نئی دلّی: انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ایسٹرو فزکس ( اجرامِ فلکی میں طبیعات سے متعلق علم ) کے تحقیق کاروں نے ، جو حکومتِ ہند کے سائنس اور ٹیکنا لوجی کے محکمے کے تحت ایک خود مختار ادارہ ہے ، لیتھیم سے مالا مال سینکڑوں بڑے ادارے دریافت کئے ہیں ، جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان ستاروں میں لیتھیم کی پیداوار زبردست طریقے سے ہو رہی ہے اور یہ اجرامِ فلکی میں بڑی تعداد میں پھیلے ہوئے ہیں ۔ انہوں نے لیتھیم میں اضافے کو ہیلیم سے چمکنے والے ستاروں سے منسوب کیا ہے ، جو سرخ رنگ کے بڑے ستارے جیسے ہیں ۔ اس طرح انہوں نے سرخ ستاروں کے تجزیہ کے نئے باب کھول دیئے ہیں ۔
آئی آئی اے میں ڈاکٹر ایشور ریڈی نے اور اُن کے طالبِ علم دیپک اور رگھوبیر سنگھ نے اپنے مطالعے میں ، جو حال ہی میں ایسٹرو فزیکل جرنل لیٹرس اینڈ منتھلی نوٹس آف رائل ایسٹرو نومیکل سوسائٹی ( این این آر اے ایس ) میں شائع ہوا ہے ، بڑی تعداد میں زبردست مقدار والے لیتھیم کے ستاروں کی دریافت کی ہے ، جن میں لیتھیم کی مقدار اے ( ایل آئی ) = 3.2 ڈیکس ( جو ہائیڈروجن سے متعلق لاگ ردھم کے پیمانے پر ناپی گئی ہے ) کے برابر یا کچھ معاملات میں موجودہ مقدار سے 10 گنا زیادہ ہے ۔
لیتھیم ( ایل آئی ) تین بنیادی عناصر یعنی ہائیڈروجن اور ہیلیم کے علاوہ تیسرا عنصر ہے ، جو بِگ بینگ کے نیو کلیو سنتھیسس ( بی بی این ) سے تیار ہوتی ہے اور جس کے ماڈل سے بنیادی عناصر ایل آئی کی بڑی مقدار کا پتہ چلتا ہے ( اے ( ایل آئی ) ~ 2.7 ~ ڈیکس ) ۔ البتہ ، ایل آئی کا موجودہ پیمانہ فلکیات میں آفرینش سے موجود قدر سے تقریباً چار گنا ہے ۔ اس لئے ہماری کہکشاں میں لیتھیم کی سورس کی نشاندہی بگ بینگ کی نیو کلیائی سنتھیسس کرنے والے تحقیق کاروں کے لئے بڑی دلچسپی کا باعث ہو گی ۔ ری ایکشن کے علاوہ ، جس میں بہت زیادہ توانائی والی کاسمک شعاعیں کے اجزاء میں دھماکے ہوتے ہیں اور اس کے نتیجے میں کاربن اور آکسیجن پیدا کرنے والے ہلکے اجزاء جیسے لیتھیم وجود میں آتے ہیں ۔ اس کا مطلب ہے کہ اصل لیتھیم ، جس سے یہ ستارے وجود میں آتے ہیں ، ستاروں کی وجود میں آنے کی مدت پر منحصر ہوتے ہیں اور ان کا درجۂ حرارت بہت کم ہوتا ہے ، جو 2.5×10-6 کے ، کے برابر ہوتا ہے ۔
ٹیم نے فلکیات میں علم طبیعات سے متعلق ایک طویل عرصے سے موجود مسئلے کو حل کرنے کی جانب پیش رفت کی ہے ۔ بڑے پیمانے پر زمینی اور خلاء کے مشنوں سے حاصل شدہ اعداد و شمار کو استعمال کرتے ہوئے انہوں نے لیتھیم سے مالا مال سینکڑوں ستارے دریافت کئے ہیں ۔ اگرچہ اُن کے مطالعے سے لیتھیم سے مالا مال ستاروں کی تعداد کئی گنا بڑھ جائے گی ، لیکن یہ اب بھی کہکشاں میں 100 میں سے ایک میں پائی جاتی ہے ۔
تحقیق کاروں نے اِن ستاروں کی دیگر ہزاروں ستاروں کی نسبت سے تجزیہ کرتے ہوئے ، اِن کے ارتقاء کے مرحلے کو سمجھنے کی کوشش کی ہے ۔ انہوں نے اس مقصد کے لئے کیپلر اسپیس ٹیلی اسکوپ سے ، جو مختلف سیاروں کی دریافت کے لئے ناسا کا مشن ہے ، اعداد و شمار اکٹھا کئے ہیں ۔ اُن کی خصوصیات ، فریکوینسی اور دباؤ ، کشش وغیرہ کی تحقیقی کرتے ہوئے انہوں نے ، انہیں ہیلیم سے روشن ستاروں اور ان کے درمیان ایک فرق تلاش کیا ہے ۔
اہم بات یہ ہے کہ انہوں نے پہلی مرتبہ یہ ظاہر کیا ہے کہ ستاروں میں لیتھیم میں اضافہ صرف مرکزی طور پر ہیلیم سے چمکنے والے ستاروں سے ہی وابستہ ہے ، جنہیں سرخ ستارے کہا جاتا ہے ۔ یہ ایک اہم دریافت ہے ، جو سیارے کا احاطہ کرنے یا نیو کلیائی سنتھیسس جیسی کئی مجوزہ تھیوری کو ختم کرنے میں مدد دے سکتی ہے ۔