18 C
Lucknow
Online Latest News Hindi News , Bollywood News

بھارت سیواشرم سنگھ کی صدی تقریب سے (ویڈیو کانفرنس کے ذریعے) وزیراعظم کا خطاب

PM addresses Centenary Celebrations of Bharat Sevashram Sangha
Urdu News

 نئی دہلی۔؍مئی۔ وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج ویڈیو کانفرنس کے ذریعہ بھارت سیواشرم سنگھ کی صدی تقریب سے خطاب کیا۔ یہ تقریب شیلانگ میں منعقد کی جارہی ہے۔

اس موقع پر وزیر اعظم کا استقبال کرتے ہوئے بھارت سیواشرم سنگھ کے جنرل سیکرٹری سریمت سوامی بسواتمانندا جی مہاراج، ہندوستان کی شاندار روحانی اور خدمات کی روایات کی بات کی۔

اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے،  وزیر اعظم ان دنوں کو یاد کیا جب وہ  گجرات میں بھارت سیواشرم سنگھ کے ساتھ کام کیا کرتے تھے۔  اس موقع پر انہوں نے بھارت سیواشرم سنگھ  کے تئیں اپنی نیک خواہشات کا اظہار کیا ۔ جس میں انہوں نے  کہا کہ خدمت (سروس) اور لیبر (محنت) کے فضائل مشترک ہیں۔

انہوں نے کہا کہ  آفات کے دوران شمال مشرق میں تنظیم کا کام خاص طور پر قابل تعریف رہا ہے۔

وزیر اعظم نے غریبوں اور ضرورت مندوں کی خدمت کی اہمیت کی وضاحت کی، جیساکہ شاستروں میں مذکور ہے۔

انہوں نے کہا کہ سوامی پرنوا نندا  نے، جو کہ بھارت سیواشرم سنگھ کے بانی ہیں، ایک صدی قبل سماجی انصاف کی بات کی تھی  اور اسی  مقصد کے لئے سنگھ کو قائم کیا تھا۔

وزیراعظم نے کہا کہ  حالیہ دنوں میں ایک کہانی گڑھنے کی  کوشش کی گئی ہے کہ “خدمت” اور “روحانیت” دو مختلف چیزیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بھارت سیواشرم سنگھ اس کام کے ذریعہ، اس تصور کو ختم کرنے میں کامیاب رہا ہے۔

وزیر اعظم  نے کہا کہ ‘بھکتی’، ‘شکتی’ اور ‘جن شکتی’ کے ذریعہ سوامی پرنوانندا نےسماجی ترقی حاصل کی تھی۔

وزیر اعظم بھارت سیواشرم سنگھ پر زور دیا کہ وہ “سوچھا گرہ” یعنی صفائی کے لئے کام کریں، خاص طور پر شمال مشرقی ہندوستان میں۔ انہوں نے شمال مشرق کو  فروغ دینے کےلیے حکومت کے عزم کا اعادہ کیا اور کنیکٹوٹی اور بنیادی ڈھانچے پر توجہ شمال مشرق کو جنوب مشرقی ایشیا کے لئے ایک گیٹ وے بننےمیں معاون  ہوسکتا ہے۔

سری منت سوامی امبریش نندا جی مہاراج جنہوں نے گجرات میں وزیر اعظم کے ساتھ کام کیا تھا، اور اپنے خطاب میں وزیر اعظم نے جن کا ذکر کیا تھا، اس موقع پر شکریہ کی تحریک کی تجویز پیش کی۔

وزیر اعظم کے خطبے کے اقتباسات حسب ذیل ہیں:

دہلی اور شیلانگ کے درمیان تقریباً 2 ہزار کلومیٹر کے فاصلہ  ہے لیکن ٹیکنالوجی نے اس فاصلے کو مٹا دیا ہے۔ گزشتہ سال مئی کے مہینے میں ہی میں شیلانگ گیا تھا۔

آج جب ویڈیو کانفرنس کے ذریعے آپ سب سے بات کرنے کا موقع ملا ہے، تو کئی یادیں تازہ ہو گئی ہیں۔

گجرات میں مجھے بھارت سیوااشرم سنگھ کے صدر رہے آنجہانی سوامی اكشيانند جی مہاراج کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا تھا۔

