12.2 C
Lucknow
Online Latest News Hindi News , Bollywood News

بھارت اور چین کے ذریعے مجموعی اقدامات تعاون کے موضوع پر ڈبلیو ٹی او میں مشترکہ تجویز

Joint Proposal by India & China in WTO on Aggregate Measurement of Support (AMS)
Urdu News

نئی دہلی، حال ہی میں یعنی 18؍جولائی 2017 کو بھارت اور چین نے عالمی ادارۂ تجارت یعنی ڈبلیو ٹی او کو ایک مشترکہ تجویز پیش کی تھی، جس میں ترقی یافتہ ممالک کے ذریعے فارم سبسڈی یعنی کاشتکاروں کو دی جانے والی ترغیبات کے سلسلے میں اسے سب سے زیادہ متاثر کرنے والے عناصر کا ذکر تھا اور اسے ختم کرنے کی بات کی گئی تھی۔ ان تجاویز کو ڈبلیو ٹی او کے تحت مجموعی اقدامات برائے تعاون یا آرمر باکس کے نام سے جانا جاتا ہےاور انہیں گھریلو سپورٹ سودوں میں دیگر اصلاحات سے قبل کی پیشگی شرط خیال کیاجاتا ہے۔

واضح رہے کہ دسمبر 2017 میں بیونس آئرس میں منعقد ہونے والی ڈبلیو ٹی او کی 11ویں وزارتی کانفرنس میں پیش کئے جانے والے گفت وشنید کے موضوعات کے پیش نظر یہ بھارت اور چین کی جانب سے پیش کی گئی ایک اہم تجویز ہے۔ یہ تجویز ان چند ممالک کی کوششوں کی مزاحمت کرے گی، جنہوں نے ترقی پذیر ممالک میں فراہم کی جانے والی ترغیبات یا سبسڈی کو نشانہ بنا رکھا ہے اور ساتھ ہی ساتھ ترقی یافتہ ممالک کو اپنے یہاں بڑے پیمانے پر کاشتکاری سے متعلق سبسڈی کو برقراررکھنے کا راستہ ہموار کرتی ہیں۔

مشترکہ دستاویز میں کہا گیا ہے کہ امریکہ ، یوروپی یونین اور کنیڈا سمیت ترقی یافتہ ممالک لگاتار پیمانے پر اپنے کاشتکاروں کو تجارت کو متاثر کرنے والی سبسڈیاں فراہم کرتے رہے ہیں اور یہ ترغیبات ترقی پذیر ممالک کیلئے سبسڈی کی نافذالعمل حدود سے کہیں زیادہ ہیں ۔ ترقی یافتہ ممالک میں 90 فیصد سے زائد عالمی اے ایم ایس استحقاق مروج ہیں اور امریکہ میں اس کی مقدار 160بلین کے قریب ہے۔ بیشتر ترقی پذیر ممالک، جن میں بھارت اور چین بھی شامل ہیں، اپنے یہاں اے ایم ایس استحقاق سے مبرا ہیں۔

امریکہ ، یوروپی یونین اور کنیڈا کی جانب سے 1995ء سے اکثرو بیشتر سب سے زیادہ جن اشیاء پر سبسڈی فراہم کی جاتی ہے ، ان کا ذکر کرتے ہوئے اس دستاویز میں اس طرح کی تمام ترغیبات کا خاتمہ کرنے کی بات کہی گئی ہے۔ پوری دنیا میں ترقی یافتہ ممالک کےذریعے جن مصنوعات پر ترغیبات فراہم کی جاتی ہیں، ان کی تعداد کو مدنظر رکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ یہ سبسڈی 50 فیصد سے زائد اور یہاں تک کی بعض معاملات میں 100 فیصد سے زائد ہے، جو متعلقہ مصنوعات کی پیداواری مالیت کے مقابلے میں ہوتی ہے، جبکہ ترقی پذیر ممالک مجبور ہیں کہ وہ مصنوعات کی پیداوار کی مالیت کے مقابلے میں 10فیصد کے اندر-اندر کی سبسڈی فراہم کریں۔ دوسرے لفظوں میں کہاجا سکتا ہے کہ ایک طرف ترقی یافتہ ممالک بڑی مقدارمیں اے ایم ایس کے تحت سبسڈی دے سکتے ہیں اور اس معاملے میں وہ کم سے کم حدود سے بھی تجاؤز کر جاتے ہیں، جو گھریلو امداد کے طور پر کم از کم رقومات کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہوتی ہے اور اس طریقے سے تجارت پر منفی طور سے اثر انداز ہو جاتے ہیں، جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں پیداواری مالیت کی 5 فیصد سبسڈی ہونی چاہئے اور ترقی پذیر ممالک کےلئے یہ حد 10 فیصد کی ہے۔

اس کے برعکس ترقی پذیر رکن ممالک اپنی حدود میں ہی رہ کر ترغیبات فراہم کر تے ہیں اور اس طریقے سے زرعی تجارت کے قواعد کی خلاف ورزی برداشت کرنے پر مجبور ہیں۔

مذکورہ دستاویز میں چند مصنوعات کے ضمن میں اے ایم ایس کےا رتکاز کے برعکس اثرات کاذکر کیاگیا ہےاور ڈبلیو ٹی او کی کسی تجویز میں اس مسئلے پر کوئی توجہ نہیں دی گئی ہے۔ بھارت اور چین اس اصول میں یقین رکھتے ہیں کہ اگر اے ایم ایس کا خاتمہ کر دیا جائے، تو یہ اصلاحات کی جانب پہلا قدم ہوگا اور اس سلسلے میں یہی بہتر قدم ہوگا ، نہ کہ ترقی پذیرممالک سے یہ کہا جائے کہ وہ اپنے یہاں فراہم کی جانے والی سبسڈی میں تخفیف کریں۔ ترقی پذیر ممالک میں سے چند ممالک مثلاً بھارت، فی کاشتکار، سالانہ تقریباً 260 امریکی ڈالر کی امداد سبسڈی کی شکل میں فراہم کرتا ہے، جبکہ چند ترقی یافتہ ممالک میں یہ سبسڈی 100فیصد سے بھی زائد ہے۔

Related posts

Leave a Comment

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More