نئی دہلی: نائب صدرجمہوریہ ہند ، جناب ایم وینکیانائیڈو نے کہا ہے کہ ہمیں معاشرے میں موجود فاصلوں اور عدم مساوات کو ختم کرناچاہئے ۔نائب صدر جمہوریہ ہند موصوف کل یہاں ‘بھارت کے راج نیتا۔ رام داس اٹھاولے’نامی کتاب کا اجرأ کرنے کے بعد حاضرین سے خطاب کررہے تھے ۔ سماجی انصاف اور تفویض اختیارات کے وزیرمملکت ، جناب رام داس اٹھاولے اور دیگرمعززین بھی اس موقع پرموجود تھے۔
نائب صدرجمہوریہ ہند نے کہاکہ جناب رام داس اٹھاولے، جدیدمعاشرے میں دلتوں کے کاز کی حمایت کے علمبردار کے طورپر ابھرے ہیں ۔انھوں نے کہاکہ اس کتاب میں قومی اہمیت کے حامل اہم موضوعات مثلاًتمام شہریوں کے لئے مساوی مواقع ، پارلیمنٹ اورقانون ساز اداروں میں خواتین کی نمائندگی اور اندرون ملک قبائلی آبادی کے تحفظ وغیرہ کا تذکرہ کیاگیاہے ۔
نائب صدرجمہوریہ ہند نے کہاکہ یہ کتاب اٹھاولے کے پرامن احتجاج اور جدوجہد کے نظریئے کی ترجمانی کرتی ہے جو جمہوریت کو استحکام عطاکرتاہے ۔ انھوں نے کہاکہ ہمارے معاشرے میں موجود شدید عدم مساوات کی شناخت ازحداہم ہے اور اس طرح کے تمام فاصلوں کو ختم کرنے کے لئے ٹھوس اقدامات بھی درکارہیں ۔
نائب صدرجمہوریہ ہند نے کہاکہ یہ کتاب پارلیمنٹ اور ریاستی قانون سازاداروں میں خواتین کی معقول نمائندگی کی بات کرتی ہے اور اسے جلد از جلد حقیقی عملی جامہ پہنایاجاناچاہئے ۔ انھوں نے مزید کہاکہ حکومت کو بھارت کی قبائلی آبادی پرتوجہ مرکوز کرنی چاہئے اورڈی نوٹیفائیڈ ، خانہ بدو ش قبائل کا تحفظ ازحداہم ہے ۔ ان کی ترقی اور تحفظ بھارت کی گوناگوں، مالا مال تکثیری ثقافت کے لئے لازمی ہے ۔
نائب صدرجمہوریہ ہند نے کہاکہ ضرور ت اس بات کی ہے کہ باریکی سے خوداحتسابی کا عمل کیاجائے ، مضبوط سیاسی قوت ارادی پیداکی جائے ، عہد بندگی کے ساتھ نفاذ عمل میں لایاجائے اور انداز فکرمیں تبدیلی لائی جائے ۔ انھوں نے کہاکہ تشدد ، نفرت اور تفریق پرمبنی سیاست کے توسط سے کوئی مثبت نتیجہ حاصل نہیں ہوسکتا۔ صرف باہمی احترام اور گفت وشنید مفید ثابت ہوسکتی ہے ۔ نائب صدرجمہوریہ ہند کی تقریرکا پورامتن درج ذیل ہے :
‘‘بھارتی سیاسی رہنماوں کی زندگی اور ان کے تعاون کا اہم تعارف کرانے والی کتابی سلسلے کی موجودہ جلد کی اشاعت کے لئے میں مصنف جناب راجیوسمن اور ’’دی مارجینیالائزڈ پبلیکیشن ’’کو مباررکباد پیش کرتاہوں ۔
اس کتاب کی اپنے آپ میں ایک خاص اہمیت ہے ۔ موجودہ دورمیں کسی اعلیٰ جمہوریت میں یہ بھی ضروری ہے کہ ایسی کتابوں کی اشاعت کی جائے جو سیاسی رہنماوں کے کرداراور ان کے نظریات کو معاشرے کے سامنے پیش کریں ۔
موجودہ کتاب مہاراشٹرکے سرگرم سیاسی رہنمااور سماج سیوک جناب رام داس اٹھاولے جی پرمرکوز نظریات کو لے کر تحریرکی گئی ہے ۔اٹھاولے جی ، پینتھراور نامانترن جیسے آندولنوں کے سرگرم شریک کاررہے ہیں ۔مجھے خوشی ہے کہ یہ جلد ان کے لئے وقف کی گئی ہے ۔مجھے یہ دیکھ کر اچھالگاکہ راجیو جی نے اس کتاب کے شروع میں اپنی بھومیکا میں جمہوریت کی اہمیت کو واضح کیاہے ۔