اسٹیج پر موجود سوامی امبريشانند جی مہاراج جی تو گجرات یونٹ کے صدر رہے ہیں۔سوامی گنیشا نند جی کے تجربات سے بھی مجھے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا ہے۔

آچاریہ شريمت سوامی

پرنبانند جی مہاراج کے ذریعہ قائم بھارت سیواشرم سنگھ نے اس سال اپنے سفر کے 100 سال پورے کئے ہیں۔

خدمات اور محنت کو ہندوستان کی تعمیر کے لئے ساتھ لے کر چلنے والے سنگھ  کے تمام اراکین کو میری طرف سے بہت بہت مبارکباد۔

کسی بھی ادارے کے لئے یہ بہت فخر کا باعث ہے کہ اس کی خدمت میں توسیع، سو سال پورے کر رہا ہو۔ بالخصوص شمال مشرق کی ریاستوں میں بھارت سیواشرم سنگھ کے عوامی فلاحی کام کی بہت ہی قابل ستائش رہے ہیں۔

سیلاب ہو یا خشک سالی، یا پھر زلزلہ  بھارت سیواشرم سنگھ  کے رکن پوری لگن سے متاثرین کو ریلیف پہنچاتے نظر آتے ہیں۔

بحران کے وقت جب انسان کی مدد کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے، تو سوامی پرنبانند کے شاگرد سب کچھ بھول کر صرف اور صرف انسانی خدمات میں لگ جاتے ہیں۔

متاثر  انسان کی خدمت تو ہمارے شاستروں میں تيرتھاٹن کی طرح مانی گئی ہے۔

کہا گیا ہے-

ایكت: كرتوہ سروے سہستر وردكشنا انيہ تو روگ – بھیتانامہ پرانی نامہ پران رکشنم

یعنی- ایک  جانب طریقہ سے سب کو اچھی دكشنا دے کر کیا گیا یگ  کرم اور دوسری جانب  پریشانی اور بیماری میں مبتلا انسان کی خدمت کرنا یہ دونوں کام اتنے ہی باعث ثواب  ہیں۔

ساتھیوں،

سوامی  پرنبانند جی نے اپنی روحانی سفر کی چوٹی پر پہنچنے پر کہا تھا کہ-

یہ وقت مہا ملن،

مہا جاگرن ،

مہامکتی  اور

مہا سمان  نیایہ  کا ہے۔

اسی کے بعد انہوں نے بھارت سیواشرم سنگھ کی بنیاد رکھی تھی۔

1917 میں اس کے قیام کے بعد جس خدمت کے ساتھ اس ادارے نے کام شروع کیا تھا، اس سے بڑودا کے مہاراجہ سياجی راؤ گائیکواڑ بھی بہت متاثر ہوئے تھے۔

مہاراجہ سياجی راؤ گائیکواڑ خود جس انتھک محنت سے لوگوں کی ترقی کے لئے کام کرتے تھے، وہ پوری دنیا کو معلوم ہے۔ وہ  لوگوں کی بھلائی  کے کاموں کے چلتے پھرتے ادارے کی طرح تھے۔ لہذا شريمت سوامی  پرنبانند جی کے ملک بھر میں بھیجے خدمت گزاروں کو انہوں نے عوام کی سطح پر کام کرتے دیکھا، تو ان کی  تعریف  کئے بغیر نہیں رہ سکے۔

جن سنگھ کے بانی، عزت مآب ڈاکٹر شیاما پرساد مکھرجی تو سوامی  پرنبانند جی کو اپنے گرو  کی طرح مانتے تھے۔ ڈاکٹر مکھرجی کے خیالات میں سوامی پرنباند جی کے خیالات کی جھلک بھی ملتی ہے۔

قوم کی تعمیر کے جس ویژن کے ساتھ سوامی  پرنبانند جی نے اپنے شاگردوں کو روحانیت اور خدمت  سے منسلک کیا ، وہ بےنظیرہے۔

جب 1923 میں بنگال میں خشک سالی ہوئی،

جب 1946 میں نواكھلی میں فسادات ہوئے،

جب 1950 میں جلپائی گوڑی میں سیلاب آیا،

جب 1956 میں کچھ  میں زلزلہ آیا، جب 1977 میں آندھرا پردیش میں شدید طوفان آیا،

جب 1984 میں بھوپال میں گیس سانحہ ہوا، تو بھارت سیواشرم سنگھ کے لوگوں نے متاثرین کے درمیان رہ کر ان کی خدمت کی۔

