مجھے اس بات کی بڑی خوشی ہورہی ہے کہ میں یہاں آپ کے درمیان موجود ہوں۔ بھارت میں کوریا کی اتنی بڑی تعداد میں کمپنیاں اصل میں ایک عالمی موقع ہے۔ میں اس موقع پر بھارت میں آپ سبھی کا خیرمقدم کرتا ہوں۔ بھارت اور کوریا کے درمیان تعلقات صدیوں پرانے ہیں۔ سمجھا جاتا ہے کہ کسی زمانے میں بھارت کی ایک راجکماری کوریا گئی تھی اور وہ کوریا میں رانی بن گئی تھی۔ ہم اپنی بودھ روایتوں سے بھی وابستہ ہیں۔ ہماری نوبیل انعام یافتہ شخصیت رابندر ناتھ ٹیگور نے ایک نظم ’لیمپ آف دی ایسٹ‘ 1929 میں لکھی تھی، جو کوریا کے شاندار ماضی اور اس کے تابناک مستقبل کے بارے میں تھی۔ بالی ووڈ کی فلمیں بھی کوریا میں کافی مقبول ہیں اور بھارت میں کچھ مہینے پہلے کبڈی سے پہلے کی لیگ، جس میں داد و تحسین کے ماحول میں کوریائی کبڈی کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کی گئی۔ یہ ایک حسن اتفاق بھی ہے کہ بھارت اور جنوبی کوریا، دونوں اپنا یوم آزادی 15اگست کو مناتے ہیں۔ راجکماری سے شاعری تک اور بدھا سے بالی ووڈ تک ہمارے درمیان کافی کچھ مشترک ہے۔
جیسا کہ میں اس سے پہلے کہہ چکا ہوں کہ میں کوریا سے ہمیشہ سے متاثر رہا ہوں۔ میں نے کوریا کا دورہ اس وقت کیا تھا جب میں گجرات کا وزیر اعلیٰ تھا۔ میں حیران ہوتا تھا کہ ایک ملک جو گجرات جتنا بڑا ہے، کس طرح اتنی زیادہ اقتصادی ترقی کرسکا۔ میں کوریائی عوام کی محنت کے جذبے کو سراہتا ہوں۔ میں اس طریقے کو سراہتا ہوں جس طریقے سے کوریا کے عوام نے اپنے عالمی مارکہ کو تشکیل دیا اور برقرار رکھا ہے۔ آئی ٹی اور الیکٹرانکس سے آٹوموبائل اور اسٹیل تک، کوریا نے دنیا کو مثالی مصنوعات دی ہیں۔ کوریائی کمپنیوں کو ان کی اختراع اور مصنوعات سازی کی مضبوط صلاحیت کی وجہ سے سراہا جاتا ہے۔
دوستو،
یہ بات دل سے نکلتی ہے کہ ہماری دو طرفہ تجارت پچھلے 6 برسوں کے دوران پچھلے سال پہلی مرتبہ 20 ارب ڈالر سے تجاوز کرگئی۔ میرے 2015 کے دورے سے بھارت پر توجہ میں اضافہ ہوا۔ آپ کی کھلی منڈی کی پالیسی، بھارتی معیشت میں نرم روی اور ’مشرق کی طرف توجہ‘ سے میل کھاتی ہے۔ 500 سے زیادہ کوریائی کمپنیاں بھی بھارت میں اپنا کام کاج کررہی ہیں۔ درحقیقت آپ کی بہت سی مصنوعات بھارت میں مقبول عام ہوگئی ہیں، البتہ جنوبی کوریا کا بھارت میں ایف ڈی آئی حصص کی آمد میں سولہواں درجہ ہے۔ بھارت میں کوریائی سرمایہ کاروں کے لئے بہت سے موقعوں کی پیشکش کرتا ہے، جہاں اسے ایک بڑی مارکیٹ ملے گی اور اسے حوصلہ دینے والی پالیسیوں کا ماحول ملے گا۔
چونکہ آپ میں سے بہت سے لوگ بھارت میں پہلے سے ہی موجود ہیں، لہٰذا آپ حقیقت سے پہلے ہی واقف ہیں۔ بھارتی سی ای او کے ساتھ آپ اپنے تال میل کی وجہ سے آپ یہ بات جان چکے ہیں کہ بھارت کس رخ پر جارہا ہے، البتہ آپ مجھے چند لمحے اور لینے دیجئے۔ میں اس موقع پر ان لوگوں کو جو یہاں موجود نہیں ہیں، ذاتی طور پر بھارت آنے کی دعوت دیتا ہوں۔ اگر آج آپ دنیا بھر میں نظر ڈالیں تو چند ایسے ممالک ہیں جہاں آپ کو معیشت سے متعلق تین اہم عناصر یکجا ملیں گے، وہ عناصر ہیں جمہوریت، آبادی سے متعلق اعداد و شمار اور مانگ۔ بھارت میں ہم ان تینوں عناصر کو یکجا دیکھتے ہیں۔ جمہوریت سے میرا مطلب ہے ایک ایسا نظام جو نرم روی کے اقدار پر مبنی ہو، جس میں سبھی کو شفاف طور پر اور کھل کر کام کرنے کا موقع ملے۔ آبادی سے متعلق اعداد و شمار سے میرا مطلب ہے ایک بڑی تعداد میں باصلاحیت نوجوان اور جوش و جذبے سے مامور کام کرنے کی طاقت۔ مانگ سے میرا مطلب ہے کہ اشیاء اور خدمات کے لئے ایک بڑی اور ابھرتی ہوئی مارکیٹ۔ اوسط درجے کے ایک ابھرتے ہوئے طبقے سے گھریلو مارکیٹ کو مزید ترقی حاصل ہورہی ہے۔ ہم نے ایک مستحکم تجارتی ماحول قائم کرنے، قانون کی بالادستی کو یقینی بنانے اور فیصلہ سازی میں منمانی کے رجحان کو ختم کرنے کی راہ میں کام کیا ہے۔ ہم روزمرہ کے لین دین میں مثبت رجحان پاتے ہیں۔ ہم اعتماد کے میدان کو پھیلارہے ہیں نہ کہ ہم شکوک و شبہات کو اور گہرا کریں۔ اس سے حکومت کے رجحان میں مکمل تبدیلی کی عکاسی ہوتی ہے۔ بزنس حصے داروں کو اختیار دینے سے ’’کم سے کم حکومت، زیادہ سے زیادہ حکمرانی‘‘ کی طرف منتقلی۔ اور جب یہ سب کچھ ہوتا ہے اور اصولوں میں نرمی آتی ہے تو عمل اپنے آپ شروع ہوجاتا ہے۔
آخرکار یہی وہ سب کچھ ہے جو تجارت میں ان اقدامات کے ذریعے آسانی پیدا کرنے کا تقاضہ ہے۔ ہم اب ’ایز آف لیونگ‘، یعنی آسان زندگی کی سمت کام کررہے ہیں۔ ہم ضابطوں کو اور لائسنس کو ختم کرنے کی مہم چلارہے ہیں۔ صنعتی لائسنس کے جواز کی مدت میں 3 سال کا اضافہ کرکے 15 سال اور اس سے زیادہ کردیا گیا ہے۔ دفاعی مصنوعات کے لئے صنعتی لائسنس کے طریق کار میں بڑے پیمانے پر نرمی کی گئی ہے۔ تقریباً 65 سے 70 فیصد چیزیں جن پر پہلے لائسنس تھا، اب بغیر لائسنس کے تیار کی جاتی ہیں۔ ہم نے کہا ہے کہ فیکٹریوں کا معائنہ اب صرف ضرورت کی بنیاد پر ہوگا اور یہ معائنہ اب صرف اعلیٰ حکام ہی کرسکیں گے۔ غیرملکی براہ راست سرمایہ کاری ایف ڈی آئی میں اب ہم سب سے زیادہ کھلے ہوئے ملکوں میں شامل ہوگئے ہیں۔ ہماری معیشت کے زیادہ تر شعبے ایف ڈی آئی کے لئے کھلے ہیں۔ نوے فیصد سے زیادہ منظوریاں اب آٹومیٹک طریقے سے دی جاتی ہیں۔ دفاع کے شعبے کو چھوڑکر، مصنوعات کے شعبے میں اب عملی طور پر سرمایہ کاروں کے لئے خاص طور پر سرکاری منظوری کی ضرورت نہیں ہے۔ کسی کمپنی کو قانونی حیثیت اور ایک نمبر جاری کرنے میں اب صرف ایک دن لگتا ہے۔ ہم نے تجارت، سرمایہ کاری، حکمرانی اور سرحد پار سے کی جانے والی تجارت کے محاذ پر ہزاروں تبدیلیاں کی ہیں۔
