16.3 C
Lucknow
Online Latest News Hindi News , Bollywood News

بجلی،کوئلہ، نئی اورقابل تجدید توانائی اور کانکنی کی وزاتوں کی تین سال کی کامیابیاں اوراقدامات

Urdu News

نئی دہلی،؍جون،بجلی، کوئلہ، نئی وقابل تجدید تونائی اور کانکنی کے مرکزی وزیر مملکت (آزادانہ چارج) جنا ب پیوش گوئل نے آج نئی دہلی میں اپنی زیر نگرانی وزارتوں کی پچھلے تین سال کے دوران کامیابیوں کی تفصیلات کو اجاگر کرنے کیلئے میڈیا سے خطاب کیا۔ جناب گوئل نے ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے احمدآباد، بینگلورو، بھوبنیشور، جے پور، کولکاتا ، لکھنؤ اور پٹنہ ، 7 شہروں کے میڈیا سے بھی خطاب کیا۔

جناب گوئل نے بتایا کہ 24 گھنٹے ساتوں دن  سبھی  کو سستی اور صاف بجلی فراہم کرنے اور قومی ترقی کیلئے قدرتی وسائل کا زیادہ سے زیادہ استعمال اجوول بھارت کیلئے بہت اہم ہیں، جو جناب وزیراعظم نریندر مودی کے  ویژن ’’نیا بھارت‘‘ کو پورا کرنے میں مددگار ہوں گے۔ پچھلے تین برسوں کے دورا ن بجلی ، کوئلہ، نئی وقابل تجدید توانائی اور کانکنی کی وزارتوں نے اس مقصد کو حاصل کرنے کیلئے قابل قدر پیشرفت کی ہے۔

وزیرموصوف نے بتایا کہ کس طرح چاروں وزارتوں نے ’اجوول بھارت‘ کے مقصد کو حاصل کرنے کیلئے 6 بنیادی اصولوں پر کام کیا ہے۔ یہ اصول ہیں: سلب (قابل رسائی بجلی)، سستی (سستی بجلی)، سووچھ (صاف بجلی)، سنیوجت (اچھی طرح سے منصبوبہ بند بنیادی ڈھانچہ بھارت کے مستقبل کیلئے )، سنشچت (سب کیلئے بجلی کی یقینی فراہمی) اور سرکشت (بھارت کے ہر شہری کو شفاف حکمرانی اور ان کے مستقبل کو محفوظ بناتے ہوئے بااختیار بنانا)۔

جناب گوئل نے چار شعبوں، یعنی مرکزی حکومت، ریاستی حکومتیں، بجلی سیکٹر کے فریقین (پرائیویٹ اور سرکاری) کانکنی کے سیکٹر کے فریقین اور سرمایہ کار، صارفین اور شہریوں وغیرہ پر زور دیا کہ وہ ہر بھارتی شہری کی سیوا (خدمت) کے واحد مقصد سے ایک دوسرے کے ساتھ تال میل کے ساتھ کام کریں۔

چاروں وزارتوں کی بڑی کامیابیوں کی مختصر تفصیل بتاتے ہوئے جناب گوئل نے مندرجہ ذیل کو اجاگر کیا۔

 کوئلہ

 بجلی کیلئے کوئلے کی مناسب سپلائی اور اضافی ذخیرے کو یقینی بنانے کیلئے حکومت نے 2019-20 تک 100 کروڑ ٹن گھریلوں کوئلہ پیدا کرنے کا نشانہ مقر ر کیا ہے۔ 2014 سے اب تک تین سال میں کوئیلے کی پیداوار میں 9.2 کروڑ ٹن کا اضافہ ہوا ہے۔ یہ اضافہ 2014 سے 7 سال پہلے تک نہیں ہوا۔ 2014 میں تقریبا  دو تہائی بجلی کے پلانٹ کوئلے کی کمی سے جوجھ رہے تھے لیکن اب کوئلے کی کوئی کمی نہیں ہے۔ کوئلے کی درآمدات میں کمی کے ساتھ ساتھ ملک کو خود کفیل بنانے کے اقدام سے 25900 کروڑ روپے کا زرمبادلہ کی بچت کی گئی  ہے۔

کم کوئلے سے زیادہ بجلی کے اصول کے نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ 2016-17 میں 0.63 کلو گرام کوئلہ ایک کے ڈبلیو ایچ  بجلی بنانے کیلئے استعمال ہوتا ہے جبکہ 2013-14 میں اتنی بجلی بنانے کیلئے 0.69 کلو گرام کوئلہ استعمال ہوتا تھا۔ اس سے کوئلے کے استعمال میں 8 فیصد کی کمی کا اظہار ہوتا ہے۔ اس کی وجہ سے بجلی نہ صرف سستی ہوئی ہے بلکہ زیادہ صاف بھی ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ چار کروڑ ٹن کوئلے کی بجلی کے پلانٹوں کے قریب والی کانوں سے خریداری سے بھی تقریبا 3 ہزار کروڑ روپے کی بچت ہوئی ہے۔

