26 C
Lucknow
Online Latest News Hindi News , Bollywood News

نائب صدرجمہوریہ نے پانی کے تحفظ اور آب وہوا میں تبدیلی اور آلودگی پر قابو پانے کے لئے اختراعی حل ڈھونڈنے کے لئے کہا

Urdu News

نئی  دہلی: نائب صدر جمہوریہ  جناب ایم وینکیا نائیڈو نے سائنسدانوں سے کہا کہ وہ آبی وسائل کے تحفظ اور آب وہوا میں تبدیلی نیز آلودگی جیسے مسائل پر قابو پانے کے لئے اختراعی حل تلاش کریں ۔

          بحری ٹکنالوجی سے متعلق قومی ادارے کی سلور جوبلی تقربیات  تے خطاب کرتے ہوئے نائب صدر جمہوریہ نے کہا کہ ساحلی علاقوںکو آب وہوا میں  تبدیلی کے منفی اثرات سے بچانے  اور سماج کے فائدے کے لئے بحری ساحلوں کے بنیادی ڈھانچے تیار کرنے  کے لئے ٹکنالوجی کی ضرورت ہے ۔

          سمندری پانی  کو پینے کے پانی میں بدلنے کے لئے کھارے پانی کوصاف کرنے جیسی  ٹکنالوجی تیار کرنے پر این آئی او ٹی ٹی تعریف کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس بات کی یقین دہانی کی ضرورت ہے کہ اس طرح کی ٹکنالوجی کم لاگت والی ہو۔

          ملک  کی مجموعی ترقی میں  بحری معیشت کی اہمیت کے بارے میں  اظہار خیال کرتے ہوئے نائب صدر جمہوریہ نے خوشی کا اظہار کیا کہ این آئی او ٹی سمندری معیشت کے چھ ترجیحی ستونوں  پر کام کررہی ہے ، جن میں ماہی گیری   اور ایکوا کلچر ،  قابل تجدید بحری توانائی  ،سمندری بندرگاہیں اور جہاز رانی شامل ہے۔کنارے سے کچھ دور ہائیڈرو کاربن  ،سمندر کی تہہ میں  قائم معدنیات  اور بحری بایوٹکنالوجی  ۔

          نائب صدرجمہوریہ نے اشارہ دیا کہ سمندری معیشت میں  کاربن کو ختم کرنے ، ساحلوں کے تحفظ ، ثقافتی اقدار اور حیاتیاتی تنوع جیسے  اقتصادی فائدے شامل ہیں۔انہوں نے  کہا کہ سمندروں کے ذریعہ  تجارت ، کامرس اور کنارے سے کچھ دور تیل اور گیس ، ماہی گیری  ،سمندر کی تہہ میں  کیبل اور سیاحت  کی  کافی اہمیت ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ایکواکلچر ، سمندری بایوٹکنالوجی  ،بحری توانائی اور سمندر کی تہہ میں کانکنی جیسی  ابھرتی ہوئی صنعتوں میں  یہ صلاحیت موجود ہے کہ ان سے روز گار کے مواقع پیدا ہوں گے اور دنیا بھر میں  اقتصادی ترقی کو رفتار ملے گی۔

          جناب نائیڈو نے  سمندری توانائی  ، بحری بایولوجی اور حیاتیاتی ٹکنالوجی کے شعبوںمیں سرگرمیوں اور اختراع کی تحقیق کو  آگے بڑھانے کی سخت ضرورت کو پورا کرنے کے لئے بھی کہا تاکہ بھارت ان شعبوںمیں  ایک قائد کی حیثیت کا حامل ہوجائے۔

          نائب صدر جمہوریہ نے ارضیاتی علوم کی وزارت اور این آئی او ٹی کو  ان کے آئندہ  پروجیکٹ  سمدر یان  کی کامیابی پر اپنی نیک خواہشات بھی پیش کیں۔

