نئی دہلی، نائب صدر جمہوریہ ہند جناب ایم وینکیا نائیڈو نے کہا ہے کہ پرائیویٹ سیکٹر کو ہندوستان کے حفظان صحت کے میدان میں آگے بڑھ کر کام کرنا چاہئے، تاکہ پورے ملک کے حفظان صحت کی ضرورتوں کی تکمیل ہوسکے۔ جناب ایم وینکیا نائیڈو چنئی میں ’’جدت طرازی، حوصلہ افزائی اور ارتباط‘‘ کے مرکزی خیال پر نیشنل کانفرنس آف اورل اینڈ میکسیلوفیشیل سرجنس آف انڈیا کے 43ویں اجلاس سے خطاب کررہے تھے۔
جناب ایم وینکیا نائیڈو نے اپنی تقریر میں آگے کہا کہ سائنس اور ٹیکنالوجی دور قدیم سے ہی ہندوستان کی ثقافت میں شامل رہی ہے۔ ہم نے صفر کی ایجاد کی۔ اندازہ کاری، الجبرا، ایٹم کا تصور، سورج گرہن کے حساب و کتاب جیسے متعدد امور ہم نے ایجاد کئے۔ یہاں چرک نے سیکڑوں امراض، ان کے اسباب اور ان کے علاج کے طریقے ایجاد کئے ہیں، وہیں ’سشرتا سمہیتا‘ بھی انھیں منفرد طریقوں میں شامل ہے۔
نئے میکسیلوفیشیل سرجنس سے سرجری کے نئے آفاق تلاش کرنے پر زور دیتے ہوئے نائب صدر جمہوریہ موصوف نے کہا کہ سماج میں اورل اور میکسیلوفیشیل سرجنوں کی حیثیت نہ صرف انتہائی اہمیت کی حامل ہے بلکہ بے نظیر ہے، بالخصوص افسوس ناک حادثات یا منھ کے کینسر کے مرض میں ان کی خدمات بے نظیر ہیں۔
نوجوانوں کے ہیلمٹ نہ پہننے کے بارے میں بولتے ہوئے جناب ایم وینکیا نائیڈو نے کہا کہ ہیلمٹ بدقسمت حادثات کی صورت میں سر اور چہرے کو سنگین زخموں سے محفوظ رکھتا ہے، اس لئے ہیلمٹ پہننے کو عادت بنالیا جانا چاہئے۔ ہندوستان میں ہر ساڑھے تین منٹ کے وقفے سے ایک سڑک حادثہ رونما ہوتا ہے۔ انتہائی تیز رفتاری، گاڑی چلاتے وقت موبائل کا استعمال اور ڈرائیوروں کی تھکن بیشتر حادثات کے اسباب میں شامل ہیں اور ہمارے نوجوان ان حادثات کا خاص نشانہ بنتے ہیں۔ جناب نائیڈو نے گاڑیاں تیزی سے چلانے کے شوقین نوجوانوں کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ انھیں تیز رفتاری کے خطرات سے خبردار اور محتاط رہنا چاہئے۔ ان کی زندگی انتہائی بیش قیمتی ہے اور ان کا مستقبل بہت ہی روشن ہے، اس لئے اسے محض لمحاتی مسرت کے لئے ضائع نہیں کرنا چاہئے اور احتیاط اور حفاظت کے ساتھ گاڑی چلانی چاہئے۔
جناب نائیڈو نے اپنی تقریر میں مزید کہا کہ ہندوستان دنیا میں منھ کے سرطان کی راجدھانی کی حیثیت رکھتا ہے اور اس موذی مرض کی رونمائی کی صورت ایسی ہے کہ یہ ہندوستان کے تین سب سے بڑے امراض میں شامل ہے، اس لئے اورل اور میکسیلوفیشیل سرجنس کی ذمے داری ہونی چاہئے کہ وہ نہ صرف اس کا علاج کریں بلکہ تمباکو سے پرہیز کے بارے میں بیداری پھیلاکر منھ کے سرطان کو پھیلنے سے روکنے کی کوشش کریں۔
جناب ایم وینکیا نائیڈو نے ملک کے حفظان صحت کے میدان کے پیشہ ور افراد سے زور دے کر کہا کہ انھیں عام لوگوں کو فوری اور باقاعدہ طبی جانچ کی ترغیب دینی چاہئے۔ مرض کی پیشگی پتہ نہ لگ پانے اور اس کی تشخیص نہ ہوپانے کا نتیجہ اکثر ایسی صورت میں ظاہر ہوتا ہے کہ مریض انتہائی نازک حالت میں طبی امداد طلب کرتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اورل اور میکسیلوفیشیل سرجری پر آنے والی لاگت کو کم کرکے اسے ایسا بنایا جانا چاہئے کہ دیہی علاقوں کے لوگوں سمیت عام آدمی اس کے اخراجات کا متحمل ہوسکے۔
