نئی دہلی، ؍جولائی ؍ حکومت ہند کسانوں کی فلاح و بہبود کو اولین ترجیح دے رہی ہے اور کسانوں کی بھلائی کی بہت سی اسکیموں پر عمل درآمد کر رہی ہے تاکہ زرعی شعبے میں نئی جان ڈالی جا سکے اور کسانوں کی اقتصادی حالت کو بہتر بنایا جا سکے۔ حکومت نے بہت سی اسکیمیں شروع کی ہیں۔ مثلاً سوائل ہیلتھ کارڈ اسکیم، نیم کوٹیڈ یوریا، پرمپراگت کِرشی وکا س یوجنا(پی کےوی وائی) پردھان منتری کرشی سینچائی یوجنا(پی ایم کے ایس وائی) نیشنل ایگری کلچرمارکیٹ(این اےایم)، پردھان منتری فصل بیمہ یوجنا(پی ایم ایف بی وائی) اور انٹریسٹ سَب وینشن اسکیم۔ یہ اسکیمیں سبھی کسانوں کےفائدےکیلئے ہیں۔ اسکیموں کی تفصیلات مندرجہ ذیل ہیں:
- سوائل ہیلتھ کارڈ اسکیم:
2015میں شروع کی گئی اس اسکیم کا مقصد ریاستی حکومتوں کی ملک کے تمام کسانوں کو سوائل ہیلتھ کارڈ دینےمیں مدد کرنا ہے۔ یہ کارڈ کسانوں کو اس بات کی اطلاع فراہم کرتا ہے کہ ان کی زمین میں پیداواریت کا کیادرجہ ہے ۔ اس کےعلاوہ اس کارڈ کےذریعے یہ سفارش بھی کی جاتی ہےکہ زمین کے میعار اور اس کی پیداواریت کو بہتر بنانے کیلئے کتنی مقدار میں کھاد وغیرہ کا استعمال کیاجائے۔
11 جولائی 2017 کو 253لاکھ زمین کے نمونوں کے برخلاف سب کےسب 253لاکھ زمین کےنمونے جمع کئے جا چکے تھےاور245لاکھ (97فیصد)نمونوں کی جانچ کی جا چکی تھی۔ 12کروڑ سوائل ہیلتھ کارڈ جاری کرنے کے نشانے کےسلسلےمیں اب تک 9 کروڑ (76فیصد) کارڈ کسانوں میں تقسیم کئےجاچکے ہیں۔
- نیم کوٹیڈ یوریا(این سی یو) :
اس اسکیم کو فروغ دینے کا مقصد یہ ہے کہ کیمیاوی کھاد کےاستعمال کو باضابطہ بنایا جائے۔ فصلوں کیلئے نائٹروجن کی فراہمی کو بڑھایا جائےاور کیمیاوی کھاد کےاستعمال پرآنےوالی لاگت کو کم کیاجائے۔ این سی یو کےذریعے کیمیاوی کھاد کےاستعمال میں کمی آتی ہےاور اسے مؤثر طریقے پر فصلوں کیلئے استعمال کیاجاتا ہے۔ گھروں میں تیار کئےگئےاوردرآمد کئےگئےپورے کے پورے کیمیاوی کھاد کو اب نیم کوٹیڈ کردیا گیا ہے ۔ اس سلسلے میں کھیتوں سے ملنے والی رپورٹیں بڑی مثبت ہیں۔ امید ہے کہ ا س سے کیمیاوی کھاد کےاستعمال میں 10فیصد کمی ہوگی، جس سے زراعت پر آنےوالی لاگت کم ہو جائےگی اور زمین کےمعیار میں بھی بہتری پیداہوگی۔
- پرم پراگت کرشی وکاس یوجنا (پی کے وی وائی):
پرم پراگت کرشی یوجنا پی کے وی وائی پر اس نظریئےسےعمل کیاجارہاہے کہ ملک میں نامیاتی زراعت کو فروغ دیا جائے۔اس سے زمین کا معیار بہتر ہوگااور کسانوں کی آمدنی میں اضافہ ہوگا۔ اس اسکیم کےتحت 16-2015 سے 18-2017 تک 50 ایکڑکے10ہزار کلسٹروں کےذریعے 5لاکھ ایکڑ علاقے کا احاطہ کیاجائےگا۔
اب تک 7ہزار 208 کلسٹر بنائے جا چکے ہیں اور باقی کلسٹر بھی 18-2017کےدوران تشکیل دے دیئےجائیں گے۔
- پردھان منتری کرشی سینچائی یوجنا(پی ایم کے ایس وائی) :
‘‘ہر کھیت کو پانی ’’فراہم کرنےکےنعرےسے2015میں شروع کی گئی پردھان منتری کرشی سینچائی یوجنا پی ایم کےایس وائی پر اس مقصد سے عمل کیاجارہا ہے کہ کھیتی والے علاقے کو بڑھایاجائے، جس کیلئے سینچائی کو یقینی بنایاجائے، پانی کوضائع ہونےسے بچایاجائے اور پانی کو بہتر طریقے پر استعمال کیاجائے ۔ پی ایم کےایس وائی کےذریعے نہ صرف یقینی آبپاشی کے استعمال پر توجہ دی جاتی ہے، بلکہ بارش کے پانی کو مائیکروسطح پر‘جَل سنچے’ اور ‘جَل سِنچن’کےذریعےسینچائی کیلئےاستعمال کیاجاتاہے۔