اس میں سے کچھ جی ایس ٹی کی طرح ہیں، جو تاریخی ہیں۔ آپ میں سے بہت سے لوگ جی ایس ٹی کی وجہ سے کام کاج میں آسانی بھی محسوس کررہے ہوں گے۔ ہم نے 1400 سے زیادہ پرانے قوانین اور دفعات پوری طرح ختم کردیئے ہیں، جس سے اس طرح کے اقدامات میں رکاوٹ آتی تھی اور اب ہماری معیشت تیزرفتار ترقی کی راہ پر گامزن ہوگئی ہے۔ پچھلے تین سال میں ایف ڈی آئی کی آمد میں سب سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ گھریلو صنعت میں ایک نئی توانائی اور تحریک پائی جاتی ہے۔ ایک نئے اسٹارٹ اَپ، ماحولیاتی نظام کی نقاب کشی ہوئی ہے۔ انفرادی شناختی نمبر اور موبائل فون کا استعمال ہونے لگا ہے، جس کی وجہ سے ہم ایک ڈیجیٹل معیشت کی شکل اختیار کرنے کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ہماری حکمت عملی ہے کہ لاکھوں بھارتیوں کی طاقت کو بڑھاوا دیا جائے، ہم حالیہ برسوں میں آن لائن کام بھی کافی زیادہ کرنے لگے ہیں، لہٰذا ایک نیا بھارت ابھررہا ہے، جو جدید اور مقابلہ جاتی ہوگا، نیز یہ دوسروں کا خیال کرنے والے اور ہمدردی کے جذبے کا حامل ہوگا۔ عالمی پلیٹ فارم پر بھارت پچھلے تین سال میں عالمی بینک کے، تجارت کو آسان بنانے کے انڈیکس میں 42 مقام پر آگیا ہے۔ ہم نے عالمی بینک کے 2016 کے، لوجسٹکس کارکردگی کے انڈیکس میں 16 پائیدانوں کی چھلانگ لگائی ہے۔ ہم نے پچھلے دو برس میں عالمی معاشی فورم کے عالمی مسابقتی انڈیکس میں 31 درجہ بہتری حاصل کی ہے۔ ہم نے پچھلے دو سال میں ڈبلیو آئی پی او کے عالمی اختراعی انڈیکس میں 21 مقام کی چھلانگ لگائی ہے۔ ہم یو این سی ٹی اے ڈی کی ایف ڈی آئی سے متعلق دس چوٹی کے ملکوں میں شامل ہوگئے ہیں۔ ہمارا مینوفیکچرنگ ماحولیاتی نظام عالمی سطح پر کم سے کم لاگت والا ہے۔ ہمارے یہاں معلومات اور توانائی والے باہنر پیشہ ور افراد کا ایک بڑا اجتماع ہے۔ اب ہمارے پاس عالمی سطح کی انجینئرنگ تعلیم کا پلیٹ فارم ہے اور تحقیق و ترقی کی مضبوط سہولیات بھی موجود ہے۔ پچھلے دو برسوں میں ہم کارپوریٹ رخ پر کم ٹیکس والے نظام کی طرف بڑھے ہیں، جہاں ہم نے نئے سرمایہ کاروں اور چھوٹے پروجیکٹ شروع کرنے والوں کے لئے ٹیکس کو 30 فیصد سے کم کرکے 25 فیصد کیا ہے۔ ہم کایاپلٹ بھارت کے مشن کے تئیں کام کررہے ہیں، جس میں ایک پرانی تہذیب سے ایک جدید سماج میں منتقلی کے مقصد کو اپنایا گیا ہے، جس میں ایک غیررسمی معیشت کو رسمی معیشت میں بدلنے کے مقصد کو اپنایا گیا ہے۔ آپ ہمارے کام کی وسعت اور حجم کو دیکھ سکتے ہیں۔ ہم اپنی قوت خرید کے اعتبار سے دنیا کی تیسری سب سے بڑی معیشت بن چکے ہیں۔ بہت جلد ہم کم سے کم جی ڈی پی کے ذریعے دنیا کی پانچویں سب سے بڑی معیشت بن جائیں گے۔ ہم آج دنیا کی سب سے تیزی سے ابھرتی ہوئی معیشت بھی ہیں۔ ہم ایک ایسا ملک بھی ہیں، جہاں سب سے زیادہ اسٹارٹ اپ ماحولیاتی نظام ہے۔
ہمارا وژن ہے کہ ہم عالمی سطح کی مسابقتی صنعت اور خدمات کا پلیٹ فارم قائم کریں، جس میں ہنر، رفتار اور مقدار کا خیال بھی رکھا جائے، لہٰذا ہم اپنے سرمایہ کاری کے ماحول کو بہتر بنانے کی راہ میں لگاتار کام کررہے ہیں۔ ہم خاص طور پر مینوفیکچرنگ کو بڑے پیمانے پر فروغ دینا چاہتے ہیں، تاکہ ہمارے نوجوانوں کے لئے روزگار کے مواقع پیدا ہوں۔ اس مقصد سے ہم نے میک اِن انڈیا نام کی مہم شروع کی ہے، اس میں ہمارے صنعتی بنیادی ڈھانچے، پالیسیوں اور وہ طور طریقے بھی شامل ہیں، جو بہترین عالمی معیارات کے حامل ہیں، نیز بھارت کو عالمی سطح کا ایک مصنوعات سازی کا مرکز بنانا شامل ہے۔ اس قدم کو ڈیجیٹل انڈیا اور اسکل انڈیا جیسے پروگراموں کے ذریعے مدد دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ زیادہ صاف اور زیادہ ہری بھری ترقی اور زیرو خامی زیرو اثر مینوفیکچرنگ ایک اور عزم ہے۔
