18 C
Lucknow
Online Latest News Hindi News , Bollywood News

پندرہ اگست 2020 کو، 74ویں یوم آزادی کے موقع پر، لال قلعہ کی فصیل سے وزیراعظم جناب نریندر مودی کے خطاب کا متن

Urdu News

آزادی کے اِس مقدس تہوار کی سبھی  ہم وطنوں کو  مبارکباد اور بہت بہت نیک خواہشات ۔

آج جو ہم  آزاد بھارت میں سانس لے رہے ہیں ، اُس کے پیچھے  ماں بھارتی  کے لاکھوں بیٹے بیٹیاں  ، ان کا تیاگ  ، اُن کی قربانی اور ماں بھارتی کو  آزاد کرانے  کے عزم کے تئیں  ، اُن کا عہد  ، آج ایسے سبھی  ہمارے مجاہدین آزادی کو ، آزادی کے بہادروں کو  ، مرد مجاہدین کو  ،  بہادر  شہیدوں  کو  سلام پیش کرنے کا یہ تہوار  ہے  ۔

ہمارے فوج کے جانباز جوان  ، ہمارے نیم فوجی دستے  ، ہمارے پولیس کے جوان ، حفاظتی دستوں سے جڑے ہوئے ، سبھی ماں بھارتی کے دفاع میں   مصروفِ عمل رہتے ہیں ۔ عام انسان کے تحفظ میں لگے رہتے ہیں ۔ آج اُن سب کو بھی  دِل کے ساتھ ، احترام کے ساتھ  ، انہیں سلام پیش کرنے کا ، اُن کی عظیم قربانی   ، تپسیا  کو سلام پیش کرنے کا تہوار ہے ۔

ایک نام اور  جناب اروِند گھوش   انقلاب کے سفیر  سے لے کر روحانیت کا سفر ، آج اُن کے عزم ، اُن کا یومِ  پیدائش  ہے ۔  ہمیں اُن کے عزم کو ہمارے عہد کو پورا کرنے کی  ، اُن کی جانب سے آشیرواد ملتا رہے ۔  ہم ایک خاص صورتِ حال سے گزر رہے ہیں ۔ آج چھوٹے چھوٹے بچے  میرے سامنے  نظر نہیں آ رہے ہیں  ۔ بھارت کا  تابناک مستقبل – کیوں ؟ کورونا  نے سب  کو روکا ہوا ہے ۔

اِس کورونا کے  دور میں  خاص  مقصد کے لئے لڑنے والے  کورونا جانباز  ، چاہے ڈاکٹر ہوں  ، نرسیں ہوں ، صفائی کرمچاری ہوں ، ایمبولنس چلانے والے لوگ ہوں ۔ کس کس کے نام  گنواؤں گا ۔ ان لوگوں نے  اتنے لمبے عرصے تک ، جس طرح سے ” خدمت  سب سے بڑا فرض  ” اس نعرے کو  حقیقت میں تبدیل کرکے دکھایا ہے ۔   مکمل طور  پر   وقف ہونے کے جذبے کے ساتھ   ماں بھارتی  کے لالوں کی  خدمت  کی ہے ۔ ایسے سبھی کورونا واریرس ( جانبازوں ) کو بھی میں آج سلام  کرتا ہوں ۔

اس کورونا  کے دور میں ہمارے بے شمار بھائی بہن  ، اِس کورونا  کی مصیبت  سے متاثر ہوئے ہیں ۔ کئی خاندان متاثر ہوئے ہیں ۔  بہت سوں نے اپنی جان بھی گنوائی ہے ۔  میں ایسے سبھی کنبوں کے تئیں اپنی تعزیت کا اظہار کرتا ہوں اور  اس کورونا کے خلاف  مجھے یقین ہے  130 کروڑ ہم وطنوں کی بے مثال خود اعتمادی  کی قوت  ، عزم کی قوت  ہمیں اس میں بھی  فتح  دلائے گی اور ہم فاتح ہو کر رہیں گے ۔

مجھے یقین ہے کہ  پچھلے دنوں بھی ہم  ایک طرح سے  بہت  سی پریشانیوں سے گزر رہے ہیں ۔  سیلاب کی آفت  ، خاص طور سے شمال مشرق   ، مشرقی بھارت ، جنوبی بھارت ، مغربی بھارت کے کچھ علاقے  ، کئی لینڈ سلائیڈ ( مٹی کے تودے گرنا )، بہت سی پریشانیوں کا سامنا  لوگوں کو  کرنا پڑا ہے۔ بہت سے لوگوں نے اپنی جان گنوائی ہے ۔  میں اُن کنبوں کے تئیں بھی   اپنی تعزیت کا اظہار  کرتا ہوں اور ریاستی سرکاروں  کے ساتھ کندھے سے  کندھا ملا کر کے – پریشانی کے ایسے دور  میں  ہمیشہ ملک ایک  بن کر  کے  – چاہے مرکزی  حکومت ہو ، چاہے ریاستی حکومت  ہو ، ہم مل کر  فوراً جتنی بھی مدد پہنچانے کی کوشش کر سکتے ہیں  ، کامیابی کے ساتھ کر رہے ہیں ۔

میرے پیارے ہم وطنو ، آزادی کا  تہوار ہمارے  لئے یہ  آزادی کا تہوار  ، آزادی کے بہادروں کو یاد کرکے  نئے عزم کی توانائی کا ایک موقع ہوتا ہے ۔ ایک طرح سے ہمارے لئے یہ  نیا عہد لے کر آتا ہے ۔  نئی امنگ  ، نیا جوش لے کر آتا ہے اور اس بار تو  ہمارے لئے  عہد کرنا  بہت ضروری بھی ہے  اور بہت  نیک موقع  بھی ہے کیونکہ اگلی بار  جب ہم آزادی  کا  تہوار منائیں گے ، تب ہم 75 ویں سال  میں داخل  ہوں گے ۔  یہ اپنے آپ میں ایک بہت بڑا موقع ہے  اور اس لئے  آج آنے والے دو سال کے لئے بہت بڑا عزم  لے کر ہمیں چلنا ہے ۔   130 کروڑ ہم وطنوں کو چلنا ہے ۔ آزادی کے 75 ویں سال میں ، جب  داخل ہوں گے  اور آزادی کے 75 سال جب پورے ہوں گے ، ہم اپنے عہد  کی تکمیل کو ایک  عظیم  تہوار  کی صورت میں ، اُس کو بھی منائیں گے ۔

میرے پیارے ہم وطنو ، ہمارے اجداد نے   اٹوٹ ، ایک ساتھ تپسیا کرکے تیاگ اور قربانی  کے عظیم جذبے کا  اظہار کرتے ہوئے ہمیں جس طرح سے آزادی دلائی ہے ، انہوں نے  نیوچھاور کر دیا ہے ۔ لیکن ہم یہ بات  نہ بھولیں کہ غلامی کے اتنے لمبے دور میں  کوئی بھی پل  ایسا نہیں تھا  ، کوئی بھی  علاقہ ایسا نہیں تھا ، جب آزادی  کا جذبہ نہ پیدا  ہوا ہو ۔ آزادی کی خواہش  کو لے کر  کسی نہ کسی نے کوشش  نہ کی ہو ، جنگ نہ کی ہو ، تیاگ نہ کیا ہو  اور ایک طرح سے جوانی جیلوں میں کھپا دی  ، زندگی کے سارے خوابوں کو پھانسی  کے پھندوں کو چوم کر    قربان کر دیا ۔ ایسے بہادروں کو سلام پیش کرتے ہوئے  حیرت انگیز – – ایک طرف انقلاب کا دور  ، دوسری جانب   عوامی تحریک کا دور  – – – قابل احترام باپو کی قیادت میں  قومی بیداری کے ساتھ  عوامی تحریک  کی ایک لہر نے  آزادی  کی جدو جہد کو  ایک نئی توانائی دی اور ہم   آزادی کے تہوار  کو آج منا پا رہے ہیں ۔

اس آزادی کی جنگ میں بھارت   کی روح کو کچلنے   کی بھی مسلسل کوشش کی گئی ۔ اَن گنت  کوششیں ہوئیں ۔ بھارت کو اپنی ثقافت  ، روایت  ، رسم و رواج   ، ان سب سے اکھاڑ پھینکنے کے لئے کیا کچھ نہیں ہوا ۔   وہ دور تھا  – سینکڑوں سالوں  کا   دور  تھا  ، سام دَنڈ بھید سب کچھ اپنے عروج پر تھا اور کچھ لوگ تو  یہ  مان کر چلتے تھے کہ ہم تو  ” یاوت  چندر دیواکروں ”  ، یہاں پر  راج کرنے کے لئے آئے ہیں لیکن آزادی کی تمنا نے  ، اُن کے سارے  منصوبوں کو  زمین دوز کر دیا ۔ اُن کی سوچ تھی  کہ اتنا بڑا عظیم ملک  ،  بے شمار  راجے رجواڑے ، الگ الگ طرح کی بولیاں  ، پہناوے ، کھانا پینا  ،  بے شمار زبانیں   ، اتنے تنوع  کی وجہ سے بکھرا  ہوا ملک  کبھی ایک ہوکر  کے آزادی کی جنگ نہیں لڑ سکتا  لیکن   اس  ملک کی   عہد کی قوت کو پہچان نہیں پائے ۔  زندگی  کی ، جو باطنی  قوت ہے   ، ایک مسلسل وسیلہ  ، جس نے  ہم سب کو  باندھ کر رکھا ہوا ہے ۔ اس نے آزادی کے  اس مقدس موقع پر  پوری طاقت کے ساتھ  جب وہ میدان میں آیا  تو ملک  آزادی کی جنگ میں  فاتح ہوا ۔

ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ  وہ  دور تھا  ، توسیع پسندی کی سوچ  والوں نے دنیا  میں   جہاں بھی پھیل سکتے تھے ، پھیلنے کی کوشش کی ، اپنے جھنڈے گاڑنے کی کوشش کی لیکن بھارت کی آزادی  کی تحریک   دنیا کے اندر بھی   ایک  تحریک دلانے والی وسیلہ   بن گئی ۔  ایک  عظیم ستون بن گیا اور دنیا میں بھی  آزادی کا جذبہ   جاگ  اٹھا  ۔ اور جو لوگ  توسیع پسندی  کی اندھی  دوڑ میں لگے ہوئے تھے ، اپنے جھنڈے گاڑنے میں لگے ہوئے تھے  ،  انہوں نے اپنے اِن منصوبوں کو ، توسیع پسندی کے ان منصوبوں  کو پار کرنے کے لئے دنیا کو  دو  –  دو جنگ عظیم میں جھونک دیا ، انسانیت کو تہس نہس کر دیا ، زندگیاں تباہ کر دیں ، دنیا کو تباہ کر دیا  لیکن ایسے دور میں بھی   جنگ کی شدت  کے درمیان بھی  بھارت نے  اپنی آزادی  کی خواہش کو نہیں چھوڑا ، نہ کمی  آنے دی ، نہ نمی آنے دی ۔ ملک  ، قربانی کی ضرورت   پڑی   ، قربانی دیتا رہا  ، مشکلیں جھیلنے کی ضرورت پڑی ، مشکلیں جھیلتا رہا  ، عوامی تحریک   کھڑی  کرنے کی ضرورت پڑی  ، عوامی تحریک کھڑی کرتا رہا اور بھارت کی لڑائی نے دنیا میں آزادی کے لئے ایک ماحول بنا دیا  اور بھارت کی ایک قوت سے   دنیا میں جو  بدلاؤ آیا  ، توسیع پسندی کے لئے چیلنج  بن گیا بھارت ۔ تاریخ اس بات سے کبھی منکر نہیں  ہوسکتی ہے ۔