جناب ایم وینکیا نائیڈو نے کہا کہ کسی بھی مرض کی پیشگی شناخت اور بالخصوص سرطان کے مرض کی پیشگی شناخت انتہائی اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ حالانکہ تدارکی شفایاب اور مسکن دیکھ بھال کے پروگرام قومی اور علاقائی سطحوں پر شروع کئے جاچکے ہیں، لیکن یہ اقدامات سرطان کے مرض کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے ابھی بہت کم محسوس ہوتے ہیں۔ مہنگی حفظان صحت خدمات ایک سنگین سماجی دشواری کی حیثیت رکھتی ہیں اور آیوشمان بھارت اسکیم غریبوں اور ضرورت مند افراد کے لئے عطیہ خداوندی ثابت ہوگی۔
نائب صدر جمہوریہ موصوف نے اپنی تقریر کے آخر میں حفظان صحت کے میدان کے تمام پیشہ ور افراد پر زور دیتے ہوئے کہا کہ چہرے اور جبڑوں کی مرض کے علاج کے طریقوں کے بارے میں بیداری پیدا کی جانی چاہئے اور پی ایچ سی مراکز سمیت تمام طبی اداروں میں ان طریقوں پر روشنی ڈالنی چاہئے۔ آج ان دشواریوں کے تدارک کے لئے ایک مضبوط حوالہ جاتی نظام کی ہر قریبی اسپتال میں انتہائی اشد ضرورت ہے، جہاں خصوصی او ایم ایف علاج کی خدمات دستیاب کرائے جانے کا انتظام کیا جاسکتا ہے۔
اس اجلاس میں تمل ناڈو کے فیشریز، پرسونل و پبلک ایڈمنسٹریٹیو ریفارمس جناب ڈی جے کمار، ڈینٹل کونسل آف انڈیا کے صدر ڈاکٹر دیوویندو مجمدار، جاپانیز سوسائی آف او ایم ایس کے صدر ڈاکٹر مہی کیکی کوگو، اے او ایم ایس آئی کے صدر ڈاکٹر فلپ میتھیو اور دیگر سرکردہ شخصیات نے شرکت کی۔
اس موقع پر جناب ایم وینکیا نائیڈو کی تقریر کا متن حسب ذیل ہے:
’’مجھے چنئی کے شہر علم میں ایسوسی ایشن آف اورل اینڈ میکسیلیوفیشیل سرجنس آف انڈیا (اے او ایم ایس آئی) کی سالانہ کانفرنس میں ڈاکٹر حضرات سے گفتگو کرنے پر انتہائی مسرت ہورہی ہے۔ میں ’’جدت طراز ترغیب اور ارتباط‘‘ کو اس کانفرنس کا مرکزی خیال منتخب کرنے پر منتظمین کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
مجھے بتایا گیا ہے کہ یہ کانفرنس معمولی سرجری کے عمل سے لے کر کمپیوٹر سے کی جانے والی سرجری، انٹرآپریٹیو نیوی گیشن اور روبوٹک سرجری سمیت متعدد سائنسی موضوعات، گفتگو اور مباحث کے لئے پیش کئے جاتے ہیں۔ مجھے یہ بھی بتایا گیا تھا کہ اے او ایم ایس آئی اور ان کے جاپانی ہم منصب ادارے جاپانیز سوسائٹی آف اورل اینڈ میکسیلوفیشیل سرجنس (جے ایس او ایم ایس) تحقیق، علم کی منتقلی اور طلبہ کے باہمی تبادلے کے پروگرام پر ایک مفاہمتی عرض داشت پر دستخط کررہے ہیں، میں انھیں اپنی انتہائی نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔
دوستو، سائنس اور ٹیکنالوجی کو ہندوستان کی ثقافت اور روایات میں انتہائی اہم جزو کی حیثیت حاصل رہی ہے۔ ہندوستان کے دور قدیم میں سائنسی جھکاؤ صفر کی ایجاد، اندازہ کاری، الجبرا، ایٹم کے تصور، گرہن کے حساب کتاب سمیت متعدد میدانوں میں واضح تھا۔ علاوہ ازیں یہاں چرک نے سیکڑوں امراض، ان کے اسباب اور ان کے علاج کے طریقے بتائے ہیں وہیں ’سشرتا سمہیتا‘ سرجری کی تفصیلات بیان کرتی ہے۔ آیوروید جیسے ہمارے ادویاتی نظام نے صحت کے انتہائی پیچیدہ مسائل کے حل پیش کئے ہیں۔
مجھے خوشی ہے کہ یہاں موجود ڈاکٹر حضرات متعدد اہم موضوعات، بالخصوص دانتوں کے امراض کے علاج کے علم- اورل اور میکسیلیو فیشیل سرجری (او ایم ایف ایس) جیسے موضوعات پر غور و خوض کررہے ہیں۔ واضح ہو کہ اورل اینڈ میکسیلیوفیشیل سرجری دراصل اٹھارہویں صدی کے اواخر میں مملکت متحدہ برطانیہ (یو کے) اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ (یو ایس اے) میں شروع ہوئی تھی۔ اسے علم دندان سازی کے اورل سرجری کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔ ہندوستان میں اس کی جڑیں خاص طور سے ممبئی میں اس وقت نظر آئیں جب پروفیسر گنولا نے کینیڈا میں ڈاکٹر رِسڈن سے تربیت حاصل کرنے کے بعد ہندوستان میں اورل سرجری کا پہلا تربیتی پروگرام شروع کیا۔
آج کل خاص طور سے اس مخصوص طریقۂ علاج کو اورل اینڈ میکسیلیو فیشیل سرجری کے نام سے نئی شکل دی گئی ہے۔ آج نئے میکسیلیو فیشیل سرجن کو سرجری کے نئے آفاق دستیاب ہیں، جن میں منھ اور جبڑے کی سرجری کے طریقے بھی شامل ہیں۔ علاوہ ازیں سر اور گردن کی سرجری آنکھوں کے گرد کی ہڈیوں کی مرض کی سرجری جیسے متعدد پیچیدہ طریق علاج شامل ہیں۔
عزیز دوستو، ہمارے سماج میں اورل اور میکسیلیو فیشیل سرجن کا کردار اور حیثیت انتہائی اہم ہوتی ہے اور بالخصوص افسوسناک حادثات اور منھ کے سرطان کے معاملات میں ان حضرات کی حیثیت بے نظیر ہوتی ہے۔
سرکاری اندازوں کے مطابق ہندوستان میں ہر ساڑھے تین کے وقفے سے ایک سڑک حادثہ ہوتا ہے۔ انتہائی تیز رفتاری، گاڑی چلاتے وقت موبائل کا استعمال اور ڈرائیوروں کی تھکن سے بیشتر سڑک حادثات واقع ہوتے ہیں۔ میں اس موقع پر تیزی سے گاڑی چلانے کا لطف لینے والی اپنی نئی نسل کو خبردار کرنا چاہتا ہوں کہ تیز رفتاری کے خطرات سے ہوشیار رہیں۔ آپ کی زندگی بیحد قیمتی ہے اور آپ کا مستقبل بیحد روشن ہے، اسے لمحاتی مسرت کی نذر نہ کیجئے، محفوظ طریقے سے گاڑی چلائیے۔
چہرے کے زخم اور نقائص سے نہ صرف شدید تکلیف ہوتی ہے، بلکہ لوگوں کو انتہائی سنگین حالات درپیش ہوجاتے ہیں، جن میں انھیں انتہائی شدید جذباتی دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس سے مریض پر سنگین نفسیاتی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
اب میں اپنے دور اور اپنے عہد کے سب سے سنگین مسئلے پر گفتگو کرنا چاہوں گا۔ ہندوستان دنیا میں منھ کے کینسر کے سرطان کی راجدھانی بن گیا ہے۔ ہمارا ملک اس مرض کے تعلق سے دنیا کے تین سب سے زیادہ سرطان زدہ ملکوں میں شامل ہے۔ تقریباً ایک لاکھ میں بیس افراد منھ کے سرطان کے مرض کے شکار ہوتے ہیں اور ان میں سے 90 فیصد امراض کا سبب مختلف شکلوں میں تمباکو نوشی ہے۔
