نئی دہلی، پرم پوجیہ آچاریہ مہاراج جی، سبھی پوجیہ منی راج جی اور پوجنیہ ماتاجی، اور سبھی آریکا ماتاجی اور اسٹیج پر موجود کرناٹک کے گورنر جناب وجوبھائی والا، مرکزی کابینہ کے میرے ساتھی سدانند گوڑاجی، اننت کمار جی، پیوش گوئل جی، ریاست کے وزیر جناب منجو جی، یہاں کی منتظمہ کمیٹی کے جناب واستری شری چاروکے شری بھٹارکا سوامی جی، ضلع پنچایت حسن کی چیئرمین محترمہ بی ایس شویتا دیوراج جی، رکن اسمبلی جناب این بال کرشنا جی اور بڑی تعداد میں ملک کے کونے کونے سے تشریف لائے ہوئے سبھی عقیدت مند، ماؤں، بہنوں اور بھائیو!
یہ میری خوش نصیبی ہے کہ 12 سال میں ایک بار جو مہاپرو ہوتا ہے، اسی زمانے میں وزیراعظم کے طور پر ملک کی خدمت کرنے کی میرے پاس ذمے داری ہے اور اس لئے وزیراعظم کی ذمے داری کے تحت اسی عرصے میں مجھے اس پوتر موقع پر آپ سب سے آشیرواد حاصل کرنے کا موقع ملا ہے۔
شرون بیل گولا آکرکے بھگوان باہوبلی مہامستک ابھیشیکم، اس موقع کا اور آج یہاں اتنے آچاریہ، بھگونت، منی اور ماتاجی کے ایک ساتھ درشن کرنا، ان کا آشیرواد لینا، یہ اپنے آپ میں بہت بڑی خوش نصیبی ہے۔
جب بھارت سرکار کے پاس کچھ تجاویز آئی تھیں، یہاں پر مسافروں کی سہولت کو دیکھ کرکے، ویسے کچھ انتظام ایسا ہوتا ہے کہ آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کو کچھ چیزیں کرنے میں بڑی دقت ہوتی ہے، کچھ ایسے قانون اور ضابطے بنے ہوتے ہیں، لیکن ان سب کے باوجود بھارت سرکار یہاں پر آنے والے مسافروں کی سہولت کے لئے جتنا بھی انتظام میں حصہ لے سکتی ہے، جو جو انتظام کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، ان سب میں پوری ذمے داری کے ساتھ اپنا فرض ادا کرنے کی کوشش کی ہے اور یہ ہمارے لئے بہت ہی اطمینان کی بات ہے۔
آج مجھے ایک اسپتال کے افتتاح کا بھی موقع ملا۔ بہت سے لوگوں کا ماننا یہ ہے کہ ہمارے ملک میں مذہبی میلانات تو بہت ہوتے ہیں، لیکن سماجی میلانات کم ہوتے ہیں۔ یہ تصور صحیح نہیں ہے۔ بھارت کے سنت، مہنت، آچاریہ، منی، بھگونت، سب کوئی جہاں ہیں، جس شکل میں ہیں، سماج کے لئے کچھ نہ کچھ بھلا کرنے کے لئے کام کرتے رہتے ہیں۔
آج بھی ہماری ایسی مہان سنت پرمپرا رہی ہے کہ 20-25 کلومیٹر کی دوری طے کرکے اگر کوئی بھوکا انسان ہے تو ہماری سنت پرمپرا کا نظام ایسا ہے کہ کہیں نہ کہیں اس کا پیٹ بھرنے کا انتظام کسی نہ کسی سنت کے ذریعے چلتا رہتا ہے۔
کئی سماجی کام، تعلیم کے شعبے کا کام، علاج معالجہ کے شعبے میں کام، لوگوں کو نشے سے آزاد کرنے کا کام، یہ بہت سے میلانات ہماری اس عظیم روایت میں آج بھی ہمارے رشی منیوں کے ذریعے اتنی ہی انتھک کوشش کر کرکے چل رہی ہے۔
آج جب گومٹیک سدی کی طرف میں نظر کررہا تھا تو مجھے لگا کہ اسے میں آج آپ کے سامنے نقل کروں۔ گوم ٹیک سدی میں جس طرح کا باہوبلی کا ذکر کیا گیا ہے، گومٹیک سدی میں اس پوری جگہ کا جو بیان کیا گیا ہے۔
اچھائے سوچھہ جلکنت گنڈم، آباہو دورتم سکنن پاسمہ
گییند سندھو جل باہو دنڈم، تم گوم ٹیشم پنّامرچم
اور اس کا مطلب ہوتا ہے- جن کا جسم آسمان کی مانند صاف ہے، جن کے دونوں کپول یعنی گال پانی کی مانند صاف ہیں، جن کے کرن پلّو اسکندھوں تک ڈولتے ہیں، جس کی دونوں باہیں ہاتھی کی سونڈ جیسی لمبی اور خوبصورت ہیں- ایسے ان گومٹیش سوامی کو میں روزانہ پرنام کرتا ہوں۔