بجلی

تمام ریاستوں ’’سب کیلئے بجلی‘‘ کے معاہدے پر دستخط کئے ہیں جس سے امداد باہمی پر مبنی  وفاقیت کے اصول کے تئیں حکومت کے عہد کا اظہار ہوتا ہے۔ ’’شکتی‘‘ (بھارت میں کوئلے کو نکالنے اور مختص کرنے کے شفاف عمل کی اسکیم) ایک یکسر تبدیلی والی پالیسی ہے جس میں بجلی کے پلانٹوں کے قریب کانوں کے کوئلے کی نیلامی اور الاٹمنٹ سستی بجلی، کوئلے کی سستی رسائی اور کوئلے کے الاٹمنٹ  میں جوابدہی کو یقینی بنایا جاتا ہے۔ ’’میگاپاور پالیسی‘‘ مستقبل کیلئے بجلی کی خریداری کے معاہدوں کیلئے مقابلہ جاتی نیلامی میں سہولت پیدا کر ے گی اور طویل مدتی پروجیکٹوں پر عمل کو یقینی بنائے گی۔

اپریل 2014 سے  مارچ 2017 تک روایتی بجلی میں اب تک کا سب سے بڑا 60جی ڈبلیو کا اضافہ ہوا۔  منتقلی کی صلاحیت میں تقریبا 40 فیصد کا اضافہ، اور  ٹرانسمیشن کی لائنوں میں ایک چوتھائی سے زیادہ کا اضافہ ہوا ہے۔ جبکہ کوئلے یا بجلی کی کوئی کمی نہیں ہوئی۔ ’’ایک ملک ایک گرڈ اور ایک قیمت‘‘ کی پالیسی ریاستوں کیلئے سستی شرح پر اضافی بجلی کی دستیابی سے مزید مستحکم ہوئی ہے۔ پہلی مرتبہ 2016-17 میں بھارت بجلی کا برآمدکار بن گیا ہے۔

 اودے (اجوول ڈسکام ایشورنس یوجنا) تقسیم کاری کے سیکٹر میں جامع اصلاحات کی وجہ سے بہت اچھی پیش رفت ہوئی ہے اور ڈسکام (بجلی تقسیم کرنے والی کمپنیاں) کو 2.32 لاکھ  کروڑ رورپے  کے اودے بانڈ جاری کرنے سے تقریبا 12 ہزار کروڑ روپے کی بچت ہوئی ہے۔ یہ بچت صارفین کو سستی بجلی فراہم کرنے میں مدد کرے گی۔ اصلاحات کے ذریعے بھارت عالمی بینک کی ’’بجلی کے حصول میں آسانی‘‘ کی درجہ بندی میں 2015 میں 99 ویں پوزیشن سے اٹھ کر 2017 میں 26 ویں پوزیشن پر آگیا ہے۔

حکومت پنڈت دین دیال اپادھیائے کے فلسفے ’’انتودیہ‘‘ پر کام کررہی ہے جس کا مطلب ہے کہ آخری آدمی تک پہنچنا۔ اس عظیم فلسفی، انسانیت  نواز اور قوم کے صدسالہ یوم پیدائش کے سال کو ’’غریب کلیان ورش‘‘ کے طور پر منایا جارہا ہے۔ دیہی برق کاری کی اہم اسکیم ڈی ڈی یوجی جےوائی(دین دیال اپادھیائے گرام جیوتی یوجنا) پر خصوصی توجہ دی جارہی ہے۔ ایسے 18452 گاؤوں میں سے، جن میں بجلی نہیں ہے (اپریل2015 تک) 4 ہزار سے بھی ایسے گاؤوں باقی بچیں گے جن میں  2018 تک بجلی  نہ پہنچائی جاسکے۔ نہ صرف ہر گاؤں میں بلکہ ہر گھر میں بجلی کی فراہمی کو یقینی بنانے کیلئے حکومت نے 2022 تک ہر گھر کو بجلی فراہم کرنے کا ہدف مقرر کیا ہے۔ ریاستوں کے ذریعے فراہم کئے گئے  اعداد وشمار کے مطابق تقریباً 4.5 کروڑ  مکانوں میں بجلی نہیں ہے۔

بھارت کو توانائی کے زیادہ استعمال کے اقدامات کیلئے عالمی سطح پر  تسلیم کیا گیا ہے۔ اجالہ کے تحت 23 کروڑ سے زیادہ ایل ای  ڈی بلب تقسیم کئے جاچکے ہیں جس سے 12400 کروڑ روپے کی بجلی بچائی گئی ہے اور سالانہ 2.5 ٹن کروڑ مضر گیسوں کے اخراج میں کمی ہوئی ہے۔

