18.5 C
Lucknow
Online Latest News Hindi News , Bollywood News

نئی دلی میں بین الاقوامی شمسی اتحاد کے قیام کے کانفرنس کے افتتاحی اجلاس میں وزیراعظم کے خطاب کا متن

Urdu News

میں دلی میں بین الاقوامی شمسی اتحاد کے قیام کے کانفرنس میں آپ سب کا خیرمقدم کرتا ہوں۔

آج کے تاریخی دن کا بیج نومبر 2015 میں پیرس میں 21ویں کانفرنس آف پارٹیز کے وقت بویا گیا تھا۔ آج اس بیج سے سرسبز پودے نکل آئے ہیں۔

اس ننھے پودھے کی نئے امکانات میں فرانس نے بیش قیمت رول ادا کیا ہے۔ بین الاقوامی  شمسی اتحاد کا یہ ننھا پودا آپ سبھی کی مشترکہ کوششوں اور عزم کے بغیر بویا نہیں جا سکتا تھا اور اس لیے میں فرانس کا اور آپ سب کا بہت بہت شکرگزار ہوں۔ 121 امکانی ممالک میں سے 61 اتحاد میں شامل ہوچکے ہیں۔ 32 نے فریم ورک معاہدے کو تصدیق بھی کر دی ہے لیکن اس اشتراک میں ہم سبھی معاون ممالک کے علاوہ اپنے  سب سے بڑے ساتھی ہیں سورج دیوتا ،جو باہر کے ماحولیات کو روشنی اور ہمارے عہد کو قوت بخش  رہے ہیں۔

دوستوں،

روئے زمین پر جب زندگی نے اپنی آنکھیں کھولی تھی اس کے بھی کروڑوں سال پہلے سے سورج لوک کو روشن اور متحرک کرتا آرہا ہے۔ جاپان سے لے کر پیرو تک، یونا ہو یا روم، مصر ، ان کا اور سابق مایا روایت – ہر ثقافت نے سورج کو عزت اور اہمیت بخشی ہے۔

لیکن ہندوستانی فلسفہ میں ہزاروں سال پہلے سے سورج کو جو مرکزی مقام حاصل ہے، وہ غیریقینی ہے۔ ہندوستان میں ویدوں نے ہزاروں سال پہلے سے سورج کو دنیا کی روح تسلیم کیا ہے۔ ہندوستان میں سورج کو پوری زندگی کی غذا مانی گئی  ہے۔ آج جب ہم تبدیلیٔ ماحولیات جیسے چیلنجوں سے نمٹنے کا راستہ ڈھونڈھ رہے ہیں تو ہمیں قدیم فلسفہ کے یکسانیت اور مکمل نظریات کی جانب دیکھنا ہی ہوگا۔

دوستوں،

ہمارا سر سبز و شاداب مستقبل اس بات پر منحصر ہے کہ ہم ساتھ مل کر کیا کر سکتے ہیں۔ مجھے مہاتما گاندھی کے جملے یاد آتے ہیں ’’ہم کیا کرتے ہیں اور ہم جو کچھ کرنے کے قابل ہیں وہ دنیا کے سب سے زیادہ مسائل کو حل کرنے میں کافی ہیں، کے درمیان کافی فرق ہے’’۔

پوری دنیا کے قائدین کی آج یہاں شرکت اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ شمسی توانائی انسانوں کے لیے  توانائی کی ضروریات کو مستقل طور پر پورا کرنے کا ایک موثرا ور کفایتی حل دستیاب کراتی ہے۔

دوستوں،

ہندوستان میں ہم نے دنیا کا سب سے بڑا تجدید کار توانائی کی توسیع کاپروگرام شروع کیا ہے۔ ہم 2022 تک تجدیدکاری سے 175 گیگاواٹ بجلی پیدا کریں گے جس میں سے 100 گیگاواٹ بجلی شمسی توانائی سے حاصل  ہوگی۔

ہم نے اس میں سے 20 گیگاواٹ نصب شدہ شمسی توانائی کا ہدف پہلے سے ہی حاصل کر لیا ہے۔ ہندوستان میں تونائی کا اضافہ اب روایتی توانائی  کے ذرائع کے بجائے تجدیدکاری سے زیادہ ہو رہی ہے۔

