17.6 C
Lucknow
Online Latest News Hindi News , Bollywood News

افریقی ترقیاتی بینک (اے ایف ڈی بی) کی سالانہ میٹنگ کے افتتاح کے موقع پر وزیراعظم کی تقریر

Prime Minister’s Speech at the inauguration of the Annual Meeting of the African Development Bank (AfDB)
Urdu News

نئی دہلی۔؍مئی۔وزیراعظم جناب نریندر مودی نے افریقی ترقیاتی بینک یعنی اے ایف ڈی بی کی سالانہ میٹنگ کے موقع پر جو تقریر کی اس کا متن درج ذیل ہے:

بینن اور سینیگل کے عالی جناب صدور حضرات، کوٹ  ڈی آئیوری کے نائب صدر ،

افریقی ترقیاتی بینک کے صدر

افریقی یونین کے سکریٹری جنرل

افریقی یونین کمیشن کے کمشنر

میرے کابینہ کے رفیق کار جناب ارون جیٹلی

گجرات کے وزیر اعلیٰ جناب وجئے روپانی

افریقہ سے آئے ہوئے ممتاز مہمانان ، بھائیو اور بہنو!

خواتین وحضرات

آج ہم ریاست گجرات میں جمع ہوئے ہیں ، گجرات کے کاروبار اور برتاؤ سے سب واقف ہیں۔ گجراتی افریقہ سے جس قدر محبت رکھتے ہیں وہ بھی مشہور ہے۔ بطور ایک ہندوستانی اور گجراتی میں اس بات سے بیحد خوش ہوں کہ یہ میٹنگ بھارت اور وہ بھی گجرات میں منعقد ہورہی ہے۔

بھارت کے افریقی ممالک کے ساتھ مضبوط روابط رہے ہیں۔ تاریخی لحاظ سے مغربی بھارت خصوصاً گجرات کی برادریاں اور افریقہ کے مشرقی ساحلوں کے لوگ ایک دوسرے کے ممالک میں بسے ہوئے ہیں۔ بھارت کے سیدھی لوگوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ مشرقی افریقہ سے آئے ہیں۔ ساحلی کینیا میں سکونت پذیر بہرہ برادریوں کی تاریخ بیسویں صدی سے تلاش کی جاسکتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ واسکوڈی گاما مالندی کے رہنے والے ایک گجراتی جہازراں کی مدد سے ہی کالی کٹ تک پہنچا تھا۔ گجرات کے دھو لوگوں نے دونوں سمتوں میں اپنا کاروبار پھیلایاتھا۔ دونوں معاشروں کے مابین ان قدیم روابط نے ہماری ثقافت کو بھی مالامال کیا ہے۔ مالا سواحلی زبان میں بہت سے ہندی کے الفاظ شامل ہیں۔

نوآبادیاتی عہد حکومت کے دوران 32000 بھارتی تاریخی ممباسا یوگانڈا ریلوے کی تعمیرات کے کام میں تعاون دینے کیلئے بھارت سے کینیا آئے تھے۔ اس ریلوے لائن کی تعمیر کے دوران بہت سے لوگوں نے اپنی جانیں گنوا دی تھیں۔ ان میں سے تقریباً 6 ہزار افراد یہیں سکونت پذیر ہوگئے اور اپنے کنبوں کو بھی یہیں لے آئے۔ ان میں سے متعدد افراد نے چھوٹا کاروبار جسے ’ڈوکاس‘ کہتے ہیں ، شروع کیا اور ’دُکاوالا‘ کے نام سے معروف ہوگئے۔ نوآبادیاتی دور حکومت کے دوران تاجر ، صناع اور بعد میں افسران ، اساتذہ ، ڈاکٹر اور دیگر پیشہ وران مشرقی اور مغربی افریقہ گئے اور وہاں انہوں نے ایک فعال معاشرہ قائم کیا جو بھارت اور افریقہ دونوں  کی نمائندگی کرتاہے۔