اٹھاولے جی جدید معاشرے میں دلتو ں کے مفاد کے حمایتی اور منفرد رہنمابن کرابھرے ہیں ۔ ان کا معاشرے کے لئے مساوی نظریہ قابل تعریف ہے ۔ ان کا مقصد ہے کہ انسان زندگی کی مکمل ترقی ہونہ کہ کسی خاص قوم کی ، کیونکہ جمہوریت میں کسی قسم کے امتیازکو منظورنہیں کیاجاتا۔
معاشرے میں کسی قسم کی عدم مساوات کو دیکھ کر اس کی مخالفت کرنا مناسب کام ہے ۔ کتاب میں اٹھاولے جی کے تعارف میں بتائے گئے بہت اہم موضوعات ہیں ۔خاص طورپر ان کا پرامن احتجاج اور تحریک کا طریقہ جمہوریت کو استحکام عطاکرتا ہے ۔
موجودہ کتاب 80اور90کی دہائی کی سیاسی گہماگہمی کو زندہ جاوید شکل میں کرتی ہے ۔ اٹھاولے جی کا یہ خیال بھی دل پذیرہے کہ کسی پارٹی کااصولی اورنظریاتی طریقہ الگ ہوسکتاہے لیکن سرکارمیں شامل ہونے کے بعد اس کا نظریہ سرکارکے نظریا ت کے مطابق ہوناچاہئے ، آئین کی نیتی ہونی چاہئے ۔ مجھے خوشی ہے کہ اٹھاولے جی ملک کی زبردست ترقی کی موجودہ نیتی کی پرزورحمایت کرتے ہیں ۔
اس میں شک نہیں ہے کہ خواتین کے حقوق کے سلسلے میں آپ کے خیالات بہت روشن ہیں ۔ آپ کے مطابق وقت کی ضرورت کے لحاظ سے پارلیمنٹ کی توسیع کی جانی چاہئے اورکیسے بھی ہو ، وہاں ملک کی خواتین کی نمائندگی لازمی ہونی چاہئے ، میں امید کرتاہوں کہ آپ کا یہ مثبت نظریہ مستقبل کے لئے بہت مفید ہوگا۔
اٹھاولے جی کا تعلیم کو قومیائے جانے کا نظریہ بہت ترقی پسندانہ ہے ۔ اس میں کو ئی شبہ نہیں ہے کہ سرکارکو مساوی تعلیم اورتعلیم کے مساوی مواقع فراہم کرنے کی جانب درکار ضروری قدم اٹھانے چاہئیں ۔
مذکورہ کتاب میں اٹھاولے جی کے ذریعہ کی گئی تقریروں اوران کے ذریعہ اٹھائے گئے مختلف سماجی مدوں کی تفصیل سے وضاحت کی گئی ہے ۔ انھوں نے مہاراشٹراورپورے ملک میں پسماندہ ذاتوں کی ترقی کے لئے متعدد مدے اٹھائے ہیں ۔ اس کے علاوہ انھوں نے وقتاًفوقتاًمختلف بدعنوانی کےحادثات پر بھی اظہارخیال کیاہے ۔ انھوں مذہبی بالادستی کے معاملات کے خلاف بھی آواز اٹھائی ہے ۔
یہ اچھی بات ہے کہ انھوں نے جد ید معاشرے میں کچھ اونچے طبقوں کی اقلیت میں ہونے کی وجہ سے قابل رحم حالت کو پیش نظررکھ کر انھیں بھی ان کی آبادی کی بنیاد پرریزرویشن دینے پر زوردیاہے ۔
اچھی بات ہے کہ اٹھاولے جی زرعی ملک میں کاشتکاروں کے مسائل کو بھی اٹھاتے ہیں اورملک کی حقیقی ترقی کی حمایت کرتے ہیں ۔
اٹھاولے جی کے اصول کے مطابق ملک کے آزاد اور خانہ بدوش قبائل کے مسائل کی جانب بھی سرکارکو دھیان دینا چاہئے ۔ حقیقت میں ان کا بھارت کی تہذیب میں غیرمعمولی تعاون ہے ۔ ان کے تحفظ سے پورے ملک کی تہذیب کا تحفظ کا دعویٰ کیاجاسکتاہے ۔
مجھے خوشی ہے کہ اٹھاولے جی ملک کی بری رسموں کے خلاف بہت زیادہ سرگرم ہیں اور اس جانب وہ معاشرے کے بھلائی کے لئے صحیح سمت میں کام کررہے ہیں ۔ ایشوران کے نیک ارادوں اور نیک اعمال میں انھیں کامیابی عطاکرے اور وہ ہمیشہ اسی طرح خدمت خلق میں مصروف اور پورے جوش وجذبے سے لگے رہیں ۔