اقوام متحدہ کی 75 ویں سالگرہ کے موقع پر ،میں، بھارت کے 130 کروڑ سے زائد لوگوں کی جانب سے، ہر ایک رکن ملک کو بہت بہت مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ بھارت کو اس بات پر بہت فخر ہے کہ وہ اقوام متحدہ کے بانی ممالک میں سے ایک ہے۔ آج کے تاریخی موقع پر، میں آپ سبھی کے سامنے بھارت کے 130 کروڑ لوگوں کے احساسات، اس عالمی اسٹیج پر ساجھا کرنے کے لئے حاضر ہوا ہوں۔
صدر محترم،
1945 کی دنیا یقیناً آج سے بہت مختلف تھی۔ پوری دنیا کا ماحول، ذرائع وسائل، مسائل۔حل، سب کچھ مختلف تھے۔ ایسے میں عالمی فلاح کے جذبے کے ساتھ جس ادارے قیام عمل میں آیا، جس شکل میں عمل میں آیا وہ بھی اس وقت کے حساب سے ہی تھا۔ آج ہم ایک بالکل مختلف دور میں ہیں۔ 21ویں صدی میں ہمارے حال، ہمارے مستقبل کی ضرورتیں اور چنوتیاں اب مختلف ہیں۔ اس لیے آج پوری عالمی برادری کے سامنے ایک بہت بڑا سوال ہے کہ جس ادارے کا قیام اس وقت کی صورتحالت میں ہوا تھا، کیا اس کی معتبریت ابھی بھی برقرار ہے؟ صدی تبدیل ہو جائے اور ہم نہ تبدیل ہوں تو تبدیلی لانے کی طاقت بھی کمزور ہو جاتی ہے۔
اگر ہم گذشتہ 75برسوں میں اقوام متحدہ کی حصولیابیوں کا جائزہ لیں، تو متعدد حصولیابیاں نظر آتی ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ایسی متعدد مثالیں بھی ہیں جب اقوام متحدہ کو خوداحتسابی کی بھی ضرورت پیش آئی۔ یہ بات صحیح ہے کہ تیسری عالمی جنگ نہیں ہوئی، تاہم اس بات سے انکار نہیں کیا جاستا کہ متعدد جنگیں ہوئیں، متعدد خانہ جنگیاں ہوئیں۔ کئی دہشت گردانہ حملوں نے پوری دنیا کو دہلا کر رکھ دیا، خون کی ندیاں بہتی رہیں۔
ان جنگوں میں، ان حملوں میں، جو ہلاک ہوئے، وہ ہماری آپ کی طرح انسان ہی تھے۔ وہ لاکھوں معصوم بچے جنہیں دنیا پر چھا جانا تھا، وہ دنیا کو چھوڑ کر چلے گئے۔ کتنے ہی لوگوں کو اپنی زندگی بھر کی پونجی گنوانی پڑی، اپنے خوابوں کا گھر چھوڑنا پڑا۔ اس وقت اور آج بھی، کیا اقوام متحدہ کی کوششیں کافی تھیں؟ گذشتہ 8۔9 مہینے سے پوری دنیا کورونا عالمی وبائی مرض سے نبردآزما ہے۔ اس عالمی وبائی مرض سے نمٹنے کی کوششوں میں اقوام متحدہ کہا ہے، ایک مؤثر ردعمل کہاں ہے؟
صدر محترم،
اقوام متحدہ کے ردعمل میں تبدیلی، انتظامات میں تبدیلی، ہیئت میں تبدیلی، آج وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اقوام متحدہ کی بھارت میں جو عزت ہے، بھارت کے 130 کروڑ سے زائد لوگوں کا اس عالمی ادارے پر جو پختہ اعتماد ہے، وہ آپ کو بہت کم ممالک میں دیکھنے کو ملے گا۔ تاہم یہ بھی اتنی ہی بڑی حقیقت ہے کہ بھارت کے لوگ، اصلاحات کو لے کر اقوام متحدہ میں جو عمل جاری ہے، اس کے مکمل ہونے کا طویل عرصے سے انتظار کر رہے ہیں۔
آج بھارت کے عوام فکر مند ہیں کہ کیا یہ عمل کبھی ایک منطقی انجام تک پہنچے گا۔ آخر کب تک، اقوام متحدہ کے فیصلہ سازی کے نظام سے بھارت کوعلیحدہ رکھا جائے گا؟ ایک ایسا ملک، جو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے، ایک ایسا ملک، جہاں دنیا کی 18 فیصد آبادی رہتی ہے، ایک ایسا ملک، جہاں سینکڑوں زبانیں ہیں، سینکڑوں بولیاں ہیں، مختلف مسالک ہیں، متعدد نظریات ہیں، جس ملک نے سینکڑوں برسوں تک عالمی معیشت کی قیادت کرنے اور سینکڑوں برسوں کی غلامی کے، دونوں ہی ادوار دیکھے ہیں۔