میرے پیارے ہم وطنو ،

آزادی کی لڑائی میں پوری دنیا میں   بھارت  نے بھی  اتحاد کی طاقت  اپنی اجتماعیت کی طاقت  ،  اپنے تابناک مستقبل کے تئیں  اپنا عہد  ، عزم اور تحریک ؛ اس توانائی کو لے کر کے  ملک آگے بڑھتا چلا گیا ۔

میرے پیارے ہم وطنو ،

کورونا عالمی وباء کے بیچ   130 کروڑ بھارتیوں نے عہد کیا ہے ۔ عہد  خود کفیل بننے کا اور خود کفیل بھارت  آج ہر ہندوستانی کے دل و دماغ  پر چھایا ہوا ہے ۔  خود کفیل بھارت – یہ خواب  عہد میں تبدیل  ہوتے نظر آ رہے ہیں ۔  خود کفیل بھارت   – یہ ایک طرح سے الفاظ نہیں  ،  یہ آج  130 کروڑ ہم وطنوں کے لئے نعرہ بن گیا ہے ۔

ہم جانتے ہیں ، جب میں  خود کفالت  کی بات کرتا ہوں ، ہم میں سے جو بھی  25 – 30 سال کی عمر سے اوپر  ہوں گے ، ان سب نے اپنے خاندان میں اپنے  والدین  یا اپنے بزرگوں سے سنا  ہو گا کہ بیٹے بیٹی   20 سال ، 21 سال کے ہو گئے ہو  ، اب اپنے پیروں پر کھڑے ہو جاؤ ، 20 – 21 سال میں بھی خاندان   اپنے بچوں سے  اپنے پیروں پر کھڑے  ہونے کی امید کرتا ہے ، ہم تو آزادی کے 75  سال سے ایک  قدم دور ہیں ،  تب  ہمارے لئے بھی — بھارت جیسے  ملک کو بھی  اپنے پیروں پر کھڑے ہونا   ناگزیر  ہے ۔  خود کفیل بننا ناگزیر  ہے ۔ جو خاندانوں کے لئے ضروری ہے  ، وہ ملک کے لئے بھی ضروری ہے  — اور اس لئے مجھے یقین ہے کہ   بھارت اس خواب کی تکمیل کرکے رہے گا  اور اس  کی وجہ میرے ملک کے شہریوں کی قابلیت  پر مجھے یقین ہے ، مجھے میرے ملک کی  صلاحیت پر فخر ہے ۔  مجھے اس ملک کے نو جوانوں میں   ، ملک کی ماؤں کی قوت میں ، ہماری خواتین میں  ، جو بے شمار  قابلیت ہے ، اُس پر مجھے  بھروسہ ہے  ۔ میرا ہندوستان کی سوچ   ، ہندوستان کی ایپروچ   ، اس پر یقین ہے اور تاریخ گواہ ہے کہ بھارت ایک بار  ٹھان لیتا ہے تو  بھارت کرکے رہتا ہے ۔

اور اسی وجہ سے  جب ہم  خود کفالت کی بات کرتے ہیں تو دنیا کو   تجسس بھی ہے ، بھارت سے امید  بھی ہے اور اس لئے ہمیں اُس امید کو پورا کرنے کے لئے اپنے آپ کو  قابل بنانا  بہت ضروری ہے ۔ ہمیں اپنے آپ کو تیار کرنا بہت  ضروری ہے ۔

بھارت کی فکر  میں ، بھارت جیسے عظیم  ملک  ، بھارت  نو جوانوں کی قوت سے بھرا ہوا ملک  ،  خود کفیل بھارت کی  پہلی شرط ہوتی ہے ،  خود اعتمادی سے بھرا ہوا بھارت اُس کی یہی بنیاد ہوتی ہے ۔ اور یہی ترقی کو  نئی رفتار ،  نئی توانائی دینے کی قوت رکھتا ہے ۔

بھارت  ، “دنیا ایک خاندان  “کی روایات سے پلا بڑھا ہوا ہے ، اگر  وید  کہتے تھے ، ” واسو دیوا کٹمبکم  ” تو ونوبا  جی کہتے تھے ،  ” جے جگت ” اور اس لئے ، ہمارے لئے  دنیا  ایک خاندان ہے  اور اس لئے اقتصادی ترقی بھی ہو  ، لیکن ساتھ ساتھ  انسان اور انسانیت  کا بھی  مرکزی  مقام ہونا چاہیئے ، اس کی اہمیت ہونی چاہیئے ۔  اسی کو  لے کر کے ہم چلتے ہیں ۔

آج دنیا  انٹر کنکٹیڈ ہے ( ایک دوسرے سے مربوط ) ، آج دنیا  انٹر ڈپینڈینٹ  ہے  ( ایک دوسرے پر منحصر ) اور اس لئے وقت کا تقاضا ہے  کہ  عالمی  معیشت میں  بھارت جیسے  عظیم ملک کا تعاون بڑھنا چاہیئے ۔  عالمی بہبود کے لئے بھی  بھارت کی ذمہ داری ہے  اور بھارت کو اپنا تعاون بڑھانا ہے  تو بھارت کو  خود کو  طاقتور  ہونا ہوگا ، بھارت کو  خود کفیل ہونا ہوگا  ۔ ہمیں  عالمی بہبود کے لئے بھی  اپنے آپ کو  با صلاحیت بنانا ہی پڑے گا اور جب ہماری  جڑیں مضبوط ہوں گی ، ہماری اپنی صلاحیت ہو گی تو ہم دنیا کا بھی بھلا  کرنے کی جانب  قدم اٹھا سکتے ہیں ۔

ہمارے ملک میں بے پناہ قدرتی وسائل  ہیں ، کیا کچھ نہیں ہے ۔ آج وقت کا تقاضہ ہے کہ ہمارے ان قدرتی وسائل میں ہم  ویلیو ایڈیشن کریں ،   ہم اپنے انسانی وسائل میں  قدر کا اضافہ کریں  ، نئی اونچائیوں پر لے جائیں اور ہم ملک میں   کب تک  کچا مال  بیرون ملک بھیجتے رہیں گے ، راء مٹیریل  ( خام مال ) کب تک دنیا میں بھیجتے رہیں گے اور دیکھئے تو   راء مٹیریل  دنیا میں بھیجنا  اور فِنشڈ گُڈس ( تیار مال ) دنیا سے واپس لانا  ۔ یہ کھیل  کب تک چلے گااور اس لئے ہمیں  خود کو خود  کفیل  بنانا ہو گا ۔ ہماری ہر قوت پر  عالمی ضرورتوں کے مطابق  قدر  میں اضافہ کرنا ہے ۔  یہ  ہمارا فرض ہے۔یہ ویلیو ایڈیشن  کرنے کی سمت میں ہم آگے بڑھنا چاہتے ہیں ۔ ہم دنیا میں  تعاون کرنے کے لئے آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔

  اسی طرح سے  زراعت کے شعبے میں ،  ایک وقت تھا ، جب ہم باہر سے گیہوں منگواکر کے اپنا پیٹ بھرتے تھے  لیکن   ہمارے ملک کے کسانوں نے وہ کمال کرکے دکھا دیا ، خود کفیل بھارت  آج زراعت کے شعبے میں بنا ہے  ۔ آج بھارت کے کسان  بھارت کے شہریوں کا  پیٹ  بھرتے ہیں ، اتنا ہی نہیں، آج بھارت اُس پوزیشن پر ہے کہ دنیا  میں جس کو ضرورت ہے ، اُس کو بھی ہم  اناج دے سکتے ہیں ۔  اگر یہ ہماری قوت ہے ، خود کفالت کی یہ طاقت ہے تو ہمارے زراعت کے شعبے میں بھی قدر  میں اضافہ  ضروری ہے  ، عالمی ضرورتوں کے مطابق  ہمارے زرعی  شعبے میں تبدیلی کی ضرورت ہے   ۔ دنیا کی امیدوں کو پورا کرنے کے لئے ہمیں اپنے  زراعت کے شعبے کو بھی  آگے بڑھانے کی ضرورت ہے ۔

آج ملک بہت سے نئے قدم اٹھا رہا ہے  اور  اس لئے اب  آپ دیکھئے ، اسپیس سیکٹر ( خلاء کے شعبے میں ) کو ہم نے  کھول   دیا ۔  ملک کے نوجوانوں کو موقع ملا ہے ۔ ہم نے زراعت کے شعبے کو  قانون سے  آزاد کر دیا ، پابندیوں سے آزاد کر دیا ۔ ہم نے خود کفیل بنانے کا عزم  کیا ہوا  ہے  ۔ جب بھارت  اسپیس سیکٹر میں  طاقتور بنتا ہے تو پڑوسیوں کو  ضرور اس کا فائدہ ہوتا ہے ۔  جب آپ  توانائی کے شعبے میں  پاور فل ہوتے ہیں تو جو ملک اپنا  اندھیرا مٹانا چاہتا ہے ، بھارت اس میں مدد کر سکتا ہے ۔ ملک کا جب  ہیلتھ سیکٹر  ( صحت کا شعبہ ) کا بنیادی ڈھانچہ خود کفیل ہو جاتا ہے تو دنیا کے بہت سے ملکوں کو  ٹورزم  ڈیسٹی نیشن ( سیاحتی مقام ) کی شکل میں  ہیلتھ ڈیسٹی نیشن  کے طور پر  بھارت اُن کا پسندیدہ   مقام بن سکتا ہے  اور اس لئے  ضروری ہے کہ بھارت  میں بنے سامان کی  پوری دنیا  میں  واہ واہی کیسے ہو ۔ اور ایک زمانہ تھا ، ہمارے ملک میں ، جو چیزیں بنتی تھیں ، ہمارے اسکلڈ مین پاور ( تربیت یافتہ افرادی قوت ) کے ذریعے جو کام ہوتا تھا ،  اُس کی دنیا میں بہت واہ واہ ہوتی تھی ۔ تاریخ اس کی گواہ ہے ۔

ہم جب  خود کفالت کی بات کرتے ہیں، تو صرف درآمدات کم کرنا، اتنی ہی ہماری سوچ نہیں ہے، جب خود کفالت کی بات کرتے ہیں، تو ہماری یہ جو صلاحیت ہے، ہماری جو انسانی وسیلے کی استطاعت ہے۔جب چیزیں باہر سے آنے لگتی ہیں، تو اُس کی وہ استطاعت ختم ہونے لگتی ہے۔ پیڑھی در پیڑھی وہ  ضائع ہوجاتی ہے۔ ہمیں اپنی اُس استطاعت کو بچانا ہے، بڑھانا بھی ہے۔ مہارت کو بڑھانا ہے، تخلیقی صلاحیت کو بڑھانا ہے اور اُس کو لے کر ہمیں آگے بڑھنا ہے۔ ہمیں ہنرمندی کے فروغ کی سمت زور دینا ہے۔ خودکفیل بھارت کے لئے ہماری استطاعت کو بڑھانے کے لئے ۔

