امر ہے ۔ گاندھی جی کے نظریہ میں ترقی کا مطلب سرودیہ یعنی سب کی ترقی انتیودیہ کے ذریعہ ۔ انتیودیہ کا ان کا فلسفہ ایسا تھا جس نے جناب دین دیال اپادھیائے جیسے قائدین کو متاثر کیا ۔
نائب صدر جمہوریہ ہند نے ہر خاص وعام سے گزارش کی کہ وہ مل کر کہ گاندھی جی کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لئے کوشاں ہوں اور ایک ایسا رام راج متعارف کرائیں ،جہاں سب برابر ہوں اور کسی کے ساتھ کسی بھی طرح کی تفریق نہ برتی جائے ۔ انہوں نے مہاتما گاندھی کی بات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے کہا تھا کہ ’’ میرے خوابوں کا رام راج ایسا ہوگا جو شاہ وگدا دونوں کو یکساں طور پر مساویانہ حقوق فراہم کرائے ۔‘‘
ایف آئی سی سی آئی کی صدر نشین محترمہ راج شری برلا کے وی آئی سی کے چئیر مین ڈاکٹر ونے کمار سکسینہ ، پینے کے پانی اور صفائی ستھرائی کی وزارت کے سکریٹری جناب پرویشرن ائیر اور دیگر عمائدین بھی اس موقع پر موجود تھے ۔
نائب صدر جمہوریہ ہند کی تقریر کا متن درج ذیل ہے :
مہاتما گاندھی یعنی بابائے قوم کے 150 ویں یوم پیدائش کے اس یادگار موقع پر یہاں آکر مجھے بڑی مسرت ہوئی ہے ۔ ان کی مقدس روح کو اس آب وگل سے رخصت ہوئے 6 دہائیاں گزر چکی ہیں تاہم ان کے اصول ، ان کی قربانیاں اوران کی تعلیمات ، ان کے ہم وطنوں کی یادوں میں آج بھی تازہ اور تابناک ہیں ۔
دہائیوں سے گاندھی جی نے بھارت کے اجتماعی شعور کی رہنمائی کی تھی اور ہمارے لئے ایک اخلاقی زاویہ طے کیا تھا ۔ مجھے پورا یقین ہے کہ انہوں نے جو فہم ہمیں عطا کی ہے اس فہم کے سہارے بھارت جدید عہد کی تمام پیچیدگیوں اور آنے والی صدیوں کا بھی بہتر طور پر سامنا کرسکے گا۔ میں فیڈ ریشن آف انڈین چیمبر ز آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کو ایسی تقریب کے اہتمام کے لئے مبارکباد پیش کرنا چاہوں گا جو مہاتما کی زندگی اور ان کے عہد پر مشتمل ہے ۔ مزیف ایسی تقریبات کا انعقاد درکار ہے ، تاکہ دنیا کے لئے مہاتما کے عظیم تصور کو تازہ کیا جاسکے اور اسے آئندہ نسلوں تک بھی پہنچایا جاسکے ۔
آزادی ،وقار اور مساوات کے سلسلے میں گاندھی جی کے اصول زمان ومکاں تک مقید نہیں ہیں ، ان میں آفاقی افادیت اور زمان ومکاں کی قید سے بالاتر ہوکر مفید ہونے کی قوت مضمر ہے ۔ ا نہوں نے امن ،عد م تشدد ،رواداری اور ہم آہنگی کی تعلیم دی تھی اور اس عمل کے دوران کرشماتی طور پر آزادی کے لئے بھارت کی عظیم جدوجہد کو بھی ترغیب فراہم کی تھی اور پوری دنیا میں شہری حقوق کو نئی رفتار عطا کی تھی۔
’’میر ے تمام امور بنی نوع انسان کے تئیں میری یگانگت سے مملو ہیں ۔ میں رشتہ داروں اور اجنبیوں کے مابین ، اہم وطن او رغیر ملکیوں کے مابین ، گورے اور کالوں کے مابین کوئی امتیاز محسوس نہیں کرتا ۔ ہندو بھائی اور دیگر عقائد کے پیرو بھارتی ۔ میرے لئے کوئی قابل بھی نفرت نہیں ہے ۔‘‘
