16.3 C
Lucknow
Online Latest News Hindi News , Bollywood News

بجٹ کااجمالی جائزہ 19۔2018

Urdu News

حکومت کہتی ہے کہ وہ، مینوفیکچرنگ، خدمات اور برآمدات کے ترقی پذیر ہونے کی بنیاد پر  پوری مضبوطی سے 8 فیصد کی نمو کے حصول کی جانب بڑھ رہی ہے۔ایک طرف مجموعی گھریلو پیداوار نمو 18۔2017 کی دوسری سہ ماہی کے دوران 6.3 فیصد رہی ہے جس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ معیشت  ترقی کے راستے پر آگے بڑھ رہی ہے، دوسری ششماہی میں حاصل ہوئی نمو 7.2 فیصد سے 7.5 فیصد کے درمیان رہنے کی توقع ہے۔  خزانہ اور کمپنی امور کے وزیر جناب ارون جیٹلی نے آج پارلیمنٹ میں 19۔2018 کا عام بجٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کا معاشرہ، سیاست اور معیشت  تینوں نے ڈھانچہ جاتی اصلاحات کے تئیں اچھی لچک کا مظاہرہ کیا ہے۔ اپنے حالیہ تازہ ترین جائزے میں یہ بات بھی پیش کی ہے کہ بھارت آئندہ آنے والے وقت میں آٹھ فیصد سے زائد کی خدمات کی بحالی، برآمدات میں اضافے جو 18۔2017میں 15 فیصد کے بقدر رہے ہیں اور مینوفیکچرنگ کے  بہتر راستے پر بحال ہونے کے ساتھ 7.4 فیصد کی شرح نمو حاصل کرے گا۔

بھارت کے عوام سے 4 سال قبل اس ملک کو ایک ایماندار صاف و شفاف حکومت فراہم کرنے  اور ایک مضبوط اور پراعتماد  نیا بھارت تعمیر کرنے کے اپنے عہد کو دہراتے ہوئے، جناب جیٹلی نے کہا کہ وزیراعظم جناب نریندر مودی کی قیادت میں  حکومت نے  بڑی کامیابی سے بھارت کو دنیا کی تیز رفتار  سے ترقی کرتی ہوئی معیشتوں کی صف تک پہنچانے کے لئے متعدد بنیادی ڈھانچہ اصلاحات کی ہیں۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ حکومت نے ایسے پروگرام شروع کئے ہیں جو ڈھانچہ جاتی تبدیلیوں کے فوائد اور اچھی نمو کے نفع کو، کاشتکاروں، ناداروں اور دیگر کمزور طبقات تک پہنچائیں گے اور  نسبتاً کم ترقی یافتہ خطوں کو ترقی سے ہمکنار کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ اس سال کا بجٹ ان فوائد خصوصاً زراعت اور معیشت کے استحکام کو مضبوط اور مستحکم بنانے پر توجہ مرکوز کرے گا، اقتصادی لحاظ سے کمزور طبقات کے لئے اچھی حفظان صحت کی خدمات فراہم کرے گا، معمر شہریوں کا خیال رکھے گا، بنیادی ڈھانچے کی تخلیق کرے گا اور ریاستوں کے ساتھ مل جل کر اس انداز میں کام کرے گا کہ ملک میں تعلیم کے معیار کو بہتر بنانے کے لئے مزید وسائل حاصل ہوسکیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے اس امر کو یقینی بنایا ہے کہ  فوائد مستحق استفادہ کنندگا ن تک ہر حال میں پہنچ سکیں، براہ راست پہنچیں اور بھارت کا براہ راست استفادہ  منتقلی میکانزم اپنے آپ میں دنیا کا ایک بہت بڑا عمل ہے اور ایک عالمی کامیابی کی داستان بھی ہے۔

