نئی دہلی، داخلی امور کے مرکزی وزیر مملکت جناب ہنس راج گنگا رام اہیر نے کہا ہے کہ قیدیوں کی شناخت کے قانون 1920 میں ترمیم کئے جانے کی ضرورت ہے ، تاکہ گرفتار افراد کے انگلیوں کے نشانات، فوٹو گراف اور نپائی لینے کے لئے قانونی اتھارٹی فراہم کی جاسکے۔ انہوں نے کہا کہ جرائم پیشہ افراد کے ذریعے ٹیکنالوجی کے استعمال سے جرائم کو حل کرنے میں پولس فورس کے سامنے مشکلات آرہی ہیں اور ان کے لئے ٹیکنالوجی کا استعمال ایک نیا چیلنج پیدا کررہا ہے۔ آج حیدرآباد میں فنگر پرنٹ بیوروکس کی ڈائریکٹروں کی 19 ویں کل ہند کانفرنس کا افتتاح کرتے ہوئے وزیر موصوف نے کہا کہ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے ڈیٹا بیس کو جس کے پاس 11لاکھ 50 ہزار فنگر پرنٹ ریکارڈز ہیں، وسعت دیئے جانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ تفتیش کاروں اور قانون دانوں کے ذریعے انگلی کے نشان کے ثبوت کو قابل بھروسہ مانا جاتا ہے، کیونکہ یہ ایک ٹھوس ثبوت ہونے کے ساتھ ساتھ ایک مؤثر فارنسک ٹول(آلہ )ہے۔
جناب گنگا رام اہیر نے پولس فورس کی جدید کاری کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ اسمارٹ پولسنگ وقت کا تقاضہ اور ایسے وقت میں جبکہ جرائم پیشہ افراد کو ٹیکنالوجی تک کی رسائی حاصل ہے اور وہ جرائم کرنے کے لئے ٹیکنالوجی کا استعمال کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر پولس فورس جرائم کی شرح کو کم کرنے کے لئے کام کرے اور جرائم پیشہ افراد کی سزا کو یقینی بنائے تو پھر چند ہی لوگ جرائم کا ارتکاب کریں گے۔
اپنے خیرمقدمی خطاب میں نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے ڈائریکٹر اِش کمار نے کہا کہ جرائم کو حل کرنے کے لئے بہت سے ملکوں میں ایک مثالی شناخت کے طورپر انگلیوں کے نشانات کو استعمال کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کو اپنا ڈیٹا بیس کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔ اس موقع پر ہنس راج گنگا رام نے ان فنگر پرنٹس کے ماہرین کو عزیزالحق ٹرافی پیش کی، جنہوں نے آل انڈیا بورڈ امتحان میں نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا۔ انہوں نے دو کتابوں کا بھی اجراء کیا ، جن کا عنوان ‘کمپینڈیم آف فنگر پرنٹ ایکیوپمنٹ-2018’ اور ’ایوارڈ آف ایکسیلینس اِن آئیڈینٹی فکیشن’۔
اس دو روزہ کانفرنس کا اہتمام پہلی مرتبہ حیدرآباد میں کیا جارہا ہے، جس میں دیگر معاملوں کے علاوہ اسٹیٹ فنگر پرنٹ بیوروکس کی جدید کاری اور فنگر پرنٹ کے شناخت کے نظام پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