ہمیں دھیان رکھنا ہوگا کہ یہ وہ وقت تھا

جب ملک میں ڈیزاسٹر مینجمنٹ کو لے کر ایجنسیاں اتنی تجربہ کار نہیں تھیں۔

قدرتی آفات ہو یا انسان کے باہمی تنازعات سے پیدا ہونے والا بحران،

ہر مشکل گھڑی میں بھارت سیواشرم سنگھ  نے اس سے نمٹنے میں اہم کردار ادا کیا۔

گزشتہ چند سالوں کی بات کریں تو جب 2001 میں گجرات میں زلزلہ آیا،

2004 میں سونامی آئی،

2013 میں اتراکھنڈ میں سانحہ  ہوا،

2015 میں تمل ناڈو میں سیلاب آیا، تو بھارت سیواشرم کے رکن سب سے پہلے پہنچنے والے لوگوں میں سے ایک تھے۔

بھائیوں اور بہنوں،

سوامی پرنبانند کہا کرتے تھے-

“بغیر ماڈل کی زندگی موت کی طرح ہے۔

اپنی  زندگی میں اعلی اصول قائم کرکے ہی کوئی بھی شخص انسانیت کی سچی خدمت کر سکتا ہے “۔

آپ کی  تنظیم کے تمام ارکان نے ان کی ان باتوں کو اپنے  زندگی میں اتارا ہے۔

آج سوامی  پرنبانند جہاں کہیں بھی ہوں گے، انسانیت کے لئے آپ کی کوششوں کو دیکھ کر بہت خوش ہوں گے۔

ملک ہی نہیں بیرون ملک بھی قدرتی آفات کے آنے پر بھی بھارت سیواشرم کے ارکان لوگوں کو راحت دینے کے لئے پہنچ جاتے ہیں۔

اس کے لئے آپ سب کا جتنا شکریہ ادا  کیا جائے، اتنا کم ہے۔

ہمارے شاستروں میں بھی کہا گیا ہے-

اتمارتھم مجیو لوکے اسمن کو نا جیوتی مانو۔

پرم پروپکار آرتھم یو جیوتی س جیوتی۔

یعنی اس دنیا میں اپنے لئے کون انسان نہیں جیتا ہے لیکن جس کی زندگی انسان دوستی کے لئے ہے اس کی ہی زندگی، زندگی ہے۔

لہذا انسان دوستی کی کئی کوششوں سے سجے ہوئے  آپ  کے ادارے کے سو سال مکمل ہونے پر پھر مبارکباد  پیش کرتا ہوں۔

ساتھیوں،

گزشتہ چند دہائیوں میں ملک میں ایک کہاوت چل پڑی ہے کہ روحانیت اور خدمت  کے راستے الگ الگ ہیں۔

کچھ لوگوں کی جانب سےیہ بتانے کی کوشش کی گئی کہ جو روحانیت کے راستے پر ہے، وہ خدمت  کے راستے سے مختلف ہے۔

آپ نے اس تصور کو نہ صرف غلط ثابت کیا ہے بلکہ روحانیت اور ہندوستانی  اقدار پر مبنی خدمت  کو ایک ساتھ آگے بڑھایا ہے۔

آج ملک بھر میں بھارت سیواشرم سنگھ  کی سو سے زیادہ شاخیں اور پانچ سو سے زیادہ فیکٹریاں، صحت کی دیکھ بھال، تعلیم اور نوجوانوں کو ٹریننگ دینے کے کام میں بھی لگی ہوئی ہیں۔ بھارت سیواشرم سنگھ  نے سادھنا اور معاشرے کی خدمت کے مشترکہ منصوبوں کے طور پر عوام کی خدمت کی ایک مثال تیار کی ہے۔

دنیا کے کئی ممالک میں یہ ماڈل کامیابی سے چل رہا ہے۔ اقوام متحدہ تک میں بھارت سیواشرم سنگھ کے فلاحی کاموں کی تعریف ہوئی ہے۔

سوامی  پرنبانند جی مہاراج پچھلی صدی میں ملک کے روحانی شعور کی حفاظت کرنے والے، اس تحریک آزادی سے منسلک  ہونے والے کچھ ایک عظیم اوتارو ں میں سے ایک تھے۔