زرعی اور دیہی معیشت

 کاشتکاروں کی فلاح و بہبود کے تئیں حکومت کی عہد بندگی کا حوالہ دیتے ہوئے اور 2022 تک کاشتکاروں کی آمدنی بڑھاکر دوگنا کرنے کا ذکر کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے  نئی اسکیموں اور اقدامات کی ایک فہرست کا اعلان کیا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ تمام تر غیر اعلان شدہ خریف کی فصلوں کی کم از کم امدادی قیمتیں ان کی پیداواری لاگت کی ڈیڑھ گنا ضرور ہوں اور ان کا اعلان ربیع کی بیشتر فصلوں کی انداز میں ہی کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ  زرعی شعبے کے لئے سال بہ سال ادارہ جاتی قرض جو 15۔2014 میں محض 8.5 لاکھ روپے کے بقدر تھا، 18۔2017 میں بڑھ کر 10 لاکھ کروڑ کے بقدر ہوگیا ہے اور ان کی تجویز یہ ہے کہ 19۔2018 میں  دوران اسے بڑھاکر 11 لاکھ کروڑ روپے کے بقدر کردیا جائے۔ ڈیری بنیادی ڈھانچہ فنڈ کے قیام کے بعد جناب جیٹلی نے اعلان کیا کہ  ماہی گیری کے شعبے اور مویشی پالن بنیادی ڈھانچہ ترقیات فنڈ کے سلسلے میں ماہی پروری اور دیگر آبی جانوروں کی پرورش سے متعلق بنیادی ڈھانچہ فنڈ قائم کیا جائے گا تاکہ مویشی پالن کے شعبے میں بنیادی ڈھانچہ ضروریات کے لئے سرمایہ فراہم کرایا جاسکے اور یہ فنڈ مذکورہ دونوں نئے فنڈ کے ساتھ 10 ہزار کروڑ روپے کے بقدر کا ہوگا۔ ’’آپریشن فَلڈ‘‘ کے طرز پر ایک نئی اسکیم ’’آپریشن گرینس‘‘ کا اعلان کیا گیا جس کا تخمینہ جاتی سرمایہ 500 کروڑ روپے کے بقدر ہوگا اور یہ فنڈ جلدی خراب ہوجانے والی اشیا مثلاً ٹماٹر، پیاز اور آلو وغیرہ کے سلسلے میں قیمتوں کے اچھال وغیرہ کے سلسلے میں مدد دیگا اور  کاشتکاروں اور صارفین دونوں کے لئے تسلی کا باعث ہوگا۔ وزیر موصوف نے یہ بھی اعلان کیا کہ موجودہ 22 ہزار دیہی  ہاٹوں کو بہتر بناکر ان کا درجہ بلند کرکے انہیں  گرامین زرعی مارکیٹوں (جی آر اے ایم ایس) کی شکل دی جائے تاکہ یہ منڈیاں 86 فیصد سے زائد چھوٹے اور حاشئے پر رہنے والے کاشتکاروں کی ضروریات کی تکمیل کرسکیں۔ یہ گرامین زرعی منڈیاں الیکٹرانک طور پر ای۔ نام سے مربوط ہوں گی اور ان پر اے پی ایم سی کے قواعد نافذ نہیں ہوں گے ساتھ ہی یہ منڈیاں کاشتکاروں کو یہ سہولت بھی فراہم کریں گی کہ وہ صارفین اور بڑی مقدار میں خریداری کرنے والوں کو براہ راست اپنی چیزیں فروخت کرسکیں۔ اس کے علاوہ زرعی مارکیٹ بنیادی ڈھانچہ فنڈ 2000 کروڑ روپے کے سرمائے سے قائم کیا جائے گا تاکہ 22 ہزار گرامین زرعی منڈیوں اور 585 ایم پی ایم سی اداروں میں  زرعی مارکیٹنگ بنیادی ڈھانچے کی ترقی عمل میں لائی جاسکے۔ انہوں نے کہا کہ اب تک 470 اے پی ایم سی  اداروں کو ای۔ نام نیٹ ورک سے مربوط کیا جاچکا ہے اور بقیہ کو مارچ 2018 تک مربوط کردیا جائے گا۔ جناب جیٹلی نے اعلان کیا کہ اعلی ترین خصوصی طبی اور خوشبوجاتی پودوں کی کاشت کے لئے 200 کروڑ روپے فراہم کرائے گئے ہیں اور کہا کہ فارمر پروڈیوسرآرگنائزیشنوں اور گاؤں کی سطح پرفصل تیار کرنے والوں کے اداروں کے ذریعے کی جانے والی نامیاتی کاشت بڑے پیمانے پر کلسٹر کی شکل میں کی جائے گی۔ ترجیحاتی طور پر ایک ہزار ہیکٹیئر میں اس طرح کی کاشت کی حوصلہ افزائی کی جائے گی۔ اسی طریقے سے خوراک ڈبہ بندی کی وزارت کو کی جانے والی تخصیص 18۔2017 کی 715 کروڑ روپے کی رقم کے مقابلے میں بڑھاکر 19۔2018 میں میں 1400 کروڑ روپے کردی گئی ہے۔ بانس کو ’سبز سونا‘ قرار دیتے ہوئے، وزیر خزانہ نے  ایک ازسرنو تشکیل شدہ قومی بانس مشن کا اعلان 1290 کروڑ روپے کے سرمائے کے ساتھ کیا تاکہ بانس کے شعبے میں مجموعی طریقے سے ترقیاتی کام عمل میں آسکیں۔ پردھان منتری کی کرشی سینچائی یوجنا۔ ہر کھیت کو پانی کے تحت، ایسے 96  ناکافی آبپاشی کی سہولت والے اضلاع کو 2600 کروڑ روپے کی تخصیص کے ساتھ زیر توجہ لایا جائے گا۔ مرکزی حکومت، ریاستی حکومت کے ساتھ مل کر کاشت کاروں کو  سمشی آبی پمپ لگانے کے کام میں سہولت فراہم کرے گی تاکہ اس کی مدد سے وہ اپنے کھیتوں کی سینچائی کرسکیں۔ انہوں نے کسان کریڈٹ کارڈ کی سہولت کو ماہی پروری اور مویشی پالن میں مصروف کاشت کاروں کے لئے بھی فراہم کرانے کی وکالت کی تاکہ وہ  کام کاج کے لئے درکار سرمایہ حاصل کرسکیں۔ جناب جیٹلی نے کہا کہ بھارت کی زرعی برآمدات مضمرات موجودہ 30 بلین امریکی ڈالر کے برخلاف 100 بلین امریکی ڈالر کے بقدر ہیں اور اس طرح کی مضمرات کو بروئے کار لانے کے لئے زرعی اشیا کے برآمدات کے عمل کو لچیلا بنایا جائے گا۔ انہوں نے یہ تجویز بھی رکھی کہ  تمام 42 میگا فوڈ پارکوں میں جدید ترین قسم کی آزمائشی سہولتیں فراہم کرائی جائیں۔ انہوں نے ہریانہ، پنجاب، اترپردیش اور قومی خطہ راجدھانی دلی کی حکومتوں کی جانب سے کی جانے والی کوششوں میں تعاون دینے کے لئے ایک خصوصی اسکیم کا بھی اعلان کیا جس کا تعلق دلی اور قومی خطہ راجدھانی میں ہوائی کثافت کو کم کرنے سے ہے اور اس کے لئے  فصلوں کے باقیات کو ٹھکانے لگانے کے لئے درکار مشینری سستے داموں پر فراہم کرائی جائے گی۔

اپنی مدد آپ کرنے والے خواتین کے گروپوں کو فراہم کرائے جانے والے قرضوں کے سلسلے میں وزیر خزانہ نے کہا کہ 17۔2016 میں یہ رقم 42500 کروڑ روپے کے بقدر تھی اور گزشتہ برس اس میں 37 فیصد کا اضافہ کیا گیا ہے۔ انہوں نے توقع ظاہر کی کہ سیلف ہیلپ گروپوں کو دیئے جانے والے قرض مارچ 2019 تک بڑھ کر 75000 کروڑ روپے کے بقدر ہوجائیں گے۔ انہوں نے قومی دیہی روزی روٹی مشن کے تحت کی جانے والی تخصیص میں بھی خاطر خواہ اضافہ کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ 19۔2018 میں یہ تخصیص 5750 کروڑ روپے کے بقدر ہوگی۔

نچلے اور متوسط طبقے کے سلسلے میں فائدہ پہنچانے کے اقدامات کا حوالہ دیتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ اجوولا اسکیم کے تحت 8 کروڑ غریب خواتین کو  مفت ایل پی جی کنکشن فراہم کرائے جائیں گے جبکہ پہلے یہ نشانہ 5 کروڑ خواتین تک محدود تھا۔ سوبھاگیہ یوجنا کے تحت  چار کروڑ کنبوں کو 16000 کروڑ روپے کےتخمینہ جاتی اخراجات سے بجلی کنکشن فراہم کرائے جارہے ہیں۔2022تک سب کے لئے گھروں کی ضرورت پوری کرنے کے لئے دیہی علاقوں میں 2019 تک ایک کروڑ سے زائد گھر تعمیر کئے جائیں گے۔ ان کے علاوہ سووچھ بھارت مشن کے تحت 6 کروڑ بیت  الخلا قبل ہی تعمیر کئے جاچکے ہیں۔