ہندوستان میں، اٹل جیوتی یوجنا کا مقصد ناکافی بجلی والے شعبوں میں شمسی تونائی پر مبنی اسٹریٹ لائٹس کو نصب کرنا ہے۔ اسکول جانے والے بچوں کے لیے سولر اسٹڈی لیمپ اسکیم سے 7 ملین بچوں کو روشنی مل رہی ہے۔

اگر ہم شمسی توانائی سے دوسری ٹیکنالوجی کو جوڑ دیں، تو نتیجے اور بھی اچھے ہو جاتے ہیں۔ مثال کے  طور پر  حکومت کے ذریعہ 28 کروڑ ایل ای ڈی بلبلوں کے تقسیم سے گذشتہ تین سال میں نہ صرف 2 بلین ڈالر سے زیادہ کی بچت ہوئی ہے بلکہ 4 گیگا واٹ بجلی بھی بچی۔ یہی نہیں، 30 ملین ٹن کاربن ڈائی آکسائڈ بھی کم بنی۔

دوستوں،

ہم صرف ہندوستان میں ہی نہیں پوری دنیا میں بھی شمسی تحریک چاہتے ہیں۔ آپ ہندوستان میں تربیت یافتہ شمسی ماماز، جن کی ابھی آپ نے موسیقی بھی سنی، ان کے خطاب بھی سنے، ان کا ویڈیو بھی دیکھا، اب آپ اچھی طرح ان شمسی ماماز سے واقف ہو ہی چکے ہیں۔ ان کی کہانی اپنے آپ میں ترغیب  کا باعث ہے۔

ہمیں خوشی ہے کہ آئی ایس اے کورپس فنڈ میں تعاون کے علاوہ آئی ایس اے سکریٹریٹ کے قیام کے لیے 62 ملین امریکی ڈالر کا تعاون دیا ہے۔ مجھے یہ اعلان کرتے ہوئے بھی خوشی ہو رہی ہے کہ ہم آئی ایس اے ممبران کو ہر سال شمسی توانائی میں 500 تربیتی سلاٹس فراہم کریں گے۔

ہم نے پوری دنیا میں 143 ملین امریکی ڈالر کے 13 شمسی پروجیکٹ یا تو پورے کر لیے ہیں یا ان کو کارآمد کیا جا رہا ہے۔ ہندوستان 15 دیگر ترقی پذیر ممالک میں 1.4 بلین امریکی ڈالر کی مدد 27 مزید پروجیکٹوں کے لیے دینے والا ہے۔

ہم نے پروجیکٹوں کے  تیار کرنے کی سہولت کا قیام عمل میں لایا  ہے جو بینکیبل پروجیکٹس ڈیزائن کرنے کے لیے پارٹنر ممالک کو کنسلٹینسی سپورٹ دے گی۔

مجھے آج یہ اعلان کرتے ہوئے بھی خوشی ہو رہی ہے کہ ہندوستان شمسی ٹکنالوجی کے خلا کو پُر کرنے کے لیے سولر ٹکنالوجی مشن بھی شروع کرے گا۔ اس مشن کی بین الاقوامی توجہ ہوگی اور یہ ہماری پوری سرکاری، تکنیکی و تربیتی اداروں کو ساتھ ملاکر سولر شعبے میں آر اینڈ ڈی کوششوں کی رہنمای کرے گی۔

دوستوں،

پوری مقدار میں ہوا کی طرح دستیاب شمسی توانائی کی ترقی اور استعمال ہماری ترقی کے علاوہ زمین کا کاربن وزن ضرور کم کرے گا۔

دوستوں،

ہمیں کچھ پوائنٹس پر توجہ دینا ہوگا۔ اور وہ ہیں – ایک جانب بہت سے ملک ہیں جن میں سورج سال بھر روشن رہتا ہے لیکن وسائل اور ٹکنالوجی کی کمی شمسی توانائی کے استعمال میں آڑے آتا ہے، رکاوٹ بنتا ہے۔