یہ مختصر الفاظ گاندھی جی کے فلسفۂ حیات کا مظہر ہیں ۔
مہاتما گاندھی ان معدودے چند عظیم ترین انقلابیوں میں شمار ہوتے ہیں ، جو مطلع عالم پر اب تک جلوہ گر ہوئی ہیں اور صر ف انہی کی تحریکات خون خرابے سے مبرہ اور پر امن تھیں ۔ انہوں نے ناانصافی کے خلاف انصاف پر چل کر جدوجہد کی ۔انہو ں نے تشدد کے خلاف عد م تشدد کی جدوجہد کا راستہ دکھایا ۔تفریق کی مخالفت سب کو اپنے ساتھ شامل کرکے کی ۔
انہیں پختہ یقین تھا کہ آنکھ کے بدلے آنکھ لینے کے انتقام کا سلسلہ بالآخر پوری دنیا کو نابینا بنادے گا ۔ جہاں تک ان کے سچائی اور عدم تشدد کے اصولوں کا تعلق ہے ، مارٹن لوتھر کنگ جونئیر اور نیلسن منڈیلا جیسے عظیم عالمی لیڈروں نے مہاتما جی کے ان اصولوں سے حوصلہ افزائی حاصل کی ۔ وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ عدم تشدد دنیا کی ایسی عظیم ترین طاقت ہے جو انسان کو دستیاب ہے ۔ یہ دنیا کے سب سے مہلک ہتھیارسے بھی زیادہ طاقتور ہے ، انسان کی دیانت داری اور حکمت نے اسے خلق کیا ہے ۔
ریاستہائے متحدہ امریکہ کےحقوق انسانی تحریک کے عظیم قائد مارٹن لوتھر کنگ جونئیر نے ایک بار کہاتھا کہ حضرت عیسیٰ مسیح نے ہمیں نشانے عطا فرمائے تھے اور مہاتما گاندھی نے ان نشانوں کے حصول کا طریقہ بتایا ہے ۔ یہ وہی مارٹن لوتھر کنگ جونئیر ہیں ، جنہوں نے کروڑوں افریقی امریکیوں کی امدادو معاونت کے لئے عدم تشدد کا ہتھیار استعمال کیا تھا ۔وہ گاندھی جی کے عدم تشدد او ر پُر امن مزاحمت کے فلسفے کو انصاف اور ترقی کی جدوجہد میں واحد منطقی اور اخلاقی طریقہ تصورکرتے تھے۔
آنجہانی نیلسن منڈیلا اکثر گاندھی جی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کرتے تھے کہ گاندھی جی عظیم ترین مدرس اور ایسی انتہائی ذی علم شخصیت تھے ، جن کے نظریات نے جنوبی افریقہ میں ہونے والی تبدیلیوں کے عمل میں اہم ترین کردار ادا کیا تھا ،جس کے نتیجے میں جنوبی افریقہ کی نسل پرست حکمراں سرکار کو راہ فرار اختیار کرنی پڑی تھی ۔
گاندھی جی ایک خود کفیل ہندوستان کا تصور رکھتے تھے ۔ ایک ایسا ملک ،جسے عالم نظام میں مقام ،افتخار اوروقار حاصل ہو۔ دنیا کی مختلف سرکاریں ہمارے اجداد کے ان خوابوںکی عملی تکمیل کے لئے مسلسل کوششیں کرتی رہی ہیں ۔ یاد رہے کہ ہمارے اجداد ایک مضبوط ،فعال اورشمولیتی ہندوستان کی تشکیل کے خواہاں تھے۔ یہ بات اپنے آپ میں انتہائی قابل تحسین ہے کہ موجودہ سرکار نے مہاتما گاندھی کے خوابوں کی تکمیل کے عز م محکم کےساتھ تعمیر ملک وقوم کے متعدداقدامات کئے ہیں ۔