ایک دیگر گجراتی مہاتما گاندھی نے اپنے عدم تشدد کی جدوجہد کے ذریعے کو بھی جنوبی افریقہ میں ہی آزمایا تھا۔ انہوں نے گوپال کرشن گوکھلے کے ساتھ 1912 میں تنزانیہ کا بھی سفر کیا تھا۔ متعدد بھارت نژاد رہنماؤں نے انہیں بڑی مضبوطی سے اپنا تعاون دیا اور ان کے ساتھ ساتھ جدوجہد میں شریک رہے۔ افریقی جدوجہد آزادی کے رہنما ، جن میں مسٹر نائریرے ، مسٹر کینیاتا اور نیلسن منڈیلا کے نام شامل ہیں، بھی ان ہی رہنماؤں میں شریک ہیں۔ جدوجہد آزادی کے بعد متعدد بھارت نژاد رہنماؤں کو تنزانیہ اور جنوبی افریقہ کی کابینہ میں بھی جگہ ملی تھی۔ کم سے کم 6 بھارت نژاد تنزانیائی رہنما ایسے ہیں جو تنزانیہ میں بطور رکن پارلیمنٹ خدمات انجام دے رہے ہیں۔

مشرقی افریقہ کے تحت ٹریڈ یونینوں کی تحریک کا آغاز ماکھن سنگھ نے کیا تھا۔ اسی ٹریڈ یونین کی میٹنگوں کے دوران کینیا کی آزادی کے لئے آواز بھی پہلی مرتبہ اٹھائی گئی تھی۔ ایم اے دیسائی اور پایوگاماپنٹو نے بڑی سرگرمی سے کینیاکی جدوجہد آزادی میں حصہ لیاتھا۔ اس وقت کے وزیر اعظم پنڈت نہرو نے ایک بھارتی رُکن پارلیمنٹ دیوان چمن لال کو مسٹر کینیاتا کی دفاعی ٹیم  میں شریک ہونے کیلئے بھیجا تھا۔ یہ اس وقت ہوا تھا جب مسٹر کینیاتا جیل میں قید تھے اور 1953 میں انہیں کیمپنگوریا ٹرائل میں ماخوذ کیا گیا تھا۔ اس دفاعی ٹیم میں دو دیگر بھارت نژاد افراد بھی شامل تھے۔ بھارت افریقہ کی آزادی میں کھل کر اپنی حمایت دے رہا تھا۔ نیلسن منڈیلا نے کہا تھا کہ ’’بھارت اُس وقت ہماری مدد کے لئے آگے آیا تھا جب باقی دنیا یا تو تماشائی بنی ہوئی تھی یا ہمارے اوپر ظلم توڑنے والوں کی معاون بنی ہوئی تھی۔ جب ہم پر بین الاقوامی کونسلوں کے دروازے بند کردیے گئے تھے، اس وقت بھی بھارت نے ہمارے لیے راستہ بنایا تھا ۔ آپ نے ہماری لڑائی  میں اس طرح حصہ لیا جیسے یہ خود آپ کی اپنی لڑائی ہو۔ ‘‘

گزشتہ دہوں میں ہمارے تعلقات قوی تر ہوئے ہیں، 2014 میں عہدہ سنبھالنے کے بعد میں نے بھارت کی اقتصادی پالیسی کے معاملے میں افریقہ کو اعلیٰ ترجیح دی ہے۔ 2015 کا سال بھی ایسا ہی تھا، تیسری بھارت افریقہ چوٹی سربراہ ملاقات اسی سال منعقد ہوئی تھی جس میں اُن تمام 54 افریقی ممالک نے حصہ لیا تھا جن کے بھارت کے ساتھ سفارتکارانہ تعلقات تھے۔ سربراہان مملکت یا حکومت کے طور پر ایک ریکارڈ تعداد یعنی 41 افریقی ممالک نے حصہ لیا تھا۔

2015 سے میں نے چھ افریقی ممالک یعنی جنوبی افریقہ، موزمبیق ، تنزانیہ، کینیا، ماریشش اور سیشلز کا دورہ کیا ہے۔ ہمارے صدر جمہوریہ تین ممالک یعنی نامیبیا، گھانا اور آئیووری کوسٹ کا دورہ کرچکے ہیں۔ نائب صدر جمہوریہ ہند نے سات ممالک یعنی مراقش،  تیونیشیا،  نائیجیریا، مالے، الجیریا، روانڈا اور  یوگانڈا کا دورہ کیا ہے۔ مجھے یہ کہتے ہوئے فخر کا احساس ہورہا ہے کہ افریقہ میں ایسا کوئی ملک نہیں ہے جہاں گزشتہ تین برسوں کے دوران کوئی بھارتی وزیر دورے پر نہ گیا ہو۔ دوستو، اس وقت سے جب ممباسا اور ممبئی کے مابین صرف کاروباری اور بحری روابط  ہی استوار تھے، آج ہمارے تعلقات کی کیفیت یہ ہے۔

