نئی دہلی۔ ایم جی ا ین آر ای جی ایس کو پائیدار ذریعہ معاش بنانے کے لئے ٹھوس کوشش کی گئی ہے اور اسی کے ساتھ ضرورت کے وقت روزگار فراہم کئے جارہے ہیں۔ انسٹی ٹیوٹ آف اکنامک گروتھ، نئی دہلی نے( نومبر 2017) پائیدار ذریعہ معاش پر ایم جی این آر ای جی ایس(جن میں سے کم ا ز کم 60 فیصد 2015 سے خرچ کیا جاچکا ہے) اور اس کے اثر کے تحت قدرتی وسائل کے بندوبست کے اجزاء کاا یک جائزہ لیا ہے۔ یہ جائزہ 29 ریاستوں کے 30 سے زائد اضلاع میں کیا گیا جس کے تحت 1160 گھرانوں کا احاطہ کیا گیا ہے۔ جائزہ ریکارڈوں میں گھرانوں کی آمدنی میں تقریبا 11 فیصد ، موٹے اناجوں میں 11.5 فیصد اور سبزیوں کی پیداوار میں 32.3فیصد کا اضافہ درج کیاگیا ہے۔ زیر زمین پانی کی سطح میں اضافہ سے 78 فیصد گھرانوں کے مستفید ہونے کی اطلاعات ہیں۔66 فیصد گھرانے چھوٹے اور متوسط کسانوں کی سرکاری اور نجی زمینوں دونوں میں پانی کے تحفظ پر ہونے والے کاموں کی بنیاد پر چارے کی دستیابی سے بھی مستفید ہوئے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ زرعی تالابوں اور کنوؤں سمیت پانی کے تحفظ سے متعلق کئے گئے متعدد اقدامات نے غریبوں کی زندگی میں امتیاز پیدا کیا ہے۔ ایم جی این آر ای جی ایس کی انفرادی فائدہ جاتی اسکیموں کے ذریعہ مویشیوں سے ہونے والی آمدنی میں بھی بہتری آئی ہے۔ ان اسکیموں کے تحت غریب گھرانوں کی ضرورت کے مطابق بکریوں، مرغیوں اور مویشیوں کو رہنے کے لئے جگہ فراہم کی جاتی ہے۔
پچھلے چند برسوں میں ریاستوں میں ایم جی این آر ای جی ا یس کے نفاذ میں بہتری کے لئے سنجیدہ اور ٹھوس کوششیں کی گئی ہیں۔ 2006 سے بنائے گئے 2 کروڑ سے زائد املاک پچھلے دو سالوں میں جیو ٹیگ کئے گئے ہیں۔6.6 کروڑسے زائد ورکروں کے پاس آدھار سے منسلک بینک کھاتے ہے اور تقریباً 90 فیصد کے پاس آدھار ہے۔ 97 فیصد اجرتیں الیکٹرانک فنڈ مینجمنٹ سسٹم کے ذریعہ ادا کی جاتی ہیں۔2014-15 میں پندرہ دنوں کے اندر جو ادائیگیاں حاصل کی گئیں ہے وہ 26.85 فیصد تھیں۔ نیشنل الیکٹرانک فنڈ مینجمنٹ سسٹم ( این ای ایف ایم ایس) پہلے سے ہی 23 ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام ایک خطہ پانڈوچیری میں کام کررہا ہے جس سے صاف شفاف اور بروقت ادائیگی کا راستہ ہموار ہورہا ہے۔
وزارت مالیات اور ریاستی حکومتوں کی شراکت داری میں ٹھوس کوششیں کی جارہی ہیں تاکہ ورکروں کے کھاتوں میں بروقت ادائیگی کو یقینی بنایا جاسکے اور اس معاملے میں بہتری بھی نظر آرہی ہے۔ادائیگیوں کے بروقت حصول کے ہدف کو حاصل کرلیا گیا ہے اور اب بینکوں ، ڈاکخانوں پر دباؤ ڈالا جارہا ہے کہ بغیر وہ کسی تاخیر کے پیسوں کی منتقلی کو یقینی بنائے۔ ریاستوں نے کئی معاملات میں بروقت آڈٹ شدہ کھاتوں اور دیگر لازمی دستاویزات دے کر مالیات عمل آوری میں بہتری لائی ہیں تاہم چند ریاستیں ایسی بھی ہے جنہیں مالیاتی ضروریات کی عمل آوری میں بہتری کے لئے مزید کوششیں کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سے مرکزی حکومت فنڈ کی بتدریج بھاؤ کو برقرار رکھ سکے گی۔ پچھلے تین برسوں میں( 2015-16,2016-17,2016-17-18) ایم جی این آر ای جی ا یس کے تحت اخراجات اس پروگرام کے شروع ہونے سے اب تک سب سے زیادہ ہوئے ہیں۔2015-16 میں 235 کروڑ کام کے دنوں کے ہدف کو حاصل کیا گیا ہے اور پچھلے پانچ سالوں میں 2016-17 میں یہ ہدف سب سے زیادہ حاصل کیا گیا ہے۔
پائیدار ذریعہ معاش کی معرفت شفافیت، بروقت، اثاثہ کا حصول، آمدنی میں اضافہ کے تمام معیارات پر ایم جی این آر ای جی ا یس نے غیرمعمولی طور پر اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے اور یہ سب حکمرانی اصلاحات اور ایم جی این آر ای جی ا یس کے بندوبست میں اطلاعاتی ٹیکنالوجی اور اسپیس ٹیکنالوجی کے استعمال کی وجہ سے ممکن ہوسکا ہے۔