آج یہاں دنیا میں سرطان کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے، وہیں ہندوستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں سرطان کے مریضوں کی تعداد میں زبردست اضافہ دیکھا گیا ہے۔ ایک اندازہ کے مطابق ہندوستان میں وقت کے ہر مرحلے پر سرطان کے 30 لاکھ مریض موجود ہوتے ہیں، جبکہ ہر سال سرطان کے 10 لاکھ مریضوں کا اضافہ ہوتا ہے۔ ہمارے ملک میں ہر سال 5 لاکھ افراد کی موت سرطان کے مرض میں ہوتی ہے۔
انڈین کونسل آف میڈیکل ریسرچ (آئی سی ایم آر) کے جاری کردہ 2016 کے اعداد شمار کے مطابق ملک میں 2020 تک سرطان کے مریضوں کی تعداد بڑھ کر 17.3 لاکھ ہوجائے گی۔ اور اس بات کا خطرہ ہے کہ 2020 تک 8.8 لاکھ افراد کی موت سرطان کے مرض سے ہوگی۔ خواتین میں سینے کا سرطان ایک عام مرض بن گیا ہے، جبکہ مردوں میں منھ کے سرطان کا مرض تیزی سے پھیل رہا ہے۔ واضح طور سے یہ ہمارے حفظان صحت کے شعبے کو درپیش ایک سنگین چیلنج ہے اور اس کا انتہائی معقول اور تیز رفتاری کے ساتھ تدارک کیا جانا چاہئے۔
ورلڈ ڈیولپمنٹ انڈیکیٹرس کے مطابق ہندوستان میں صحت کے شعبے پر 30 فیصد خرچ سرکار برداشت کرتی ہے، جبکہ 70 فیصد اخراجات ذاتی طور سے کئے جاتے ہیں۔ جہاں تک زبردست اخراجات کا تعلق ہے ان میں سے 52 فیصد اخراجات دواؤں پر جبکہ 22 فیصد کسی پرائیویٹ اسپتال میں علاج کرانے پر اور 10 فیصد مرض کی شناخت کرنے والی تجربہ گاہوں پر ہوتا ہے۔ یہ بات اپنے آپ میں انتہائی تشویشناک ہے کہ مہنگے طبی علاج کے نتیجے میں مرض کے شکار کنبوں کو قرض کی مار برداشت کرنی پڑی ہے۔
پرائیویٹ سیکٹر کو ملک کی حفظان صحت کی ضروریات کی مجموعی تکمیل کرنے کے لئے آگے بڑھ کر اپنی خدمات انجام دینی چاہئے۔ علاوہ ازیں پرائیویٹ سیکٹر کو اپنے سی ایس آر فنڈ کو استعمال کرکے ملک میں حفظان صحت کی صورت حال میں بہتری پیدا کرنے پر گہرائی سے توجہ دینی چاہئے۔ شراکت داری اور ایک دوسرے کا خیال رکھنا ہندوستانی ثقافت کے جزو لازمی کی حیثیت رکھتے ہیں اور ضرورت مند افراد تک اس سہولت کی رسائی کے ذریعے اس ثقافت کو آگے بڑھایا جانا چاہئے۔ ہمیں اس امر کو یقینی بنانا چاہئے کہ ملک کے غریب سے غریب افراد کو سرکاری اور سماجی اقدامات کا فائدہ پہنچنا چاہئے۔
آخر میں، میں آپ سب سے گزارش کروں گا کہ میکسیلو فیشیل ٹریٹمنٹ کے طریقوں کے بارے میں بیداری پیدا کی جانی چاہئے اور پی ایچ سی مراکز سمیت تمام طبی اداروں میں ان پر تفصیل سے روشنی ڈالی جانی چاہئے۔ ان امراض کے تدارک کے لئے ایک مربوط حوالہ جاتی نظام کی ہر قریبی ضلع اسپتال میں ازحد ضرورت ہے۔ یہاں خصوصی او ایم ایف خدمات کا نظام قائم کیا جاسکتا ہے۔
مجھے امید ہے کہ ایسوسی ایشن آف اورل سرجنس آف انڈیا (اے او ایم ایس آئی) کی یہ کانفرنس اس سنگین مسئلے پر خاطرخواہ روشنی ڈالنے کے ساتھ ساتھ اس کے مفید مطلب حل بھی پیش کرے گی۔
آخر میں، میں طبی شعبے کے ان ماہر پیشہ ور حضرات کو یہاں یکجا کرنے کی زبردست کوششوں کے لئے اس اجتماع کے منتظمین کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔
جے ہند۔