          جناب نائیڈو نے اعلان کیا  کہ انہوں  نے بھارت کے نائب صدر جمہوریہ کا عہدہ سنبھالنے کے بعد  ملک بھر میں  مختلف سائنسی اداروں کے دورے کا ایک مشن بنایا تاکہ  اس شعبے میں جاری تحقیق کے بار ے میں  برموقع معلومات حاصل کی جاسکے ۔اس ضمن میں  انہوں  نے  آئی این سی اوآئی ایس اور حیدرآباد میں  سونامی وارننگ کے قومی مرکز    کےدورے کا ذکر کیا۔

          نائب صدر جمہوریہ نے کہا کہ وہ بحری تحقیق  اور معلومات   نیز مشاورتی خدمات  اور ساحلی ریاستوں   میں  سونامی کی پیشگی تیاری   کے میدانوں   میں  سائنسدانوں  کے  کام سے انتہائی درجے پر متاثرہیں۔

          نائب صدر جمہوریہ  نے  بحری ٹکنالوجی کے  قومی ادارے کی طرف  سے   چنئی  کے لئے تیار کئے گئے  ، ساحلی سیلاب  کی وارننگ کے نظام کے ایپ  (سی ایف ایل او ڈبلیو ایس ۔چنئی ) کا بھی آغاز کیا۔انہوں  نے  اس موقع پر ایک یادگاری ڈاک ٹکٹ کا بھی اجرا کیا۔

          اس سے پہلے جناب نائیڈو نے ایک نمائش دیکھی جس میں  این آئی او ٹی کی تیار کردہ  انتہائی جدید  اور سماجی ضرورتوں  پر پورا اترنے والی ٹکنالوجی  کا مظاہرہ کیا گیا تھا۔

          تامل  ناڈو کے گورنر جناب بنواری لال پروہت ، صحت اور خاندانی بہبود ، سائنس وٹکنالوجی  اورارضیاتی علوم کے مرکز ی  وزیر ڈاکٹر ہرش وردھن ،تامل ناڈو کے نائب وزیراعلیٰ اوپنیر  سلوم   ،   تامل ناڈو سرکار  کے تحت  ماہی گیری اور عملے وانتظامی اصلاحات   کے وزیر ڈاکٹر جے کما ر اور  بحری ٹکنالوجی سے متعلق قومی  ادار ے کے ڈائریکٹر ڈاکٹر ایم اے آتما نند  بھی  اس تقریب میں  شرکت کرنے والی شخصیتوں میں  شامل ہیں۔

تقریر کا پورا متن  مندرجہ ذیل  ہے :

          ’’آج مجھے  بحری ٹکنالوجی کے قومی ادارے کی سلور جوبلی تقریبات میں شرکت کرتے ہوئے خوشی ہورہی ہے۔

          این آئی او ٹی اور زمینی علوم کی وزارت دو نوںکو ہی ان کے  کامیاب سمندری سفر اور اس سنگ میل تک پہنچنے پر میری دلی مبارکباد!

          مجھے یہ کہتے ہوئے خوشی  ہورہی ہے کہ این آئی او ٹی سمندر سے متعلق شعبے میں  جدید ترین تحقیق  کررہا ہے۔ جزیرے  پر رہنے والی برادریوں  کے لئے کھارے پانی کو میٹھا پانی بنانے والے پلانٹ جیسی ٹکنالوجی کے مظاہرے کے علاوہ   مجھے بتایا  گیا ہے کہ این آئی اوٹی اور دیگر  سونامی وارننگ کے لئے اعداد وشمار جمع کرنے  اور  ساحلوں  کی بحالی   میں مصروف ہے ،جس کے  ،سماج کے لئے زبردست فائدے ہیں۔

          مجھے بتایا گیا ہے کہ این آئی اوٹی  معدنیات کی ملک  کی بڑھتی ہوئی ضرورتوں  کو پورا کرنے اور مستقبل قریب میں  ملک کی خود انحصاری میں  اضافہ کرنے کے لئے  وسائل  کو  ٹکنالوجی سے ترقی دینے کے لئے  بھی کام کررہا ہے۔