جناب جیٹلی نے زور دیکرکہاکہ آئندہ برس حکومت کی توجہ ذریعہ معاش، زراعت اور متعلقہ سرگرمیاں، نیز دیہی بنیادی ڈھانچے کی تعمیر پر زیادہ خرچ کرکے دیہی علاقوں میں ذریعہ معاش کے زیادہ سے زیادہ مواقع فراہم کرانے پر مرکوز رہے گی۔ انہوں نے کہا کہ سال 19-2018  کے دوران دیہی علاقوں میں ذریعہ معاش اور بنیادی   ڈھانچے کی تعمیر کیلئے وزارت کے ذریعے کُل 14.34 لاکھ کروڑ روپئے خرچ کیے جائیں گے جن میں اضافی بجٹی اور غیر بجٹی وسائل کا 11.98 لاکھ کروڑ روپئے شامل ہوگا۔ زرعی سرگرمیوں اوراپنے روزگار کی وجہ سے روزگار کے مواقع پیدا ہونے کے علاوہ یہ رقم 3321 کروڑ  افرادی دن  کے روزگار ، 3.17 کلو میٹر دیہی سڑکوں ، 51 لاکھ نئے دیہی گھروں، 1.88کروڑ بیت الخلاء اور 1.75 کروڑ  نئے گھروں کی برق کاری کی وجہ سے روزگار کے علاوہ زرعی ترقی کو فروغ حاصل ہوگا۔

تعلیم، صحت اور سماجی تحفظ

وزیر خزانہ نے کہا کہ سال 19-2018 کے لئے صحت، تعلیم اور سماجی تحفظ پر 1.38 لاکھ کروڑ روپئے کے تخمیناً بجٹی اخراجات کے مقابلے میں 18-2017 کے دوران 1.22 لاکھ کروڑ روپئے کا تخمینی خرچ ہوا تھا۔

تعلیم کےمحاذ پر جناب جیٹلی نے قبائلی فرقے سے تعلق  رکھنے والے بچوں کو 2022 تک ان کے اپنے ماحول میں ہر ایک بلاک میں جہاں ایس ٹی آبادی 50 فیصد سے زیادہ ہے اوریہاں کم از کم 20  ہزار قبائلی افراد رہتے ہیں ان کے مقامی  فن اور تہذیب ووراثت کے تحفظ کے لئے خصوصی سہولیات کے علاوہ انہیں کھیل کود اور ہنرمندی کے فروغ کے لئے بہتر معیاری تعلیم فراہم کرانے نوودے ودیالیہ کی طرح ہی اکلوو ماڈل رہائشی اسکول قائم کرنے کا اعلان کیا۔ اعلیٰ تعلیمی اداروں میں صحت سے متعلق اداروں سمیت تحقیق وترقی سے متعلق بنیادی  ڈھانچے میں سرمایہ کاری کیلئے آئندہ چار برسوں کے دوران ایک لاکھ کروڑ روپئے کی سرمایہ کاری کے ساتھ 2022 تک تعلیم میں بنیادی ڈھانچے اور نظام کو متحرک کرنے (آر آئی ایس ای) نام کے اہم پہل میں سرمایہ کاری کااعلان کیا۔ انہوں نے کہا کہ زمینی سطح پر صورتحال کاجائزہ  لینےکیلئے 20  لاکھ سے زائد بچوں کاسروے کرایا گیا ہے جس  سے تعلیم کے معیار کو بہتر بنانے کے غرض سے ہر  ایک ضلع کے اعتبار سے حکمت عملی وضع کرنے میں مدد ملے گی۔ اساتذہ کیلئے ان کے معیار کو بہتر بنانے کی غرض سے اساتذہ کیلئے مربوط بی ایڈ پروگرام شروع کیا جائیگا۔ جناب جیٹلی نے کہا کہ حکومت اس سال ‘‘پردھان منتری ریسرچ فیلو (پی ایم آر ایف)’’ اسکیم شروع ہوگی۔ اس اسکیم  کے تحت ایک ہزار بی ٹیک کے بہترین طلباء کی شناخت کی جائے گی اور انہیں آئی آئی ٹی اور آئی آئی ایس  سی میں اچھے فیلو شپ کے ساتھ پی ایچ ڈی کرنے کی سہولت فراہم کی جائے گی۔ اس  سال قومی  سماجی امداد پروگرام کیلئے 9975 کروڑ روپئے مختص کیے گئے ہیں۔

وزیر خزانہ نے اعلان کیا کہ دنیا  کی سب سے بڑی حکومت فی کنبہ ، ثانوی اور تیسری درجے کے اسپتال  میں دیکھ بھال کے لئے سالانہ 5 لاکھ روپئے تک کی امداد فراہم کرکے 10 کروڑ سے زائد غریب اور  آسانی سے شکار بننے والوں کیلئے قومی صحت تحفظ اسکیم نام کے صحت کی دیکھ بھال  پروگرام کےلئے سرمایہ فراہم کرتاہے۔ انہوں نے کہا کہ 2017 میں قومی صحت پالیسی کے تحت 1200 کروڑ روپئے دیے تھے ، جس میں  1.5  لاکھ  صحت اور تندرستی مراکز قائم  کئے جائیں گے جو کہ لوگوں کے گھروں کے قریب ہوں گے۔ حکومت نے تپ دق کے مریضوں کو ان  کے علاج کی مدت کے دوران ماہانہ 500 روپئے کے حساب تغذیاتی امداد فراہم کرانے کی غرض سے اضافی 600 کروڑ روپئے مختص کرنے کا فیصلہ لیا تھا۔ جناب جیٹلی نے کہا کہ حکومت ملک کے ضلع اسپتالوں کو تا حال بناکر 24 نئےسرکاری میڈیکل کالج اور اسپتال قائم کرے گی۔

گنگا کی صفائی کے   موضوع پر وزیر خزانہ نے کہا کہ نمامی گنگے پروگرام  کے تحت بنیادی ڈھانچے کی ترقی ، صفائی ستھرائی اور دیگر مداخلتوں کیلئے 16713 کروڑ روپئے کی لاگت سے کُل 187 پروجیکٹوں کو منظوری دی گئی ہے۔ 47 پروجیکٹ مکمل ہوگئے ہیں اور باقی پروجیکٹ تکمیل  کے مختلف مراحل میں ہیں۔ کُل 4465 گنگا گراموں- گاؤں  کو کھلے میں رفع حاجت سے پاک قرار دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے ترقیات مختلف اشاروں  کی  بنیاد پر 115 اضلاع کو ترقی کا نمونہ ضلع بنانے کیلئے منتخب کیا ہے۔

