نئی دہلی، نائب صدر جمہوریہ ہند جناب ایم وینکیا نائیڈو نے کہا ہے کہ گاندھی جی کے نظریات اور ان کی خدمات یا ان کے کام آج بھی اتنے ہی مفید ہیں۔ نائب صدر جمہوریہ ہند، ڈاکٹر ایم ڈی گپتے کو جذام کے مرض کے خاتمے کے سلسلے میں چلانے جانے والے عالمی پروگرام میں ان کے ذریعے دیے جانے والے غیرمعمولی تعاون کے اعتراف میں بین الاقوامی گاندھی ایوارڈ 2017 کی تفویض کے بعد اس موقع پر حاضرین سے خطاب کررہے تھے۔ ڈاکٹر اتل شاہ کو بھی جذام کے مریضوں کی تکالیف کو کم کرنے کے لئے انسانی خدمات فراہم کرانے کے لئے ایوارڈ سے نوازا گیا۔ اس تقریب کا اہتمام سیوا گرام، واردھا، مہاراشٹر میں گاندھی میموریل لپریسی فاؤنڈیشن کی جانب سے کیا گیا تھا۔ توانائی اور ریاستی آبکاری کے حکومت مہاراشٹر کے وزیر جناب چندر شیکھر بوانکولے اور دیگر معززین بھی اس موقع پر موجود تھے۔
نائب صدر جمہوریہ ہند نے کہا کہ جذام ایک مرض ہے، جو ہمارے ملک میں کافی عرصے سے موجود رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ واضح بدنمائی کے ساتھ اس مرض کے شافی علاج کے سلسلے میں عدم آگہی کے نتیجے میں جذام کو ایک ہیبت ناک مرض خیال کیا جانے لگا ہے۔ اس سے جڑے ہوئے بہت سے خوف، وسوسے اور توہمات ہیں اور اسے ایک بدنما دھبہ اور سماجی کلنک سمجھا جاتا ہے۔
نائب صدر جمہوریہ ہند نے کہا کہ گاندھی جی نے جذام کے مریضوں کے تئیں کافی دلچسپی دکھائی تھی اور جذام کے مریضوں کی تکالیف دور کرنے کے لئے ان دنوں میں انھوں نے بہت کام کیا تھا، جب اس مرض کا کوئی مخصوص شافی علاج دستیاب نہیں تھا۔ انھوں نے مزید کہا کہ وقت کی ضرورت یہ ہے کہ جذام کے معاملات کی جلد از جلد شناخت اور تشخیص کو بڑھاوا دیا جائے۔ اس سے متاثرہ افراد کے لئے معقول معالجے تک ان کی رسائی ممکن بنائی جائے اور مربوط جذامی خدمات فراہم کرائی جائیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسے افراد کو بااختیار بنایا جائے، جو لوگ سماجی طور پر تفریق کا شکار رہے ہیں اور اس کے لئے باقاعدہ طور پر اطلاعاتی ترسیل کا عمل اپنایا جائے۔
نائب صدر جمہوریہ ہند نے گاندھی جی کے الفاظ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’’ہمیں اپنے ملک اور دنیا کی کثیر ثقافتی نوعیت کو محفوظ رکھنے کی ضرورت ہے۔ میں نہیں چاہتا کہ میرے گھر کو ہر طرف سے اونچی اونچی دیواروں سے گھیر دیا جائے اور میری کھڑکیاں بند کردی جائیں۔ میں چاہتا ہوں کہ ہر سرزمین کی ہر ثقافت کی ہوا میرے گھر تک آئے اور اس حد تک دوستانہ انداز میں آئے جس حد تک ممکن ہو، تاہم میں یہ نہیں چاہوں گا کہ میرے قدم اپنی جگہ سے ہٹ جائیں۔‘‘
نائب صدر جمہوریہ ہند نے کہا کہ گزشتہ برسوں کے دوران جذام کی لعنت بنی نوع انسان کے چہرے پر ایک بدنما داغ رہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ طبی تعلیم کے علاوہ اس مرض سے وابستہ کلنک اصل تشویش کی وجہ ہے۔ چونکہ اس مرض کے علاج کے بارے میں عام طور پر عدم آگہی پائی جاتی ہے، ساتھ ہی اس سے متعلق دیرینہ مفروضے بھی چلن میں رہے ہیں، جس کے نتیجے میں اس مرض سے متعلقہ فرد کو تفریق کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جس کی وجہ سے اس مرض کے شکار فرد کو خاطرخواہ تناؤ اور مصیبت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
نائب صدر جمہوریہ ہند نے کہا کہ حفظان صحت کارکنان کو جِلد یا جِلد کی حسیت میں واقع ہونے والی تبدیلی اور اس سے متعلق جذامی تشخیص کے امکانات کی آگہی ہونی ضروری ہے۔ انھوں نے کہا کہ جو لوگ بنیادی حفظان صحت سے وابستہ ہیں، ساتھ ہی ساتھ جنھوں نے اس مرض کے علاج کی خصوصی مہارت حاصل کی ہے، انھیں تشخیص اور جذام کے انتظام کی تربیت بھی دی جانی چاہئے۔ اس بات کی ضرورت بھی ہے کہ تشخیصی جانچ کو بڑھاوا دیا جائے اور تحقیقی عمل کو مہمیز کیا جائے اور نئے ٹیکے متعارف کرائے جائیں۔
نائب صدر جمہوریہ ہند نے کہا کہ عام سماج میں بیداری بھی لازمی ہے، تاکہ ہر معاملے کی جلد از جلد تشخیص ممکن ہوسکے۔ انھوں نے کہا کہ اس بیماری سے وابستہ سماجی لعنت اور کلنک کے پہلو کو حل کرنا بھی ضروری ہے، تاکہ متاثرہ افراد اس مرض کو چھپائیں نہیں اور تشخیص کے لئے آگے آئیں۔ جن افراد میں اس مرض کے اثر سے ان کے اعصاب کے اعمال میں فرق واقع ہوجاتا ہے، جس کے نتیجے میں معذوری لاحق ہوجاتی ہے، ایسے افراد کی بازآبادکاری سماج کے اندر ہی کرنا بہت بڑی چنوتی ہے۔