          سمندر  کے  زندہ اور بے جان  وسائل کے  دیر پا فروغ  کے لئے ٹکنالوجی کی تیاری  بھارت کی حکومت  کی بحری اقتصادی  پالیسی کے مطابق ہے اور اس سے ملک کو  خلا ئی ٹکنالوجی کی طرح  سمندر میں  بھی ایک قائد بننے کا موقع فراہم ہوگا۔

          یہ بڑے فخر کی بات ہے کہ این آئی او ٹی سمندری تحقیق  کی بین الاقوامی تنظیموں  کے  معیار پر جدید ترین تحقیق کررہا ہے ۔

          سمندر کی اہمیت  ہمارے لئے کو ئی نیا موضوع نہیں ہے اور ہمارے آباؤ اجداد نے  ہزاروں  برس پہلے سمدر منتھن   کے بارے میں بتایا ہے۔    بحری جنگی سازو سامان  اورتجارت   جیسی  ،  سمندر سے متعلق  سرگرمیاں  قدیم دور سے جاری ہیں۔ لوتھل کی  قدیم ترین بندرگاہ او رپہلی صدی کی  پوم پہار  کی  چولہ بندرگا ہ  ،  بحری بنیادی  ڈھانچے کے فروغ سے ہمارے تعلقات  کی مثال ہے۔روم کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ  تجارتی جہازوںکی پوم پہار بندرگاہ سے   دریا کے دہانے تک  ،  بادشاہ کے بیڑے کی حفاظت کس  طرح کی جاتی تھی کیونکہ یہ کاویری دریا کے دہانے پر ایک قدرتی بندرگاہ تھی۔

          مملا پورم  میں  جہاں بھارت کے  وزیر اعظم جناب نریندرمودی اور پیپلز ری پبلک اور آف چائنا  کے صدر شی جم پنگ کے درمیان حال ہی میں  میٹنگ ہوئی تھی ۔ساتویں صدی  میں  پلو عہد کےدوران  ایک اہم بندرگاہی شہر تھا اور یہ  نویں صدی کے آخر تک ایک زبردست بندرگاہ بھی تھی ،جو ایک قصبہ تھا  ،جو    چین کی شاہراہ ریشم     اور  بھارت کی مسالوں کی شاہراہ   کا حصہ تھا۔  کانچی پورم کی ریشم کی صنعت   کے لئے  مملا پورم کے ذریعہ  چین سے خام ریشم کی  درآمد    کی جاتی تھی۔  اشوکا سے شروع ہوکرسبھی  بھارتی حکمرانوں  خصوصاََراجندر چولہ     نے  سمندر وں  پر اپنے تسلط  کا اظہار کیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہم نے  چھوٹے جہازوں  ،سمندر کے  بیچ  بڑے  جہازوں سے  سازوسامان چھوٹی کشتیوں  میں منتقل کرنے اور بندرگاہوں  کے ذریعہ سازوسامان کی منتقلی جیسے  بحری بنیادی ڈھانچہ تیار کرنے کی  روائتی طور پرمعلومات حاصل کی ۔

          میں  سمجھتا ہو ں کہ این آئی  او ٹی کا مشن  عالمی سطح کی ٹکنالوجی تیار کرنا اور سمندری وسائل کے دیر پا صرفے کے لئے اس پر عمل درآمدکرنا ہے تاکہ  ان  تنظیموں کو  تکنیکی خدمات اور حل  فراہم  کرنے کی مقابلہ جاتی   ،ویلیو ایڈڈ  تکنیکی خدمات فراہم  کی جا سکیں ، جو سمندر سے متعلق سرگرمیوں  پر کام کررہی ہیں ، نیز اس کا مقصد   بھارت میں   معلومات پر مبنی  اور ادارہ جاتی صلاحیتو ں  کو فروغ دینا ہے ۔ یہ اقدامات  سمندری وسائل اور ماحولیات کے بندوبست کے لئے بھارت میں   ادارہ جاتی  صلاحیتو ں کو فروغ دینا ہے جس کا مقصد سمندری وسائل او رماحول کا بندوبست  کرنا ہے۔ مجھے یہ کہتے ہوئے خوشی ہورہی ہے کہ این آئی او ٹی ٹی  کی تحقیق میں  ساحلوں  اور کناروں سے کچھ دور بنیادی ڈھانچے کی تشکیل  کے لئے تفصیلی انجنئرنگ ، سمندر سے متعلق اعدادوشمار حاصل کرنے کی صلاحیت  ،  بحری حیاتیاتی   ۔ ارضیاتی  کیمسٹری  ،  بحری آلودگی  ،سمندر کی پیمائش   ، بحری  ماحولیات ،  بحری  دواؤں اور  سمندر سے متعلق ٹکنالوجی    شامل ہے ۔