  • یہ سالانہ میٹنگ منعقد کررہے ہیں جس نے عابدجان اور احمد آباد کو مربوط کیا ہے
  • باماکو اور بنگلور کے مابین کاروباری روابط قائم ہوئے ہیں
  • چنئی اور کیپٹان کے مابین کرکٹ روابط قائم ہوئے ہیں
  • دلّی اور ڈکار کے مابین ترقیاتی روابط قائم ہوئے ہیں

اب میں اپنے ترقیاتی تعاون کے بارے میں گفتگو کروں گا۔ افریقہ کے ساتھ بھارت کی شراکت داری اس امدادباہمی اور تعاون پر مبنی ہے جو افریقی ممالک کی ضروریات کے تئیں حساس ہے۔ یہ مطالبات اور ضروریات پر مبنی ہے تاہم  ہر طرح کی شرائط سے مبرّا ہے۔

اس تعاون کے ایک پہلو کے طور پر بھارت اپنے ایگزم بینک کے توسط سے قرض فراہم کرتا ہے۔ اب تک 44 ممالک کو مجموعی طور پر 8 بلین ڈالروں کے بقدر کے 152قرض   فراہم کرائے جاچکے ہیں۔

تیسری بھارت افریقہ فورم سربراہ ملاقات کےد وران بھارت نے آئندہ پانچ برسوں کیلئے ترقیاتی پروجیکٹوں کیلئے 10بلین ڈالروں کے قرض کی پیشکش کی تھی۔ ہم نے 600 ملین ڈالروں کی عطیہ جاتی امداد فراہم کرنے کی بھی پیشکش کی تھی۔

بھارت کو افریقہ کے ساتھ تکنیکی اور تعلیمی روابط قائم کرنے پر بھی فخر ہے۔ افریقہ کے 13 موجودہ یا سابق صدور ، وزرائے اعظم اور نائب صدور نے بھارت میں تعلیمی یا تربیتی اداروں میں کسی نہ کسی طریقے سے شمولیت کی ہے۔ 6 موجودہ یا سابق افریقی مسلح افواج کے سربراہان کو بھارت کے فوجی اداروں میں تربیت دی جاچکی ہے۔ داخلی اُمور کے دو موجودہ وزراء بھارتی اداروں میں تربیت حاصل کرچکے ہیں۔ مقبول عام بھارتی تکنیکی اور اقتصادی تعاون پروگرام  کے تحت تینتیس ہزار سے زائد وظائف کی پیشکش 2007 سے افریقی ممالک کے افسرو ں کو کی جاچکی ہے۔

ہنرمندی کے شعبے میں ہماری ایک بہترین شراکت داری ’’سولر ماماز‘‘ کے شعبے میں تربیت سے وابستہ ہے۔ ہر سال 8 افریقی خواتین کو بھارت میں تربیت دی جاتی ہے تاکہ وہ سولر پینل اور سرکٹوں کیلئے کام کرسکیں۔ ان کو تربیت فراہم کرنے کے بعد وہ اپنے ملک واپس جاتی ہیں اور صحیح معنوں میں اپنی برادریوں کو بجلی سے ہم آہنگ کردیتی ہیں۔ ہر ایک خاتون اپنی برادری میں اپنے طور پر 50 کنبوں کو برق کاری کی سہولت سے آراستہ کرنے کی ذمہ دار ہوتی ہے۔ اس تربیت کیلئے ایک خاتون کو منتخب ہونے کیلئے شرط یہ ہے کہ یہ خاتون ناخواندہ یا نیم خواندہ ہو۔ یہ خواتین یہاں اپنے قیام کے دوران دیگر متعدد ہنرمندیاں مثلاً ٹوکریاں بننا، شہد کی مکھی پالنا اور کچن گارڈننگ کے فنون بھی سیکھتی ہیں۔

