19.4 C
Lucknow
Online Latest News Hindi News , Bollywood News

یونیورسٹیاں کتابی علم، غیر لچک نظریات اور مسابقتی نمبرات سے ہٹ کر معلومات پر مبنی کھلے بحث و مباحثہ پر توجہ مرکوز کریں

Urdu News

نئی دہلی، نائب صدر جمہوریہ ہند جناب ایم وینکیا نائیڈو نے اسکولوں اور کالجوں میں طلباء کی تربیت پر از سر نو غور کرنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ کتابی علم، غیر لچکدار نظریات اور مسابقتی نمبرات سے ہٹ کر معلومات پر مبنی اور کھلے بحث و مباحثے کرنے کی ضرورت ہے۔

شیام لال کالج، نئی دہلی کے 55ویں سالانہ جلسہ تقسیم میں انعامات سے خطاب کرتے ہوئے آج نائب صدر جمہوریہ ہند جناب ونکیا نائیڈو نے اعلیٰ تعلیم کے مراکز سے طلباء میں روزگار حاصل کرنے کی صلاحیت کو بہتر بنانے کے لئے کیس اسٹڈیز، مسائل کے حل کا طریقہ کار استعمال میں لاکر تدریس کے نئے طریقوں کو اپنا کر لیکچر دینے کی جگہ پر انہیں اپنانا چاہئے۔

آج کے کیریئر میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے قابل روزگار ہونا اور معلومات کے حصول کا ذکر کرتے ہوئے جناب نائیڈو نے اعلیٰ تعلیم کے اداروں سے صنعت پر مرکوز نصاب تیار کرنے، طلباء میں پروجیکٹوں، انٹرن شپ اپنانے کے لئے ان کی حوصلہ افزائی کرنے اور انہیں روزگار حاصل کرنے کے قابل بنانے کے لئے صنعت اور کارپوریٹ اداروں کے ساتھ لگاتار رابطے میں رہنے کی اپیل کی۔

ہندوستان کے تعلیمی اداروں کی ناقص عالمی رینکنگ پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے جناب نائیڈو نے کہا کہ تعلیم کے میدان میں عمدگی حاصل کرنے کی ہماری کوششیں اس وقت تک کامیاب نہیں ہوں گی، جب تک ہم اعلیٰ تعلیم میں بین الاقوامی معیارات حاصل کرنے میں ناکام رہتےہیں۔

شیام لال کالج جیسے اعلیٰ تعلیمی اداروں سے عمدگی کے حصول کے لئے جناب  نائیڈو نے کہا کہ عمدگی ،تندہی، دانشوری سے متعلق منصوبہ بندی اور عزم مصمم ، نیز ٹھوس کوششوں کے نتیجے میں ہی حاصل ہوتی ہے۔

ہندوستان کے بے مثال آبادی کے فائدے کے بارے میں باتیں کرتے ہوئے جناب نائیڈو نے نوجوانوں کو تعلیم کی دولت سے آراستہ کرنے کی ضرورت اور بھارت کو عالمی قائد بنانے کے لئے نوجوانوں کی وسیع طاقت سے استفادہ کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔

انہوں نے کہا کہ  تعلیم کو نظر انداز کرنا کے نتیجے میں مجموعی طورپر ملک کی ترقی پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔نائب صدر جمہوریہ نے کہا کہ پورے تعلیمی نظام پر ازسر نو غور کرنے اور انہیں از سر نوترتیب دینے کی فوری اور اہم ضرورت ہے۔

جناب نائیڈو نے تعلیمی نظام ،اداروں، فن تعلیم، درس و تدریس کے طریقوں کو از سر نو وضع کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اس کی شروعات ابتدائی تعلیم سے کرنی ہوگی۔انہوں نے کہا کہ ان تمام کوششوں میں ابتدائی تعلیم میں رسائی ، تنوع، مساوات اور معیارات کو یقینی بنانا نہایت ضروری ہے۔

