17.9 C
Lucknow
Online Latest News Hindi News , Bollywood News

’’ہندوستان – کروشیا تعلقات – پیش رفت کے راستے پر‘‘ کے موضوع پر یونیورسٹی آف زاغریب میں صدرجمہوریہ ہند جناب رام ناتھ کووند کا خطاب

Urdu News

نئی دہلی، میرے لئے  یونیورسٹی آف زاغریب آنا بڑے فخر کی بات ہے جو کہ فکر اور  علم کا تاریخی گہوارہ ہے اور جو اس سال  اپنا 350 واں  یوم تاسیس منارہی ہے۔ ہندوستان کے  دوسرے صدر  اور میرے  پیش رو  ڈاکٹر سرپلی رادھا کرشنن نے  اکتوبر 1965 میں  اس یونیورسٹی کا دورہ کیا تھا۔ میں ڈاکٹر بوراس  اور یونیورسٹی کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے ایک بار پھر  آپ کے سامنے  ہندوستان کا پیغام  دینے کا مجھے  موقع  دیا۔

یونیورسٹی آف  زاغریب  علم  اور  عالموں کا مرکز ہونے کی وجہ سے  مشہور ہے۔ ہم ہندوستان میں  اس یونیورسٹی کے ساتھ خصوصی تعلق رکھتے ہیں  اور خاص طور پر  عمرانیات  اور سماجی علوج کی فیکلٹی کے ساتھ  ، جس نے  ہندوستانی  علوم کے  محکمہ کی  میزبانی کی ہے۔ اس محکمے نے  ہندوستانی  مطالعے کو  فروغ دینے میں جو  شاندار کام کیا ہے  وہ قابل قدر ہے۔ ہندوستان کے بارے میں  ہماری زبانوں ، ہماری روایات اور ہمارے کلچر کے بارے میں پڑھانے کے ذریعے  آپ نے  صحیح معنی میں دونوں ملکوں کے درمیان  یکجہتی پیدا کی ہے۔

ہمیں اس بات پر فخر محسوس ہوتا ہے کہ ہم نے  بہت سے معاملات میں  آپ کے ساتھ  ساجھیداری کی ہے۔ کل  ہم نے  سنسکرت چیئر کی  شروعات کی ہے اور  ہندی چیئر کا بھی احیاء کیا ہے۔ اس اقدام سے بھی  ہمارے تعلقات  اور تال میل میں  گہرائی پیدا ہوگی۔

ہندوستان میں ہم لوگ پرانی یونیورسٹیوں مثلا ً نالندہ  کے ورثے کے  پاسدار ہونے پر فخر محسوس کرتے ہیں، جس نے  پانچ میں سے  12 ویں صدی کے دوران بہت زیادہ ترقی کی تھی۔ جب  یہ یونیورسٹی اپنے نقطہ عروج پر تھی تو اس کے کیمپس میں  10 ہزار سے زیادہ طلباء  مختلف علوم کی  تعلیم حاصل کرتے تھے۔ ہماری بہت سی جدید یونیورسٹیاں  ہندوستان کی ٹیکنالوجی کی  صلاحیت کو  مستحکم بنا نے کے  اصولوں پر مبنی ہیں۔ اس سے  ہندوستان میں  اور ہندوستانیوں کے ذریعے  پوری دنیا میں  ٹیکنالوجی کی سرحدوں کی  توسیع میں  بڑے نتائج برآمد ہوئے ہیں۔