متوسط، چھوٹی اور بہت چھوٹی صنعتیں (ایم ایس ایم ای) اور روزگار

بجٹ میں روزگار اور معاشی ترقی کو فروغ دینے کے لئے متوسط، چھوٹی اور بہت چھوٹی صنعتوں (ایم ایس ایم ای) پر بڑا زور دیا گیا ہے۔ قرض امداد ، سرمایہ اور سود سبسیڈی دینے اور اختراعاتکے لئے 3794 کروڑ روپئے فراہم  کئے گئے ہیں۔ اپریل 2015 میں شروع کئے گئے مدرا یوجنا کے ننتیجے میں 10.38 کروڑ مدرا قرضوں میں سے قرض میں 4.6 لاکھ کروڑ روپئے کی منظوری ملی ہے۔ 76 فیصد قرض کھاتے خواتین کے ہیں ا ور ان میں 50 فییصد سے زائد کاا تعلق درج فہرست ذاتوں، درج فہرست قبائل اور دیگر پسماندہ طبقات سے ہے۔ تمام پچھلے سالوں میں کامیاب طور پر اہداف سے تجاوز کرجانے کے بعد اب یہ تجویز پیش کی گئی ہے کہ 19-2018 کے لیے مدرا کے تحت قرض دینے کے لیے تین لاکھ کروڑ کا ہدف مقرر کیا جائے۔

روزگار کی پیداوار

اپنی اس بات کو دہراتے ہوئے کہ ملازمت کے مواقع کا پیدا کرنا سرکاری پالیسیوں کا بنیادی حصہ ہے، وزیر خزانہ نے آزادانہ طور پر کئے گئے ایک مطالعہ کا تذکرہ کیا جس میں دکھایا گیا ہے کہ اس سال 70 لاکھ رسمی ملازمتیں پیدا کی جائیں گی۔ روزگار کی پیداوار کو فروغ دینے کے لیے گزشتہ تین برسوں میں کئے گئے اقدامات کا ذکرکرتے ہوئے جناب جیٹلی نے اعلان کیا کہ حکومت اگلے تین برسوں کے لیے تمام شعبوں کے لیے ای پی ایف میں نئے ملازمین کی تنخواہوں میں 12 فیصد کی اپنی حصہ داری ادا کرے گی۔ بجٹ میں 2016 میں 6000 کروڑ روپئے کے مقابلے 19-2018 میں ٹیکسٹائل شعبہ کے لیے 7148 کروڑ روپئےے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔

بنیادی  ڈھانچہ اور مالیاتی شعبہ کی ترقی

اس بات پر زور دییتے ہوئے کہ بنیادی ڈھانچہ معیشت کی ترقی کا اصل محرک ہے، وزیر خزانہ نے تخمینہ لگایا کہ جی ڈی پی کی ترقی میں اضافہ اور ملک کو سڑکوں، ہوائی اڈوں، ریلویز، بندرگاہوں اور آبی گزرگاہوں سے جوڑنے کے لیے 50 لاکھ کروڑ کی اضافی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ انہوں نے 18-2017 میں 4.94 لاکھ تخمینہ شدہ اخراجات کے مقابلہ سال 19-2018 کے لئے بنیادی ڈھانچہ پر 5.97 لاکھ کروڑ بجٹ مختص کرنے کا اعلان کیا ہے۔

حکومت نے  ریل اور روڈ شعبے کے لیے جو رقم مختص کی ہے وہ اب تک اس مد میں مختص کی گئی سب سے زیادہ رقم ہے اور حکومت عوامی سہولتوں کے شعبے میں سرمایہ کاری میں مزید اضافہ کرنے کے  تئیں پابند عہد ہے۔ وزیراعظم بذات خود مستقل طور پر مقررہ اہداف اور بنیادی ڈھانچے کے شعبوں میں حاصل کی گئی کامیابیوں کا جائزہ لیتے رہتے ہیں۔ صرف آن لائن نگرانی نظام ‘پرگتی’ کے ذریعے ہی 9.46 لاکھ کروڑ روپے کے پروجیکٹوں کا آغاز کیا گیا ہے اور انہیں رفتار دی گئی ہے۔

سیاحت کو مزید فروغ دینے کے لیے بجٹ میں ایک جامع نقطۂ نظر  اپناتے ہوئے دس معروف و اہم سیاحتی مقامات کو مثالی سیاحتی مراکز کی شکل میں ترقی دینے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔ سیاحت کے فروغ کے لیے جس جامع نقطۂ نظر کی بات کہی گئی ہے اس میں بنیادی ڈھانچہ اور ہنرمندی کا فروغ ، ٹیکنالوجی کا فروغ ، نجی سرمایہ کاری کو راغب کرنا، برانڈنگ اور مارکیٹنگ شامل ہیں۔

بھارت مالا پری یوجنا کے تحت پہلے مرحلے میں تقریباً 5,35,000 کروڑ روپے کی تخمینہ لاگت سے تقریباً 35000 کلومیٹر سڑکوں کی تعمیر کو منظوری دی گئی ہے۔

ریلویز

سال 19-2018 کے لیے ریلوے کے سرمایہ جاتی خرچے میں زبردست اضافہ کرتے ہوئے اسے 1,48,528  کروڑ روپے کر دیا گیا ہے۔ سرمایہ جاتی خرچ کا ایک بڑا حصہ صلاحیت سازی کے لیے مخصوص کیا گیا ہے۔ 18-2017 کے دوران 4000 کلو میٹر برق کاری سے آراستہ ریلوے نیٹ ورک کا آغاز کیا جانا ہے۔ مال برداری کے لیے مخصوص مشرقی اور مغربی گلیارے کی تعمیر کا کام تیزی سے جاری ہے۔ رولنگ اسٹاک – 12000 ویگنس ، کی خاطر خواہ تعداد ، 5160 کوچوں اور تقریباً 700 لوکوموٹیو کی خریداری 19-2018 کے دوران کی جانی ہے۔ رواں مالی سال کے دوران 3600 کلومیٹر سے زیادہ طویل ٹریک کے رینیول (تجدید) کا ہدف ہے۔ 600 اہم ریلوے اسٹیشنوں کی از سر نو ترقی کا کام کیا جا رہا ہے۔

ممبئی کے لوکل ٹرین نیٹ ورک میں 11,000 کروڑ سے زیادہ کی لاگت سے 90 کلومیٹر ٹریک کو ڈبل لائن والا بنایا جائے گا۔  40 ہزار کروڑ روپے سے زیادہ کی لاگت سے 150 کلومیٹر اضافی مضافاتی نیٹ ورک کی تیاری کا منصوبہ ہے، جس میں کچھ سیکشنوں پر ایلیویٹڈ کوریڈور کی تعمیر بھی شامل ہے۔ بینگلورو میٹرو پولس کی ترقیاتی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے 17000 کروڑ روپے کی لاگت سے تقریباً 160 کلومیٹر مضافاتی نیٹ ورک کی تیاری کا منصوبہ بنایا  جا رہا ہے۔