جناب نائیڈو نے ملک میں تعلیم میں  سرمایہ کاری کو موجودہ مجموعی گھریلو پیداوار(جی ڈی پی)کے تین فیصد سے بڑھاکر 2022 تک کم از کم 6 فیصد کرنے کا مشورہ دیا۔ یہ تجویز نیتی آیوگ نے بھی پیش کی ہے۔وہ چاہتے تھے کہ تعلیم  ادارے خصوصاً  دیہی علاقوں کے اسکولوں میں نہ صرف صد فیصد اندراج کو یقینی بنانا ہوگا، بلکہ اس با ت کو بھی یقینی بنانا ہوگا کہ  تمام طلباء اعلیٰ سطح تک تعلیم حاصل کریں اور کوئی بھی طالب علم تعلیم حاصل کرنے سے پیچھے رہ نہ جائے۔

پرائمری تعلیم کی حالت کو بہتر بنانے کی غرض سے نائب صدر جمہوریہ جناب نائیڈو نے بچپنے کی تغذیے پر توجہ مرکوز کرنے کا مشورہ دیا۔ انہوں نے کہا کہ غریبی اور سوئے تغذیہ کے چکر میں ہمیں تعلیم کو یرغمال نہیں بننے دینا ہوگا۔وہ نادار طبقات سے تعلق رکھنے والےخاص طور سے معذور افرادپر خصوصی توجہ دینا چاہتے تھے۔

ویدک عہد میں مردو خواتین دونوں کو  حاصل یکساں مواقع ، فکر پر اظہار رائے کی آزادی کا ذکر کرتے ہوئے جناب نائیڈو نے کہا کہ خواتین کو بااختیار بنانے کے لئے لڑکیوں کو تعلیم کی دولت سے آراستہ کرنا نہایت ضروری ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر آپ کو خواتین کو بااختیار بنانا ہے تو لڑکیوں کے لئے تعلیمی پروگرام کو عوامی تحریک بنانا چاہئے۔

نائب صدر جمہوریہ ہند جناب وینکیا نائیڈو نے ہونہار طلباء کے درمیان انعامات تقسیم کئے اور قومی راجدھانی کے قلب میں واقع سماج  غریب اور پسماندہ طبقات سے تعلق رکھنے والے بچوں کو تعلیم سے آراستہ کرنے میں اس ادارے کی کوششوں کی تعریف کی۔

دہلی یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر یوگیش تیاگی، گورننگ باڈی کی چیئرپرسن محترمہ سویتا گپتا، شیام لال کالج کے پرنسپل روی نارائن کار، شیام لال کالج کے صدور شعبہ اور طلباء بھی اس موقع پر موجود تھے۔

شیام لال کالج کے 55ویں سالانہ جلسہ تقسیم اسناد سے نائب صدر جمہوریہ ہند جناب ایم ونکیا نائیڈو نے خطاب کیا۔ان کے  خطاب کا مکمل متن حسب ذیل ہے:

شیام لال کالج کے سالانہ جلسہ تقسیم انعامات کے لئے اتنے سارے ہونہار اور باصلاحیت نوجوانوں کے درمیان آج یہاں آ کر مجھے بے حد خوشی ہو رہی ہے۔

شیام لال کالج، دہلی یونیورسٹی سے الحاق شدہ ایک کالج ہے۔ اس کا قیام شیام لال چیری ٹیبل ٹرسٹ کے چیئرمین ایک دور اندیش اور مایہ ناز صنعت کار پدم شری (آنجہانی)جناب شیام لال گپتا کے ذریعے 1964 میں عمل میں لایاگیا تھا۔مجھے بتایا گیا ہے کہ اس کالج کا سنگ بنیادکسی اور نے نہیں ،بلکہ اس وقت کے سابق صدر جمہوریہ ڈاکٹر ذاکر حسین نے رکھا تھا۔

مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی کہ شیام لال کالج (ایس ایل سی) نے 2014 ءمیں اپنا گولڈن جبلی منایا تھا۔