 ہندوستانی علوم کے بارے میں  کام کرنا  ہندوستان اور کروشیا کے درمیان  تاریخی تعلقات  کا ایک اہم جزو ہے۔ یہ  تعلقات  اس وقت سے قائم ہیں جب ہمارے یہ دونوں ممالک  اسی سیاسی صف میں  شامل نہیں تھے  جس میں یہ آج ہیں۔ ہمیں معلوم ہے کہ  کروشیا کے لوگ  16ویں صدی میں  تاجروں کی حیثیت سے  تلاش کنندگان کی حیثیت سے  اور مفکرین کی حیثیت سے  ہندوستان میں داخل ہوئے تھے۔ مجھے معلوم ہے کہ آپ کے لیڈروں میں سے ایک  ست جے پن رادھک مہاتما گاندھی سے بہت زیادہ متاثر تھے۔ اس سال  ہم بابائے قوم  مہا تما  گاندھی کی  پیدائش کی  150 ویں سالگرہ  منارہے ہیں۔ مہا تما گاندھی کے لئے  علم اور  تعلیم کا مقصد  انسانیت کی  یکجائی کو سمجھنا اور  سچ کی طاقت کو مستحکم بنانا تھا۔ دو  اکتوبر کو  ان کے  نصف مجسمے  کی  آپ کی  تاریخی  راجدھانی میں نقاب کشائی کی جائے گی۔ مجھے امید ہے کہ  آپ ان کے ورثے کو یاد رکھنے اور ان کی  عالمی اقدار کو  اپنانے کے لئے  ان تقریبات میں شرکت کریں گے۔

ہمارے  سرکردہ  شاعر  اور  پہلے  غیر مغربی نوبیل انعام یافتہ رابندر ناتھ ٹیگور نے  1926  میں  زاغریب کا دورہ کیا تھا۔ ان کی تقاریب سے  ایسا لگتا ہے کہ  کروشیا کے لوگوں کے  ذہنوں پر بہت زیادہ اثر پڑا۔ مجھے معلوم ہوا ہے کہ   ٹیگور ان ہندوستانی  شاعروں میں شامل ہیں جن کے  کلام کا  سب سے زیادہ ترجمہ کروشیا میں کیا گیا ہے۔ آپ کے مصنف ایوانا مازورینک کی کتابوں کی   بنگالی اور ہندی سمیت  بہت سی ہندوستانی زبانوں میں اشاعت ہوچکی ہے۔ یہ درحقیقت  آدمی سے آدمی کے درمیان تعلقات  کا معاملہ ہے  ، جو قومی سرحدوں کی حدود سے بالا تر ہے۔ ہمیں یہ دیکھ کر خوشی ہوتی ہے کہ  کروشیا کی  بہت سی ایسوسی ایشنیں ہندوستان کی  روحانیت  مثلا موسیقی ، یوگا اور آیوروید میں دلچسپی رکھتی ہیں۔  اس ملک میں علم حاصل کرنے کی پیاس کسی دوسرے ملک سے کم نہیں ہے۔

ہمارے کلچرل تعلقات  ہمارے لئے  بڑے فخر کی  بات ہے۔ ان مضبوط بنیادوں پر ہمیں ایک  نئی زندگی کی  شراکت داری  قائم کرنی ہے۔ ایک ایسی شراکت داری جو اقتصادی  یکجہتی  ، جغرافیائی ، سیاسی حقائق  ، ٹیکنالوجی اور اختراع ، پائیداری  اور  چوتھے صنعتی انقلاب  اور  دونوں ملکوں کے لئے  استحکام  اور ترجیحات  پر مبنی ہو ۔

 ایک مستحکم اور خوش حال جمہوریت  کے سلسلے میں کروشیا کی پیش رفت  درحقیقت  بڑی  فیضان بخش ہے۔ یورپی یونین کے  ایک ممبر کے طور پر آپ کا سفر  ، ایک  ہندوستان کے ایک عالمی شراکت دار کے طور پر آپ کا سفر  ایک نئی شروعات  کا علم بردار ہے اور ہم  آپ کے لئے  نیک خواہشات پیش کرتے ہیں۔

جیسا کہ کروشیا کی ضرب المثل میں کہا گیا ہے کہ ’’نیما کروہا بیز موتیکے‘‘ یعنی  توے کے بغیر روٹی نہیں پک سکتی اور آپ لوگ یقینا ایک نئے مستقبل کی تعمیر کے لئے سخت محنت کررہے ہیں۔ جب آپ نے  فیفا فٹ بال  میدان میں  اپنی مہارت  اور جذبے کا اظہار کیا  تو پوری دنیا نے آپ کی تعریف کی۔ اس سے نہ صرف یہ کہ کھیل کود میں آپ کی مہارت کا اظہار ہو بلکہ فتح کرنے  اور کامیاب ہونے کے  ایک نئے اعتماد کا بھی اظہار ہو ۔