سوامی وویکانند اور مہارشی اروبندو کی طرح ہی ان کا نام پچھلی صدی کے عظیم سنتوں میں لیا جاتا ہے۔ سوامی جی کہتے تھے- “انسان کو ایک ہاتھ میں بھکتی اور ایک ہاتھ میں طاقت رکھنی چاہئے۔ ان کا خیال تھا کہ بغیر طاقت کے کوئی انسان اپنی حفاظت نہیں کر سکتا اور بغیر لگن کے اس کے خود کے ہی بھکشک بن جانے کا خطرہ ہوتا ہے “۔

معاشرے کی ترقی کے لئے طاقت اور لگن کو ساتھ لے کر افرادی قوت کو متحد کرنے کا کام، عوامی شعور کو بیدار کرنے کا کام انہوں نے اپنے بچپن ہی میں  شروع کر دیا تھا۔

نروان کی حالت سے بہت پہلے، جب وہ سوامی پرنبانند نہیں ہوئے تھے، صرف “بنود” تھے، اپنے گاؤں کے گھر گھر جاکر چاول اور سبزیاں جمع کرتے تھے اور پھر انہیں غریبوں میں بانٹ دیتے تھے۔ جب انہوں نے دیکھا کہ گاؤں تک پہنچنے کے لئے سڑک نہیں ہے تو سب کی حوصلہ افزائی کرکے انہوں نے گاؤں تک ایک سڑک کی تعمیر بھی کروائی ۔

ذات پات، چھوا-چھوت کے زہر نے کیسے سماج کو تقسیم کر رکھا ہے، اس کا احساس انہیں بہت پہلے ہی ہو گیا تھا۔ لہذا سب کو برابری کا منتر سکھاتے ہوئے، وہ گاؤں کے ہر شخص کو ایک ساتھ بٹھا کر بھگوان کی عبادت کرتے تھے۔

19 ویں صدی کے آخر میں اور 20 ویں صدی کے شروع میں بنگال جس طرح کی سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بنا ہوا تھا، اس دوران قومی شعور جگانے کے  لیے سوامی پرنبانند جی کی کوشش اور زیادہ بڑھ گئی تھی۔

بنگال میں ہی واقع انوشیلن کمیٹی کے انقلابیوں کو وہ کھلی حمایت دیتے تھے۔ انگریزوں کے خلاف لڑتے ہوئے وہ ایک بار جیل بھی گئے۔ اپنے کاموں سے انہوں نے ثابت کیا کہ سادھنا کے لئے صرف غاروں میں رہنا ضروری نہیں، بلکہ عوامی بیداری اور عوامی شعور بیدار کرکے بھی سادھنا کی جا سکتی ہے، خدا کو حاصل کیا جا سکتا ہے۔

بھائیوں اور بہنوں،

آج سے سو سال پہلے ملک جس ذہنیت سے گزر رہا تھا، غلامی کی زنجیروں سے، اپنی کمزوریوں سے نجات پانا چاہتا تھا، اس میں ملک مختلف جگہوں پر افرادی قوت کو منظم کرنے کی کوشش مسلسل چل رہی تھی۔

1917 کا ہی وہ سال تھا، جب مہاتما گاندھی نے چمپارن میں ستیہ گرہ کی تحریک کی بنیاد ڈالی۔ ہم سبھی کے لئے یہ خوشگوار اتفاق ہے کہ اس سال ملک چمپارن ستیہ گرہ کے سو سال کا تہوار بھی منا رہا ہے۔

ستیہ گرہ تحریک کے ساتھ ساتھ ہی مہاتما گاندھی نے لوگوں کو حفظان صحت کے تئیں بیدار بھی کیا تھا۔ آپ کو معلوم ہوگا کہ گزشتہ ماہ چمپارن ستیہ گرہ کی طرح ہی ملک میں سوچھا گره مہم کی شروعات کی گئی ہے۔ سوچھاگره یعنی حفظان صحت کے تئیں اصرار آج اس موقع پر میں سوچھاگره کو بھی آپ کی سادھنا کا  لازمی جز بنانے پر زور دینا چاہتا ہوں۔ اس کی ایک وجہ بھی ہے۔

آپ نے دیکھا ہوگا ابھی تین چار دن پہلے ہی اس سال کے سووچھ  سروے میں شہروں کی درجہ بندی کا اعلان کیا گیا ہے۔

