نئی دہلی، اسمارٹ سٹیز مشن زندگی گزارنے کے عمل کو آسان بنانے سے متعلق طور طریقوں کے حصول کی سمت میں ایک قدم ہے۔ اس کا مقصد خاص طور پر غریبوں، خواتین اور دیگر طرح سے اہل (معذوروں) لوگوں کے معیارزندگی کو بہتر بنانا ہے۔ ڈیجیٹل انقلاب اور ٹیکنالوجی سپرپاور کا ایک اہم نقیب ہونے کے ناطے ہندوستان کو اپنے بنیادی ڈھانچوں، دفاتر اور گھروں کو قوت دینے کیلئے جدید ترین ٹیکنالوجی کو اپنانا ہوگا۔ آج یہاں فیڈریشن آف انڈین چیمبرس آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے ذریعے منعقدہ اسمارٹ سٹیز سمٹ میں ان خیالات کا اظہار کرتے ہوئے ہاؤسنگ اور شہری امور کے وزیرمملکت (آزادانہ چارج) جناب ہردیپ سنگھ پوری نے بتایا کہ ااسمارٹ سٹیز مشن کی سمت میں تیزی سے پیش رفت ہوئی ہے۔ اب تک 90 شہرو کا انتخاب عمل میں آیا ہے۔ دس مزید شہروں کے انتخاب کا اعلان جلد کیا جائے گا۔ 1،40،000کروڑ روپے کی لاگت والے تقریباً 3000پروجیکٹ تکمیل کے مختلف مراحل میں ہیں۔ 16،000کروڑروپے کے پروجیکٹوں کیلئے ٹنڈر جاری کئے جا چکے ہیں اور ایک لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ کے پروجیکٹوں کیلئے ٹنڈر جاری کئے جانے کی تیاری جاری ہے۔ یہ سب سے زیادہ تیزی کے ساتھ نافذ کئے جانے والے پروجیکٹوں میں سے ایک ہے اور جغرافیائی نقطۂ نظر سے ان پروجیکٹوں کا تعلق شہری شعبے سے ہے۔ اس کی حیثیت ‘‘منارۂ نور’’ کی ہوگی۔ ان کے اردگرد کے دیگر شہروں اور علاقوں میں ممتاز شہری مراکز بننے کیلئے یکسرتبدیلی کا عمل بھی جلد ہی شروع ہوگا۔
سربراہ اجلاس کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے وزیرموصوف نے کہا کہ پروجیکٹوں کے نفاذ کے نقطۂ نظرسے ایک نیا سنگ میل قائم ہوا ہے۔ ڈھائی سال کا مختصر وقفہ شہری ترقیات کے نقطۂ نظر سے ایک قلیل مدت ہے، کیونکہ یہاں تبدیلی دہائیوں میں عمل میں آتی ہے۔ (پہلے مرحلے میں 20شہروں کا انتخاب جنوری 2016 میں اور آخری 30 شہروں کا انتخاب 2017 میں ہواتھا)۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسمارٹ سٹی مشن میں جدت طرازانہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی پر خصوصی زور دیا گیا ہے، جس کا مقصد شہریوں کو ڈیجیٹل نقطۂ نظر سے با اختیار بنانا، سرکاری خدمات کو ڈیجیٹل طریقے سے دستیاب کرانا اور ہر شہری کے استعمال کیلئے ڈیجیٹل بنیادی ڈھانچے کی تخلیق کرنا ہے۔ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی سولیوشنز ، جیسے نگرانی نظامات سے جرائم میں بڑی کمی آتی ہے اور باشندوں بالخصوص خواتین کے تحفظ کے کا م میں بہتری آتی ہے۔ شہروں میں وائی فائی نیٹ ورک کے قیام سے جہاں شہریوں کے مابین روابط میں بہتری آتی ہے، وہیں اس سے خدمات دستیاب کرانے والے مختلف اداروں کے درمیان بھی رابطہ قائم ہوتا ہے۔ ای-حکمرانی اور شہری فیڈ بیک بندوبست سے سماجی ہم آہنگی کی راہ ہموار ہوئی ہے، جس سے کسی کام یا مشن میں شہریوں کو شامل کرنے کے مواقع پیدا ہوئے ہیں۔ اس سے سماجی عدم مساوات میں کمی آئی ہے اور خدمات کی دستیابی میں لگنے والے وقت میں کمی آئی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مربوط ٹریفک بندوبست سے ٹریفک کی رفتار بڑھے گی اور ٹریفک جام میں کمی آئے گی اور اس طرح لوگوں کو سانس لینے کیلئے نسبتاً زیادہ صاف ہوا دستیاب ہو سکے گی۔
اسمارٹ سٹیز کے ذریعے اپنائے جانے والے نقطۂ نظرپر روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ شہریوں کی سرگرم شراکت داری سے شہروں نے ایک ویژن اور اسمارٹ سٹی پروپوزل کی مشترکہ تخلیق کی ہے۔ کچھ اسمارٹ سٹی منصوبوں کی تائید اس حقیقت سے ہوتی ہے کہ بھونیشور اسمارٹ سٹی منصوبے کو امریکن پلانر ز ایسوسی ایشن نے بہترین سٹی پلان قرار دیا ہے۔ یہ بھی پہلی مرتبہ ہوا ہے۔ شہروں نے شہر کی سطح پر ایک ادارہ جاتی میکانزم (ایس پی وی ایس) تیار کیا ہے۔ اب 82 مخصوص مقصدی ادارے (ایس پی وی) قائم کئے جا چکے ہیں اور مختلف شہروں کے درمیان صلاحیت کے نقطۂ نظر سے جو خلاء ہے، اس پر غور کیا جا رہا ہے۔ کسی بھی معیار سے یہ کوئی معمولی حصولیابی نہیں ہے۔ آج شہروں کی سطح پر جن پروجیکٹوں پر کام شروع کیاگیا ہے، اس کی توثیق اسمارٹ سٹی ایس پی وی کے ذریعے کی گئی ہے۔ اس سے شہروں میں خدمات کی دستیابی کیلئے تال میل اور اثرانگیزی میں بہتری آتی ہے۔ ہندوستان کے شہری منظرنامے میں پہلی مرتبہ اس چیز پر زور دیا گیا ہے کہ حکومت کے ذریعے جو فنڈ بطورامداد دستیاب کرایا جاتا ہے، اسے جدت طرازانہ فائنانسنگ میکانزم کے توسط سے دستیاب کریا جائے۔ 90 اسمارٹ سٹیز نے داخلی ریوینیوموبلائزیشن کے ذریعے اپنے فنڈ میں ڈھائی گنا اضافہ کرنے کی تجویز رکھی ہے۔ شہروں کو اسٹارٹ –اپ کی طرح سے کام کرنے اور اپنے مالی وسائل انتظام کرنے کی ضرورت سے اسمارٹ سٹی مشن اس تبدیلی کا نقیب بن رہا ہے۔