صدر محترم،
جب ہم مضبوط تھے تو دنیا کو کبھی ستایا نہیں، جب ہم مجبور تھے تو دنیا پر کبھی بوجھ نہیں بنے۔
صدر محترم،
جس ملک میں ہو رہی تبدیلیوں کے اثرات دنیا کے بہت بڑے حصے پر مرتب ہوتے ہوں ، اس ملک کو آخر کب تک انتظار کرنا پڑے گا؟
صدر محترم،
اقوام متحدہ جن اصولوں کے ساتھ قائم ہوا تھا اور بھارت کا بنیادی فلسفہ، دونوں میں بہت یکسانیت ہے، یہ دونوں مختلف نہیں ہیں۔ اقوام متحدہ کے اسی ہال میں اس لفظ کی بازگشت متعدد مرتبہ سنائی دی ہے، واسودھیو کٹمب کم۔ ہم پوری دنیا کو ایک کنبہ مانتے ہیں۔ یہ ہماری ثقافت، آداب اور سوچ کا حصہ ہے۔ اقوام متحدہ میں بھی بھارت نے ہمیشہ عالمی فلاح کو ترجیح دی ہے۔ بھارت وہ ملک ہے جس نے امن کے قیام کے لئے تقریباً 50 قیام امن سے متعلق مشنوں میں اپنے جانباز فوجیوں کو بھیجا۔ بھارت وہ ملک ہے جس نے قیام امن کے عمل میں اپنے سب سے زیادہ بہادر فوجی کھوئے ہیں۔
آج ہر ایک بھارتی، اقوام متحدہ میں اپنے تعاون کو مدنظر رکھتے ہوئے اقوام متحدہ میں اپنا بڑا کردار بھی دیکھ رہا ہے۔
صدر محترم،
02 اکتوبر کو ’بین الاقوامی یوم عدم تشدد‘ اور 21 جون کو ’بین الاقوامی یوم یوگ‘، ان کی پہل بھارت نے ہی کی تھی۔ قدرتی آفات سے نمٹنے کی غرض سے بنیادی ڈھانچہ تیار کرنے کے لئے اتحاد اور بین الاقوامی شمسی اتحاد، یہ بھارت کی کوششیں ہیں۔ بھارت نے ہمیشہ بنی نوع انسان کی فلاح کے بارے میں سوچا ہے، نہ کہ اپنے مفادات کے بارے میں۔ بھارت کی پالیسیاں ہمیشہ سے اسی فلسفے سے متاثر رہی ہیں۔ بھارت کی ’ہمسایے کو اولیت‘ سے لے کر ایکٹ ایسٹ پالیسی تک، خطے میں سبھی کے لئے تحفظ اور ترقی کی سوچ ہو یا پھر انڈو پیسفک علاقے کے تئیں ہماری سوچ، سبھی میں اس فلسفہ کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ بھارت کی شراکت داری کی رہنمائی بھی یہی اصول طے کرتا ہے۔ بھارت جب کسی سے دوستی کا ہاتھ بڑھاتا ہے، تو وہ کسی تیسرے کے خلاف نہیں ہوتی۔
بھارت جب ترقی کی ساجھے داری کو مضبوط کرتا ہے تو اسکے پس پشت کسی ساتھی ملک کو مجبور کرنے کی سوچ نہیں ہوتی۔ ہم اپنی ترقی کے سفر سے حاصل ہوئے تجربات ساجھا کرنے میں کبھی پیچھے نہیں ہٹتے۔
صدر محترم،
وبائی مرض کے اس مشکل وقت میں بھی بھارت کی دوا کی صنعت نے 150 سے زائد ممالک کو ضروری ادویہ ارسال کیں۔ ملک کے سب سے بڑی ویکسین پیداواریت والے ملک کے طور پر آج میں عالمی برادری کو ایک اور یقین دہانی کرانا چاہتا ہوں۔ بھارت کی ویکسین پیداواریت اور ویکسین فراہمی کی اہلیت پوری انسانیت کو اس بحران سے باہر نکالنے کے لئے کام آئے گی۔ ہم بھارت میں اور اپنے پڑوسی ممالک میں تیسرے مرحلے کے کلینکل ٹرائلز کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ ویکسین کی فراہمی کے لئے کولڈچین اور اسٹوریج جیسی اہلیت بڑھانے میں بھی بھارت، سبھی کی مدد کرے گا۔
صدر محترم،
اگلے برس جنوری سے بھارت، سلامتی کونسل کے غیر مستقل رکن کے طور پر اپنے فرائض انجام دے گا۔ دنیا کے مختلف ممالک نے بھارت پر جو اعتماد جتایا ہے، میں اس کے لئے سبھی ساتھی ممالک کا شکر گزار ہوں۔ دنیا کے سب سے بڑے جمہوری ملک ہونے کی عزت اور اس کے تجربے کو ہم عالمی فلاح کے لئے استعمال کریں گے۔ ہمارا راستہ عوام کی فلاح سے دنیا کی فلاح کا ہے۔ بھارت کی آواز ہمیشہ امن، سلامتی اور خوشحالی کے لئے اٹھے گی۔ بھارت کی آواز بنی نوع انسان اور انسانی اقدار کی دشمن – دہشت گردی، غیر قانونی ہتھیاروں کی اسمگلنگ، منشیات، منی لاؤنڈرنگ کے خلاف اٹھے گی۔