میرے پیارے ہم وطنو، میں جانتا ہوں جب میں خودکفالت کی بات کرتا ہوں، تو بہت سے اندیشے ظاہر بھی کئے جاتے ہیں۔ میں اس بات کو مانتا ہوں کہ خود کفیل بھارت کے لئے لاکھوں چنوتیاں ہیں اور جب عالمی مسابقے کی صورتحال ہو،  تو چنوتیاں بڑھ بھی جاتی ہیں، لیکن ملک کے سامنےاگر لاکھوں چنوتیاں ہیں، تو ملک کے پاس کروڑوں حل دینے والی طاقت بھی ہے۔ میرےہم وطن بھی ہیں، جو حل کی استطاعت بخشتے ہیں۔

آپ دیکھئے کورونا کے بحران میں ہم نے دیکھا کہ بہت سی چیزوں کے لئے ہم مشکلات میں ہیں۔ ہمیں دنیا سے لانا ہے۔ دنیا دے نہیں پا رہی ہے۔ ہمارے ملک کے نوجوانوں نے، ہمارے ملک کے صنعت کاروں نے، ہمارے ملک کے صنعتی دنیا کے لوگوں نے بیڑا اٹھا لیا۔ جس ملک میں این-95نہیں بنتے تھے، بننے لگے۔ پی پی ای نہیں بنتے تھے، بننے لگے۔ وینٹی لیٹر نہیں بنتےتھے، بننے شروع ہو گئے۔ ملک کی ضرورتوں کی  تو بھرپائی ہوئی، لیکن دنیا میں برآمدات کرنے کی ہماری طاقت بن گئی۔ دنیا کی ضرورت تھی، خود کفیل بھارت دنیا کی کیسے مدد کر سکتا ہے، آج ہم اس میں دیکھ سکتے ہیں اور اس لئے دنیا کی بھلائی میں بھی بھارت کا تعاون کرنا، یہ ذمہ داری بنتی ہے اور اس لئے بھی ہمیں اسی طرح ۔۔۔بہت ہو چکا، آزاد بھارت کا ذہن کیا ہونا چاہئے، آزاد بھارت کا ذہن ہونا چاہئے ووکل فار لوکل ۔ ہماری جو مقامی پیداوار ہے، اس پر ہمیں فخر کرنا چاہئے۔ ہم اپنی چیزوں پر فخر نہیں کریں گے، تو اس کو اچھا بننے کا موقع بھی نہیں ملے گا، اس کی ہمت بھی نہیں بڑھے گی۔آئیے، ہم مل کرعزم کریں، آزادی کے 75سال کے موقع کی جانب ہم قدم رکھیں گے، تب ووکل فار لوکل انسانی طریقہ کار بن جائے، اور ہم مل کر اس طاقت کو بڑھاوا دیں۔

میرے پیارے ہم وطنو،

ہمارا ملک کیسے کیسے کمال کرتا ہے، کیسے کیسے آگے بڑھتا ہے، اس بات کو ہم اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں۔ کون سوچ سکتا تھا کہ کبھی غریبوں کے جَن دھن کھاتے میں لاکھوں کروڑوں روپے سیدھے منتقل ہو جائیں گے، کون سوچ سکتا تھا کہ کسانوں کی بھلائی کے لئے اے پی ایم سی جیسا اے سی ٹی اس میں اتنی تبدیلی ہو جائے گی۔ کون سوچ سکتا تھا کہ ہمارے تجارتی افراد دنیا پر جولٹکتی تلوار تھی، لازمی اشیا کا قانون اتنے برسوں کے بعد وہ بھی بدل جائے گا۔ کون سوچتا تھا ہمارا خلا کا شعبہ ہمارے ملک کے نوجوانوں کے لئے کھول دیا جائے گا۔ آج ہم دیکھ رہے ہیں قومی تعلیمی پالیسی ہو، ایک ملک-ایک راشن کارڈ کی بات ہو، ایک ملک ایک گرڈ کی بات ہو، ایک ملک ایک ٹیکس کی بات ہو،نادہندگی اور دیوالیہ پن سے متعلق قانون، اس کی بات ہو چاہے بینکوں کو ضم کرنے کی کوشش ہو، ملک کی سچائی بن چکی ہے، ملک کی حقیقت ہے۔

بھارت میں تبدیلی کے اس دورمیں اصلاح کے نتائج کو دنیا دیکھ رہی ہے۔ ایک کے بعد ایک، ایک دوسرے سےمربوط ہم جو اصلاحات کر رہے ہیں، اس کو دنیا بہت باریکی سے دیکھ رہی ہے اور اسی کا سبب ہے ، گزشتہ برس بھارت میں ایف ڈی آئی نے اب تک کے سارے ریکارڈ توڑ دیئے۔ براہ راست سرمایہ کاری  نےاب تک کے سارے ریکارڈ توڑ دیئے۔

گزشتہ برس بھارت میں براہ راست غیرملکی سرمایہ کاری میں 18 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ اس لیے کورونا کے دور میں بھی دنیا کی بڑی بڑی کمپنیاں بھارت کی جانب رخ کررہی ہیں۔ یہ اعتماد ایسے ہی پیدا نہیں ہوا ہے، ایسے ہی دنیا مسحور نہیں ہوئی ہے، اس کے لیے بھارت نے اپنی پالیسیوں پر، اپنی جمہوریت پر، بھارت نے اپنی معیشت کی بنیاد کی مضبوطی پر ،جو کام کیے ہیں،اس نے یہ اعتماد جتایا ہے۔

دنیا بھر کے متعدد کاروبار بھارت کو سپلائی چین کے مرکز کے شکل میں آج دیکھ رہے ہیں۔ اب ہمیں میک ان انڈیا کے ساتھ ساتھ میک فار دی ورلڈ یعنی دنیا کے لیے چیزیں تیار کرنا، یہ اصول لے کر آگے بڑھنا ہے۔

130 کروڑ اہل وطن کی اہلیت جب ایک ہی وقت میں، ذرا یاد کیجئے،گزشتہ کچھ دن اور 130 کروڑ اہل وطن کی اہلیت کے لیے فخر کیجئے۔ کورونا  کےاس لمبے عرصے میں ایک طرف سمندری طوفان، مشرق میں بھی سمندری طوفان، مغرب میں بھی سمندری طوفان، بجلی گرنے سے متعدد افراد کی موت کی خبریں، کہیں پر بار بار زمین دھنسنے کے واقعات، چھوٹے موٹے زلزلے کے جھٹکے، اتنا کم تھا تو ہمارے کاشت کاروں کے لیے ٹڈی دل کی مصیبیتں آئیں، نہ جانے ایک ساتھ ایک کے بعد ایک مصیبتوں کا انبار لگ گیا، لیکن اس کے باوجود بھی ملک نے ذرا بھی اپنا اعتماد نہیں کھویا۔ ملک خوداعتمادی کے ساتھ آگے بڑھتا چلا گیا۔

اہل وطن کی زندگی کو، ملک کی معیشت کو ،کورونا کے اثرات سے جلدی سے جلدی باہر نکالنا آج ہماری ترجیح ہے۔ اس میں اہم کردار رہے گا قومی بنیادی ڈھانچہ پائپ لائن پروجیکٹ کا۔ اس پر 110 لاکھ کروڑ روپے سے بھی زیادہ خرچ کیے جائیں گے۔ اس کے لیے الگ الگ شعبوں میں تقریباً 7 ہزار پروجیکٹوں کی پہچان کرلی گئی ہے۔ اس سے ملک کے مجموعی بنیادی ڈھانچے کی ترقیات کو ایک نئی سمت حاصل ہوگی۔ ایک نئی رفتار بھی حاصل ہوگی اور ہمیشہ یہ کہاجاتا ہے کہ ایسی مصیبت کی گھڑی میں جتنا زیادہ بنیادی ڈھانچے پر زور دیا جائے، تاکہ اس سے اقتصادی سرگرمیاں بڑھتی ہیں، لوگوں کو روزگار ملتا ہے، کام ملتا ہے اور اس کے جڑے ہوئے کئی کام ایک ساتھ چل جاتے ہیں۔ چھوٹی بڑی صنعتیں، کاشت کار ہر ایک متوسط طبقے کو اس کا بہت فائدہ ہوتا ہے اور آج میں ایک بات یاد کرنا چاہتا ہوں— جب جناب اٹل بہاری واجپئی ہمارے ملک کے وزیراعظم تھے، تب انہوں نے سنہری چورستے کی ایک بہت بڑی دوررس اور موثر اسکیم کا آغاز کیا تھا اور ملک کے سڑک نیٹ ورک کے بنیادی ڈھانچے کو آئندہ پیڑھی پر لے گئے تھے۔ آج بھی وہ سنہری چورستہ کی طرف ملک بڑے فخر سے دیکھ رہا ہے کہ ہاں ہمارا ہندوستان بدل رہا ہے، دیکھ رہا ہے۔

میرے عزیز ہم وطنو

اٹل جی نے اپنے وقت میں یہ کام کیا ،لیکن اب ہمیں اسے آگے لے جانا ہے، ہمیں نئی جانب لے جانا ہے اور اب ہم بند کمروں میں نہیں چل سکتے۔ ہم بنیادی ڈھانچہ کو سڑک کو، روڈ والا کام کرے گا، ریل کا ریل میں چلا جائے گا—  نہ ریل کا روڈ سے تعلق ہے اور نہ روڈ کا ریل سے تعلق—  نہ ہوائی اڈے کا بندرگاہ سے تعلق، نہ بندرگاہ کا ہوائی اڈے سے تعلق—  نہ ریلوے اسٹیشن کا بس سے تعلق، نہ بس اسٹیشن کا ریلوے سے تعلق، ایسی صورت حال نہیں چاہیے۔ اب ہمیں سارا بنیادی ڈھانچہ ایک جامع ہو، مربوط ہو، ایک دوسرے کی تکمیل کرتاہو، ریل سے سڑک کی تکمیل ہو، روڈ سے بحری بندرگاہ کی تکمیل ہو، بحری بندرگاہ سے بندرگاہ کی تکمیل ہو—  یہ ہمیں ایک نئی صدی کے لیے ہمیں کثیر النوع ماڈل کنکٹی ویٹی بنیادی ڈھانچہ کو جوڑنے کے لیے ہم اب آگے بڑھ رہے ہیں ۔ اور یہ ایک نیا زاویہ ہوگا، بہت بڑا خواب لے کر اس پر کام شروع کیا ہے اور مجھے یقین ہے کہ اب محدود مقامات کو ختم کرکے ،ہم اس تمام نظام کو ایک نئی طاقت دیں گے۔

اس کے ساتھ ساتھ ہمارے ساحل سمندر عالمی تجارت میں ساحل سمندروں کی اپنی بہت اہمیت ہوتی ہے، جب ہم بندرگاہ پر مبنی ترقیات کو لے کر چل رہے ہیں، تب ہم آنے والے دنوں میں ساحل سمندر کے پورے حصے میں چار لینوں والی سڑک بنانے کی سمت میں ایک جدید بنیادی ڈھانچہ بنانے میں ہم کام کریں گے۔