نئے پروگراموں اور پالیسیوں پر عمل آوری کے طریق کار کا تعین کرتے وقت ہمیں مہاتما گاندھی کے غریبی ،تفریق اور سماجی برائیوں سے پاک ہندوستان کے تصور کو پیش نظر رکھنا ہوگا ۔گاندھی جی خود کفالتی کے اصول پر یقین محکم رکھتے تھے ۔انہوں نے ہمیشہ سودیشی کی تبلیغ کی۔ وہ ہمیشہ ایک خود کفیل اور ہم آہنگ گاؤ ں کی تعمیر کی کوشش کرتے رہتے تھے۔ وہ اس بات میں مضبوطی سے یقین رکھتے تھے کہ ہندوستان کی روح گاؤوں میں بستی ہے ۔ ان کے لئے کھادی محض ا یک سیاسی لباس یا قومی وقار کی علامت نہیں تھی بلکہ یہ دیہی معیشت کو بااخیتار بنانے کا ایک موثر طریقہ تھا ۔
آج ہم دیہی علاقوں سے شہروں کو مراجعت کے اذیت ناک اور تشویش ناک رجحان سے دو چار ہیں ۔ ہماری دیہی معیشت کمزور ہونے کے سبب روزی روٹی کے خاطر خواہ مواقع فراہم نہیں کراپاتی ۔ اس لئے اب وہ وقت آچکا ہے جب مواضعات اور دیہی علاقوں کے لئے گاندھی جی کے خوابوں اور نظریات کی طرف واپس ہوکر ان کا احترام کریں ۔ ہندوستان میں حقیقی نمو اسی وقت ممکن ہوسکے گی جب ہم دیہی ہندوستان اور خصوصا ََ ہمارے کسانوں اور بنکروں کو بااختیار بنانے کے اہل ہوسکیں گے ۔ گاندھی جی اس بات پر سختی کے ساتھ یقین رکھتے تھے ۔ صفائی ستھرالوہیت کے مساوی ہے ۔ ان کا یہ بیان کہ صفائی ستھرائی ،سیاسی آزادی سے کہیں زیادہ اہم ہے ۔صراحت کے ساتھ ، صفائی ستھرائی کی زبردست اہمیت کی توثیق کرتا ہے ۔ وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ بیت الخلأ کو ڈیرائنگ روم جیسا صاف ستھرا ہونا چاہئے ۔ وہ صفائی ستھرائی کے اصولوں اور طریقوں پر پہلے عمل کرتے تھے ،بعد میں اس کی تبلیغ کرتے تھے ۔ اپنی زندگی کے گزشتہ کچھ برسوں کے دوران پورا ملک صفائی ستھرائی کی زبردست تحریک سووچھ بھارت کے لئے متحد ہوچکا ہے ۔یہ تحریک اس قدر زبردست اور توانا ہے کہ آج اگر مہاتما گاندھی ہوتے تو وہ اس پر فخر کرتے ۔
ہم نے مل کر گزشتہ چار برسوں کے دوران تقریباََ 9 کروڑ بیت الخلا تعمیر کئے ہیں ۔ صفائی ستھرائی اور حفظان صحت کے بہتر انتظامات ،ترقی کی اولین شرط کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ اس موقع پر میں سووچھ بھارت ابھیان کو آگے بڑھانے کے لئے فیڈریشن آف انڈین چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری جیسی تنظیموں اور پرائیویٹ سیکٹر کی کمپنیوں کی خدمات کی ستائش کئے بغیر نہیں رہ سکتا ۔
گاندھی جی اپنی پوری زندگی اس بات پرزور دیتے رہے کہ بہتر اور اعلیٰ ترین ہنرمندیاں حاصل کی جائیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’ اگر میں سمجھتا ہو ں کہ میں کوئی کام کرسکتا ہوں تو مجھ میں وہ کام انجام دینے کے بھرپورصلاحیت ہونی چاہئے یا مجھ میں اگر وہ کام انجام دینے کی صلاحیت نہ ہو یا اس کی انجام دہی کا ابتدائی علم ہو تو بھی مجھے اس میدان میں مہارت حاصل کرنی چاہئے ۔وہ خود بھی ہمیشہ جہاں بھی ممکن ہوسکا ، ہنر مندی کے حصول کے لئے کوشاں رہے ۔ آج جبکہ ہم تیاری اور مانگ کے درمیان موجود خلا پر گفتگو کرتے ہیں یا اس امر پر گفتگو کرتے ہیں کہ تعلیم ہمیں کیا فراہم کرتی ہے ،تو ہنر مندی کی تربیت لازمی ضرورت بن جاتی ہے۔