مجھے یہ جان کر بھی خوشی ہوئی ہے کہ یہ کالج عمدگی کا ایک تعلیمی مرکز بن گیا ہے اور اس کا شمار دہلی یونیورسٹی کے بہترین اداروں میں ہوگیا ہے۔

مجھے یہ جان کر بھی خوشی ہوئی ہے کہ  ایس ایل سی اپنے قیام کے بعد سے ہی طلباء کے لئے خصوصاً مشرقی دہلی کے معاشی اور تعلیمی اعتبار سے  پسماندہ طبقات سے  تعلق رکھنے والی لڑکیوں کی تعلیم تک رسائی کی کوششیں کرتا رہا ہے۔

یہاں یہ بات خصوصیت کے ساتھ قابل ذکر ہے کہ ایس ایل سی پوری طرح قابل احیاء توانائی سے آراستہ ہے اور اس نے متعدد گرین اینیشیٹیو اور ری سائکلنگ کی کوششیں کی ہیں۔

میں سمجھتا ہوں کہ ایس ایل سی نے زیادہ سے زیادہ درس تدریس کا ایک دور اندیشانہ قدم اٹھایا ہے اور  صنعتوں کے ساتھ رابطے ، ہنر مندی کے فروغ ، خواتین کو بااختیار بنانے کے لئے چار اہم مراکز قائم کئے ہیں، اس سے طلباء کی ہمہ جہت ترقی ہوگی۔ ان اقدامات  میں گاندھی اسٹڈیز بھی شامل ہے۔

ادارے کی سالانہ تقریب اس کی سال بھر کی سرگرمیوں کا نتیجہ ہے اور یہ اس کے طلباء اور اساتذہ کی حصولیابیوں کی تقریب بھی ہے۔

میں آج ان تمام لوگوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں ، جنہیں آج یہاں میڈل اور انعامات تفویض کئے گئے ہیں۔یہ اعزاز آپ کی کڑی محنت، آپ کی صلاحیت اور عمدگی کے لئے آپ کے لئے عزم مصمم کا اعتراف ہے۔

عمدگی کبھی بھی کوئی حادثہ نہیں ہوتی اور نہ ہی یہ اتفاقیہ  واقعہ ہوتا ہے، بلکہ یہ مستعدی ، لگن ،دانشمندانہ منصوبہ بندی ، عزم مصمم اور توجہ پر مرکوز کوششوں کے نتیجے میں حاصل ہوتی ہے۔

عمدگی کو ئی منزل نہیں ہوتی، بلکہ یہ ایک جاری عمل ہے، جس میں اعلیٰ سے اعلیٰ اہداف مقرر کئے جاتے ہیں اور انہیں حاصل کرنے کی تیاریاں کی جاتی ہیں۔ یہ بے پناہ صلاحیتوں کے حصول اور اصلاحات کے ذریعے اپنی اصلاحات کا ایک مسلسل عمل ہے۔

مجھے امیدہے کہ آج آپ لوگوں کو جو اعزازات حاصل ہوئے ہیں یہ آپ کی زندگی میں ایک روشن باب کا اضافہ کریں گے اور  ایسی کامیابی اور حصولیابیاں آئندہ بھی آپ کو حاصل ہوتی رہیں گی۔

ہندوستان کی تعلیم میں عمدگی کے حصول کی ایک مالا مال اور شاندار تاریخ ہے۔یہ تخمینہ لگایا گیا ہے کہ ہندوستان میں تعلیم کی تاریخ تقریباً 5ہزار سال پرانی ہے۔  قدیم مخطوطات جنہیں ویدوں کے طورپر جانا جاتا ہے ، وہ ہندوستان کی تہذیب و ثقافت کی مستحکم بنیادیں ہیں۔

ویدک عہد میں مرد اور خواتین دونوں کے لئے یکساں مواقع ، فکر اور اظہار خیال کی آزادی حاصل تھی۔اس عہد میں عملی تجربات  اور سرگرمیوں کے ذریعے شخصیت سازی اور حصول تعلیم کو اہمیت دی جاتی تھی۔

