صنفی مساوات عالمی توجہ کا مرکز ہے اور دنیا بھر کے ممالک اس بات کو ماننے لگے ہیں کہ صنفی عدم توازن پائیدار ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ خود انحصاری کی طرف بڑھنے والا ایک قدم یہ ہے کہ صنفی مساوات قائم کرنے کی رفتار تیز کی ہے۔ جس کے لئے سائنس، ٹیکنالوجی اور اختراعی عمل میں عورتوں کو شامل کیا جائے۔ صورتحال اور درپیش آزمائشوں پر غور کرنےاور آگے بڑھنے کی صورتوں پر تبادلہ خیال کے لئے ہندوستان کے بین الاقوامی سائنسی میلے 2020 میں خاتون سائنسدانوں اور صنعت کاروں کے ایک اجلاس کا خصوصی طور پر اہتمام کیاگیا۔اس تقریب کے افتتاحی اجلاس سے تلنگانہ کی گورنر ڈاکٹر تمل سائی سونڈا رنجن اور خواتین اور بہبود اطفال اور ٹیکسٹائل کے مرکزی وزیر محترمہ سمرتی زوبین ایرانی نے خطاب کیا۔
افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے تلنگانہ کی گورنر ڈاکٹر تمل سائی سونڈا رنجن نے کہا آتم نربھر بھارت کے مقاصد کے حصول میں خواتین کا کردار انتہائی اہم ہے۔انہوں نے اس بات کی نشاندہی کی کہ ہمارے ملک میں سائنس اور صنعت کے شعبوں میں خواتین کی افرادی قوت بہت کم ہے۔ انہوں نے کہا کہ خواتین کے اندر اتنی صلاحیت ہے کہ وہ ملک میں روزگار کے منظر نامہ پر انقلاب برپا کرسکتی ہیں۔ جن کاروباری اداروں کی ملکیت خواتین کے ہاتھوں میں ہے۔ ان اداروں کے پاس 15 سے 17 کروڑ نئے روزگار سامنے لانے کی صلاحیت ہے۔ انہوں نے انجینئرنگ اور تکنیکی تعلیم کے اداروں میں خواتین کی نشستوں میں اضافے کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ خاتون سائنسدانوں اور ٹیکنالوجی کی ماہرین کی حوصلہ افزائی کے لئے فیلو شپ کی تعداد بڑھائی جائے۔ گورنر اور دوسرے عہدہداروں نے اس کانکلیو میں غیر روایتی طور پر حصہ لیا۔
خواتین اور بچوں کی بہبود کی مرکز وزیر محترمہ سمرتی ایرانی نے اپنے خطبے میں کہا کہ ہندوستان میں خاتون سائنسدانوں کی تعداد انتہائی کم ہے۔ جسے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ خواتین کو سائنسی تحقیق کے شعبوں میں آنے کی تحریک دینے کے لئے کئی سرکاری اسکیمیں شروع کی گئی۔ انہوں نے مزید کہا کہ آئی آئی ایس ایف جیسے پروگرام خواتین کو سائنس ، ٹیکنالوجی، اختراعی عمل اور صنعت کاری کی طرف راغب کرتے ہیں۔
آئی آئی ایس ایف 2020 کے اس پروگرام سے سی ایس آئی آر کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر شیکھر سی منڈے، بائیو ٹیکنالوجی کے محکمے کی سکریٹری ڈاکٹر رینو سوروپ، سی ایس آئی آر- این ای ای آر آئی کے ڈائریکٹر راکیش کمار اور کانکلیو کی پرنسپل کوآرڈینٹر ڈاکٹر عطیہ کپلے نے بھی خطاب کیا۔
