نئی دہلی، شمال مشرقی ریاستوں کی ترقی کے وزیر مملکت (آزادانہ چارج)،نیز وزیراعظم کے دفتر ، عملے ، عوامی شکایات ،پنشن ، جوہری توانائی اور وزیر مملکت ڈاکٹر جتیندر سنگھ نے 31 ا گست 2017 کو پی ایس ایل وی سی-39 کی ناکامی کے وجوہات کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے تحریری جواب میں کہا ہے کہ پی ایس ایل وی سی -39 کی 41 ویں پرواز انڈین ریجنل نیویگیشن سیٹلائٹ ( 425 کلو گرام وزنی آئی آر این ایس ایس-1 ایچ) کے ساتھ عمل میں آ ئی تھی لیکن وہ اپنے مقررہ مدار تک نہیں پہنچ سکا کیونکہ پرواز کے دوسرے مرحلے کے دوران یہ پے لوڈ فیرنگ (ہیٹ شیڈ کے نام سے بھی مشہور ) سے جدا نہیں ہو سکا ۔ متعدد پروازوں کے تجزیے اور تفصیل کے ساتھ زمینی سطح کی آزمائش ڈیٹا کے تجزیے کے بعد اس کی ناکامی کی اصل وجوہات کا پتہ چل سکا ہے۔ لوڈ فیرنگ سے کامیابی کے ساتھ جدا ہونے کیلئے ضروری ہے کہ عمودی اور افقی دست برداری کا نظام درست طور پر کام کرے ۔ پروازوں کے ڈیٹا کی بنیاد پر اس بات کا مشاہدہ کیا گیا کہ افقی اور عمودی دست برداری نظام کا میابی کے ساتھ ایشو کیا گیا تھا۔ اس کے بعد دورانِ پرواز افقی دست برداری نظام کام کر رہا تھا لیکن عمودی دست برداری نظام نے کام کرنا بند کر دیا۔ یہی وجہ ہے کہ پے لوڈ فیئرنگ سے وہ جدا نہیں ہو پایا ۔ عمودی دست برداری نظام کے کام نہ کرنے کا سبب عمودی دست برداری نظام میں انفجار کا عمل شروع نہیں ہو نا تھا۔
اس سوال پر کہ محکم خلا کے پاس ایرو اسپیس کی ٹیکنا لوجی کو مسلسل جدید تر بنانے کے کیا منصوبے ہیں ،ڈاکٹر جتیندر سنگھ نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ محکمہ خلا لانچ وہیکل ، سیٹلائٹ اور زمینی نظاموں میں قابل ذکر بہتری لانے اور ٹیکنالوجیکل جدید کاری کرنے کے مقصد سے متعدد تحقیقی و ترقیاتی سرگرمیوں اور تجرباتی مشنوں کو انجام دیتا رہتا ہے ۔ حالیہ دنوں میں جن تجرباتی مشنوں کو کامیابی کے ساتھ انجام تک پہنچایا گیا ان میں مئی 2016 میں ری یوزیبل لانچ وہیکل ۔ٹیکنالوجی ڈیمونسٹریٹر اور اگست 2016 میں ذیلی اسکیل کے اسکریم جیٹ انجن کی پہلی آزمائشی پرواز شامل ہیں ۔ اس کا مقصد خلا تک رسائی میں ہونے والی لاگت میں کمی لانا تھا۔ محکمہ خلا نے خلائی نقل و حمل نظاموں مثلاً سیمی کرائیو جینک انجن ، اعلیٰ صلاحیت کے انجنوں اور اضافہ شدہ اخراج لوڈنگ کے ساتھ کریوجنک مرحلوں جیسے نظاموں کی پے لوڈ صلاحیت میں اضافہ کرنے کیلئے اخراج نظام کی جدید کاری اور ٹیکنالوجی ترقی کا کام کیا ہے۔ محکمہ خلا نے بھاری بھرکم کیمیکل اخراج کی جگہ بجلی سے چلنے والے تمام مواصلاتی سیٹلائٹوں کے لئے اعلیٰ الیکٹرک اخراج نظاموں کی ترقی کے لئے بھی کام کیا ہے۔
بجٹ مختص کئے جانے سے متعلق سوال پوچھے جانے پر ڈاکٹر جتینددر سنگھ نے کہا کہ مالی سال 18-2017 کے دوران محکمہ خلا کے لئے مختص کی گئی بجٹ کی رقم 9093.71 کروڑ روپے ہے۔ محکمہ خلا کے لئے مختص کل رقم کا 20 فیصد حصہ تحقیق و ترقی سے متعلق سرگرمیوں کو انجام دینے کے لئے استعمال کیا جائے گا۔
او ای سی ڈی ( آرگنائزیشن فار اکنامک کوآپریشن اینڈ ڈیولپمنٹ ) کے ذریعے شائع شدہ ‘خلائی معیشت کا ایک سرسری جائزہ 2014’کی رپورٹ کے مطابق محکمہ خلا کے لئے مختص بجٹ کے لحاظ سے یعنی مجموعی گھریلو پیداوار (جی ڈی پی) کے فیصد کے اعتبار سے خلا ئی ملکوں میں ہندوستان کا چھٹا مقام ہے۔
ڈاکٹر جتیندر سنگھ نے مزید کہا کہ محکمہ خلاء کے ذریعے تیار کر دہ ڈیزائنوں کا اچھی طرح تجزیہ کیا جاتا ہے۔ اسی طرح دیزائنوں سے متعلق کوالیفکیشن ٹسٹ اور شمولیت سے متعلق تجربے کئے جاتے ہیں۔ پھر اس کے بعد اس کو نظام میںشامل کیا جاتا ہے۔ خلائی تحقیق سے متعلق ہندوستانی تنظیم (اسرو) کے پاس معیار کو یقینی بنانے کے لئے بہترین میکینزم ہے جو اس کے خلائی مشنوں کے متعدد نظاموں میں شامل کرنے سے قبل مختلف سامانوں کو اصلی اور حقیقی ہونے کا سرٹیفکیٹ فراہم کرتا ہے۔
2 comments