ویدک عہد کے دوران تعلیم کے ذریعے دنیا نے تاریکی سے روشنی کی جانب سفر طے کیا تھا۔ یہ سفر لاثانی سے ثانی کی جانب تھا اور اس کا مقصد لاقانونیت سے  روحانیت کو حاصل کرنا تھا۔

ہندوستان کی تاریخ میں عہد وسطیٰ ،تعلیم کے لئے انتہائی محرک اور فعال تھا۔اس مدت کے دوران ایک  جگہ بیٹھ کر علم حاصل کیا گیا اور نالندہ نیز وکرم شیلا  جیسی یونیورسٹیوں سے علم کی شعائیں پھیلیں اور انہوں نے پوری دنیا سے تشنگان  علم کو اپنی جانب متوجہ کیا۔

آزادی کے بعد ہندوستان نے تعلیم کے شعبے میں کئی نئی بلندیاں سر کی ہیں۔ہندوستان کا اعلیٰ تعلیمی نظام طلباء کے اعتبار سے دنیا کا تیسرا سب سے بڑا نظام ہے۔ اس کا مقام چین اور امریکہ کے بعد آتا ہے۔ ہندوستان دنیا میں تعلیم کا سب سے بڑا مرکز بننے والا ہے۔

ہندوستان دنیا کے سب سے نوجوان ملکوں میں سے ایک ہے، جس کی تقریباً 242 لاکھ کی آبادی  کی عمر 24-10 سال کے عمر کے درمیان ہے، جبکہ 65 فیصد آبادی کی عمر 35 سال سے کم ہے۔یہ ایک شاندار آبادی کا فرق ہے ، جو صورت حال سے فائدہ اٹھانے کی پوری  کوشش کررہا ہے۔ہم اس بے پناہ طاقت کو اسی وقت استفادہ کرنے میں کامیاب ہوں گے، جب ہم اپنی نوجوان آبادی کو علم کی دولت سے آراستہ کریں گے، انہیں ہنر مند بنائیں گے اور قابل روزگار، مفید اور بامعنی ٹریننگ دیں گے۔

بد قسمتی  سے ہمارے تعلیمی نظام کو آج متعدد چیلنجوں کا سامنا ہے۔ہمیں ان چیلنجوں کا منظم طریقے سے سامنا کرنا ہوگا۔اگر ہم  تعلیم کو نظر انداز کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ مجموعی طور پر ملک کی ترقی کو نظر انداز کررہے ہیں۔

تعلیم میں سرمایہ کاری کا مطلب ہے کہ ہم اپنے فعال ملک کے مستقبل کے لئے سرمایہ کاری کررہے ہیں۔ اسی لئے کوٹھاری کمیشن نے کہا تھا کہ ‘‘ہمارے ملک کی قسمت ہمارے کلاس رومس میں سنورتی ہے’’۔

ہمیں تعلیم میں اپنی سرمایہ  کاری کو مجموعی گھریلو پیداوار (جی ڈی پی) کے موجودہ 3فیصد سے بڑھا کر 2022ء تک کم از کم 6 فیصد تک کرنا ہوگا۔ انہی خیالات کا اظہار نیتی آیوگ نے گزشتہ سال دسمبر میں شائع کردہ اپنی رپورٹ میں کیا تھا۔

مجھے یقین ہے کہ ہمارے اپنے پورے تعلیمی نظام  پر از سر نو غور کرنے اور انہیں از سر نو ترتیب دینے کی اہم ضرورت ہے۔

ہمیں اپنے نظام تعلیم، اپنے اداروں، اپنے فن تعلیم، اپنے درس وتدریس کے طریقہ کار، درس وتدریس کی بنیادوں کی از سر نو تعمیر کی ضرورت ہے اور ہمیں یہ عمل شروع سے ہی ،یعنی پرائمری تعلیم سے شروع کرنا ہوگا۔