بھارت کا ثقافتی ورثہ، ہزاروں برسوں کے تجربات، ہمیشہ ترقی پذیر ممالک کو طاقت فراہم کریں گے۔بھارت کے تجربات، بھارت کا نشیب و فراز سے پر ترقی کا سفر، عالمی فلاح و بہبود کے راستے کو مضبوطی فراہم کریں گے۔
صدر محترم
گذشتہ کچھ برسوں میں، اصلاحات– کارکردگی ۔ تبدیلی، اس اصول کے ساتھ بھارت نے کروڑوں ہندوستانیوں کی زندگی میں بڑی تبدیلیاں لانے کا کام کیا ہے۔ یہ تجربات، دنیا کے بہت سے ممالک کے لئے اتنے ہی فائدہ مند ہیں، جتنا کہ ہمارے لیے۔ صرف 5۔4 برسوں میں 400 ملین سے زیادہ لوگوں کو بینکنگ نظام سے مربوط کرنا آسان نہیں تھا۔ تاہم بھارت نے یہ کر کے دکھایا۔ صرف 5۔4 برسوں میں 600 ملین لوگوں کو کھلے میں رفع حاجت سے مبرا کرنا آسان نہیں تھا۔ تاہم بھارت نے یہ کرکے دکھایا۔ صرف 3۔2 برسوں میں 500 ملین سے زائد لوگوں کو مفت علاج کی سہولت سے جوڑنا آسان نہیں تھا۔ تاہم بھارت نے یہ کرکے دکھایا۔ آج بھارت ڈجیٹل لین دین کے معاملے میں دنیا کے سرکردہ ممالک میں سے ایک ہے۔
آج بھارت اپنے کروڑوں شہریوں کو ڈجیٹل رسائی فراہم کرا کے اختیارکاری اور شفافیت کو یقینی بنا رہا ہے۔ آج بھارت، سال 2025 تک اپنے ہر شہری کو تپ دق سے آزادی دلانے کے لئے بہت بڑی مہم چلا رہا ہے۔ آج بھارت اپنے مواضعات کے 150 ملین گھروں میں پائپ سے پینے کا پانی پہنچانے کی مہم چلا رہا ہے۔ کچھ روز قبل ہی بھارت نے اپنے 6 لاکھ مواضعات کو برانڈیڈ آپٹیکل فائبر سےکنیکٹ کرنے کی بہت بڑی اسکیم کی شروعات کی ہے۔
صدر محترم،
وبائی مرض کے نتیجے میں رونما ہوئی صورتحال کے بعد ہم ’’آتم نربھر بھارت‘‘ کے خواب کو لے کر آگے بڑھ رہے ہیں۔ آتم نربھر ابھیان، عالمی معیشت کے لئے بھی تقویت فراہم کرانے کا ایک ذریعہ ہوگا۔ بھارت میں آج یہ یقینی بنایا جا رہا ہے کہ سبھی اسکیموں کا فائدہ، بغیر کسی تفریق کے، ہر ایک شہری تک پہنچے۔ خواتین کے کاروبار اور لیڈرشپ کو فروغ دینے کے لئے بھارت میں بڑے پیمانے پر کوششیں کی جا رہی ہیں۔ آج دنیا کی سب سے بڑی مائکرو فائننسنگ اسکیم کا سب سے زیادہ فائدہ بھارت کی خواتین ہی اٹھا رہی ہیں۔ بھارت دنیا کے ان ممالک میں سے ایک ہے جہاں خواتین کو 26 ہفتوں کی، ادائیگی پر مبنی زچگی رخصتی دی جا رہی ہے۔ بھارت میں ٹرانس جینڈروں کے حقوق کو تحفظ دینے کے لئے بھی قانونی اصلاحات کی گئی ہیں۔
صدر محترم،
بھارت دنیا سے سیکھتے ہوئے، دنیا کے ساتھ اپنے تجربات ساجھا کرتے ہوئے آگے بڑھنا چاہتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اپنے 75ویں برس میں اقوام متحدہ اور تمام رکن ممالک، اس عظیم ادارے کی معتبریت کو برقرار رکھنے کے لئے مزید عہد بستگی کے ساتھ کام کریں گے۔ اقوام متحدہ میں توازن اور اقوام متحدہ کی اختیارکاری، عالمی فلاح و بہبود کے لئے اتنی ہی لازمی ہے۔ آیئے، اقوام متحدہ کی 75ویں سالگرہ کے موقع پر ہم سب مل کر اپنے آپ کو عالمی فلاح کے لئے، ایک مرتبہ پھر وقف کرنے کا عہد کریں۔