ہوائی نقل و حمل

ایک نئی مہم – این اے بی ایچ نرمان،  کے تحت ایک سال میں لاکھوں پھیروں کا انتظام کرنے کے لیے ہوائی اڈوں کی صلاحیت میں پانچ گنا سے زیادہ کی توسیع کیے جانے کی تجویز بجٹ میں پیش کی گئی ہے۔ گزشتہ سال حکومت کے ذریعے علاقائی کنکٹیویٹی اسکیم ، اڑان (یو ڈی اے این – اڑے دیش کا عام ناگرک) کے تحت 56 بغیر استعمال والے ہوائی اڈوں اور 31 بغیر استعمال والے ہیلی پیڈوں کو جوڑا جائے گا۔

مالیات

بانڈ بازار سے فنڈز حاصل کرنے  کے عمل کی حوصلہ افزائی کے لیے ، وزیر خزانہ نے انضباطی اداروں سے اپیل کی ہے کہ وہ سرمایہ کاری کے لیے ‘اے اے’ گریڈ کی درجہ بندی کو کم کر کے  ‘اے’  گریڈ کر دیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت ہندوستان میں انٹرنیشنل فائننس سروس سینٹر (آئی ایف ایس سی) کے زمرے میں آنے والی سبھی مالی خدمات کو منضبط کرنے کے لیے ایک متحدہ اتھارٹی قائم کرے گی۔

ڈیجیٹل معیشت

وزیر خزانہ نے کہا کہ نیتی آیوگ مصنوعی ذہانت کی سمت میں بڑھنے کے لیے کوششیں کرنے کی خاطر ایک قومی پروگرام کا آغاز کرے گا۔

سائنس و ٹکنالوجی کا محکمہ سائبر فیزیکل سسٹمز سے متعلق ایک مشن کا آغاز کرے گا۔ اس کا مقصد روبوٹکس ، مصنوعی ذہانت ، ڈیجیٹل مینوفیکچرنگ ، بگ ڈیٹا اینالیسس ، کوانٹم کمیونکیشن اور انٹرنیٹ آف تھنگس  کے شعبوں میں تحقیق ، تربیت اور فروغ ہنر مندی کے لیے ممتاز اداروں کے قیام میں تعاون دینا ہے۔بجٹ میں ڈیجیٹل انڈیا پروگرام کے لیے مختص کی جانے والی رقم  دو گنی کر کے  19-2018  کے لیے 3073 کروڑ روپے کر دی گئی ہے۔

گاوؤں میں براڈ بینڈ کی  رسائی میں اضافہ کرنے کے لیے حکومت کی تجویز پانچ لاکھ وائی فائی ہاٹ اسپاٹس قائم کرنے کی ہے تاکہ پانچ کروڑ دیہی شہریوں کو نیٹ کنکٹویٹی دستیاب کرائی جا سکے۔ وزیرخزانہ نے 19-2018 میں ٹیلی کام بنیادی ڈھانچے کی تخلیق اور اضافے کے لیے دس ہزار کروڑ روپے مختص کیے ہیں۔

دفاع

سکیورٹی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے مسلح افواج کے ذریعے دی جانے والی قربانیوں کا اعتراف کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے دو دفاعی صنعتی پیداواری گلیاروں کے فروغ کی تجویز رکھی ہے۔

جناب جیٹلی نے اعلان کیا کہ آدھار کی طرز پر ملک میں ہر انفرادی کمپنی کو ایک شناختی نمبر /کارڈ جاری کرنے کے لیے ایک اسکیم شروع کی جائے گی۔
سرمایہ کشی

وزیر خزانہ نے اعلان کیا کہ 18-2017 میں سرمایہ کشی کا جو 72,500کروڑ روپے کا ہدف مقرر کیا گیا تھا ، اس سے زیادہ سرمایہ کشی ہو چکی ہے اور توقع ہے کہ اس سے ایک لاکھ کروڑ روپے حاصل ہوں گے۔ انہوں نے 19-2018 میں 80 ہزار کروڑ روپے کی سرمایہ کشی کا ہدف مقرر کیا ہے۔

سرکاری شعبے کی تین انشورنس کمپنیوں ، نیشنل انشورنس کمپنی لمیٹڈ ، یونائیٹڈ انڈیا ایشیورینس کمپنی لمیٹڈ  اور اورینٹل انڈیا انشورنس کمپنی لمیٹڈ کو ضم کر کے ایک انشورنس کمپنی کی شکل دی جائے گی۔

وزیر خزانہ نے اعلان کیا کہ سونے کو اثاثے کے ایک زمرے کے طور پر فروغ دینے کے لیے ایک جامع گولڈ پالیسی وضع کی جائے گی۔

حکومت ملک میں صارف دوست نظام قائم کرنے کے علاوہ سونا کے تبادلے کے لئے مناسب تجارتی ماحول بھی قائم کرے گی۔ علاوہ ازیں سونا سے مالی فائدہ اٹھانے کی اسکیم میں مزید بہتری لائی جائے گی، تاکہ لوگ بغیر پریشانی کے گولڈ ڈپازٹ اکاؤنٹ کھول سکیں۔

بجٹ میں صدر جمہوریہ کے لئے 5 لاکھ روپئے ماہانہ مشاہرہ، نائب صدر جمہوریہ کے لئے 4 لاکھ روپئے ماہانہ مشاہرہ، جبکہ گورنروں کے لئے 3.5 لاکھ روپئے ماہانہ مشاہرہ کی تجویز ہے۔ ان تنخواہوں پر پچھلی مرتبہ 2006میں نظرثانی کی گئی تھی۔

اراکین پارلیمنٹ کو دی جانے والی تنخواہوں سے متعلق وزیر خزانہ نے کہا کہ یکم اپریل 2018 کی تاریخ سے ان کی تنخواہوں اور بھتوں کا پھر سے تعین کرنے کے لئے ضروری تبدیلی کرنے کی تجویز ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس قانون کے تحت مہنگائی کے مدنظر ہر پانچ سال میں ایک مرتبہ ان مشاہروں پر خودکار طریقے سے نظرثانی کی جائے گی۔ انھوں نے امید ظاہر کی ہے کہ معزز اراکین پارلیمنٹ اس اقدام کی پذیرائی کریں گے۔