گاندھی جی ہمیشہ خواتین کو بااختیار بنائے جانے پر زور دیتے رہے ۔ وہ خود عظیم خاتو ن قائدین سے بہت متاثر تھے ۔ ان کی مادر گرامی پتلی بائی ، ان کی اہلیہ کستوربا اور اینی بیسنٹ اور سروجنی نائیڈو جیسی دیگر خاتون لیڈروں نے ان کی زندگی پر زبردست اثرات مرتب کئے تھے ۔ وہ کہا کرتے تھے : ’’عورت مرد کی اسی رفیقہ حیات ہوتی ہے ، جو مردوں کے مساوی ذہنی صلاحیت کی حامل ہوتی ہے ۔ ہندوستانی خواتین کھیل کود سے خلائی سرگرمیوں تک ،سازوسامان کی تیاری سے کاروبار تک اور فن سے جدت طرازی تک زندگی کے مختلف میدانوں میں رہنمائی کرتی ہیں ۔ لیکن ہم آج بھی قوم میں جنسی مساوات کا جذبہ پوری طرح سے بیدار کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں ۔
میں ملک کے تمام منصوبہ سازوں اور پالیسی سازوں سے درخواست کروں گا کہ سماجی اور معاشی ترقی کے ہرمنصوبے میں جنسی مساوات اور خواتین کو بااختیار بنائے جانے پر توجہ مرکوز کی جائے ۔گاندھی جی شمولیت ،تنوع اور مساوات کے علمبردار تھے ۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی اپنے اہالیان ملک کو سماجی اور معاشی تفریق کے خلاف جدوجہد کے لئے بااختیار بنانے میں صف کردی تھی ۔ باپو اکثر کہا کرتے تھے کہ ہمیں قطار کے آخری آدمی اور غریب ترین فرد کے بارے میں غور کرنا چاہئے اور محروم طبقات کی خدمت کرنی چاہئے ۔
انتیودیہ یعنی غریب ترین لوگوں کو اوپر اٹھانے اور انتہائی محروم لوگوں کی امداد کا مشن بھی گاندھی جی کے دل سے بہت قریب تھا۔ گاندھی جی نے انتیودیہ کے ذریعہ ترقی یعنی سروودیہ کی ترقی کا نظریہ پیش کیا ۔ ان کے انتیودیہ کے فلسفے نے دین دیال اپادھیائے جیسے بااثر لیڈروں پر زبردست اثرات مرتب کئے تھے اور یہ انتیودیہ ہی آنجہانی دین دیال اپادھیائے کے فلسفہ مربوط انسانیت کی بنیاد تھا۔
گاندھی جی نے سوراج کی تعریف بھی ہندوستانی نظریہ سے کی ہے ۔ انہوں نے کہا تھا کہ میرے خوابوں کا سوراج غریبوں کا سوراج ہے۔ مجھے اس بات میں ذرابھی شک نہیں کہ سورا ج اس وقت تک پورا سوراج نہیں ہوسکتا جب تک کہ آپ کو اس کے فوائد کی دستیابی کو یقینی نہ بنایا جاسکے ۔
آپ کی تنظیم کی تولید کے تصور کی بنیادی قدر پیش کرنے کے لئے آدتیہ برلا گروپ کی کوششیں واقعی لائق ستائش ہیں ۔ محترمہ راج شری برلا کے جس قابل قدر اقدام کوآپ کی رہنمائی میں روبہ عمل لایا جارہا ہے وہ یقیناََ انتہائی لائق ستائش ہے ۔ مجھے یقین واثق ہے کہ آج چرخوں کی تقسیم کےلئے آپ کے گروپ نے جو عطیہ دیا ہے ،اس سے زمینی سطح پر لوگوں کی زندگی قابل قدر تبدیلیاں پیدا کرے گا۔