ہم نے بڑی کامیابی سے ٹیلی میڈیسن اور ٹیلی ورک کے سلسلے میں 48 افریقی ممالک پر احاطہ کرتے ہوئے پین افریقہ ای۔ نیٹورک پروجیکٹ مکمل کیا ہے۔ بھارت میں پانچ سرکردہ یونیورسٹیوں نے سرٹیفکیٹ ، انڈرگریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ پروگرام فراہم کرنے کی پیشکش کی ہے۔ بارہ سُپر اسپیشلٹی اسپتالوں نے مشاورتی اور دائمی طبی تعلیم کی پیشکش کی ہے۔ تقریباً 7 ہزار طلباء نے اپنی تعلیم مکمل کی ہے۔ ہم جلد ہی اگلا دور شروع کریں گے۔

ہم جلد ہی کامیابی کے ساتھ 2012 میں شروع کیا گیا افریقی ممالک کیلئے تشکیل کردہ کارٹن تکنیکی امدادپروگرام مکمل کریں گے۔ اس پروجیکٹ پر بینن برکینافاسو، چیڈ، ملاوی، نائیجیریا اور یوگانڈا میں نافذ کیا گیا تھا۔

دوستو،

بھارت ۔افریقہ تجارت گزشتہ پندرہ برسوں کے دوران کئی گنا بڑھ گئی ہے۔ گزشتہ پانچ برسوں کےد وران یہ دوگنی ہوکر 15-2014 کے دوران تقریباً  72 بلین امریکی ڈالر کے بقدر ہوگئی تھی۔ 16-2015 میں بھارت سے افریقہ کے ساتھ کی جانے والی اشیاء کی تجارت، ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے ساتھ کی جانے والی تجارت سے بھی زیادہ تھی۔

بھارت امریکہ اور جاپان کے ساتھ ملکر افریقہ میں ترقیات میں بھی اپنی تعاون دے رہا ہے۔ اپنے ٹوکیو کے دورے کےد وران وزیراعظم ابے کے ساتھ ہوئی اپنی تفصیلی گفتگو  کو میں خوشگوار تاثرات کے ساتھ یاد کرتا ہوں۔ ہم نے سبھی کے لئے ترقی کے امکانات بڑھانے کے اپنے عہد پر گفت وشنید کی تھی اپنے مشترکہ اعلانے میں ہم نے کہا تھا کہ ایشیا افریقہ ترقیاتی گلیارہ بننا چاہئے اور ہم نے یہ بھی تجویز رکھی تھی کہ ہم اپنے افریقی بھائی بہنوں کے ساتھ اس سلسلے میں مزید گفت وشنید کریں گے۔

بھارتی اور جاپانی تحقیقی اداروں نے ایک وژن ڈاکومنٹ تیار کیا ہے۔ میں آر آئی ایس ، ای آر آئی اے اور آئی ڈی ای ۔ جے ای ٹی آر او کو ان کی ان مشترکہ کوششوں کے لئے مبارکباد دیتا ہوں۔ یہ تمام کام افریقہ کے دانشوروں کے ساتھ ملکر انجام دیا گیا تھا۔ میرا اپنا خیال یہ کہ مذکورہ وژن ڈاکومنٹ بعد ازاں بورڈ کی میٹنگ میں پیش کیا جائے گا ۔ خیال یہ ہے کہ بھارت اور جاپان دیگر متمنی شراکت داروں کے ساتھ ہنرمندیوں ، صحت ، بنیادی ڈھانچے ، مینوفیکچرنگ اور رابطہ کاری کے شعبوں میں مشترکہ اقدامات کے امکانات تلاش کریں گے۔

ہماری شراکت داری محض حکومت تک ہی محدود نہیں ہے بھارت کا نجی شعبہ بھی اس کا م میں آگے آگے ہے۔ 1996 سے 2016 تک بھارت کی جانب سے  سمندر پار  میں جس قدر سرمایہ کاری ہوئی ہے اس میں پانچواں حصہ افریقہ کا ہی ہے۔ بھارت وہ پانچواں سب سے بڑا ملک ہے جو اس براعظم میں سرمایہ کاری کررہا ہے اور گزشتہ  بیس برسوں میں 54 بلین ڈالروں کی سرمایہ کاری عمل میں آئی ہے جس سے افریقی باشندوں کیلئے روزگار فراہم ہوا ہے۔