میرے عزیز ہم وطنو،

ہمارے یہاں شاستروں میں ایک بہت بڑی اور اہم بات کہی گئی ہے۔ ہمارے یہاں شاستروں میں کہا گیا ہے۔ سامرتھیہ مولم سواتنترم، شرم مولم چے وےبھووم یعنی اسی معاشرے کی، کسی بھی ملک کی آزادی کا وسیلہ اس کی اہلیت ہوتی ہے— اور اس کی خوشحالی، ترقی، پیش رفت کا مخزن، اس کی محنت کی قوت ہے اور اس لیے عام شہری شہر ہو یا گاؤں، اس کی محنت کاکوئی مقابلہ نہیں ہے۔ محنت کش کا معاشرے کو جب سہولتیں ملتی ہیں، زندگی کی جدوجہد، روز مرہ کی مصیبتیں کم ہوتی ہیں، تو اس کی توانائی اور قوت بہت کھل اٹھتی ہے—  بڑے کمال کرکے رہتی ہے، گزشتہ 6برسوں میں ملک  کے محنت کش شہریوں کی زندگی بہتر بنانے کے لیے متعدد مہمیں چلائی گئی ہیں۔  آپ دیکھئے بینک کھاتہ ہو، پکے مکان کی بات ہو، اتنی بڑی  تعداد میں بیت الخلا بنانے ہوں، ہر گھر میں بجلی کنکشن پہنچانا ہو، ماؤں اور بہنوں کو دھنوئیں سے نجات دلانے کے لیے گیس کا کنکشن دینا ہو، غریب سے غریب کو بیمے کا تحفظ دینے کی کوشش ہو، 5 لاکھ روپے تک اچھے سے اچھے اسپتال میں مفت علاج کرانے کے لیے آیوشمان بھارت یوجنا ہو،راشن کی دکانوں کو ٹیکنالوجی سے جوڑنے کی بات ہو، ہر غریب، ہر شخص بنا کسی بھیدبھاؤ کے پوری شفافیت کے ساتھ، اس کو فائدہ پہنچانے میں گزشتہ 6سال میں بہت اچھی طرح  ترقی کی ہے۔

کورونا کے بحران میں بھی ان انتظامات میں بہت مدد ملی ہے۔ اس دوران کروڑوں غریب خاندانوں کو مفت گیس سلنڈر پہنچانا— راشن کارڈ ہو یا نہ ہو، 80 کروڑ سے زیادہ میرے ہم وطنوں کو ان کے گھر کا چولہا جلتا رہے—،  80 کروڑ ہم وطنوں کو مفت میں اناج پہنچانے کا کام ہو، 90 ہزار کروڑ روپے سے زیادہ سیدھے بینک کھاتے میں پیسے ٹرانسفرہوں۔ کچھ سال پہلے تو سوچ بھی نہیں سکتے تھے، تصور بھی نہیں کرسکتے تھے کہ دہلی سے ایک روپیہ نکلے اور 100 کے 100 پیسے غریب کے کھاتے میں جمع ہوجائیں، یہ پہلے کبھی سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا۔

اپنے ہی گاؤں میں روزگار کے لیے غریب کلیان روزگار مہم شروع کی گئی ہے، مزدور ساتھی اپنے آپ کو ری-اسکل کریں، اپنی ہنرمندی کو بہتر بنائیں، اس پر یقین کرتے ہوئے محنت کی طاقت پر بھروسہ کرتے ہوئے گاؤں کے وسائل پر اعتماد کرتے ہوئے ،ہم ووکل فار لوکل پر زور دیتے ہوئے ری-اسکل، اَپ –اسکل کے ذریعے ہم اپنے ملک کی افرادی قوت کو اپنے غریب کو بااختیار بنانے کی سمت میں ہم کام کررہے ہیں۔

شہر میں ہمارے جو مزدور ہیں، کیونکہ اقتصادی سرگرمی کا مرکز شہر ہے، گاؤں سے لوگ دور دور سے شہر میں آتے ہیں، خوانچہ فروش ہوں، ریڑھی پٹری والے لوگ ہوں،آج بینکوں سے ان کو براہ راست پیسے دینے کی اسکیم چل رہی ہے۔ لاکھوں لوگوں نے اتنی کم مدت میں کورونا کے دور میں اس کا فائدہ اٹھایا ہے۔ اب ان کو کہیں سے بھی زیادہ سود پر پیسے لینے کی ضرورت نہیں پڑے گی، بینک سے وہ حق کے ساتھ اپنے پیسے لے پائے گا۔ اسی طرح سے جب شہر میں ہمارے مزدور آتے ہیں، ان کو رہنے کی اگر اچھی سہولت مل جائے، تو ان کے کام کرنے کی صلاحیت میں بھی بہت اضافہ ہوتا ہے، اور اسی بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے شہر کے اندر ان کے لیے ہم نے رہائش کے انتظام کی ایک بہت بڑی اسکیم بنائی ہے، تاکہ شہر کے اندر جب مزدور آئے گا، وہ اپنے کام کے لیے آزادانہ طریقے سے پورے اعتماد کے ساتھ آگے بڑھے گا۔

میرے پیارے ہم وطنو،

یہ بھی صحیح ہے کہ ترقی کے اس سفر میں بھی ہم نے دیکھا ہے، جیسا سماج میں زندگی میں کچھ طبقے پیچھے رہ جاتے ہیں، غریبی سے باہر نکل نہیں پاتے ہیں، ویسے قومی زندگی میں بھی کچھ میدان ہوتے ہیں، کچھ خطے ہوتےہیں، کچھ علاقے ہوتے ہیں، جو پیچھے رہ جاتے ہیں۔ خود کفیل بھارت بنانے کے لئے ہمارے لئے متوازن ترقی بہت ضروری ہے اور ہم نے 110 سے زیادہ امنگوں والے ضلعوں کی نشاندہی کی ہے۔ ان 110ضلعوں کو  جو اُس اوسط سے بھی پیچھے ہیں، ان کو ریاست کی اور قوم کی اوسط تک لے آنا ہے، سبھی معیارات میں لانا ہے۔ وہاں کے لوگوں کو بہتر تعلیم ملے، وہاں کے لوگوں کو بہتر صحت سہولیات ملے، وہاں کے لوگوں کو روزگار کے مقامی مواقع پیداہوں، اور اس کے لئے لگاتار ہم نے ان 110ضلعوں میں، جو ہماری ترقی کے سفر میں کہیں پیچھے چھوٹ گئے ہیں، ان کو آگے لے جانے کے لئے کوشش کر رہے ہیں۔

میرے پیارے ہم وطنو،

خود کفیل بھارت کی اولین ترجیح خودکفیل زراعت اور خودکفیل کسان ہیں اور ان کو ہم کبھی بھی نظرانداز نہیں کر سکتے ہیں۔ کسان کو گزشتہ دنوں ہم نے دیکھا ہے ایک کے بعد ایک اصلاح آزادی کے اتنے برسوں کے بعد کی گئی ہے۔ کسان کو تمام بندشوں سے آزاد کرنا ہوگا، وہ کام ہم نے کر دیا ہے۔

آپ سوچ نہیں سکتے ہوں گے، ہمارے ملک میں اگرآپ صابن بناتے ہیں، ہندوستان کے اس کونے میں جاکر صابن بیچ سکتے ہیں، آپ اگرکپڑا بناتے ہیں، تو ہندوستان کے کسی کونے میں جا کرکپڑا بیچ سکتے ہیں، آپ چینی بنائیں، آپ چینی بیچ سکتے ہیں، لیکن میرا کسان بہت لوگوں کو پتہ نہیں ہوگا، میرے ملک کا کسان، جو پیداوار کرتا تھا، نہ وہ اپنی مرضی سے بیچ سکتا تھا، نہ اپنی مرضی سے جہاں بیچنا چاہتا تھا، وہاں بیچ سکتا تھا۔ اس کے لئے جو دائرہ طے کیاتھا، وہیں بیچنا پڑتا تھا۔ اس ساری  بندشوں کو ہم نے ختم کر دیا ہے۔

اب ہندوستان کا کسان اُس آزادی کی سانس کو لے پائے گا تاکہ وہ ہندوستان کے کسی بھی، دنیا کے کسی بھی کونے میں اپنا مال بیچنا چاہتا ہے، وہ اپنی شرائط پر بیچ پائے گا۔ ہم نے کسان کی آمدنی کوبڑھانے کے لئے ان کی متبادل چیزوں پر بھی زور دیا ہے۔ اس کی کسانی میں لاگت کیسے کم ہو، شمسی پمپ، اس کو ڈیژل پمپ سے آزادی کیسے دلا دے، اَنّ داتا توانائی دینے والے کیسے بنیں، شہدکی مکھی پالن ہو، ماہی گیری ہو، پولٹری ہو، ایسی بہت سی چیزیں اس کے ساتھ وابستہ ہو جائیں تاکہ اس کی آمدنی دو گنی ہوجائے، اس سمت ہم لگاتار کام کر رہے ہیں۔

آج وقت کی مانگ ہے، ہمارا زرعی شعبہ جدیدبنے۔ قیمت میں اضافہ ہو، ویلیو ایڈیشن ہو، خوراک کی ڈبہ بندی ہو، پیکنگ کی سہولت ہو، اس کو سنبھالنے کی سہولت ہو اور اس لئے اچھے بنیادی ڈھانچے کی ضرورت ہے۔

آپ نے دیکھا ہوگا اس کورونا کے دور میں ہی پچھلے دنوں ایک لاکھ کروڑ روپے زرعی بنیادی ڈھانچے کے لئے بھارت سرکار نے مختص کئے ہیں۔ اب بنیادی ڈھانچہ، جو کسانوں کی بھلائی کے لئے ہوگا اور اس کے سبب کسان اپنی قیمت بھی حاصل کر سکیں گے، دنیا کے بازار میں بیچ بھی پائیں گے، عالمی بازار میں اس کی پہنچ بڑھے گی۔

آج ہمیں دیہی صنعتوں کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ دیہی علاقوں میں خاص طرح سے اقتصادی کلسٹر بنائے جائیں گے۔ زرعی اورغیر زرعی صنعتوں کا گاؤں کے اندر ایک جال بنایا جائے گا اور اس کے سبب اس کے ساتھ ساتھ جو نئی ایف پی او ہم نے بنانے کا، کسان پیداوارفیڈریشن بنانے کی جو ہم نے کوشش کی ہے، وہ اپنے آپ میں ایک بہت بڑا اقتصادی بااختیارکاری کا کام کرے گا۔

بھائیو، بہنو،

میں پچھلی مرتبہ یہاں پر جل جیون مشن کا اعلان کیاتھا، آج اس کو ایک سال ہو رہا ہے، میں آج فخر سے کہہ سکتا ہوں کہ جو ہم نے خواب دیکھا ہے کہ پینے کا خالص پانی، نل سے جل ہمارے ملک کے لوگوں کو ملنا چاہئے، صحت کی پریشانیوں کا حل بھی خالص پینے کے پانی سے جڑا ہوتا ہے۔معیشت میں بھی اس کا بہت بڑا تعاون ہوتا ہے اور اس کے سلسلے میں  جل جیون مشن شروع کیا۔