2 اکتوبر 2019 سے بابائے قوم مہاتما گاندھی کی 150 ویں سال گرہ منانے کے لئے اس بجٹ میں یادگاری پروگرام سے متعلق مختلف سرگرمیوں کے انعقاد کے لئے 150 کروڑ روپئے  مختصر کئے گئے ہیں۔

مالی بندوبست

مالی سال 2017-18 کے دوران کل خرچ کے لئے 21.47 لاکھ کروڑ روپئے کے  بجٹ تخمینہ کے مقابلے بجٹ نظر ثانی تخمینہ 21.57 لاکھ کروڑ روپئے (ریاستوں کو جی ایس ٹی کے تحت دی جانے والی مجموعی رقم) ہے۔ مالی خسارہ کو کم کرنے اور مالی استحکام  کے راستے پر چلنے کے حکومت کے عزم کو جاری رکھتے ہوئے وزیر خزانہ نے مالی سال 2018-19 کے دوران مالی خسارہ جی ڈی پی کا 3.3 فیصد رہنے کا امکان ظاہر کیا ہے۔ مالی سال2017-18 کے لئے نظرثانی شدہ مالی خسارہ کا تخمینہ 5.95 لاکھ کروڑ روپئے تھا، جو کہ جی ڈی پی کا 3.5 فیصد ہے۔ انھوں نے مرکزی حکومت کے خسارے کو جی ڈی پی کے 40 فیصد کی شرح تک نیچے لانے کے لئے مالی اصلاحات اور بجٹ مینجمنٹ کمیٹی کی کلیدی سفارشات کو تسلیم کرنے کی تجویز بھی پیش کی ۔

اپنی براہ راست ٹیکس تجاویز کو پیش کرتےہوئے وزیر خزانہ جناب ارون جیٹلی نے کہا کہ نقد معیشت کو کم کرنے کی کوششوں اور مجموعی ٹیکس میں اضافے سے ڈیویڈنس میں گراں قدر اضافہ ہوا ہے۔ 2016-17 اور 2017-18 پر مشتمل مالی برسوں کے دوران براہ راست ٹیکس کی شرح ترقی میں کافی بہتری آئی ہے۔ مالی سال 2016-17 کے دوران براہ راست ٹیکسوں کی شرح ترقی 12.6 فیصد تھی، جبکہ مالی سال 2017-18 (15 جنوری 2018 تک) کے دوران براہ راست ٹیکسوں کی یہ شرح ترقی 18.7 فیصد ہوگئی۔ جناب جیٹلی نے کہا کہ یہی سبب ہے کہ مالی برس2016-17 اور مالی برس 2017-18 (نظرثانی شدہ تخمینہ) کے لئےپرسنل انکم ٹیکس بالترتیب 1.95 اور 2.11 ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس سے واضح ہوتا ہے کہ 2016-17 کی مدت سے قبل کے مقابلے گزشتہ دو مالی برسوں کے دوران پرسنل انکم ٹیکس سے ہونے والی آمدنی میں کافی اضافہ ہوا ہے۔ یہ ریوینیو کل 90 ہزار کروڑ روپئے پہنچ گئی ہے، جو کہ ٹیکس کی چوری کو روکنے کے لئے  حکومت کے مضبوط اقدامات کا نتیجہ ہے۔

وزیر خزانہ نے مزید کہا کہ ٹیکس دہندگان کے ذریعے داخل کئے جانے والے ٹیکس ریٹرن کی تعداد میں بھی کافی اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔ مالی سال 2014-15 کی شروعات میں ٹیکس دہندگان کی تعداد 4.47 کروڑ سے بڑھ کر سال 2016-17 کے آخر میں 8.27 کروڑ تک پہنچ گئی ہے۔

جناب جیٹلی نے ان کمپنیوں کے لئے جو فارمر پروڈیوسر کمپنیز کی حیثیت سے رجسٹرڈ ہیں اور جن کا سالانہ کاروبار 100 کروڑ روپئے تک ہے، ایسی کمپنیوں کو اس طرح کی سرگرمیوں سے حاصل ہونے والے منافع پر 100فیصد چھوٹ کی تجویز دی ہے۔ ان کمپنیوں کے لئے یہ چھوٹ مالی سال 2018-19 سے شروع ہوکر اگلے پانچ برسوں کی مدت تک کے لئے رہے گی۔ انھوں نے کہا کہ اس سے فصلوں کی کٹائی کے بعد کی زرعی سرگرمیوں کو فروغ حاصل ہوگا۔ اسی طرح پہلے اعلان کردہ ’آپریشن گرین‘ اسکیم کی حوصلہ افزائی ہوگی۔ اسی طرح اس سے سمپدا یوجنا کو بھی فروغ حاصل ہوگا۔

نئے روزگار پیدا کرنے کی حوصلہ افزائی کرنے کے لئے سیکشن 80جے جے اے اے کے تحت 30 فیصد کی چھوٹ کی تجویز فوٹ ویئر اور چمڑے کی صنعت میں کی گئی ہے۔ علاوہ ازیں ملبوسات کی صنعت میں 150 دن تک کی مزید چھوٹ دی گئی ہے۔ جناب جیٹلی نے نئے ملازم کو جو کہ پہلے سال کے دوران کم از کم مدت سے بھی کم عرصے تک روزگار سے وابستہ رہا، لیکن بعد کے سال میں کم از کم مدت کے لئے روزگار سے وابستہ رہا، اس کے فائدے کے لئے 30 فیصد چھوٹ رکھنے کی بھی تجویز پیش کی۔

ریئل اسٹیٹ سیکٹر کے لئے وزیر خزانہ نے تجویز پیش کی کہ غیرمنقولہ جائیداد جہاں سرکل ریٹ 5 فیصد سے زائد نہیں ہے، میں لین دین کے سلسلے میں کوئی بھی ایڈجسٹمنٹ قابل قبول نہیں ہوگی۔ اس سے ریئل اسٹیٹ لین دین کے دوران درپیش مشکل میں کمی آئے گی۔

مرحلہ وار طریقے سے کارپوریٹ ٹیکس کی شرح میں کمی لانے کے وعدے کو پورا کرتے ہوئے جناب جیٹلی نے25 فیصد کی تخفیف شدہ شرح کو توسیع دینے کی تجویز پیش کی ہے۔ فی الحال یہ سہولت ان کمپنیوں کے لئے ہے جن کا سالانہ کاروبار 50 کروڑ روپئے سے کم ہے (مالی سال 2015-16 میں) اس سہولت کی توسیع ان کمپنیوں کے لئے بھی ہوگی جن کا سالانہ کاروبار مالی سال 2016-17 میں 250 کروڑ روپئے تک ہے۔ اس سے بہت چھوٹی اور اوسط درجے کی صنعتوں کے پورے طبقے کو فائدہ پہنچے گا۔ جو کمپنیاں ریٹرن فائل کرتی ہیں ان میں سے تقریباً 99 فیصد اس کے تحت آجاتی ہیں۔ مالی سال 2018-19 کے دوران آمدنی کا تخمینہ 7 ہزار کروڑ روپئے رہنے کا امکان ہے۔ کارپوریٹ انکم ٹیکس کی اس کم شرح سے ایسی کمپنیوں کو جن کے پاس سرمایہ کے لئے فاضل اثاثے ہیں، مزید روزگار پیدا کرسکیں گی۔