آئی آئی ایس ایف 2020 کے ویلنس کانکلیو کے تحت دوسری مقبول تقریب ‘ آیور فیسٹول کی افتتاحی تقریب میں آیوش کے مرکزی وزیر جناب شری پد یسو نائک نے کہا کہ تندرستی یومیہ بنیاد پر صحت مند عادتوں کو اختیار کرنا کا عمل ہے۔ تاکہ صحت کے محاذ پر بہتر جسمانی اور ذہنی نتائج حاصل کئے جائیں۔ اس طرح صرف زندہ رہنے کے بجائے زندگی کالطف اٹھایا جائے۔ یہ اخلاقیات کی باتیں آیور وید کے‘ دینا چاریہ‘ تصور سے ماخوذ ہے۔ اگر ہم آیوروید میں درج یومیہ نظام کو ذہن میں رکھتے ہیں تو تندرست رہیں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ طرز حیات کے کئی نئے شعبے مجموعی تندرستی کے طول العرض سمجھے جاتے ہیں۔ ان میں معاشرتی ارتباط، کسرت، غذائیت،نیند اور شعوری بیداری شامل ہیں۔ ان میں سے ہر ایک کا جسمانی اور ذہنی صحت پر اثر پڑتا ہے۔ یومیہ بنیاد پر آسان اور صحت مند پسند کو ترجیح دے کر تناؤ کم کرنے، مثبت سماجی رابطے رکھنے اور زیادہ سے زیادہ تندرست رہنے کی راہ ڈھنگ سے اختیار کی جاسکتی ہے۔
تندرست رہنے کے گھریلو نسخے: اس عنوان کے تحت ایک ویڈیو مقابلہ اسکرین پر دکھایا گیا ہے جس میں پروفیسر میتا کوٹیچا نے نظامت کے فرائض انجام دیئے۔ اس میں یومیہ زندگی جڑی بوٹیوں کی اہمیت عام بیماریوں کے عام علاج کے طور پر اجاگر کی گئی۔ ہپی نیس یوگا کے تحت یوگا اور مراقبے کا ویڈیو مظاہرہ کیاگیا جو یومیہ زندگی میں آرام اور خوشی سے جینے کے تئیں لوگوں میں بیداری پیدا کرتا ہے۔ کام کی جگہوں پر ذہنی یکسوئی کو اہمیت حاصل ہے اور اسے یوگ آسن کے ذریعہ حاصل کیاجاسکتا ہے۔
آیوش کے سکریٹری جناب راجیش کوٹیچا نے اپنے کلیدی خطبے میں آیوش کی حکمت کے علاوہ تندرستی، درست غذائیت ، پانی اور صفائی ستھرائی وغیرہ کے کے خطوط پر بات کی۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں یہ دکھانے کی ضرورت ہے کہ کوئی کیسے تندرست رہ سکتا ہے۔ انہوں نے بین فطرت انفرادی ذمہ داری، طرز حیات اور فطری تدارکی اقدامات کے علاوہ سماجی اور ماحولیاتی ذمہ داری والے رویے کو تندرستی کے کلید کے طور پر پیش کیا۔
اس پروگرام کی نظامت این آئی اے کے پروفیسر پون کمار گودتوار نے کی۔ ہندوستان کے سیاق وسباق میں صحت کے عالمی اعداد وشمار، صحت اور تندرستی کے تصور کے حوالے سے پینل مذاکرہ جاری رہا۔ پینل میں شامل مذاکرات کاروں نے تندرستی اور معالجاتی تندرستی کے باہمی تعلق پر مشرقی اور مغربی نظریہ پر مفصل طور سے بات چیت کی۔ ان مذاکرات کاروں نے ایس وی وائی ایس اے چانسلر ایچ آر نگڈیرا ڈی ایس آر آر اے یو کے وائس چانسلر ابھیمنو کمار، ڈبلیو ایچ او کے ڈاکٹر جی گیتا کرشنن، ویبھا کے قومی آرگنائزنگ سکریٹری جناب جین سہسرا بدھے، جیوا آیوروید کے وید پرتاپ چوہان، بلس آیوروید کے وید نتن اگروال اور سیتا رمایور وید راماناتھن شامل تھے۔
تقریباً 300 مصدقہ طورپر رجسٹرڈ شرکاء اور 50 سے زیادہ وسائل رکھنے والے لوگوں نے تبادلہ خیال کیا اور مشورے دیئے کہ کس طرح صرف صحت پر مرکوز توجہ کو تندرستی کے زیادہ جامع تصور کی طرف موڑا جاسکتا ہے۔ اس مجموعی بحث کے بعد یہ بات دہرائی گئی کہ صحت کے12 ہزار بنیادی مراکز کو آیوش ویلنس سینٹر کانام دیا جائے گا۔