آج مجھے اطمینان ہے کہ ہر روز ہم ایک لاکھ سے زیادہ گھروں میں، ہر دن ایک لاکھ سے زیادہ گھروں میں پانی پہنچا رہے ہیں۔ پائپ سے پانی پہنچا رہے ہیں اور پچھلے ایک سال میں 2کروڑ کنبوں تک ہم پانی پہنچانے میں کامیاب ہوئے ہیں اور خاص طور پر جنگلوں میں دور دور تک رہنے والے ہمارے قبائلیوں کے گھروں تک یہ پہنچانے کا کام بڑی مہم چلی ہے اور مجھے خوشی ہے کہ آج جل جیون مشن نے ملک میں ایک صحتمند مقابلے کا ماحول بنایا ہے۔ ضلعے ضلعے کے بیچ میں صحتمند مقابلہ ہو رہا ہے، شہر شہر کے بیچ میں صحتمند مقابلہ ہو رہا ہے، ریاست ریاست کے درمیان صحتمند مقابلہ ہو رہا ہے۔ ہر کسی کو لگ رہا ہے کہ وزیراعظم کا  جل جیون مشن کا یہ جو خواب ہے، اس کو ہم جلدی سے جلدی اپنے علاقے میں پورا کریں گے۔ معاون مقابلہ جاتی وفاقیت کی ایک نئی طاقت کہ جل جیون مشن کے ساتھ منسلک ہو گئی ہے اور اس کے ساتھ بھی ہم آگے بڑھ رہے ہیں۔

میرے پیارے ہم وطنو، چاہے ہمارا زراعت کا شعبہ ہو، چاہے ہماری چھوٹی صنعتوں کا شعبہ ہو، چاہے ہمارے ملازمت پیشہ سماج کے لوگ ہوں۔ یہ قریب قریب سبھی لوگ  ایک طرح سے بھارت کا اوسط طبقہ بہت بڑا اثاثہ ہے اور اوسط طبقے سے نکلے ہوئے پیشہ ور افراد آج دنیا میں اپنا ڈَنکا جما رہے ہیں، اوسط طبقے سے نکلے ہوئے ہمارے ڈاکٹر، انجینئر، وکیل، سائنسداں، سب لوگ دنیا میں اپنے نام کا ڈنکا بجا رہے ہیں اور اس لئے یہ بات صحیح ہے کہ اوسط طبقے کو جتنے مواقع ملتے ہیں، وہ کئی گنا طاقت کے ساتھ ابھر کرآتے ہیں اور اس لئے اوسط طبقےکو سرکاری مداخلت سے آزاد ی چاہئے، اوسط طبقے کو بہت سے نئے مواقع چاہئے، اس کو کھلا میدان چاہئے اور ہماری حکومت لگاتار اوسط طبقے کے ان خوابوں کو پورا کرنے کےلئے کام کر رہی ہے۔ اوسط طبقہ معجزے کرنے کی طاقت کا حامل ہے۔ ایز آف لیونگ اس کا سب سے بڑا فائدہ کسی کو ہونا ہے، تو میرے اوسط طبقے کےکنبوں کو ہے۔ سستے انٹرنیٹ کی بات ہو، چاہے سستے اسمارٹ فون کی بات ہو یا پرواز کے تحت ہوائی جہاز کے ٹکٹ بہت کم سے کم ہو جانے کی بات ہو یا ہماری شاہراہیں ہوں، اطلاعاتی طریقے یہ ساری چیزیں اوسط طبقے کی طاقت کو بڑھانے والی ہیں۔ آج آپ نے دیکھا ہوگااوسط طبقے میں جو غریبی سے باہر نکلا ہے، اس کا پہلا خواب ہوتا ہے، اپنا گھر ہونا چاہئے، وہ مساویانہ زندگی چاہتا ہے۔ ملک میں بہت بڑا کام ہم نے ای ایم آئی کے میدان میں کیااوراس کے سبب ہوم لون سستےہوئے اور جب ایک گھر کے لئے لون لیتا ہے، تو لون پورا کرتے کرتے قریب 6لاکھ روپے، کہ اس کو چھوٹ مل جاتی ہے۔ پچھلے دنوں دھیان میں آیا کہ بہت غریب اوسط طبقے کے کنبوں نے پیسے لگائے ہوئے ہیں لیکن منصوبے پورے نہ ہونے کے سبب خود کا گھر مل نہیں رہا ہے، کرایہ بھرنا پڑ رہا ہے۔ بھارت سرکا ر نے 25ہزارکروڑروپے کا مخصوص فنڈ بنا  کر یہ جو آدھے ادھورے گھرہیں، ان کو پورا کر کےاوسط درجے کے کنبوں کو گھر مل جائے، اس کےلئے ہم نے اب قدم اٹھایا ہے۔

جی ایس ٹی میں  بہت تیزی سے ٹیکسیشن کم ہوا ہے، انکم ٹیکس کم ہوا ہے۔ آج کم سے کم اس طرح کی سہولتوں کےساتھ ہم ملک کو آگے بڑھانے کی کوشش کر رہےہیں۔ کوآپریٹیو بینکوں کو آر بی آئی سے منسلک کرنا یہ اپنے آپ میں اوسط طبقے کے کنبوں کے پیسوں کو محفوظ رکھنے کی گارنٹی اس سے وابستہ ہے۔

ایم ایس ایم ای شعبے میں جو اصلاحات ہوئی ہیں، زرعی شعبے میں جو اصلاحات ہوئی ہیں، اس کا سیدھا سیدھا فائدہ ہمارے ان اوسط طبقے کے محنت کش کنبوں کو جانے والا ہے اور اس کے سبب ہزاروں کروڑوں روپے کا خصوصی فنڈ آج ہمارے جو تاجربھائیوں  کو ، ہمارے چھوٹے صنعت کاروں کو ہم دے رہے ہیں، ان کو اس کا فائدہ ملنے والا ہے۔ عام بھارتی کی طاقت اس کی توانائی خودکفیل بھارت مہم کا ایک بہت بڑی بنیا دہے۔ اس طاقت کو برقرار رکھنے کے لئے ہر سطح پر لگاتار کام جاری ہے۔

میرے پیارے ہم وطنو، خودکفیل بھارت کی تعمیر، جدید بھارت کی تعمیر میں نئے بھارت کی تعمیر میں، مالا مال  اور خوشحال بھارت کی تعمیر میں ملک کی تعلیم بہت بڑی اہمیت ہے۔ اسی سوچ کے ساتھ ملک کو 3دہائیوں کے بعد نئی قومی تعلیمی پالیسی دینے میں ہم آج کامیاب ہوئے ہیں۔

ہندوستان کے ہر کونے میں اس کے استقبال کی خبر ایک نئی توانائی، ایک نیا اعتماد پیدا کر رہی ہے۔ یہ تعلیم، یہ قومی تعلیمی پالیسی ہمارے طلبہ کو جڑ سے جوڑے گی۔ لیکن ساتھ ساتھ اس کو ایک عالمی شہری بنانے کا بھی پورا تعاون دے گی۔ وہ جڑوں سے جڑا ہوگا، لیکن اس کا سر آسمان کی اونچائیوں کو چھوتا ہوگا۔

آج آپ نے دیکھا ہوگا قومی تعلیمی پالیسی پر ایک خاص زور دیا گیا ہے۔ قومی تحقیق کی فاؤنڈیشن کا ، کیونکہ ملک کے ترقی کرنے کےلئے اختراع بہت ضروری ہوتی ہے۔ اختراع پر جتنا زور دیا جائے گا، تحقیق کو اُتنی تقویت ملے گی، اتنا ہی ملک کو آگے لے جانے میں مسابقتی دنیا میں آگے بڑھنے میں بہت تقویت ملے گی۔

آپ نے سوچا ہوگا کیا کبھی اتنی تیزی سےگاؤں تک آن لائن کلاسیز اتنی تیزی سے اتنا ماحول بن جائے گا۔ کبھی کبھی آفت میں بھی کچھ ایسی چیزیں ابھر کر آجاتی ہیں، نئی طاقت دے دیتی ہیں اور اس لئے آپ نے بھی دیکھا ہوگا کہ کورونا دور میں آن لائن کلاسیز ایک طرح سے کلچر بن گیا ہے۔

آپ دیکھئے آن لائن ڈیجیٹل ٹرانزیکشن، وہ بھی کیسے بڑھ رہے ہیں۔ بھیم یو پی آئی اگر ایک مہینے میں یعنی کسی کو بھی فخر ہوگا کہ بھارت جیسے ملک میں یو پی آئی بھیم کے ذریعے ایک مہینے میں 3لاکھ کروڑروپے کا لین دین ہوا ہے۔ آج اپنے آپ میں ہم کس طرح سے بدلی صورتحال کو تسلیم کرنےلگے ہیں، یہ اس کا نمونہ ہے۔

آپ دیکھتے ہیں 2014سے پہلے ہمارے ملک میں 5درجن پنچایتیں، 5درجن پنچایتوں میں آپٹیکل فائبر تھا۔ پچھلے 5برس میں  ڈیڑھ لاکھ گرام پنچایتوں تک آپٹیکل فائبر نیٹ ورک پہنچ گیا، جو آج اتنی مدد کر رہا ہے۔ سبھی پنچایتوں میں پہنچنے کے نشانوں کے ساتھ ہم نے کام شروع کیا تھا، جو ایک لاکھ پنچایتیں باقی ہیں، وہاں بھی تیزی سے کام چل رہا ہے، لیکن بدلی ہوئی صورتحال  میں گاؤں کی بھی ڈیجیٹل انڈیا میں شراکت داری ضروری ہے۔ گاؤں کے لوگوں کو بھی اس طرح کی آن لائن سہولتوں کی ضرورت بڑھ گئی ہے۔ اس کو ذہن میں رکھتے ہوئے پہلے جو ہم نے پروگرام بنایا تھا، ہر پنچایت تک پہنچیں گے، لیکن آج میں آپ کو بتانا چاہوں گا کہ سبھی 6لاکھ سے زیادہ جو ہمارے گاؤں ہیں، ان سبھی گاوؤں میں آپٹیکل فائبر نیٹ ورک پہنچایا جائے۔ ضرورت بدلی ہے، تو ہم  نے ترجیح بھی بدلی ہے۔ 6لاکھ سے زیادہ گاوؤں میں ہزاروں ، لاکھوں کلو میٹر آپٹیکل فائبر کا کام چلایا جائے گا اور ہم نے طے کیا ہے کہ ایک ہزار دن میں، ایک ہزار دن کے اندر اندر ملک کے 6لاکھ سے زیادہ گاوؤں میں آپٹیکل فائبر نیٹ ورک کا کام پورا کر دیا جائے گا۔

بدلتی ہوئی ٹیکنالوجی میں سائبر اسپیس یہ ہماری خودکفالت بڑھتی ہی جانے والی ہے، لیکن سائبر اسپیس میں خطرے بھی جڑے ہوئے ہیں۔ اچھی طرح دنیا اس سے متعارف  ہے اور ان سے ملک کے سماجی تانے بانے، ہماری معیشت اور ہمارے ملک کی ترقی پر بھی خطرے پیدا کرنے کا یہ آسان راستہ بن سکتا ہےاور اس لئے بھارت اس سے بہت چوکنا ہے۔ بھارت بہت چوکس ہے اور ان خطروں کا سامنا کرنے کےلئے فیصلہ کر رہا ہے۔ اتنا ہی نہیں، نئی سہولتیں بھی لگاتار پیدا کی جا رہی ہیں۔بہت ہی  کم وقت میں نئی سائبر حفاظتی پالیسی اس کا ایک پورا خاکہ ملک کے سامنے آئے گا۔ آنے والے وقت میں سب اکائیوں کو جوڑ کر ہم اس سائبر سکیورٹی کے اندر سب کو ایک ساتھ چلنا پڑے گا۔ اس کے لئے آگے بڑھنے کے لئے حکمت عملی بنائیں گے۔