- نیشنل ایگریکلچر مارکیٹ (این اے ایم) :
نیشنل ایگریکلچرمارکیٹ اسکیم (این اے ایم) کےذریعے قومی سطح پر ای مارکیٹنگ پلیٹ فارم کی گنجائش پیدا کی گئی ہےاوراس طرح کا بنیادی ڈھانچہ فراہم کرنے کی کوشش کی گئی ہے، جس کےتحت پورے ملک میں مارچ 2018تک 585باضابطہ منڈیوں میں ای مارکیٹنگ کی سہولت فراہم کر دی جائے ۔ جدید نوعیت کےاس عمل سے زرعی مارکیٹوں میں انقلاب آ رہاہے، جس کےتحت کسانوں کو اپنی مصنوعات کی بہتر قیمت مل رہی ہے، شفافیت اور مسابقت کا طریقہ سامنےآرہاہےاوروہ ‘وَن نیشن وَن مارکیٹ’ کی طرف آگے بڑھ رہے ہیں۔ مارچ 2017کیلئے400منڈیوں کو ای-این اےایم کےساتھ مربوط کرنےکانشانہ مقرر کیاگیاتھا، جس کےتحت 13ریاستوں میں 30جون 2017 کو 455 منڈیاں مربوط کی جا چکی تھیں۔ 2جولائی2017 کو 47.95لاکھ کسان اور 91،500کاروباری ای-این اےایم پورٹل پراپنااندراج کراچکےتھے۔
- پردھان منتری فصل بیمہ یوجنا(پی ایم ایف بی وائی):
پردھان منتری فصل بیمہ یوجنا(پی ایم ایف بی وائی) اور موسم پرمبنی دوبارہ مرتب کردہ فصلوں کی بیمہ اسکیم(آر ڈبلیو بی سی آئی ایس) 2016 کی خریف فصل سےشروع کی گئی تھی، جس کا مقصد بوائی سے پہلےسےلےکر فصل کی کٹائی کے بعد تک کےعمل کو فصلوں کےبیمےکےتحت لانا تھا۔ اس میں قدرتی آفات کے خطرات بھی شامل تھے۔ یہ اسکیمیں کسانوں کو انتہائی کم شرح یعنی خریف کی فصلوں کیلئے دو فیصد، ربیع کی فصلوں کیلئے 1.5فیصداورسالانہ تجارتی –باغبانی فصلوں کیلئے 5فیصد شرح پر بیمے کی قسط ادا کرنی ہوتی ہے۔قسط کی باقی رقم آدھےآدھے کی بنیاد پرمرکزی اورریاستی حکومتیں ادا کرتی ہیں۔ یہ اسکیمیں ریاستوں کیلئےرضاکارانہ ہیں اور ایسےعلاقوں اورفصلوں کیلئے فراہم ہیں، جو ریاستی حکومتیں نوٹیفائی کرتی ہیں۔ اس کےعلاوہ، جن کسانوں نے قرضہ لیاہے، ان کیلئے یہ اسکیمیں لازمی ہیں، جبکہ جن کسانوں نے قرضہ نہیں لیا ہے، ان کیلئے رضاکارانہ ہیں۔
- انٹیریسٹ سَب وینشن اسکیم(آئی ایس ایس):
حکومت 3 لاکھ روپےتک کےفصل کےقلیل مدتی قرضوں پر سود میں تین فیصد رعایت دیتی ہے۔ اس وقت کسانوں کو 7فیصد سالانہ کی شرح سود سے قرضہ فراہم کیاجاتاہے ، جوجلدادائیگی کی صورت میں 4فیصد رہ جاتاہے۔ اسکےعلاوہ 17-2016کی انٹریسٹ سَب وینشن اسکیم کےتحت کسانوں کوقدرتی آفت کی صورت میں شرح سود میں دو فیصد رعایت کا سلسلہ بینکوں کو پہلے سال کیلئے جاری رہےگا۔
زراعت ایک ریاستی موضوع ہےاوریاستی حکومتیں ہی بنیادی طورپراپنی اپنی ریاستوں میں زرعی سیکٹر کی ترقی اور فروغ کیلئے ذمہ دار ہیں۔ مرکزی حکومت مناسب پالیسی اقدامات اور بجٹ کےاندر دی جانے والی امداد کےذریعے ریاستی حکومتوں کی کوششوں میں مدد گار ہوتی ہے۔ موجودہ حکومت کی حکمت عملی زیادہ پیداوارپر نہیں،بلکہ زرعی سیکٹر میں زیادہ آمدنی پر مرکوز ہو گئی ہے اورمندرجہ بالا اسکیموں پر زراعت کو آمدنی کےقابل بنانےپرعمل کیاجارہاہے۔
یہ اطلاع زراعت ا ورکسانوں کی فلاح و بہبود کےوزیرمملکت جناب پرشوتم روپالانےآج لوک سبھا میں ایک سوا ل کےتحریری جواب میں دی۔