          سماج  کے فائدے  کے لئے  ساحلی علاقوںکو آب وہوا میں  تبدیلی کے منفی اثرات سے بچانے اور    ساحلی بنیادی ڈھانچے کے فروغ  کے لئے  ٹکنالوجی کی ضرورت ہے ۔ مجھے  یہ کہتے ہوئے خوشی ہورہی ہے کہ این آئی او ٹی قطبی خطے میں  بروقت سمندری مشاہدے کا ایک نیٹ ورک    آب وہوا میں  تبدیلی کے مطالعات کے لئے قطبی خصے کی دیر پا مانیٹرنگ کے لئے چلا رہا ہے ۔

          بھارت  کی ساحلی پٹی   7 ہزار 500  کلومیٹر سے  زیادہ  طویل ہے اور اس میں یہ صلاحیت ہے کہ  عالمی تجارت میں اضافہ کرکے خاص  طور پر اس تجارت میں جس کا تعلق  سمندر اور ساحلی  ماحول سے  جو اقتصادی ترقی کے لئے ایک کلیدی وسیلے کی حیثیت رکھتا ہے ،  ایک خاطر خواہ آبادی کے لئے خوراک  اور گزر بسر کا سامان فراہم کرسکے ۔

          مجھے یہ کہتے ہوئے بھی خوشی  ہورہی کہ این آئی او ٹی  سمندری معیشت کے چھ  ترجیحی ستونوں کے تقریباََ سبھی  پہلوؤں ،  ماہی گیری اور ایکوا کلچر  ،  قابل تجدید سمندری توانائی   ،سمندری بندرگاہیں اور جہاز رانی  ،ساحل سے کچھ دور ہائیڈرو کاربن   اور سمندر کی تہہ میں معدنیات ، سمندری بایو ٹکنالوجی ،  تحقیق وترقی اور سیاحت  پر کام کررہا ہے ۔

          سمندری معیشت سے  اقوام متحدہ کے دیر پا ترقی کے نشانوں کا 14واں نشانہ حاصل کرنے میں مدد ملے گی ،جسے  ’’سمندر کے اندر کی زندگی‘‘  کا نام دیا گیا ہے۔اس میں کہا گیا ہے :’’  دیر پا ترقی کے لئے  سمندر وں  ،دریاؤں  اور بحری وسائل  کا تحفظ کیجئے  اور اسے دیر پا انداز میں  استعمال کیجئے ‘‘ سمندری معیشت میں وہ اقتصادی فائدے  بھی شامل ہیں جن کی مارکیٹنگ نہیں کی جاسکتی ۔جیسے  کاربن کو الگ کرنے  ،  ساحلوں کی  حفاظت  ،ثقاتی اقدار اور حیاتیاتی تنوع  ۔

          مجھے پورا اعتماد ہے کہ این آئی اوٹی   سمندری معیشت کی اہم چنوتی  سے نمٹنے  کے لئے پوری طرح تیار ہے  تاکہ  سمندری دیر پائگی  کے  مختلف  پہلوؤں کو بہتر طریقے سے سمجھا جاسکے اور  ان کا بندوبست  کیا جاسکے ۔ ان  پہلوؤں  میں دیر پا  ماہی گیری سے لے کر  حیاتیاتی نظام کی  صحت   سے لے کر آلودگی کی روک تھام تک شامل ہے ۔ سمندری وسائل کے دیر پا بندوبست میں  اہم رول ادا کرتے ہوئے این آئی اوٹی کو چاہئے کہ وہ مختلف شعبوںاور سرحدوں کے مابین  ساجھیداری اور شراکت تشکیل دے ۔