میرے پیارے ہم وطنو،

بھارت میں خواتین کی طاقت کو جب جب مواقع ملے، انہوں نےملک کا نام روشن کیا ہے، ملک کو مضبوطی دی ہے۔ خواتین کو روزگاراورخودروزگاری کے مساوی مواقع دینے کے لئے آج ملک عہد بند ہے۔ آج بھارت میں خواتین زیرزمین کوئلے کی کان میں کام کر رہی ہیں۔ آج میرے ملک کی بیٹیاں جنگجو طیارے بھی اڑا کر آسمان کی بلندیوں کو چومیں گی۔ آج بھارت دنیا کے ان ملکوں میں ہے، جہاں بحریہ اور فضائیہ میں خواتین  کو کومٹ رول میں  شامل کیاجا رہا ہے۔ حاملہ خواتین کو تنخواہ کے ساتھ 6مہینے کی چھٹی دینے کے فیصلے کی بات ہو، ہمارے ملک کی خواتین، جو 3طلاق کے سبب متاثر رہتی تھیں، ویسی ہماری مسلم بہنوں کو نجات دلانا، آزادی دلانے کا کام ہو، خواتین کو مالی  طور پر بااختیار بنانے کی بات ہو، 40کروڑ جو جن دھن کھاتے کھولے گئے ہیں، اس میں 22کروڑ کھاتے ہماری بہنوں کے ہیں۔

کورونا کے دور میں قریب 30ہزار کروڑ روپے ان بہنوں کے کھاتے میں جمع کر دیئے گئے ہیں۔ مُدرا لون- 25کروڑ کے قریب  مدرا لون دیئے گئے ہیں اس میں 70فیصد مدرا لون لینے والی ہماری ماں بہنیں ہیں۔ وزیراعظم رہائش اسکیم کے تحت جو خود کا گھر مل رہا ہے، اس میں زیادہ تر رجسٹری بھی خواتین کے نام ہو رہی ہے۔

میرے پیارے ہم وطنو،

غریب بہن بیٹیوں کی بہتر صحت کی بھی فکر یہ حکومت  کر رہی ہے۔ ہم نے جن اوشدھی کیندر میں ایک روپے میں سینیٹری پیڈ پہنچانے کے لئے بہت بڑا کام کیا ہے۔ 6ہزار جن اوشدھی کیندروں میں پچھلے تھوڑے سے وقت میں قریب 5کروڑ سے زیادہ سینٹری پیڈ ہماری ان غریب خواتین تک پہنچ چکے ہیں۔

بیٹیوں میں تغذیے کی کمی نہ رہے، ان کی شادی کی صحیح عمر کیا ہو، اس کے لئے ہم نے کمیٹی  تشکیل  دی ہے۔ اس کی رپورٹ آتے ہی بیٹیوں کی شادی کی عمر کے بارے میں بھی مناسب فیصلے کئے جائیں گے۔

میرے پیارے ہم وطنو،

اس کورونا کے دور میں صحت کے شعبے کی طرف ذہن جانا بہت فطری ہے اور اس لئے خودکفالت کا سب سے بڑا سبق ہمیں صحت کے شعبے نے اس بحران کے دور میں سکھا دیا ہے اور اس نشانے کو حاصل کرنے کے لئے ہمیں آگے بھی بڑھنا ہے۔

آپ دیکھئے، کورونا کے وقت اس  سے پہلے ہمارے ملک میں صرف ایک لیب تھی، ٹیسٹنگ کے لئے، آج 1400لیبز کا نیٹ ورک ہے، ہندوستان کے ہر کونے میں پھیلا ہوا ہے۔ جب کورونا کا بحران آیا، تو ایک دن میں صرف 300ٹیسٹ ہو پاتے تھے۔ اتنے کم وقت میں ہمارے لوگوں نے وہ قوت دکھا دی ہے کہ آج ہر دن 7لاکھ سے زیادہ ٹیسٹ  ہم کر پائے۔ کہاں 300سے شروع کیاتھا اورکہاں ہم 7لاکھ تک پہنچ گئے۔

ملک میں نئے ایمز، نئے میڈیکل کالج کی تعمیر، جدیدکاری کی سمت لگاتار کوشش، یہ ہم کر رہے ہیں۔ 5سال میں ایم بی بی ایس، ایم ڈی میں 45ہزار سے زیادہ طلبہ کے لئے سیٹوں کا اضافہ کیاگیا، گاؤں میں ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ تندرستی مراکز اور اس میں سے قریب ایک تہائی تو پہلے سے ہی سرگرم ہیں، جنہوں نے اس کورونا میں بڑی مدد کی ہے۔ کورونا کے دور میں تندرستی مرکزوں کے رول نے گاؤوں کی بہت بڑی مدد کی ہے۔

صحت کے شعبے میں آج سےایک بہت بڑی مہم شروع ہونے والی ہے اور اس میں ٹیکنالوجی کا بھی بہت بڑا رول رہے گا۔

آج سے قومی ڈیجیٹل صحت مشن، اس کی بھی شروعات کی جا رہی ہے۔ بھارت کے صحت شعبے میں یہ ایک نیا انقلاب لے آئے گا۔علاج میں آنے والی پریشانیاں کم کرنے کے لئےٹیکنالوجی کا بہت  تدبر کے ساتھ استعمال کیاجائے گا۔

ہر ایک بھارتی کو صحت آئی ڈی دی جائے گی۔ یہ صحت آئی ڈی ہر ایک بھارتی کے صحت کھاتے کی طرح کام کرے گی۔ آپ کے ہر ٹیسٹ، ہر بیماری، آپ کو کس ڈاکٹر کے پاس، کون سی دوا لی تھی، ان کی کیا تشخیص تھی۔      کب کی تھی، اُن کی رپورٹ کیاتھی، یہ ساری معلومات اس صحت آئی ڈی میں آپ کو فراہم کی جائیں گی۔

 ڈاکٹر سے اپائنٹمنٹ ہو، پیسہ جمع کرنا ہو، اسپتال میں پرچی بنانے کی بھاگ دوڑ ہو، یہ تمام دقتیں نیشنل ڈیجیٹل صحت مشن کے ذریعےبہت سی پریشانیوں سے نجات ملے گی۔عمدہ صحت کے لئے ہمارا کوئی بھی شہری صحیح فیصلے کر پائے گا۔ یہ سہولت ہونے والی ہے۔

میرے پیارے ہم وطنو، جب بھی کورونا کی بات آتی ہے، تو ایک بات فطری ہے، ہر کسی کے ذہن میں سوال ہے، کورونا کی ویکسین کب تیار ہوگی، یہ سوال ہر ایک کے ذہن میں ہے، پوری دنیا میں ہے۔

میں آج ملک کے عوام سے کہنا چاہوں گا کہ ملک کے ہمارے سائنسداں، ہمارے سائنسدانوں کی صلاحیت ایک رِشی مُنی کی طرح ہے۔ لیباریٹری میں جی جان سے لگے ہوئے ہیں۔ متحد، یکجہت، ریاضت کر رہے ہیں۔ بڑی سخت محنت کر رہے ہیں اور بھارت میں ایک نہیں، دو نہیں، تین-تین ویکسین اُس کی ٹیسٹنگ میں الگ الگ مرحلے میں ہیں۔ سائنسدانوں سے جب منظوری مل جائے گی، بڑے پیمانے پرپیداوار ہوگی اور اُن کی تیاریاں بھی پوری طرح مکمل ہیں اور تیزی سے پیداوار کے ساتھ ویکسین ہر بھارتی تک کم سے کم وقت میں کیسے پہنچے۔ اُس کا خاکہ بھی تیار ہے، اس کا پورا ڈھانچہ بھی تیار ہے۔

میرے پیارے ہم وطنو، ہمارے ملک میں الگ الگ جگہوں پر ترقی کی تصویر الگ الگ ہے۔ کچھ شعبے بہت آگے ہیں، کچھ شعبے بہت پیچھے ہیں۔ یہ غیر متوازن خودکفیل بھارت کے سامنے ایک اہم چنوتی میں مان سکتا ہوں اور اس لئے جیسا میں نے شروع میں کہا، 110 امنگوں والے ضلعوں پر ہم زور دے رہے ہیں۔ اُن میں ترقی مساویانہ  طریقے سے لانا چاہتے ہیں۔ ترقی کے ایکو نظام بنانا، کنکٹی ویٹی کو سدھارنا یہ ہماری اولین ترجیح ہے۔

اب آپ دیکھئے ہندوستان کا مغربی حصہ اور ہندوستان کے وسط سے لے کر مشرقی حصہ، مشرقی اترپردیش ہو، بہار ہو، شمال مشرق ہو، اڈیشہ ہو، یہ سارے ہمارے علاقے ہیں، لامحدود اثاثے ہیں، فطری اثاثوں کا ذخیرہ ہیں۔ یہاں کے لوگ  باصلاحیت ہیں، طاقتورہیں، ہونہار ہیں، لیکن موقعوں کی عدم مساوات  کی وجہ سے ان علاقوں میں عدم توازن رہا ہے اور  اس لئے ہم نے بہت سے نئے قدم اٹھائے، مشرقی کلی طور پر وقف مال بھاڑا گلیارا ہو، مشرق میں گیس پائپ سے جوڑنے کی بات ہو، نئے ریل کا بنیادی ڈھانچہ کھڑا کرنا ہو۔ وہاں نئی بندرگاہیں بنانا ہو، یعنی ایک طرح سے پورے ترقیاتی بنیادی ڈھانچے کےلئے نیا خاکہ جو ہونا چاہئے، اسے مجموعی طریقے سے ہم تشکیل دے رہے ہیں تاکہ ہمارے ملک میں ترقی کی سمت اُسی طرح سے لیہہ، لداخ، جموں و کشمیر، یہ علاقے ایک طرح سے اس خطے کو ایک برس پہلے 370سے آزادی مل چکی ہے۔ ایک سال پورا ہو چکا ہے۔ یہ ایک سال جموں و کشمیر کے ایک نئے ترقی کے سفر کا بڑا اہم مرحلہ ہے۔ یہ ایک سال وہاں کی خواتین کو، دلتوں کو، بنیادی حقوق کو دینے والا دور رہا ہے۔ یہ ہمارے  پناہ گزینوں  کا باوقار زندگی جینے کا بھی ایک سال رہا ہے۔ ترقی کا فائدہ گاؤں اور غریب تک پہنچانے کے لئے گاوؤں کو واپسی جیسی اہم مہم چلائی جا رہی ہے۔

آیوشمان یوجنا کوبہترین  طریقے سے آج جموں و کشمیر، لداخ کے خطے میں استعمال کیاجارہاہے۔

میرے پیارے ہم وطنو، جمہوریت کی مضبوطی، جمہوریت کی سچی طاقت ہماری چنی ہوئی مقامی اکائیوں میں ہیں۔ ہم سبھی کےلئے فخر کی بات ہے کہ جموں و کشمیر میں مقامی اکائیوں کے عوامی نمائندے سرگرمی اور حساسیت کے ساتھ ترقی کے نئے دور کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ میں ان کے سبھی پنچ، سرپنچوں کو دل سے بہت بہت مبارکباد دیتاہوں۔ ترقی کے سفر میں ان کی سرگرم شراکت داری کےلئے۔

