نئی دہلی، وزیراعظم جناب نریندر مودی نے آج یہاں ‘‘اسلامی وراثت: رواداری اور میانہ روی کا فروغ’’ کے موضوع پر منعقدہ کانفرنس میں تقریر کی جس کا متن حسب ذیل ہے۔
عزب مآب اردن کے شاہ عبداللہ بن الحسین!
یہاں موجود مذہبی قائدین،
رہنما اور اہم مہمانان گرامی!
میرے لئے یہ بہت خوشی اور فخر کی بات ہے کہ آج اردن کے شاہ ، ہندوستان کے کچھ منتخب مذہبی علما اور قائدین کے اس اجتماع میں موجود ہیں۔
آپ کے بارے میں کچھ بھی کہنا الفاظ کے دائرے سے باہر ہے۔ اسلام کی سچی شناخت بنانے میں آپ کے اہم کردار کو بھی بیان نہیں کیا جاسکتا، اسے صرف محسوس کیا جاسکتا ہے۔
معزز شہزادہ غازی کی جس کتاب کا ابھی ذکر کیا گیا، وہ بھی اردن میں آپ کی سرپرستی کا ہی نتیجہ ہے۔
مجھے پوری امید ہے کہ شائقین کے لئے اسلام کو سمجھے میں یہ کتاب کافی مدد گار ثابت ہوگی اور اسے دنیا بھر کے نوجوان پڑھیں گے۔
جس آسانی سے اور سادگی کے ساتھ آپ نے اس جلسے میں آنے کی میری گزارش کو قبول کیا، اس سے ہندوستان کے تئیں اور یہاں کے عوام کے تئیں آپ کے تعلق کی بہت صاف جھلک ملتی ہے۔
آپ کا وطن اور ہمارا دوست ملک اردن، تاریخی اور مذہبی کتابوں میں ناقابل فراموش نام ہے۔
اردن ایک ایسی مبارک سرزمین پر آباد ہے، جہاں سے خدا کا پیغام، پیغمبروں اور صوفیوں کی آواز بن کر پوری دنیا میں گونجا ہے۔
جناب عالی!
آپ خود اسکالر ہیں اور بھارت سے اچھی طرح واقف ہیں۔ آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ دنیا کے سبھی بڑے مذاہب، بھارت میں پھلے پھولے ہیں۔
پوری دنیا کے مذہب اور فرقے بھارت کی سرزمین میں پنپے ہیں۔ یہاں کی آب و ہوا میں انہوں نے زندگی پائی اور سانس لی ہے، خواہ وہ ڈھائی ہزار سال پہلے بھگوان بدھ ہوں یا گزشتہ صدی میں مہاتماگاندھی رہے ہوں۔
امن اور محبت کے پیغام کی خوشبو بھارت کے چمن سے پوری دنیا میں پھیلی ہے۔ یہاں کے پیغام کی روشنی نے صدیوں سے ہمیں راہ دکھائی ہے۔ ان پیغامات کی ٹھنڈک نے زخموں پر مرہم بھی لگائے ہیں۔ فلسفے اور مذہب کی بات تو چھوڑیں، بھارت کے عوام کو یہ بھی احساس ہے کہ سب میں ایک ہی روشنی کا نور ہے۔ ذرے ذرے میں اسی کی جھلک ہے۔
جناب عالی!
بھارت کی راجدھانی دہلی، پرانے عقیدے کے مطابق اندر پرستھ ہے۔ یہ صوفیانہ کلام کی سرزمین بھی رہی ہے۔ یہاں ایک عظیم صوفی حضرت نظام الدین اولیاء تھے، جن کا ذکر کچھ دیر قبل کیا گیا۔ ان کی درگاہ یہاں سے کچھ ہی فاصلے پر واقع ہے۔ دلی کا نام لفظ دہلیز سے ماخوذ ہے۔
گنگا۔ جمنا کے دو آب کی یہ دہلیز بھارت کی ملی جلی مشترکہ گنگا جمنی تہذیب کے داخلے کا دروازہ بھی ہے۔ یہاں سے ہندوستان کے قدیم فلسفے اور صوفیوں کی محبت اور انسانیت کی مشترکہ تہذیبوں نے انسانیت کے بنیادی اتحاد کا پیغام دیا ہے۔
انسان محض، وحدت کے اس جذبے نے بھارت کو ‘‘وسودھیو کٹم بکم’’ کا فلسفہ پیش کیا ہے یعنی ہندوستان اور ہندوستانیوں نے پوری دنیا کو ایک کنبہ مان کر اس کے ساتھ اپنی شناخت قائم کی ہے۔
تہذیبی اور سماجی تنوع اور تکثیریت نیز ہمارے نظریہ کا کھلا پن، یہ بھارت کی شناخت ہے، خصوصیت ہے۔ ہر بھارتی کو اپنی اس خصوصیت پر فخر ہے۔ اپنی وراثت کی گونا گونی پر اور تنوع کی وراثت پر خواہ وہ کوئی زبان بولتا ہو، خواہ وہ مندر میں دیا جلاتا ہو یا مسجد میں سجدہ کرتا ہو، خواہ وہ چرچ میں عبادت کرے یا گرودوارے میں شبد گائے۔
جناب عالی!
ابھی بھارت میں ہولی کا رنگوں بھرا تہوار منایا جارہا ہے۔ کچھ ہی دن پہلے یہاں بودھ مذہب کے سالِ نو کی شروعات ہوئی ہے۔ اس ماہ کے آخر میں گڈ فرائیڈے اور کچھ ہی ہفتے بعد پورا ملک بدھ جیتنی منائے گا۔
پھر کچھ ہی دنوں بعد رمضان کے مبارک مہینے کا آغاز ہوگا جس کے آخر میں عید الفطر ہمیں ایثارو قربانی، بھائی چارہ اور رواداری ، ضبط و تحمل کی یاد دلائے گی۔
دوستو!
دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھارت میں، ڈیموکریسی ایک سیاسی نظام ہی نہیں بلکہ مساوات، گوناگونی اور میل جول کی اصل بنیاد ہے۔ ہندوستان کی جمہوریت اپنی قدیم تکثیریت کو منارہی ہے۔ یہ وہ طاقت ہے جس بل پر ہر بھارتی کے ذہن میں اپنے شاندار ماضی کے تئیں عزت و احترام ،حال کے تئیں اعتماد اور مستقبل کے تئیں یقین مستحکم ہوتا ہے۔
دوستو!
ہماری روایت کی مالا مال گوناگونی ہمیں وہ طاقت دیتی ہے جو آج کی غیر یقینی اور شکوک و شبہات سے بھری دنیا میں اور تشدد نیز دشمنی سے مسموم دنیا میں دہشت گردی اور انتہاپسندی جیسے چیلنجوں سے لڑنے کے لئے نہایت ضروری ہے۔
ہماری یہ وراثت اور قدریں ، ہمارے مذاہب کا پیغام اور ان کے اصول کی وہ طاقت ہے جن کے بل پر ہم تشدد اور دہشت گردی جیسے چیلنجوں کا کامیابی کے ساتھ مقابلہ کرسکتےہیں۔
دوستو!
انسانیت کے خلاف درندگی کا حملہ کرنے والے شاید یہ نہیں سمجھتے کہ شاید نقصان اس مذہب کا ہوتا ہے، جس کے لئے وہ کھڑے ہونے کا دعوی کرتے ہیں۔
دہشت گردی اور انتہاپسندی کے خلاف، بنیاد پرستی کے خلاف مہم، کسی مذہب کے خلاف مہم نہیں ہے ، یہ اس ذہنیت کے خلاف ہے جو ہمارے نوجوانوں کو گمراہ کرکے معصوموں پر ظلم کرنے پر آمادہ کرتی ہے۔
جناب عالی!
ہندوستان میں ہماری یہ کوشش ہے کہ سب کی ترقی کے لئے ، سب کو ساتھ لیکر چلیں کیونکہ پورے ملک کی ترقی ہر ایک شہری کی ترقی سے جڑی ہوئی ہے۔ ملک کی خوشحالی سے ہر ایک کی خوشحالی وابستہ ہے۔
حضرات!
آپ کی اتنی بڑی تعداد میں یہاں موجودگی ، اس بات کا اشارہ ہے کہ آنے والی نسلوں کو راستہ دکھانے کے لئے آپ کے دل میں کتنی طلب ہے اور کتنا جذبہ ہے۔
یہ اس بات کی بھی علامت ہے کہ آپ کے ذہن میں نوجوانوں کی ترقی پر ہی نہیں، انہیں انسانی اصولوں کی تعلیم دینے کا بھی خیال ہے ۔
پوری خوشحالی اور ہمہ جہت ترقی اسی وقت ممکن ہے، جب آپ یہ دیکھیں کہ مسلم نوجوانوں کے ایک ہاتھ میں قرآن شریف ہو تو دوسرے ہاتھ میں کمپیوٹر۔مذہب کا ماننے والا غیر انسانی ہو ہی نہیں سکتا۔ ہر مذہب اور فرقہ ہر روایت انسانی اصولوں کو فروغ دینے کے لئے ہی ہے۔
اس لئے آج سب سے زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے نوجوان ایک طرف انسانی اسلام سے جڑے ہوں اور دوسری طرف جدید سائنس اور ترقی کے وسائل کا استعمال بھی کرسکیں۔
جناب عالی!
آپ کی رہنمائی میں جو قدم اٹھائے جارہےہیں، وہ درندگی کی آگ پر قابو پانے کے لئے بہت مددگار ہیں۔
ہمارے لئے خوشی کی بات یہ ہے کہ عمان اعلانیہ پر دستخط کرنے والوں میں دو ہندوستانی بھی شامل ہیں اور وہ اس وقت ہمارے درمیان موجود ہیں۔
ہماری کوشش ہے کہ آپ جیسے باا ثر رہنماؤں کے ساتھ مل کر اردن جیسے دوستوں کے ساتھ اور سبھی فرقوں کے، مذاہب کے رہنماؤں کے تعاون سے ایک ایسی ذمہ دارانہ بیداری پیدا ہو جو ساری انسانیت کو رراستہ دکھائے۔
اس سلسلے میں ہماری تمام کوششوں میں آپ کی موجودگی سے اور بھی طاقت ملے گی۔ڈی ریڈیکلائزیشن یعنی انتہاپسندی کو ختم کرنے کے لئے آپ نے جو کام کیا ہے، اس طرح کی کوششوں میں بھارت آپ کے ساتھ قدم بہ قدم چلنا چاہے گا۔
ہزار سے اوپر کی تعداد میں بھارت کے علما، مذہبی اسکالر اور رہنما اس بات کا یقین دلانے کے لئے یہاں موجود ہیں۔ وہ یہاں اس لئے بھی موجود ہیں کہ وہ آپ کے خیالات سن سکیں، کیونکہ آپ کی رہنمائی میں ہمیں حوصلہ بھی ملے گا اور سمت بھی ملے گی۔ میں آپ کا بہت بہت شکر گزار ہوں کہ آپ نے یہاں آنے کی دعوت قبول فرمائی۔
حضرات!
اس جلسے میں شرکت کے لئے میں آپ کا بھی بہت بہت شکریہ ادا کرتا ہوں۔
بہت بہت شکریہ۔