افریقی ملکوں کی طرف سے بین الاقوامی شخصی اتحاد کے قدم کے تئیں جوردعمل ظاہر کیاگیا ہے کہ اس سے ہماری  حوصلہ افزائی ہوئی ہے جو نومبر 2015 میں پیرس میں اقوام متحدہ کی ، آب وہوا کی تبدیلی سے متعلق کانفرنس میں اٹھاگیا تھا ۔ اتحاد کو شمسی وسائل سے مالامال ملکو ں کے اتحاد کے طور پر قبول کیا گیا تاکہ وہ توانائی اپنی خصوصی ضرورتو ں کو پورا کرسکیں۔ مجھے یہ کہنے میں مسرت ہورہی ہے کہ بہت سے افریقی ممالک نے اس قدم کی حمایت کی ہے۔

نئے ترقیاتی بینک کے ایک بانی کے طور پر جسے عام طور پر ’’برکس  بینک‘‘ کہا جاتا ہے بھارت نے جنوبی افریقہ میں ایک علاقائی مرکز میں قیام کی لگاتار حمایت کی ہے۔ اس سے این ڈی بی  اور دیگر ترقیاتی شراکت داروں کے درمیان اتحاد کو فروغ دینے کے لئے ایک پلیٹ فارم فراہم ہوگا جس میں افریقی ترقیاتی بینک بھی شامل  ہے۔

بھارت نے افریقی ترقیاتی فنڈ میں 1982 میں اور افریقی ترقیاتی بینک میں 1983 میں شمولیت اختیار کی تھی۔ بھارت نے بینک کے عام اثاثے کے فروغ میں تعاون دیا تھا۔ افریقی ترقیاتی فنڈ کی حالیہ تجدید نو کے لئے بھارت نے دو کروڑ  نوے لاکھ ڈالر کا عزم کیا ہے۔ ہم نے انتہائی قرضے میں ڈوبے ہوئے غریب ملکوں اور کثیر ملکی قرضہ جاتی تخفیف کے اقدامات میں تعاون دیا ہے۔

اس پروگرام کا موضوع ہے ’’ افریقہ میں دولت کمانے کیلئے زرعی کایاپلٹ‘‘ ۔ یہ ایک ایسا میدان ہے جہاں بھارت اور بینک ایک دوسرے کے ساتھ نتیجہ خیز انداز میں ہاتھ ملا سکتے ہیں۔ میں کاٹن ٹیکنیکل امدادی پروگرام کا پہلے ہی ذکر کرچکا ہوں۔

یہاں بھارت میں 2022 تک کسانوں کی آمدنی کو دوگنا کرنے کے اقدامات شروع کیے گئے ہیں۔ ا س کے لئے مربوط اقدامات کی ضرورت ہوگی جس میں بہتر بنائے گئے بیجوں اورزیادہ سے زیادہ اِن پُٹ سے لیکر فصل کے کم کیے گئے نقصانات اور مارکیٹنگ کا بہتر بنیادی ڈھانچہ   تک شامل ہے۔ جیسے جیسے ہم اس اقدام پر عمل پیرا ہورہے ہیں بھارت کو آپ کے تجربے سے واقف ہونے کا تجسس بڑھتا جارہا ہے۔

میرے افریقی بھائیو اور بہنو،

ہمیں جن بہت سے چیلنجوں کا سامنا ہے وہ ایک جیسے ہیں: اپنے کسانوں اور غریبوں کے معیار زندگی کو بہتر بنانا ،خواتین کو اختیارات دینا، اپنی دیہی برادریوں کی مالی امداد کی فراہمی کو یقینی بنانا  اور بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کرنا۔ ہمیں یہ سب کچھ اپنی مالی مجبوریوں کے باوجود کرنا ہے۔ ہمیں میکرو اقتصادی استحکام کو برقرار رکھنا ہے تاکہ افراط زر قابو میں رہے اور ہماری ادائیگیوں کا توازن برقرار رہے۔ ان سبھی محاذوں پر اپنے تجربات سے ایک دوسرے سے واقف کرانے سے کافی فائدہ ہوگا۔ مثال کے طور پر ہماری کم نقدی والی معیشت کی کوشش، ہم ان کوششوں سے بہت کچھ  سیکھ چکے ہیں کہ کینیا جیسے افریقی ملکوں نے موبائل بینکنگ کے میدان میں کی ہیں۔