جموں و کشمیر میں حدبندی سے مبرا کرنے کا عمل جاری ہے۔ سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج کی قیادت میں حدبندی سے مبرا کرنے کا کام جاری ہے اورجلدی سے حدبندی سے مبرا کرنے کا کام پورا ہوتے ہی مستقبل میں وہاں انتخابات ہوں، جموں و کشمیر کا ایم ایل اے ہو، جموں و کشمیر کے وزیرہوں، جموں و کشمیرکے وزیراعلیٰ ہوں، نئی توانائی کے ساتھ ترقی کے راستے پر آگے بڑھے، اس کے لئے ملک عہد بند بھی ہے اور کوشاں بھی ہے۔

لداخ کو مرکز کے زیرانتظام ریاست بنا کر برسوں پرانی جو ان کی مانگ تھی، ان کی امنگ تھی، اس امنگ کو ہم نے پورا کرنے کا، ان کو اعزازبخشنے کا ایک بہت بڑا کام کیا ہے۔ ہمالیہ کی اونچائیوں میں بسالداخ ترقی کی نئی چوٹی کی جانب آگے بڑھ رہا ہے۔ اب سنٹرل یونیورسٹی وہاں پر بن رہی ہے۔ نئے تحقیقی مراکز بن رہے ہیں، ہوٹل مینجمنٹ کے نصابات وہاں چل رہے ہیں۔ بجلی کے لئے ساڑھے سات ہزار میگاواٹ کے شمسی پارک کی تعمیر کا پروجیکٹ تیار ہو رہا ہے، لیکن میرے پیارے ہم وطنو، لداخ کی کئی خاصیتیں ہیں۔ ان خاصیتوں کو ہمیں سنبھالنا بھی ہے، سنوارنا بھی ہے اور جیسے سکم نےہمارے شمال مشرق میں، سکم نے اپنی آرگینک اسٹیٹ کی پہچان بنائی ہے، ویسے ہی لداخ، لیہہ، کارگل، پورا خطہ ہمارے ملک کے لئے کاربن نیوٹرل کی پہچان کی شکل میں اس کی اکائی بنا سکتا ہے اور اس کے لئے بھارت سرکار وہاں کے شہریوں کے ساتھ مل کر ایک نمونے کے طورپرجذبے کے طورپرکاربن نیوٹرل اور وہ بھی ترقی کا ماڈل، وہاں کی ضرورتوں کو پورا کرنے والا ماڈل۔۔۔اُس سمت ہم آگے بڑھ رہے ہیں۔

میرے پیارے ہم وطنو، بھارت نے دکھایا ہے کہ ماحول کے ساتھ توازن رکھتے ہوئے بھی تیز ترقی ممکن ہے۔ آج بھارت ایک دنیا، ایک سورج، ایک گرڈ کے خاکے کے ساتھ پوری دنیا کو خاص طور پر شمسی توانائی کے شعبے میں جذبہ بخش رہا ہے۔

قابل تجدید تونائی کی پیداوارکے معاملے میں آج بھارت دنیا کے 5چوٹی کے ملکوں میں اپنا مقام بنا چکا ہے۔ آلودگی کے حل کے سلسلے میں بھارت بیدار بھی ہے اور بھارت سرگرم بھی ہے۔ سووچھ بھارت ابھیان ہو،  دھوئیں سے پاک رسوئی گیس کی سہولت ہو، ایل ای ڈی بلب کا ابھیان ہو، سی این جی پر مبنی ٹرانسپورٹیشن کی سہولت ہو، بجلی سے چلنے والی گاڑیوں کے لئے کوشش ہو، ہم کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے ہیں۔ پٹرول سے آلودگی کو کم کرنے کے لئے ایتھانول پیداوار بڑھانے میں اور اس کے استعمال پر زور دیا جا رہا ہے۔ 5سال پہلے ہمارے ملک میں ایتھانول کی کیاصورتحال تھی، 5سال پہلے ہمارے ملک میں 40کروڑ لیٹر پیداوار ہوتی تھی۔آج 5سال میں 5گنا ہو گئی ہے اور آج 200کروڑلیٹرایتھانول ہمارے ملک میں بن رہا ہے، جو ماحول کےلئے بہت سودمند ہے۔

میرے پیارے ہم وطنو، ملک کے 100شہروں میں، چنے ہوئے 100شہروں میں، آلودگی کم کرنے کے لئے، ہم ایک مجموعی طریقۂ  کارکے ساتھ، ایک متحد طریقے کے ساتھ، ایک عوامی شراکت کے ساتھ، جدید ٹیکنالوجی کا بھرپور استعمال کرتےہوئے ہم اُسے آلودگی کم کرنے کی سمت۔۔۔ایک مشن موڈ میں کام کرنے والے ہیں۔

میرے عزیز ہم وطنو،

ملک کے 100 شہروں میں، چنے ہوئے100 شہروں میں، آلودگی کم کرنے کے لیے، ہم ایک جامع نظریہ کے ساتھ، ایک مربوط نظریے کے   ساتھ،ایک عوامی شراکت داری کے ساتھ، جدید ٹیکنالوجی کا بھرپور استعمال کرتے ہوئےہم  آلودگی کم کرنے کی سمت میں ایک مشن موڈ میں کام کرنے والے ہیں۔

میرے عزیز ہم وطنو،

بھارت اس بات کو فخر سے کہہ سکتا ہے—  بھارت ان بہت کم ممالک میں سے ایک ہے، جہاں جنگلوں کی توسیع ہورہی ہے، اپنے حیاتیاتی تنوع کے فروغ اور تحفظ کے لیے  بھارت پوری طرح حساس ہے۔ ہم لوگوں نے کامیابی کے ساتھ پروجیکٹ ٹائیگر، پروجیکٹ ایلی فینٹ—ہم نے کامیابی کے ساتھ  آگے بڑھایا ہے۔ ہمارے یہاں ٹائیگر کی آبادی بڑھی ہے،اب آنے والے دنوں میں ایشیائی شیر کے لیے پروجیکٹ لائن کی شروعات ہورہی ہے اور اس میں پروجیکٹ لائن بھارتی شہروں کےدفاع ،حفاظت  کے لیے ضروری بنیادی ڈھانچے اور خاص طور سےان کے لیے جو ضروری ہوتا ہے، خصوصی قسم کا صحت سے متعلق بنیادی ڈھانچہ اس پر بھی کام کیا جائے گا اور پروجیکٹ لائن پر زور دیا جائے گا۔

ساتھ ہی، ایک اور کام کو ہم فروغ دینا چاہتے ہیں اور وہ ہے، پروجیکٹ ڈولفن چلایا جائےگا۔ دریاؤں میں ، سمندر میں رہنے والے دونوں طرح کی ڈولفنوں میں ہم فوکس کریں گے۔اس سے حیاتیاتی تنوع کو تقویت ملے گی اور روزگار کے مواقع بھی ملیں گے، یہ سیاحت  کوراغب کرنے کا بھی  مرکز ہوتا ہے— تو اس سمت میں بھی ہم آگے بڑھنے والے ہیں۔

میرے عزیز ہم وطنو،

جب ہم ایک غیر معمولی مقصد کو لے کرکے غیرمعمولی سفر پر نکلے ہیں، تو راستے میں چیلنجوں کی بھرمار ہوتی ہے اور چیلنج بھی غیرمعمولی ہوتے ہیں۔  اتنی آفتوں کے درمیان سرحد پر بھی ملک کے طاقت کو چیلنج کرنے کی ناپاک کوششیں ہوئی ہیں۔لیکن ایل او سی سے لے کر ایل اے سی تک ملک کی خودمختاری  پر ،جس کسی نے آنکھ اٹھائی، ملک کی فوج نے، ہمارے ویرجوانوں نے، اس کا اسی کے زبان میں جواب دیا ہے۔

بھارت کی خودمختاری  کا دفاع کرنے کے لیے پورا ملک ایک جوش سے بھرا ہواہے، عزم سے متحرک ہے اور صلاحیت پر مکمل عقیدت کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔اس عزم کے لیے ہمارے ویر جوان کیا کرسکتے ہیں، ملک کیا کرسکتا ہے—  یہ لداخ میں دنیا نے دیکھ لیا ہے۔ میں آج مادر وطن پر نچھاور ان تمام ویر جوانوں کو لال قلعہ کی فصیل سے پورے احترام کے ساتھ سلام کرتا ہوں۔

دہشت گردی ہو، یا توسیع پسندی، بھارت آج ڈٹ کر مقابلہ کررہا ہے۔ آج دنیا کا بھارت پر اعتماد اور مضبوط ہوا ہے۔ پچھلے دنوں اقوم متحدہ کی سلامتی کونسل کے غیر مستقل رکن کے طور پر 192 میں سے 184ملکوں کی بھارت کو حمایت ملنا یہ ہمارے ہر ہندوستانی کےلیے فخر کی بات ہے۔ دنیا میں  ہم نےکس طرح اپنی پہنچ بنائی ہے،اس کی یہ مثال ہے۔اور یہ اسی وقت ممکن ہوتا ہے، جب بھارت خود مضبوط ہو، بھارت طاقتور ہو، بھارت محفوظ ہو، اسی خیال کے ساتھ آج متعدد محاذوں پر کام کیا جارہا ہے۔

میرے عزیز ہم وطنو،

ہمارے پڑوسی ملکوں کے ساتھ، چاہے وہ ہم سے زمین سے جڑے ہوں یا سمندر سے،اپنے تعلقات کو ہم  دفاع، ترقی اور اعتماد کی شراکت داری کے ساتھ جوڑ رہے ہیں۔ بھارت کی مسلسل کوشش ہے کہ اپنے پڑوسی ممالک کے ساتھ ہم اپنے صدیوں پرانے ثقافتی، اقتصادی اور سماجی رشتوں کو مزید گہرائی دیں۔جنوبی ایشیا میں دنیا کی ایک چوتھائی  آبادی رہتی ہے، ہم اتفاق اور شراکت  داری سے اتنی بڑی آبادی کی ترقی اور خوشحالی کے بے شمار امکانات پیدا کرسکتے ہیں۔ اس علاقے کے ممالک کے  تمام لیڈروں کی اتنی بڑی آبادی کی ترقی اور آگے بڑھنے کےلیے بہت بڑی ذمہ داری ہے، ایک اہم ذمہ داری ہے۔ اسے نبھانے کےلیے جنوبی ایشیا کے ان تمام علاقوں کے تمام لوگوں کو، سیاست دانوں کو، ارکان پارلیمنٹ کو، دانشوروں سے بھی میں اپیل کرتا ہوں ۔ اس پورے علاقے میں جتنا امن ہوگا، جتنا بھائی چارہ ہوگا، اتنی ہی یہ انسانیت کے کام آئے گا۔نوع انسانی کے مفاد میں ہوگا۔پوری دنیا کا مفاد اس میں شامل ہے۔