بجٹ میں تنخواہ پانے والے ٹیکس دہندگان کے لئے بھی راحت فراہم کرنے کی بات کہی گئی ہے۔ اس کے لئے ٹرانسپورٹ بھتہ اور مختلف میڈیکل اخراجات کے لئے ادا کی جانے والی رقم کے لئے موجودہ چھوٹ کی جگہ 40ہزار روپئے معیاری چھوٹ کی اجازت دینے کی بات ہے، تاہم ٹرانسپورٹ بھتہ جسمانی طور پر معذور افراد کے لئے مزید زیادہ رکھنے کی تجویز ہے۔ مزید برآں تمام ملازموں کے لئے اسپتال میں بھرتی کی صورت میں میڈیکل ادائیگی فوائد کو جاری رکھنے کی تجویز ہے۔ مجوزہ معیاری چھوٹ سے متوسط طبقے کے ملازمین کو اپنے ٹیکس میں چھوٹ حاصل کرنے میں مزید مدد ملے گی۔ اس سے واضح طور پر پنشن یافتگان کو بھی فائدہ پہنچے گا، جو کہ عام طور پر ٹرانسپورٹ اور میڈیکل اخراجات کے لئے کوئی بھتہ نہیں پاتے ہیں۔ جناب جیٹلی نے کہا کہ 2.5 کروڑ تنخواہ دار ملازمین اور پنشن یافتگان کو اس تجویز سے فائدہ پہنچے گا، جبکہ ریوینیو کی لاگت تقریباً 8 ہزار کروڑ روپئے ہوگی۔

معمر شہریوں کو راحت دینے کی تجویز  بھی رکھی گئی ہے۔ یہ تجاویز ہیں:

  • بینکوں اور ڈاکخانوں میں جمع کرائی گئی رقومات اب 10 ہزار کے بجائے 50 ہزار تک سود آمدنی سےمبرا قرار دی جائیں گی۔ ان پرٹی ڈی ایس 194 اے کے تحت نہیں وصول کیا جائے گا۔ فکسڈ ڈپازٹ اسکیموں اور ریکرنگ ڈپازٹ اسکیموں سے حاصل ہونے والے فوائد پر بھی یہی رعایت حاصل ہوگی، یعنی اس پر حاصل ہونے والے سود کو ٹی ڈی ایس سے مبرا رکھا جائے گا۔
  • صحت بیمہ پریمیم یاطبی اخراجات کے سلسلے میں موجودہ حدود کو فعہ 80 ڈی کے تحت 30 ہزار روپے سے بڑھا کر50 ہزار روپے تک کردیا گیا ہے۔تخفیف کی حدود میں اضافہ کیا گیا ہے۔
  • چند سنگین نوعیت کی بیماریوں کے سلسلے میں طبی اخراجات پر کی جانے والی کٹوتی میں اضافہ کیا گیا ہے۔ یعنی اسے (معمر شہریوں کے لئے) 60 ہزار روپے سے بڑھاکر80 ہزار روپے (ہرشہری کے لئے) کردیا گیا ہے اور معمر شہریوں کے لئے ایک لاکھ روپے کردیا گیا ہے۔ یہ تمام امور سیکشن 80 ڈی ڈی بی کے تحت انجام پائے ہیں۔معمر شہریوں کو اس سے 4ہزار کروڑ روپے کا اضافی فائدہ حاصل ہوگا۔ ایک تجویز یہ بھی رکھی گئی ہے کہ پردھان منتری  ویا وندنا یوجنا کی توسیع مارچ 2020 تک کردی جائے۔ موجودہ سرمایہ کاری حدود کو بھی موجودہ 7.5 لاکھ سے بڑھاکر فی معمر شہری 15 لاکھ روپے کردیا گیا ہے۔

ایک تجویز یہ بھی رکھی گئی ہے کہ اسٹاک ایکسچینج جو آئی ایف ایس سی میں واقع ہیں، وہاں تجارت کو فروغ دینے کے لئے بین الاقوامی مالیاتی خدمات مرکز یعنی آئی ایف ایس سی کو زیادہ رعایات فراہم کی جائیں۔ ان رعایات کے تحت ذیلی فوائد اور دیگر تمسکات  جو غیر مقیم باشندے حاصل کرتے ہیں، ان فوائد کو اثاثہ ٹیکس سے مستثنیٰ رکھا جائے اور آئی ایف ایس سی میں آپریٹ کرنے والے غیر کارپوریٹ ٹیکس دہندگان کو بھی رعایتی شرحوں پر 9 فیصد کا کم از کم متبادل ٹیکس رعایتی شرح پر ادا کرنے اجازت دی جائے جو سہولت کمپنیوں کو حاصل ہے۔

نقدی کی معیشت کو کنٹرول کرنے کےقدم کے عمل کے طورپر 10 ہزار روپے سے زائد نقد ادائیگی جو کسی ٹرسٹ ادارے کے ذریعے کی جائے گی اسے کالعدم قرار دیا جائے گا اور اس پر ٹیکس عائد کیا جائے گا۔ ان اداروں کے ذریعے ٹی ڈی ایس پر عمل کرنے کو یقینی اور بہتر بنانے کے لیے وزیر خزانہ نے تجویز رکھی ہے کہ ٹیکس نہ کاٹے جانے کی صورت میں مجموعی رقم کا 30 فیصد حصہ ٹیکس کے دائرے میں لایا جائے گا۔