مجھے یہ بتاتے ہوئے خوشی ہوئی ہے کہ بھارت نے پچھلے تین سال میں میکرو اقتصادیات کے سبھی اشاریوں میں بہتر پوزیشن بنائی ہے۔ مالی خسارہ، ادائیگیوں کے خساروں کا توازن اور افراط زر سبھی میں بہتر پوزیشن بنائی ہے۔ جی ڈی پی کی شرح ترقی ، غیرملکی زرمبادلہ کے ذخیرے اور سرکاری اثاثوں کی سرمایہ کاری میں اضافہ ہوا  ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ ہم نے ترقی کے محاذ پر  بھی کافی پیش قدمی کی ہے۔

افریقی ترقیاتی بینک کے صدر صاحب ، یہ بتایا گیا ہے کہ آپ نے ہمارے حالیہ اقدام  کو دیگر ترقی پذیر ملکوں کیلئے کتاب کے بابوں کا متن قرار دیا ہے اور ہمیں ایک ترقیاتی علامت کہا ہے۔ ان الفاظ کے لئے آپ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے مجھے یہ جان کر خوشی ہورہی ہے کہ اس سے پہلے آپ نے حیدر آباد میں کچھ وقت تربیت میں گزارا ہے۔ البتہ میں یہ ضرور کہوں گا کہ میں آنے والے بہت سے چیلنجوں پر توجہ مرکوز کیے رکھوں گا۔ اس سلسلے میں میں سوچتا ہوں کہ میں کچھ حکمت عملی کے بارے میں آپ کو بتاؤں جو ہم نے پچھلے تین سال میں استعمال کی ہے۔

غریبوں کو قیمتوں میں بالواسطہ طور پر رعایت دینے کے بجائے ہم نے انہیں براہِ راست سبسیڈی دی ہے اور اس طرح ہم نے بڑے پیمانے پر مالی بچت کی ہے۔ صرف رسوئی  گیس میں  ہی ہم نے پچھلے تین سال میں چار ارب ڈالر سے زیادہ کی بچت کی ہے۔ اس کے علاوہ میں نے مالدار  شہریوں سے اپیل کی کہ وہ اپنی گیس سبسیڈی رضاکارانہ طور پر ترک کردیں۔ ’’گواِٹ اَپ‘ ‘مہم کے تحت ہم نے وعدہ کیا ہے کہ غریب کنبوں کو کنکشن فراہم کرنے میں بچت کے اس پیسے کو ہی استعمال کیا جائے گا۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ ایک کروڑ سے زیادہ بھارتیوں نے رضاکارانہ طور پر ایسا ہی کیا۔ بچت کو سلام ، ہم نے پانچ کروڑ غریب کنبوں کو گیس کنکشن فراہم کرنے کا ایک پروگرام شروع کیا ۔ ایک کروڑ پچاس لاکھ سے زیادہ کنکشن فراہم کرائے جاچکے ہیں اس سے دیہی خواتین کی زندگیوں کی کایاپلٹ ہوجائے گی۔ اس سے انہیں کھانا پکانے میں لکڑی جلاکر صحت کے لئے مضر اثرات سے نجات ملے گی۔ اس سے ماحول کی بھی حفاظت ہوگی اور آلودگی میں کمی آئے گی۔جسے میں’’ کایا پلٹ کیلئے اصلاح ‘‘کہتا ہوں یہ اسی کی ایک مثال ہے جو مربوط کارروائی ہے جس سے زندگی کی کایاپلٹ ہوتی ہے۔

کسانوں کو دی جانے والی کچھ یوریا مصنوعی کھادیں جن پر سبسیڈی دی گئی ہے انہیں غیر زرعی استعمال کیلئے غیرقانونی طور پر استعمال کیا جارہا ہے جیسے کیمیاوی مادوں کی تیاری۔ ہم نے یوریا پر نیم کا خول چڑھانے کا بین الاقوامی سطح پر کام شروع کیا ہے۔ اس سے یہ مصنوعی کھاد دیگر چیزوں میں کام میں نہیں لائی جاسکے گی۔ ہم نے  نہ صرف خاطر خواہ مالی بچت کی ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ مطالعات سے پتہ چلا ہے کہ نیم کے اس خول سے مصنوعی کھاد کی اثرانگیزی میں بہتری آئی ہے۔