شمال مشرقی ریاستوں کے 12 شہروں کا بھی سروے کیا گیا تھا۔ لیکن صورت حال بہت اچھی نہیں ہے۔ صرف گنگٹوک ایسا شہر ہے جو پچاسویں نمبر پر آیا ہے۔ 4 شہروں کی درجہ بندی سو سے دو سو کے درمیان ہے اور باقی سات شہر 200 سے 300 رینک کے دائرے میں ہے۔ شیلانگ جہاں آپ بیٹھے ہوئے ہیں، وہ بھی دو سو چھہتّر (276) نمبر پر ہے۔

یہ صورتحال ہمارے لئے، ریاستی حکومتوں کے لئے بھارت سیواشرم سنگھ  جیسے اداروں کے لئے چیلنج کی طرح ہے۔ مقامی ایجنسیاں اپنا کام کر رہی ہیں لیکن ان کے ساتھ ساتھ ہر شخص کو یہ احساس دلایا جانا بہت ضروری ہے کہ وہ اپنے آپ میں حفظان صحت مشن کا ایک سپاہی ہے۔ہر شخص کی اپنی کوشش سے ہی سوچھ بھارت، سوچھ شمال مشرق کا مقصد حاصل کیا جا سکتا ہے۔

بھائیوں اور بہنوں،

سوامی  پرباند جی مہاراج کہتے تھے-

“ملک کے حالات کو تبدیل کرنے کے لئے لاکھوں بے لوث خدمت گزاروں کی ضرورت ہے۔ یہی بے لوث خدمت گزار ملک کے ہر شہری کے جذبات بدلیں گے اور اس بدلے ہوئے جذبات میں ایک نئی قوم کی تعمیر کریں گے “۔

سوامی پرنبانند جی جیسی عظیم روح کی ترغیبات سے ملک میں آپ جیسے کروڑوں بے لوث کارکن ہیں۔ بس ہم سب کو مل کر اپنی توانائی سوچھاگره کی اس تحریک کو کامیاب بنانے میں لگا دینی ہے۔

مجھے بتایا گیا ہے کہ جب سوچھ بھارت مہم شروع ہوا تھا، اس کے بعد آپ لوگوں نے شمال مشرق کے پانچ ریلوے اسٹیشنوں کو منتخب کیا تھا کہ ان اسٹیشنوں میں صفائی کی ذمہ داری اٹھائیں گے، وہاں ہر پکھواڑے حفظان صحت  مہم چلائی  جائے گی۔ اب اپنی کوششوں کو اور زیادہ بڑھائے جانے کی ضرورت ہے۔

اس سال جب آپ سبھی  اپنے ادارے کے قیام کے سو سال منا رہے ہیں تو اس اہم سال کو کیا مکمل طور پر حفظان صحت پر مرکوز کر سکتے ہیں۔

کیا آپ کے ادارے جن علاقوں میں کام کر رہے ہیں، وہاں ماحول کی حفاظت کے لئے، پورے علاقے کو پلاسٹک سے پاک بنانے کے لئے کام کر سکتے ہیں۔ کیا لوگوں کو پانی کی صفائی اور پانی کے انتظام کے فوائد کے تئیں لوگوں کو بیدار کر سکتے ہیں۔

کیا اپنے مقاصد کو، ادارے کے کچھ کاموں کو آپ سال 2022 سے بھی جوڑ سکتے ہیں۔ 2022 میں ہندوستان اپنی آزادی کے 75 ویں سال میں داخل ہو رہا ہو گا۔ اس میں اب پانچ سال کا وقت ہے اور اس وقت کا استعمال ہر شخص، ہر ادارہ کو اپنے ارد گرد پھیلی برائیوں کو ختم کرکے، پیچھے چھوڑ کر آگے بڑھنے کی کوشش کرنی پڑے گی۔

ساتھیوں،

آپ کو یاد ہوگا کہ 1924 میں سوامی پرنباند جی نے ملک بھر میں واقع کئی تیرتھ استھلوں سائٹس کی تجدید کاری کروائی تھی۔

تیرتھ شنکر نام سے پروگرام شروع کرکے، اس وقت ہمارے تیرتھ سائٹس سے منسلک خامیوں کو دور کرنے کی انہوں نے کوشش کی تھی۔ آج ہمارے تيرتھ سائٹس کی ایک بڑی کمزوری اسوچھتا ہے۔ کیا بھارت سیواشرم سنگھ تیرتھ شنکر پروگرام کو حفظان صحت سے جوڑتے ہوئے نئے سرے سے شروع کر سکتا ہے۔