ہماری طرف ہندوستان میں حالیہ تبدیلیاں  انقلابی نوعیت کی  اقتصادی ترقی  اور  سماج کی فلاح وبہبود  کے لئے  بے حد اہم ہے ثابت ہوئی ہیں۔ ایک نیا ہندوستان ابھررہا ہے۔ ایک ایسا ہندوستان جو  خواہشوں سے بھرپور ہے اور جو  پوری دنیا سے جڑا ہوا ہے اور جو  عالمی چیلنجوں کا حل تلاش کرنے کی بین الاقوامی کوششوں کی قیادت کرنے پر آمادہ ہے ، چائے یہ آب وہوا کی تبدیلی کا معاملہ ہو  یا دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے ایک نئے  عالمی نظام  کے قیام کا معاملہ ہو۔

تکنیکی یکجہتی  ہماری قومی ترقی کی پالیسی کا ایک جزو رہی ہے۔ ہم نے حال ہی میں بہت سی کامیابیاں حاصل کی ہیں جن کے بارے میں  ذکر کرنا ضروری ہے۔ انڈین اسپیس ریسرچ آرگنائزیشن ’’اسرو‘‘ نے ایک ہی بار میں 104 سٹیلائٹ چھوڑے تھے جس سے دنیا میں ایک زبردست چھاپ ہم نے چھوڑی۔ ہم واحد ملک ہیں جس نے  اپنی پہلی ہی کوشش میں ایک مشن مریخ  بھیجا  اور کامیابی کے ساتھ یہ مشن مریخ  کے لئے  روانہ کیا گیا۔ ہم  2022 میں  اب ایک انسان کو  خلائی مشن  میں  بھیجنا چاہتے ہیں ، جو کہ ہمارا ایک مقصد ہے۔ ملک کی آزادی کی  75 ویں سالگرہ کے موقع پر  انسان کو خلاء میں بھیجنے کا  ہمارا مشن ہے۔

ہمارا بائیو میٹرک پر مبنی  مثالی ، شناختی نظام آدھار  شائد دنیا میں معلومات کا  سب سے بڑا تکنیکی پروجیکٹ ہے اور ہماری  اس  وسیع اراضی میں ایک اعشاریہ  دو ارب  لوگوں تک پہنچ چکا ہے۔ اس کے موبائل فون اور بینک کھاتوں کے ساتھ رابطے نے ہندوستان میں  ایک ڈیجیٹل انقلاب برپا کردیاع ہے۔

 ہم تعلیم وتربیت کے اپنے عالمی نوعیت کے  اداروں کے  شکر گزار ہیں۔ ہم سالانہ  چار ہزار سے زیادہ  ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں عطا کرکے  162 یونیورسٹیوں کے ساتھ دنیا میں تیسرے سب سے بڑے  سائنسی اور تکنیکی  افرادی قوت  پول میں آگئے ہیں۔ ہندوستان کی انفارمیشن ٹیکنالوجی  میں  صلاحیت کے بارے میں سبھی کو بخوبی علم ہے۔

صدرجمہوریہ نے کہا کہ  مجھے خوشی ہے کہ ہماری ایک بڑی آئی ٹی کمپنی  کروشیا میں تقریبا تمام کروشیائی ملازمین کے ساتھ  ایک دفتر چلا رہی ہے۔ بھارت ایک مجموعی طور پر مکمل ریسرچ اور ترقیاتی  خدمت کا بازار ہے۔ جس کے 2020  تک 38 بلین امریکی ڈالر تک  پہنچنے کی امید ہے۔ عالمی ریسرچ اور ترقی  خرچ کے معاملے میں چوٹی کی ایک ہزار کمپنیوں میں سے ایک تہائی  اب بھارت میں موجود ہیں۔ ڈیجیٹل شاہراہوں کے ارد گرد  لپٹی اور  آرٹی فیشیل انٹلی جنس سے چلنے والی  ہماری معلوماتی معیشت  میں  ہماری ریسرچ  لیب کو ایک ساتھ لانے  ہماری صنعتوں  اور کاروبار کو  ایک ساتھ لانے اور ہمارے  عوام کی صحت اور خلاء بہبود کے لئے  نئے متبادل  لانے کی بہت زیادہ گنجائش ہے۔