طویل المدت اثاثہ فوائد کو موزوں ترین بنانے کے لیے  وزیر خزانہ نے کہا کہ مساوی سرمایے حصص کی منڈی میں اصلاحات اور ترغیبات کی وجہ سے اچھال آیا ہے۔ اثاثہ فوائد پر حاصل مجموعی رعایت جو فہرست بند حصص اور اکائیوں سے حاصل ہوتی ہے، وہ تقریباً 367000کروڑ کے بقدر ہے(18-2017 کے جائزہ برس کے دوران داخل کئے گئے ریٹرن کے مطابق )جناب جیٹلی نے کہا کہ اس فائدے کا ایک اہم حصہ کارپوریٹ او ر ایل ایل پی کی وجہ سے حاصل ہوا ہے۔ اس نے مینوفیکچرنگ کے خلاف ایک غلط فہمی بھی پیدا کردی ہے، جس کے نتیجے میں مالی اثاثوں میں زیادہ کاروباری فوائد کی سرمایہ کاری کی جارہی ہے۔مساوی سرمایہ حصص پر حاصل ہونے والے پرکشش ریٹرن کی وجہ سے چاہے اس پر ٹیکس کی رعایت نہ حاصل ہوتی ہو۔ ضرورت اس بات کی پیدا ہوگئی ہے کہ طویل المدت اثاثہ جاتی فوائد کو فہرست بند مساوی سرمایہ حصص کے معاملے میں ٹیکس کے دائرے میں لایا جائے۔ انہوں کہا کہ موجودہ سلسلے میں تھوڑی سی تبدیلی درکار ہوگی، کیونکہ ایک فعال مساوی سرمایہ حصص منڈی اقتصادی نمو کے لئے لازمی ہے۔ جناب جیٹلی نے تجویز رکھی کہ ایسی طویل المدت اثاثہ فوائد رقومات پر ٹیکس عائد کیا جانا چاہئے جو ایک لاکھ روپے سے زائد ہوں اور یہ ٹیکس دس فیصد کی شرح سے وصول کیا جاناچاہئے اور اس سلسلے میں کسی طرح کا ٹیکس زمرہ بندی یا دیگر طرح کی رعایت کا فائدہ نہیں دیا جاناچاہیے۔ انہوں نے کہا کہ 31 جنوری 2018 تک تمام تر فوائد کے سلسلے میں یہ چیز نافذ ہوگی۔وزیر خزانہ نے یہ بھی تجویز رکھی کہ منقسم آمدنی پر بھی ٹیکس عائد کیا جائے  اور یہ ٹیکس مساوی سرمایہ حصص سے متعلق میچوئل فنڈ پر دس فیصد کے لحاظ سے وصول کیا جائے ، تاکہ نمو سے مربوط فنڈ کے لئے سرمایہ بہم رسانی کا راستہ آسان ہوسکے اور منقسم فنڈز کو بھی اس دائرے میں لایاجاسکے۔کیپٹل گینس ٹیکس میں مذکورہ مجوزہ تبدیلیاں پہلے سال کے دوران 20 ہزار کروڑ روپے کے مالی فوائد فراہم کریں گی۔

غریبی کی سطح سے نیچے (بی پی ایل) اور دیہی کنبوں  کی تعلیم اور ان کے حفظان صحت کے لیے  بجٹ میں ذاتی انکم ٹیکس اور کارپوریشن ٹیکس  پر عائد ہونے والی ڈیوٹی کو موجودہ  3 فیصد سے بڑھاکر4 فیصد کردیا جائے۔ اس نئے محصول  کو ‘‘صحت اور تعلیم محصول’’ کہا جائے گا۔ امید ہے کہ اس سے اندازاً 11 ہزار کروڑ روپے کی وصولیابی ہوگی۔

وزیر خزانہ نے ملک بھر میں ای- جائزہ شروع کرنے کی ایک تجویز کا بھی اعلان کیا ہے۔ تاکہ فرد سے فرد کے درمیان رابطے کو تقریباً ختم کردیا جائے، جس سے براہ راست ٹیکس حصولیابی میں مزید مستعدی اور شفافیت پیدا ہوگی۔  ای – جائزہ 2016 میں تجربے کی بنیاد پر شروع کیا گیا تھا اور اسے 2017 میں 102  شہروں تک توسیع دی گئی تھی۔

بالواسطہ ٹیکسوں کی جانب اشیا اور خدمات ٹیکس(جی ایس ٹی) شروع کیے جانے کے بعد یہ پہلا بجٹ ہے،  جبکہ بجٹ تجاویز خاص طور پر کسٹمز کی جانب ہیں۔ وزیرخزانہ نے ملک میں روزگار کے مزید موقع پیدا کرنے کے رجحان کو فروغ دینےاور خوراک کی ڈبہ بندی، الیکٹرانکس آٹو کل پرزے، جوتے چپل اور فرنیچر جیسے شعبوں میں گھریلو لاگت شمار کرنے ،نیز میک ان انڈیا کے لیے ترغیب دینے کی غرض سے کسٹمز محصول میں تبدیلیوں کی تجاویز رکھی ہیں۔ لہٰذا یہ تجویز رکھی جاتی ہے کہ موبائل فون ، اس کے کچھ کل پرزوں اور اس کے لوازمات پر کسٹمز ڈیوٹی 15 سے 20 فیصد بڑھا دی جائے۔نیز ٹیلی ویژن کے کچھ خاص پرزوں پر 15 فیصد ڈیوٹی میں اضافہ کردیا جائے۔

خام کاجو پر کسٹم ڈیوٹی 5 فیصد سے کم کرکے 2.5 فیصد کردی جائے تاکہ کاجو کی ڈبہ بندی کی صنعت کو مدد حاصل ہوسکے۔

یہ تجویز بھی رکھی گئی ہے کہ درآمد کی جانے والی اشیا پر عائد تعلیمی  محصول  اور ثانوی اور اعلیٰ تعلیمی محصول ختم کردیا جائے۔ اس کے بجائے یہ تجویز رکھی گئی ہے  کہ  درآمد شدہ اشیا پر  کسٹمز کی مجموعی ڈیوٹی کی 10 فیصد شرح پرسماجی بہبود کا سرچارج  عائدکیا جائے۔ جس کا مقصد حکومت کی سماجی بہبود کی اسکیمیں فراہم کرانا ہے۔ البتہ وہ اشیا  جو درآمد شدہ اشیا پر عائد تعلیمی محصول سے اب تک مستثنیٰ تھیں ، ان پر  یہ استثنیٰ جاری رہے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ بجٹ تقریر کے چھٹے ضمیمے میں دی گئیں کچھ خصوصی اشیا پر مجوزہ سرچارج عائد ہوگا۔ یہ سرچارج کسٹم کی مجموعی ڈیوٹی کی  صرف 3 فیصد  شرح ہوگی۔

جی ایس ٹی شروع ہونے کے ساتھ ساتھ بجٹ میں سینٹرل بورڈ آف ایکسائز اینڈ کسٹمز (سی بی ای سی ) کا نام بدل کر سینٹرل بورڈ آف ان ڈائرکٹ ٹیکسز اینڈ کسٹمز (سی بی آئی سی) کردیا گیا ہے۔

Related posts

Leave a Comment

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More