اسی طرح ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے اپنے تجربات  کو بھارت سیواشرم سنگھ کس طرح زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچا سکتا ہے، اس بارے میں بھی سوچا جانا چاہئے۔ ہر سال ملک میں ہزاروں زندگیاں قدرتی آفات کی وجہ سے بحران کا شکار ہوتی ہیں۔ قدرتی آفات کے وقت کس طرح کم سے کم نقصان ہو، اسی کو ذہن میں رکھتے ہوئے گزشتہ سال ملک میں پہلی بار قومی آفات ناگہانی منصوبہ بنایا گیا ہے۔ حکومت بڑے پیمانے پر لوگوں کو بیدار کر رہی ہے، لوگوں کو فرضی مشق کے ذریعے بھی ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے طریقوں کے بارے میں بتایا جا رہا ہے۔

ساتھیوں،

آپ کی شمال مشرق کی ریاستوں میں سرگرمی اور تنظیمی قوت کا ڈیزاسٹر مینجمنٹ میں بہت استعمال ہو سکتا ہے۔ آپ کی تنظیم تباہی کے بعد اور تباہی سے پہلے، دونوں ہی حالات سے نمٹنے کے لئے لوگوں کو تیار کر سکتی ہے۔

اسی طرح جیسے سوامی پرنبانند جی نے ملک بھر میں پروچن ٹیم بھیج کر روحانیت اور خدمات  کا پیغام ملک و بیرون ملک تک پہنچایا، اسی طرح آپ کی تنظیم شمال مشرق کے کونے کونے میں جاکر، قبائلی علاقوں میں جاکر کھیل سے جڑی صلاحیت کی تلاش میں مؤثر کردار ادا کر سکتی ہے۔ ان علاقوں میں پہلے سے آپ کے درجنوں اسکول چل رہے ہیں، آپ کے بنائے ہاسٹل میں سینکڑوں قبائلی بچے رہ رہے ہیں، اس لئے یہ کام آپ کے لئے مشکل نہیں ہو گا۔

آپ  زمین پر کام کرنے والے لوگ ہیں، لوگوں کے درمیان میں کام کرنے والے لوگ ہیں، آپ کی  ماہر نظر کھیل کی صلاحیت کو سامنے لانے میں مدد کر سکتی ہے۔

سوامی پرنبانند جی کہتے تھے کہ ملک کے نوجوان کی قوت بیدار نہیں ہوئی، تو ساری کوشش ناکام ہو جائیں گی۔

اب ایک بار پھر موقع آیا ہے، جہاں تک شمال مشرق میں پوشیدہ اس نوجوان قوت کو، کھیلوں کے ٹیلنٹ کو مرکزی دھارے میں لانے کا ہے۔ اس میں آپ کی تنظیم کا بڑا کردار ہو سکتا ہے۔

صرف میری درخواست ہے کہ آپ اپنی اس خدمت کے لئے،

جو بھی مقصد طے کریں،

وہ  قابل پیمائش ہو،

یعنی جسے اعداد و شمار میں طے کیا جا سکتا ہو۔

حفظان صحت کے لئے آپ کو شمال مشرق کے 10 شہروں تک پہنچیں گے یا 1000 دیہات تک پہنچیں گے، یہ آپ خود طے کریں، ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے لئے 100 کیمپ لگائیں گے یا ایک ہزار کیمپ لگائیں گے، یہ آپ خود طے کریں، لیکن میرا پھر اصرار ہے، جو بھی فیصلہ کریں وہ قابل پیمائش ہو۔

2022 تک بھارت سوواشرم سنگھ یہ کہنے کی حالت میں ہو کہ ہم نے صرف مہم نہیں چلائی،

بلکہ 50 ہزار یا ایک لاکھ لوگوں کو اس میں شامل کیا۔

جیسے سوامی پرنبانند جی کہا کہتے تھے کہ-

“ہمیشہ ایک ڈائری مینٹین کرنی چاہئے”،

ویسے ہی آپ بھی ادارے کی ایک ڈائری بنا سکتے ہیں جن کا ہدف بھی لکھا جائے اور طےشدہ وقت پر یہ بھی لکھا جائے کہ اس مقصد کو کتنا حاصل کیا۔