نئی اور قابل تجدید توانائی

جیسا کہ بھارت کے وزیراعظم نے اعلان کیا ہے، بھارت ماحولیات کےتحفظ کے تئیں مکمل طور پر عہد بستہ ہے جو ہمارے لئے عقیدتے کی حیثیت رکھتا ہے۔ 2016-17 میں بھارت نے 2022 تک 175 جی ڈبلیو قابل تجدید توانائی حاصل کرنے کے ایک اہم سنگ میل طے کیا ہے۔ مقابلہ جاتی نیلامی کا طریقہ متعارف کراکے حکومت نے اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ قابل تجدید توانائی سستی اور صارفین کیلئے  پسندیدہ ہوسکتی ہے۔ 2016-17 میں شمسی توانائی (2.44 روپے) اور بادی (3.46 روپے) توانائی کی سب سے  کم  قیمت رہی۔2016-17 میں ایک اور زبردست پیش رفت ہوئی ہے  اور یہ  اس سال قابل تجدید توانائی میں صلاحیت میں اضافہ روایتی توانائی میں اضافے سے کافی زیادہ رہا۔ پچھے سال بھی سمشی اور بادی توانائی میں سب سے زیادہ اضافہ ہوا۔

کانکنی

ٹھوس پالیسی اور ٹیکنالوجی کے اشتراک سے حکومت نے کانکنی کے سیکٹر میں شفافیت پیدا کرنے اور  قدرتی وسائل کے سب سے بہتر استعمال کو یقینی بنانے کا ایک منصوبہ شروع کیا ہے۔ معدنیات کی تلاش کی قومی پالیسی 2016 کا مقصد نیشنل ایرو جیو فزیکل  میپنگ پروجیکٹ کے ذریعے تلاش کی کارروائی کو تیز کرنا ہے جس میں 2019 تک 27 لاکھ لائن کلو میٹر ایروجیو فیزیکل اعدادوشمار حاصل کئے جائیں گے جبکہ پچھلے 30 برسوں میں 7 لائن کلو میٹر حاصل کئے گئے تھے۔ 24 معدنی بلاکس کی شفاف طریقے سے نیلامی سے کانوں کی پٹے کی مدت کے علاوہ ریاستوں کو ایک لاکھ کروڑ روپے کا اضافی روینیو حاصل ہوگا۔ خلائی ٹیکنالوجی کے استعمال کے ذریعے کانکنی کی نگرا نی کا نظام (ایم ایس ایس) غیر قانونی کانکنی پر روک لگانے کیلئے ایک خفیہ آنکھ کے طور پر کام کرتی ہے۔

اس بات کو یقینی بنانے کیلئے  کانکنی کی سرگرمیوں کے فوائد سے متاثرہ لوگوں کو فائدہ حاصل ہو، حکومت نے پردھان منتری کھنیج شیتر کلیان یوجنا شروع کی ہے جس کے تحت معدنیات سے مالا مال بارہ ریاستوں میں گیاری کا احاطہ کیا جاچکا ہے۔ پی ایم کے کے کے وائی کے تحت ڈسٹرکٹ منرل فاؤنڈیشن (ڈی ایم ایف) نے 2016-17 میں کانکنی کے ذریعے 7150 کروڑ روپے جمع کئے ہیں جنہیں  کانکنی سے متاثرہ افراد کی تعلیمی، صحت اور  فلاحی اقدامات میں خرچ کیا جائے گا۔

موبائل ایپ کے ذریعے جوابدہی اور شفافیت

حکومت ، ’’صارف ہی کنگ ہے‘‘ کے نظریئے کے ساتھ شفافیت اور جواب دہی کے اعلی ترین معیار کے ساتھ کام کررہی ہے۔ مختلف محکموں اور اسکیموں پر عمل درآمد کا پتہ لگانے کیلئے کئی ایپ شروع کی گئی ہیں جن کا مقصد شفافیت قائم رکھنا ہے۔ پچھلے سال جن نئی ایپ کا آغاز کیا گیا ہے ان میں اورجا، آئی پی ڈی ایس، ترنگ، اور اورجا متر شامل ہیں۔

 اس موقع پر موجود دیگر شخصیتوں میں بجلی کے سکریٹری پی کے پجاری، کوئلے کے سکریٹری سشیل کمار، کانکنی کے سکریٹری جناب ارون کمار، اور  وزارتوں اور سرکار کی کمپنیوں کے دیگر سینئر عہدیدار شامل ہیں۔

Related posts

Leave a Comment

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More