دوسری جانب ایسے جزائر گروپ اور ملک ہیں جن کے وجود کو ماحولیاتی تبدیلی کے اثر کا سیدھا سیدھا خطرہ ہے۔ تیسری بات یہ ہے کہ شمسی توانائی روشنی کے لیے ہی نہیں، بلکہ دیگر بہت سے استعمالوں – ٹرانسپورٹیشن، کلین کوکنگ، زراعت میں شمسی پمپ اور حفظان صحت میں بھی اتنی ہی ضروری ہو سکتی ہے۔

شمسی توانائی کے استعمال کو فروغ دینے کے لیے ٹکنالوجی کی دستیابی اور ترقی، اقتصادی وسائل، قیمتوں میں کمی، اسٹوریج ٹکنالوجی کی ترقی، ماس مینوفیکچرنگ، اور اختراع کے لیے پورا ماحولیاتی نظام بہت ضروری ہے۔

دوستوں،

آگے کا راستہ کیا ہے، یہ ہم سب کو سوچنا ہے۔ میرے من میں دس ایکشن پوائنٹس ہیں جو میں آج آپ سے شیئر کرنا چاہتا ہوں۔ سب سے پہلا ہے، ہمیں یہ یقینی بنانا ہوگا کہ بہتر اور سستی شمسی ٹکنالوجی سب کے لیے آسان اور سستی ہو۔

ہمیں ہمارے انرجی مکس میں سولر کا تناسب بڑھانا ہوگا۔ ہمیں اختراع کو فروغ دینا ہوگا تاکہ مختلف ضرورتوں کے لیے شمسی حل حاصل ہو سکے۔

ہمیں شمسی پروجیکٹوں کے لیے کونسیسنل فنانسنگ اور کم جوکھم کا مالی امداد مہیا کرانا ہوگا۔ ریگولیٹری پہلوؤں اور معیارات کی ترقی کرنی ہوگی جو شمسی حل اپنانے اور ان کے ترقی کو ایک نئی راہ دیں۔ ترقی پذیر ممالک میں بینکیبل شمسی پروجیکٹس کے لیے کنسلٹینسی سپورٹ کی ترقی ضروری ہوگی۔

ہماری کوششوں میں زیادہ شمولیت اور شرکت پر زور دیا جائے۔ ہمیں اتھارٹی کے مراکز کا ایک مضبوط نیٹ ورک بنانا چاہیے جو مقامی حالات اور وجوہات کو ذہن میں رکھ سکیں۔ ہماری شمسی توانائی پالیسی کو ترقی کو مجموعی طور پر دیکھیں، تاکہ ایس ڈی جی کو حاصل کرنے میں اس سے زیادہ تعاون ملے۔ ہمیں آئی ایس اے سکریٹریٹ کو مضبوط اور پروفیشنل بنانا چاہیے۔

دوستوں،

مجھے یقین ہے کہ ہم آئی ایس اے کے ذریعے ان سبھی ایکشن پوائنٹس پر تیزی سے گامزن ترقی کرکے آگے بڑھ پائیں گے۔

دوستوں،

آج کا یہ لمحہ ہمارے سفر کی شروعات ہے۔ ہمارا یہ اتحاد ہمارے زندگی کو سورج کی روشنی سے اور بھی بھر سکتاہے۔ یہ ’ہمیں سورج کو روشن کرنے دو‘ کو بھی یقینی بنا سکتا ہے۔ ہمیشہ سے ہندوستانی فلسفہ کی روح ‘وسودھیو کُٹمبکم’ – یعنی ‘پوری دنیا ایک کنبہ ہے’۔

اگر ہم پوری سرزمین، پوری انسانیت کی بھلائی چاہتے ہیں تو مجھے یقین ہے کہ نجی دائروں سے باہر نکل کر ایک کنبے کی طرح ہم مقاصد اور کوششوں میں اتحاد اوریکسانیت لا سکیں گے۔

دوستوں،

یہ وہی راستہ ہے جس سے ہم قدیم سادھوؤں کی پرارتھنا – ’تمسو ما جیاترگمیہ‘ – یعنی ہم اندھیرے سے روشنی کی جانب چلیں، کو ثابت کر پائیں گے۔

بہت بہت شکریہ۔

Related posts

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More