آج کے ہندوستان میں آبادی  ایک اور اہم عنصر ہے۔ ہم شائد دنیا کے  سب سے نوجوان ملکوں میں سے ایک ہیں۔ ہماری آبادی کا تقریبا  آدھا حصہ 25 سال سے کم عمر کے لوگوں پر مشتمل ہے اور تقریبا دو تہائی  ہماری  آبادی  ورکنگ عمر کے زمرے میں آتی ہے۔وہ ہندوستان کے اسٹارٹ اپ  کلچر بالخصوص ٹیکنالوجی کے سیکٹر میں ہندوستان کی قیادت کررہی ہے۔ ہم اب  دنیا بھر میں  موبائل ڈیٹا کے  سب سے  بڑے صارف ملک ہیں۔ امریکہ اور چین کو  اگر باہم ملادیا جائے تب بھی ہم ان سے آگے ہیں۔ ہمارے پاس دنیا کا دوسرا سب سے بڑا انٹرنیٹ بیس ہے۔ آنے والی دہائیوں میں ہندوستان کے نوجوان  سب سے زیادہ مشکل چیلنجوں کو حل کرنے کی انسانی کوشش میں  سب سے آگے ہوں گے۔ آپ کے کروشیا میں  ایک کہاوت  ’’ناملادیما سومچیت اوستابے‘‘  یعنی دنیا  نوجوانوں پر منحصر ہے،  اس کو پوری طرح واضح کرتی ہے۔

 اقتصادی سطح  پر کئی دہائیوں سے ہم  مسلسل  7 فیصد  یا اس سے زیادہ کی شرح ترقی کے ساتھ دنیا میں سب سے زیادہ تیزی کے ساتھ  ترقی کرنے والی معیشت ہیں۔ اس شرح ترقی نے  کروڑوں افراد کو غربت وافلاس سے باہر نکالا ہے اور  اس  میں ترقی کے فوائد  کو  شیئر کرنے  کا ہمیں موقع دیا ہے۔ ہمارے اقتصادی  انڈیکیٹرس  کافی مستحکم ہیں اور ہم  پر اعتماد ہیں کہ  ہندوستان مستقبل کیلئے  عالمی اقتصادی ترقی کے  انجن کے طور پر  بدستور  رہے گا۔

اپنی تمام کوششوں کے دوران  ہم نے  تکثیریت  اور بے مثال تنوع ،قانون کی بالادستی ، انسانی حقوق کے تحفظ  ، دہشت گردی اور تشدد سے مقابلے کرنے اور دنیا کی طرف  دوستی کا ہاتھ بڑھانے کے لئے ہندوستان کے وجود   کو فراموش نہیں کیا ہے۔ سماجی اور اقتصادی ترقی کی جانب ہمارے  اس سفر کے دوران  متعددی چیلنجز درپیش ہیں۔ تاہم ہمیں پورا بھروسہ ہے کہ  ہم  بالکل  سیدھے راستے پر گامزن ہیں۔

  جیسا کہ میں نے ذکر کیا ہے کہ  آپ کے سامنے اب  ایک نیا ہندوستان ہے۔ اتفاق کی بات یہ ہے کہ کروشیا بھی دنیا تک  پہنچ رہا ہے۔ ایسی بہت سی چیزیں ہیں جن کو  ہم  دونوں ملک ایک ساتھ کرسکتے ہیں۔ کروشیا کا میرا دورہ  ، کسی بھی صدر جمہوریہ ہند کا  پہلا دورہ ،  کروشیا کے ساتھ  دوستی کے ہاتھ کو مزید مستحکم کرنے اور کروشیائی باشندوں  بالخصوص یہاں کے نوجوانوں کو  دعوت دینے کے لئے ہے، ہندوستان کے ساتھ تجارت وکاروبار کریں۔

میں آپ کو  امیدوں، مواقع  اور وعدوں سے بھرپور  نئے ہندوستان میں تشریف لانے  اور تجربات حاصل کرنے کے لئے مدعو کرتا ہوں۔

Related posts

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More