آپ کی یہ کوشش،

آپ کی یہ محنت ،

ملک کی تعمیر کے لئے،

نیو انڈیا کے خواب کو پورا کرنے کے لئے بہت اہم ہے۔

محنت کو تو ہمارے یہاں سب سے بڑا عطیہ مانا گیا ہے اور ہمارے یہاں ہر حال میں عطیہ دینے کی ترغیب دی جاتی ہے۔

شرددھيا دے يم، ا- شرددھيا دے يم،

شريا دےيم، هريا دےيم، بھيا دےيم، سمودا دےيم

یعنی شخص کو چاہئے کہ وہ احتراماً عطیہ دے اور اگر شردھا  نہ ہو تو بھی بغیر شردھا عطیہ دینا چاہئے۔

دولت میں اضافہ ہو تو خیرات دینا چاہئے اور

اگر دولت نہ بڑھ رہا ہو تو پھر لوک لاج سے عطیہ دینا چاہئے۔

خوف سے دینا چاہئے یا محبت سے عطیہ دینا چاہئے۔

کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہر صورت میں انسان کو عطیہ دینا چاہئے۔

ساتھیوں،

شمال مشرق کو لے کر میرا زور اس لیے ہے کیونکہ آزادی کے بعد کے اتنے سالوں میں ملک کے اس علاقے کی متوازن ترقی نہیں ہوئی ہے۔

اب مرکزی حکومت گزشتہ تین برسوں سے اپنے پورے وسائل سے،

وسائل سے شمال مشرق کی متوازن ترقی کی کوشش کر رہی ہے۔

پورے علاقے میں رابطہ بڑھانے پر بھی زور دیا جا رہا ہے۔

40 ہزار کروڑ کی سرمایہ کاری سے شمال مشرق میں سڑک کے بنیادی ڈھانچے تیار کئے جارہے ہیں ۔ ریلوے سے منسلک 19 بڑے پروجیکٹ شروع کئے گئے ہیں، بجلی کا بندوبست درست کیا جا رہا ہے، پورے علاقے میں سیاحت کو  بھی مستحکم کیا جا رہا ہے۔

شمال مشرق کے چھوٹے ہوائی اڈوں کو جدید بنایا جا رہا ہے۔ آپ  کے شیلانگ ایئرپورٹ میں بھی رن وے کی لمبائی میں اضافہ کرنے کی منظوری دے دی گئی ہے۔

بہت جلد شمال مشرق کو “پرواز” منصوبہ بندی سے بھی جوڑا  جائے گا۔

یہ ساری کوششیں شمال مشرق کو جنوب مشرقی ایشیا کا گیٹ وے بنانے میں مدد کریں گی۔

جنوب مشرقی ایشیا کا یہ خوبصورت گیٹ وے اگر اسوچھ ہوگا، بیمار ہوگا، ناخواندہ ہوگا ، غیرمتوازن ہوگا تو ملک ترقی کے گیٹ وے کو پار کرنے سے پچھڑ جائے گا۔ ذرائع اور وسائل سے بھرپور ہمارے ملک میں کوئی ایسی وجہ نہیں جو ہم پسماندہ رہیں، غریب رہیں۔

سب کا ساتھ- سب کی ترقی کے منتر کے ساتھ ہم سب کو بااختیار کرتے ہوئے آگے بڑھنے۔

ہمارا سماج- ہم آہنگی، تعاون اور امن و چین سے مضبوط ہوگا

ہمارا نوجوان- کردار، فکر انگیزی اور شعور سے مضبوط ہوگا

ہمارا ملک- افرادی قوت، عوامی حمایت اور عوامی احساسات سے مضبوط ہوگا

اس تبدیلی کے لئے، حالات تبدیل کرنے کے لئے، نیو انڈیا بنانے کے لئے ہم سب کو، کروڑوں بے لوث كرم یوگيوں کو، بھارت سیواشرم سنگھ جیسے متعدد اداروں کو مل کر کام کرنا ہوگا۔  اسی اپیل کے ساتھ میں اپنی بات ختم کرتا ہوں۔

ایک بار پھر بھارت سیواشرم سنگھ کے تمام اراکین کو بہت بہت مبارک۔

بہت بہت شکریہ !!!

Related posts

Leave a Comment

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More