ہمیں لگاتار اس بات کو بھی یقینی بنانا ہوگا کہ نہ صرف صد فیصد بچوں کا اندراج ہو، بلکہ انہیں اعلیٰ سطح کی تعلیم بھی حاصل ہو۔

کوئی بھی بچہ حصول تعلیم سے چھوٹ نہ جائے۔

ہمیں اس بات کو بھی یقینی بنانا ہوگا کہ پرائمری تعلیم میں  تنوع، مساوات اور معیارات تک ہر بچے کو رسائی حاصل ہو۔

 پرائمری تعلیم کی حالت کو بہتر بنانے کے لئے بچوں کے تغذیے پر خصوصی توجہ مرکوز کرنا ہوگی۔

ہم اس وقت تک تعلیم حاصل نہیں کرسکتے، جب تک کہ غریبی اور سوئے تغذیہ کے چکر میں تعلیم یرغمال بنی رہے گی۔

انتہائی حساس طبقات سے تعلق رکھنے والے بچوں ، جیسے معذور افراد پر خصوصی توجہ دینی ہوگی۔

صنفی مساوات، ان مستحکم ستونوں میں سے ایک ہے، جسے ہمارے نظام تعلیم میں شامل کرنا ہوگا۔

سوامی وویکا نند نے ایک بار کہا تھا کہ ‘‘موجودہ تعلیمی نظام پوری طرح گڑ بڑ ہے۔اسے رٹ لیا جاتا ہے یہ سوچے بغیر کہ ہم اسے کس طرح حاصل کریں۔

کتابی علم، بے لچک نظریات اور امتحانات میں حاصل ہونے والے نمبرات کی بجائے ہمیں معلومات کی حصول اور کھلے بحث و مباحثے پر توجہ مرکوز کرنا چاہئے۔

ہندوستان کو مساوات، معیارات اور قابل روزگار مواقع جیسے مسائل کا سامنا ہے۔

قابل روزگار ہونے کا مطلب یہ قطعی نہیں ہے کہ روزگار پیدا کرنے کی صلاحیت پیدا ہوجائے، بلکہ ہنرمندی کا مقصد کیریئر میں کامیابی حاصل کرنے کا ایک ذریعہ ہونا چاہئے۔

روزگار کے قابل بننے کا مقصد اختراع پردازی کی صلاحیت پید اکرنا،مسائل کے حل کا ہنر حاصل کرنا اور انتہائی مربوط اور ایک دوسرے پر انحصار کرنے والے عالمی کام کے ماحول میں کام کرنے کی صلاحیت پیدا کرنا ہے۔

ہمارے اعلیٰ تعلیم کے مراکز کو گھنٹوں کے لیکچر سے ہٹ کر کیس اسٹڈیز ، مسائل کے حل اور روزگار کے حصول کی صلاحیت  کو بہتر بنانے میں کردار ادا کرنے کے لئے تدریس کا نیا طریقہ  اپناناہوگا۔

اعلیٰ تعلیم کے اداروں کو صنعت پر توجہ مرکوز کرنا ہوگا اور طلباء کی پروجیکٹ ، انٹرن شپ کے لئے حوصلہ افزائی، نیز انہیں صنعت اور کارپوریٹ اداروں کے ساتھ لگاتار رابطے میں رہنے کے قابل بنانا ہوگا۔

تعلیم کے تین اہم ستون، علم، ہنرمندی اور طرز عمل ہیں۔

یہ تینوں ستون یکساں طورپر اہم ہیں۔

تعلیم پر مبنی طریقہ کار وقت کی ضرورت ہے۔

اب تک اصول پر مبنی علم پر زیادہ توجہ زیادہ مرکوز کی جاتی تھی۔اس طریقہ کار کو تبدیل کرنا ہوگا۔

ہمارے فارغ التحصیل طلباء معمول کے کاموں ،نیز لین دین کے کاموں میں بہتر ہوتے ہیں، لیکن جب تحقیق اور اختراع پردازی کی بات آتی ہے تو وہ اس میں اکثر و بیشتر ناکام ہوجاتے ہیں۔