ہم اپنے کسانوں کو مٹی کی صحت سے متعلق کارڈز فراہم کرا رہے ہیں جس سے ان کو ان کی مٹی کی اصل نوعیت معلوم ہوجائے گی۔ نیز ہم انہیں مصنوعی کھادوں کے بہترین آمیزے کے بارے میں بھی مشورہ دے رہے ہیں۔ اس سے  اِن پُٹ کے زیادہ سے زیادہ استعمال کو فروغ حاصل ہوگا اور فصل کے نتائج میں بھی اضافہ ہوگا۔

ہم نے بنیادی ڈھانچے  میں اثاثہ لگانے میں بے مثال فروغ حاصل کیا ہے جس میں ریلویز ، قومی شاہراہیں، بجلی  اور گیس پائپ لائنز شامل ہیں۔ اگلے سال تک بھارت میں کوئی گاؤں ایسا نہیں رہے گا جہاں بجلی نہ ہو۔ ہمارے  صاف ستھری گنگا، قابل تجدید توانائی، ڈیجیٹل انڈیا، اسمارٹ سٹیز،  سبھی کے لئے مکانات اور ہنرمند بھارت کے مشنوں کے پروگرام ہمیں مزید صاف ستھرے ، خوشحال ، تیزی سے ترقی کرتے ہوئے اور ایک جدید نئے بھارت کے لئے تیار کررہے ہیں۔ ہمارا مقصد ہے کہ بھارت ترقی کا ایک انجن اور آنے والے برسوں میں آب وہوا سے مطابقت  رکھنے والی ترقی میں ایک مثال بن جائے۔

دو اہم عناصر ہیں جن سے ہمیں مدد ملی ہے۔ بینکنگ نظام میں تبدیلیاں پہلا عنصر ہے۔ پچھلے تین سال میں ہم نے آفاقی بینکنگ کا مقصد حاصل کیا ہے۔  ہم نے جن دھن یوجنا یا لوگوں کی پیسے سے متعلق مہم شروع کی ہے جس کے تحت 28 کروڑ سے زیادہ بینک کھاتے کھولے گئے۔ یہ علاقے  شہری اور دیہی علاقوں میں غریبوں کے ہیں۔ اس قدم کو سلام ۔ یہاں تک کہ تقریباً ہر بھارتی کنبے کا ایک بینک کھاتا ہے۔ عام طور پر بینک تاجروں یا مالدا ر لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔ ہم نے غریبوں ترقی کی چاہت میں ان کی مدد کیلئے بینکوں کی فہرست تیار کی ہے۔ ہم نے سرکاری بینکوں کو سیاسی فیصلوں سے آزاد کرکے پیشہ ور چیف ایگزیکٹیو کو ان کی خوبیوں کی بنیاد پر مقرر کرکے بینکوں کو  مضبوط کیا ہے۔ یہ تقرریاں شفاف طریقے سے کی گئی ہیں۔

ہمارا آفاقی بایومیٹرک شناخت نظام جسے آدھار کہا جاتا ہے دوسرا اہم عنصر ہے۔ اس سے ان لوگوں کو فائدہ پہنچنے سے روکاجاسکتا ہے جو ان فائدوں کے اہل نہیں ہیں۔ اس سے ہم اس بات کو یقینی بناسکتے ہیں کہ جن لوگوں کو سرکاری مدد کی ضرورت ہے انہیں یہ مدد آسانی سے مل جائے اور جن لوگوں کو سرکاری مدد کی ضرورت نہیں ہے انہیں یہ مدد نہ مل سکے۔

دوستو، آخر میں آپ کی کامیابی کی خواہش ظاہر کرتے ہوئے اور اس سالانہ میٹنگ کے نتیجہ خیز ہونے کی خواہش ظاہر کرتے ہوئے میں اپنی بات کا اختتام کرتا ہوں۔ کھیلوں کے میدان میں بھارت لمبی دوڑ میں افریقہ کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ لیکن میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ بھارت  طویل مدتی اور مشکل دوڑ میں ایک بہتر مستقبل کیلئے آپ کی مدد کرتے ہوئے ہمیشہ آپ کے ساتھ شانہ بہ شانہ کھڑا رہے گا۔

عزت مآب خواتین وحضرات! مجھے افریقی ترقیاتی بینک گروپ کے بورڈ آف گورنرز کی سالانہ میٹنگ کو باقاعدہ طور پر شروع کرتے ہوئے مسرت ہورہی ہے۔

Related posts

Leave a Comment

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More