آج پڑوسی صرف وہی نہیں ہے، جن سے ہماری جغرافیائی سرحدیں ملتی ہیں، بلکہ وہ بھی ہیں، جن سے ہمارے دل ملتے ہیں— جہاں رشتوں میں ہم آہنگی ہوتی ہے، میل جول رہتا ہے۔ مجھے خوشی ہے  کہ گزرے ہوئے کچھ وقت میں بھارت نے وسعت دی گئی پڑوس  کے تمام ملکوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو اور مضبوط کیا ہے۔ مغربی ایشیا کے ممالک سے ہمارے سیاسی، اقتصادی اور انسانی تعلقات کی ترقی میں کئی گنا تیزی آئی ہے— اعتماد کئی گنا بڑھ گیا ہے۔ ان ملکوں کے ساتھ ہمارے اقتصادی تعلقات خاص طور پر توانائی کے شعبے میں شراکت داری بہت اہم ہے۔ ان  کئی ملکوں میں—  ان تمام ملکوں میں— زیادہ تر ملکوں میں بہت  بڑی تعداد میں ہمارے بھارتی بھائی بہن کام کررہے ہیں، جس طرح ان ممالک نے کورونا کے بحران کے وقت  ہندوستانیوں کی مدد کی، بھارت سرکار کی درخواست کااحترام کیا، اس کے لیے بھارت ان تمام ملکوں کا ممنون ہے اور میں اپنی ممنونیت کا اظہار کرنا چاہتا ہوں۔

اس طرح ہمارے سابق آسیان ممالک، جو ہمارےسمندری پڑوسی بھی ہیں، وہ بھی ہمارے لیے بہت خاص اہمیت رکھتے ہیں۔ ان کے ساتھ بھارت کے ہزاروں سال پرانے مذہبی اور ثقافتی  تعلقات ہیں۔ بودھ مذہب کی روایتیں ہمیں ان سے جوڑتی ہیں۔ آج بھارت ان ملکوں کےساتھ، محض دفاع کے شعبے میں ہی نہیں، بلکہ سمندری اثاثے کے شعبے میں بھی  تعاون بڑھا رہا ہے۔

میرے پیارے ہم وطنو،

بھارت کی جتنی کوششیں امن اور میل ملاپ کے لیے ہیں، اتنی ہی عہد بندی اپنے دفاع اور اپنی فوجوں کو طاقتور بنانے کے لیے بھی ہیں۔ دفاع کے پروڈکشن میں خودکفیل بھارت کے لیے  بڑے اقدامات کیے گئے ہیں۔ حال ہی میں 100 سے زیادہ فوجی سازوسامان کی درآمد پر ہم نے پابندی لگادی ہے۔ میزائلوں سے لے کر ہلکے جنگی ہیلی کاپٹروں تک ، اسالٹ رائفل سے لے کر ٹرانسپورٹ ایئرکرافٹ تک، سبھی میک ان انڈیا ہوگئے۔ اپنا تیجس بھی—   اپنی تابناکی، اپنی تیزی اور اپنی طاقت دکھانے کے لیے جدید ضرورتوں کے حساب سے تیارہورہا ہے۔ملک کے دفاع میں ہمارے سرحدی اور ساحلی بنیادی ڈھانچے کا بہت بڑا رول ہوتاہے۔ آج ہمالیہ کی چوٹیاں ہوں، یا بحرہند کے جزائر ،ہر سمت میں کنکٹی ویٹی کی توسیع پر زور دیا جارہا ہے۔ لداخ سے لے کر اروناچل پردیش تک بڑے پیمانے پر ہمارے ملک کے دفاع کو ذہن میں رکھتے ہوئے نئی سڑکیں تیار کی گئی ہیں۔

میرے پیارے ہم وطنو،

ہمارا اتنا بڑا ساحل سمندر ہے، لیکن ساتھ ہی ساتھ ہمارے پاس 1300 سے زیادہ جزائر ہیں۔ کچھ منتخبہ جزائر کی اہمیت کے پیش نظر تیزی سے فروغ دینے کی طرف ہم آگے بڑھ رہے ہیں۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ پچھلے ہفتے 5 دن پہلے انڈمان نیکوبار میں سب میرین آپٹیکل فائبر کیبل پروجیکٹ کو ملک کے لیے وقف کیا گیاہے۔ انڈمان نیکوبار کو بھی چنئی اور دہلی جیسی انٹرنیٹ سہولت اب دستیاب ہوگی۔ اب ہم آگے لکشدیپ کو بھی اسی طرح جوڑنے کے لیے —  کام کو آگے بڑھانے والے ہیں۔

اگلے ایک ہزار دن میں لکشدیپ کو بھی تیز انٹرنیٹ کی سہولت سے جوڑنے کا ہم نے نشانہ رکھا ہے۔سرحدی اور ساحلی علاقے کے نوجوانوں کی ترقی —  اس کو بھی—  دفاع کو مرکز میں رکھتے ہوئے ترقی کے ماڈل کی سمت میں ہم آگے بڑھ رہے ہیں اور اس میں ایک قدم، ایک بڑی مہم ہم شروع کررہے ہیں۔

ہمارے جو سرحدی علاقے ہیں، ہمارے جو ساحلی علاقے ہیں، وہاں کے قریب 173 اضلاع ہیں، جو کسی نہ کسی ملک کی سرحد یا ساحل سمندر سے جڑے ہیں۔ آنے والے دنوں میں این سی سی کی توسیع ان سرحدی اضلاع کے نوجوانوں کے لیے کی جائے گی۔ سرحدی علاقے کے کیڈٹس—  ہم تقریباً ایک لاکھ نئے این سی سی کے کیڈٹس تیار کریں گے۔ اور اس میں ایک تہائی ہماری بیٹیاں ہوں، یہ بھی کوشش رہے گی، سرحدی علاقے کے کیڈٹس کی تربیت فوج کرے گی۔ ساحلی علاقے کے جو کیڈٹس ہیں، ان کو بحریہ کے لوگ تربیت دیں گے اور جہاں فضائی بیس ہے، وہاں کے کیڈٹس کو فضائیہ کی طرف سے ٹریننگ دی جائے گی۔ سرحدی اور ساحلی علاقے کو آفات سے نمٹنے کے لیے ایک تربیت یافتہ افرادی قوت ملے گی۔ نوجوانوں کو مسلح دستوں میں کریئر بنانے کے لیے ضروری ہنرمندی بھی ملے گی۔

میرے پیارے ہم وطنو،

گزشتہ سال لال قلعہ سے میں نے کہا تھا، پچھلے 5 سال ضرورتوں کو پورا کرنے اور آئندہ 5 سال تمناؤں کو پورا کرنے کے ہیں۔ گزشتہ ایک سال میں ہی ملک نے بڑے اور اہم فیصلوں کے پڑاؤ کو پار کرلیا ہے۔ گاندھی جی کی 150ویں  جینتی پر بھارت کے گاوؤں نے ، خود کو کھلے میں رفع حاجت سے پاک کیا ہے۔ آستھا کی وجہ سے ظلم کا شکارپناہ گزینوں کو شہریت دینے کا قانون، دلتوں، پسماندہ لوگوں، او بی سی کے لیے—  ایس سی/ ایس ٹی / او بی سی کے لیے ریزرویشن کا حق دینے کی بات ہو، آسام اور تری پورہ میں تاریخی امن سمجھوتہ ہو، فوج کی اجتماعی طاقت ہو، کو مزید  موثر بنانے کے لیے چیف آف ڈیفنس اسٹاف کا تقرر ہو، کرتار صاحب کوریڈور کی ریکارڈ مدت میں تعمیر ہو— ملک نے تاریخ رقم کی ہے،تاریخ بنتے دیکھا، غیرمعمولی کام کرکے دکھایا۔

10 دن قبل اجودھیا میں بھگوان رام کے عالیشان مندر کی تعمیر شروع ہوئی ہے۔ رام جنم بھومی کے صدیوں پرانے معاملے کا پرامن حل ہوچکا ہے۔ ملک کے لوگوں نے جس صبر وتحمل کے ساتھ اور سمجھداری کا برتاؤ کیا ہے،رویہ اختیار کیا ہے،یہ بے مثال ہے اور مستقبل کے لیے ہمارے لیے محرک ہے۔ امن، اتحاد اور ہم آہنگی یہی تو خودکفیل بھارت کی طاقت بننے والی ہے۔ یہی میل جول ، یہی بھائی چارہ بھارت کے روشن مستقبل  کی گارنٹی ہے۔ اسی بھائی چارے کے ساتھ ہمیں آگے بڑھنا ہے۔ ترقی کے  اس عظیم کام میں ہر ہندوستانی کو اپنی جانب سے ایثار کرنا ہوگا۔

اس دہائی میں بھارت نئی پالیسی اور نئے طریقے کے ساتھ آگے بڑھے گا، اور عام طریقے سے کام نہیں چلے گا۔ اب ہوتاہے، چلتا ہے، کا وقت چلا گیا۔ ہم دنیا میں کسی سے کم نہیں۔ ہم سب سے اوپر رہنے کی کوشش کریں گے اور اس لیے ہم بہترین پروڈکشن ، اعلی ترین انسانی وسائل، اعلی ترین حکمرانی— ہر معاملے میں بہترین کے نشانے کو لے کر آزادی کے 75ویں سال کے لیے ہمیں آگے بڑھنا ہے۔

ہماری پالیسی، ہمارے طریقہ کار، ہماری مصنوعات، سب کچھ اعلی سے اعلی ہو، بہترین ہو، تبھی  ‘ایک بھارت شریشٹھ بھارت’ کا تصور عملی شکل اختیار کرے گا۔ آج ہمیں دوبارہ عزم کرنے کی ضرورت ہے، یہ عزم آزادی کے لیے قربانی دینے والوں کے خوابوں کو پورا کرنے کا ہو، یہ عزم 130 کروڑ اہل وطن کے لیے ہو، یہ عزم ہماری آنے والی نسلوں کے لیے ہو، ان کے روشن مستقبل کے لیے ہو، یہ عزم خودکفیل بھارت کے لیے ہو۔ ہمیں عہد لینا ہوگا، ہمیں حلف لینا ہوگا،  ہم درآمدات کو کم سے کم کرنے کی سمت میں کام کریں گے، ہم اپنی چھوٹی صنعتوں کو مضبوط بنائیں گے۔ ہم سب لوکل کے لیے ووکل کریں گے اور ہم زیادہ اختراع کریں گے— ہم بااختیار بنائیں گے اپنے نوجوانوں کو، خواتین کو، قبائیلیوں کو، دیویانگوں کو، دلتوں کو، غریبوں کو، گاؤں کو، پسماندہ لوگوں کو، ہر کسی کو۔

آج بھارت نے غیرمعمولی رفتار سے ناممکن کو ممکن بنایا ہے۔ اسی قوت ارادی، اسی لگن، اسی جذبے کے ساتھ ہر ایک ہندوستانی کو آگے بڑھنا ہے۔سال 2022 ہماری آزادی کے 75 سال کا موقع اب بس آ ہی گیا ہے۔ ہم ایک قدم دور ہیں۔ ہمیں دن رات ایک کردینا ہے۔ 21ویں صدی  کی یہ تیسری دہائی ہمارے خوابوں کو پورا کرنے کی دہائی ہونی چاہیے۔کورونا بڑی مصیبت ہے، لیکن اتنی بڑی نہیں کہ خودکفیل بھارت کی کامیابی کے سفر کو روک پائے۔

میں دیکھ سکتا ہوں، ایک نئی صبح کی سرخی، ایک نئی خوداعتمادی کی آمد،ایک نئے خودکفیل بھارت کا اعلان۔ ایک بار پھر آپ سبھی کو یوم آزادی کی بہت بہت نیک خواہشات۔ آئیے میرے ساتھ دونوں ہاتھ اوپر کرکے پوری طاقت سے بولیے:

Related posts

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More