ہمیں ایسے فارغ التحصیل کی ضرورت ہے، جو اپنی اختراع پردازی اور نئی سوچ سے اکیسویں صدی میں غیر یقینی دنیامیں پورے یقین کےساتھ قیادت کرسکے۔

ہنرمندی کا فروغ، تعلیم کا   لازمی حصہ ہونا چاہئے۔ ہنرمندی سے آراستہ کرنے کے علاوہ روزگار میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کریں اور ہمیں ایسی ہنرمندی کو فروغ دینا ہوگا جو زبان اور مواصلات جیسے سافٹ اسکل کے ساتھ تنازعات کو حل کریں اور ٹیم بناسکیں۔

ہنرمندی کے فروغ کے علاوہ ہمیں اپنے نوجوانوں میں وہ صلاحیت بھی پیدا کرنی ہوگی جن سے وہ خطرات کا سامنا کرسکے۔ہم صنعت کاری کے فروغ اور ملک میں ان  خطرات  کا سامنا کرنے کے لئے جو تہذیبی طورپر آج درپیش ہیں، ہم اپنی بہتر صلاحیتوں کو بروئے کار لارہے ہیں۔ یہ صنعتی میدان میں کامیابی کی کلید ہے۔

لچک کی صلاحیت، اپنانے کی صلاحیت اور سیکھنے ، نہ سیکھنے اور تیزی سے دوبارہ سیکھنے کی وہ صلاحیت ہے، جو ٹیکنالوجی پر مبنی ہے اور جہاں نئے روزگار کے مواقع پیدا ہوئے ہیں اور پرانے روزگار کے مواقع تیزی سے ختم ہورہے ہیں۔

تعلیم وہ عمل بھی ہے جس کے ذریعے ہم اپنے انداز فکر اور طرز عمل میں تبدیلی لاسکتے ہیں اور انہیں بہتر بنا سکتے ہیں۔

مجھے پورا یقین ہے کہ ہمیں اپنے نوجوانوں میں استقامت اور ہمدردی جیسی اہم قدروں کو ابھار یں گے۔ ایسی دنیا میں جہاں تشدد، تعصب اور ناانصافی کا دور دورہ ہے، وہاں ہمارے بچوں میں دوسرے انسانوں کے لئے پیار محبت اور ہمدردی کا جذبہ پیدا کرنا کافی اہم ہے۔تعلیم سے صرف کردار سازی ہی نہیں ہوتی،بلکہ گاندھی جی کے مطابق اس سے  سات سماجی برائیاں بھی دور ہوتی ہیں۔

ہم اپنے بچوں کو ایسی تعلیم دے رہے ہیں، جس سے وہ ذات برادری، رنگ ونسل اور جنس کی تنگ دیواروں سے اوپر اٹھ کر انہیں بااختیار اور روشن خیال بنائیں، جس سے ان میں ایک اتحاد ، پُر امن اور ترقی پسند دنیا بنانے کا جذبہ پیدا ہوگا۔

آج جبکہ ہم دنیا کی قیادت کرنے والے ہیں، ہمیں اپنے اندر اخلاقی قدر اور حصول پیدا کرنا ہوں گے، جو دنیا میں امن و استحکام اور خوشحالی لاتے ہیں۔

ہم مہاتماگاندھی کے ایک قول سے اپنی بات ختم کرتے ہیں جس میں انہوں نے کہا تھا کہ‘‘خواندگی خود میں تعلیم نہیں ہے۔خواندگی کا مطلب تعلیم کی تکمیل یا اس کی ابتداء نہیں ہوتا۔تعلیم سے میرا مطلب ہے کہ بچے ، انسانی جسم، دماغ اور جذبات میں مجموعی طورپر نئے اور بہتر خیالات کا پیدا ہونا ہے۔’’

مجھے امید ہے کہ علم کا یہ مندرہمارے ہر سیکھنے والے یا تشنگان علم کو بہترین تعلیم کی دوست سے آراستہ کرے گا۔

Related posts

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More