          نیتی آیوگ نے کہا کہ سمندر   ٹکنالوجی کے اس جدید دور میں  اقتصادی سرگرمیوں  کے   نئے مراکز  بن جائیں  گے  جبکہ  سمندر  ، جہاز رانی   ساحل سے کچھ دور تیل اور گیس  ،ماہی گیری ،سمندر کے اندر کبیلس   اور سیاحت  کے میدانوں  میں اہم تجارت اور کامرس کے لئے  پہلے  ہی اہمیت رکھتے ہیں ،  ایکواکلچر  ،بحری  بایو ٹکنالوجی ،سمندری انرجی اور سمندر کی تہہ میں کانکنی جیسی ابھرتی ہوئی صنعتوں  میں روز گار کے نئے موقعے  پیدا کرنے اور  عالمگیر سطح پر اقتصادی ترقی  جیسی صلاحیتیں  موجود ہیں۔

          اس بات کی ضرورت  ہے کہ سمندری توانائی  ، بحری بایو لوجی اور بایو ٹکنالوجی کے شعبوں  میں  تحقیقی سرگرمیوں اور اختراع کی زبردست ضرورت ہے  تاکہ ملک  ان شعبوں میں  ایک قائد کی حیثیت کا حامل ہوجائے اور این آئی او ٹی  اس  راہ  پر سنگ میل کی حصولیابی میں  پیش  پیش رہے۔

          جیسا کہ آپ میں سے زیادہ ترلوگ جانتے ہیں کہ اقوام متحدہ  نے  2030-2021 کی دہائی  کو  ’’  دیر پار ترقی  کے لئے  سمندری علوم کی دہائی قراردیا ہے۔ مجھے  یہ کہتے ہوئے خوشی ہورہی ہے کہ بھارت ایک صحت مند اور مزاحم  سمندر  کے تئیں  سرگرم  قدم اٹھانے کا عہد بند ہے ۔

          سمندر  کے  اہم رول کے مدنظر  ارضیاتی علوم  کی وزارت  نے  گہرے سمندر کا ایک مشن  شروع کیا ہے ،جس میں سمندری وسائل  کے                     دیر پا  اور ماحولیاتی اعتبار سے محفوظ  فروغ  کے  سبھی  درکار پہلوؤں کو شامل کیا گیا ہے ۔  میں  چاہتا ہوں    ارضیاتی علوم  اور این آئی او  ٹی کی وزارت کو  ان کے سبھی  امنگوں والے پروجیکٹ  سمدر یان  میں  کامیابی حاصل ہو ۔ اس  کے ساتھ  ہی بھارت ان  مخصوص ملکوں میں شامل ہوجائے گا جنہوں  نے خلا اور گہرے سمندر  کو فتح کرلیا ہے ۔

          50 برسو ں  کےتئیں  آپ کا  سفر جاری ہے  اور    مجھے  یہ کہتے ہوئے خوشی ہورہی  ہے  کہ  آپ نے  بہت سے طویل مدتی نشانوں   کے تئیں   پہلے ہی کام شروع کردیا ہے ۔ اپنی بات ختم کرنے سے  پہلے مین این آئی او ٹی کو اس  سنگ میل تک پہنچنے پر ایک بار مبارکباددیتا ہوںاور مجھے اعتماد ہے کہ این آئی او ٹی  گہرے سمندر کے وسائل  کی تلاش کے لئے  جدید ترین ٹکنالوجی تیار کرنے  اور  بھارتی سمندر  کی حفاظت   میں  آئندہ برسوں میں  ایک قائدانہ کردار اد ا کرے گا۔میری خواہش  ہے  کہ این آئی او ٹی  کو اس کی  ،مستقبل  کی  کوششوں  میں   کامیابی  ملے ۔

Related posts

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More