قابل احترام سوامی جی مجھ پر جتنا آشیرواد برسا سکتے ہیں، برسائے۔ میری ماں کو بھی یاد کیا ۔ میں اس دعا کے لئے ان کا انتہائی مشکور ہوں۔ ملک میں وقت کے بدلتے ہی سماجی زندگی میں بدلاؤ لانے کی روایت ہے۔ یہی ہندوستانی سماج کی خصوصیت رہی ہے۔ جو چیزیں وقت کے ساتھ بدلتی ہیں، سماج میں جو برائیاں داخل ہو جاتی ہیں، کبھی کبھی ان کو عقیدے کی شکل دے دی جاتی ہے۔
یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہمارے سماجی نظام سے ہی ایسے مشہور لوگ پیدا ہوتے ہیں، ایسے سنت مہاتما پیدا ہوتے، ایسے منی پیدا ہوتے ہیں، ایسے اچاریہ پیدا ہوتے ہیں جو اس وقت کے سماج کو صحیح راہ دکھاکر وقت کے ساتھ جو برائیاں آتی ہیں ان سے آزاد کراکر وقت کے مطابق زندگی گزارنے کی ترغیب دیتے رہتے ہیں۔
ہر بارہ سال میں ملنے والا یہ ایک قسم سے کنبھ کا ہی موقع ہے۔ یہاں سب ملک کر سماجی غورو فکر کرتے ہیں۔ سماج کو آگے بارہ سال کے لئے کہاں لے جانا ہے، سماج کو اب اس راستہ کو چھوڑ کر اس راستے پر چلنا ہے ، کیونکہ ملک کے ہرکونے میں سنت ، منی، اچاریہ ، سب ماتا جی وہاں کے علاقے کے تجربات کے ساتھ یہاں آتے ہیں۔ غورو فکر ہوتا ہے، صلاح ومشورہ ہوتا ہے اور اس سے سماج کے لئے امرت کی شکل میں کچھ چیزیں ہم لوگوں کو پرساد کی شکل میں حاصل ہوتی ہے، جس کو زندگی میں اتار نے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔
آج بدلتے ہوئے زمانے میں بھی یہاں ایک اسپتال کے افتتاح کا موقع ملا۔ اتنے بڑے موقع کے ساتھ یہ ایک بہت بڑا سماجی کام بھی ہے۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ اس بجٹ میں ہماری سرکار نے ایک بڑا قدم اٹھایا ہے۔
‘‘آیوشمان بھارت’’-اس پروگرام کے تحت کوئی بھی غریب کنبہ ، اس میں اگر کوئی بیماری آجائے تو صرف ایک آدمی بیمار نہیں ہوتا، بلکہ ایک طرح سے اس کنبے کی دو تین نسلیں بیمار ہوجاتی ہیں، کیونکہ اس قدر قرض ہوجاتا ہے کہ بچے بھی اس کی بھرپائی نہیں کرپاتے اور پورا کنبہ تباہ ہوجاتا ہے۔ ایک بیماری پورے کنبے کو کھاجاتی ہے۔
ایسے وقت میں سماج اور حکومت میں ہم سب کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ ایسے کنبے کو بحران کے وقت میں اس کا ہاتھ پکڑیں اور اس کی فکر کریں۔اس لئے حکومت ہند نے آیوشمان بھارت اسکیم کے تحت ایک سال میں کنبہ کا اگر کوئی بھی شخص بیمار ہو جائے تو پورے سال میں پانچ لاکھ روپے تک کا اس کے علاج کا خرچ ، دوا کا خرچ، آپریشن کا خرچ، اسپتال میں رہنے کا خرچ تک یعنی پانچ لاکھ روپے تک کے خرچ کا انتظام حکومت ہند بیمہ کے ذریعے کرے گی۔ یہ آزادی کے بعد ہندوستان میں اٹھایا گیاایک قدم ہے جس کے بارے میں پوری دنیا میں کسی نے بھی کبھی نہیں سوچا اور نہ کبھی ایسا قدم اٹھایا۔
ایسا اسی وقت ممکن ہوتا ہے جب ہمارے رشیوں نے ، ہمارے منیوں نے یہ تعلیم دی ہے۔
سروے سکھینا بھونتو-سروے سنتو نرامیہ
اور یہ سروے سنتو نرامیہ اس عہد کو پورا کرنے کے لئے ہم ایک بعد ایک قدم اٹھا رہے ہیں۔ ہمیں آج اب اچاریوں کا، منیوں کا سب ماتا جی کا آشیرواد حاصل کرنے کا ، پوجیہ سوامی جی کا آشیرواد حاصل کرنے کا موقع ملا ہے۔ میں آج خود کو خوش قسمت محسوس کرتا ہوںٓ
میں پھر ایک بار اس مبارک موقع پریہاں آکر خود کو خوش قسمت محسوس کررہا ہوں۔