ہم دنیا کے تئیں پرعزم ہیں اور بہتر ماحولیاتی ٹیکنالوجی اختیار کرنے کی طرف زبردست طریقے سے مائل ہیں۔ میں نے اس سے پہلے کہا تھا کہ بھارت کے سافٹ ویئر اور کوریا کی آئی ٹی صنعت کے درمیان تعاون کی بہت زیادہ گنجائش موجود ہے۔ آپ کی کار بنانے کی صلاحیت اور ہماری ڈیزائن تیار کرنے کی صلاحیت یکجا ہوسکتی ہے۔ اگرچہ ہم اسٹیل بنانے والا تیسرا سب سے بڑا ملک بن گئے ہیں، لیکن ہمیں ابھی اس سلسلے میں بہت کچھ کرنا ہے۔ آپ کی اسٹیل بنانے کی صلاحیت اور ہمارے خام لوہے کے وسائل بہتر مصنوعات کے لئے یکجا کئے جاسکتے ہیں۔
اسی طرح آپ کی جہاز بنانے کی صلاحیت اور ہمارابندرگاہ کی تعمیر کی ایجنڈہ ہمارے درمیان شراکت داری کی ایک مہم بن سکتا ہے۔ ہاؤسنگ، اسمارٹ سٹیز، ریلوے اسٹیشن، پانی، ٹرانسپورٹیشن، ریلوے، سمندروں پر بندرگاہیں اور توانائی، جن میں قابل تجدید توانائی، آئی ٹی سے متعلق بنیادی ڈھانچہ اور خدمات اور الیکٹرانکس بھی شامل ہیں، یہ سبھی ملک میں ترقی کے یقینی شعبے ہیں۔ بھارت اور کوریا خطے میں بڑی معیشتیں ہیں۔ ہماری شراکت داری میں زبردست صلاحیت موجود ہے کہ ہم ایشیا میں علاقائی ترقی، فروغ، استحکام اور خوشحالی کو فروغ دیں۔ بھارت ایک بڑی معیشت بننے کے لئے مشرق کا رخ کئے ہوئے ہے، اسی طرح جنوبی کوریا بھی اپنی سرحد پار کی مارکیٹ میں تنوع پیدا کرنے کی کوشش کررہا ہے۔
دونوں ہی ملک اپنی شراکت داری میں گہرائی لانے کی راہ پر ہیں۔ بھارت ایک بڑی اور ابھرتی ہوئی مارکیٹ ہے۔ یہ کوریائی تجارت کے لئے ایک بڑا پل ہے، جس کے ذریعے مشرق وسطیٰ اور افریقی منڈیوں میں داخل ہوا جاسکتا ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ جب میں نے کوریا کا دورہ کیا تھا تو اس کے دوران ایک ہاتھ پکڑنے والی ایجنسی کی ضرورت تھی۔ یہ اعلان کیا گیا تھا کہ ایک خود کو وقف کردینے والی ٹیم بھارت میں کوریائی سرمایہ کاری کے لئے قائم کی جائے گی۔ اسی کے مطابق جون 2016 میں ’’کوریا پلس‘‘ تشکیل دی گئی تھی۔ کوریا پلس کا مقصد بھارت میں کوریائی سرمایہ کاری کو فروغ دینا، اس میں آسانی پیدا کرنا اور اسے برقرار رکھنا ہے۔ اسے بھارت میں کوریائی سرمایہ کاروں کے لئے پہلے قدم کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔ کوریا پلس کی وجہ سے تقریباً دو سال کے مختصر عرصے میں 100 سے زیادہ کوریائی سرمایہ کاروں کو آسانی فراہم ہوئی ہے۔ یہ کوریائی کمپنیوں کے سرمایہ کاری کے حلقے کے ذریعے ایک شراکت دار کے طور پر کام کررہا ہے۔ اس سے کوریائی عوام اور کمپنیوں، ان کے نت نئے نظریات اور سرمایہ کاری کے خیرمقدم کے تئیں ہمارے عزم کا اظہار ہوتا ہے۔
دوستو!
میں یہ کہتے ہوئے اپنی بات ختم کرنا چاہوں گا کہ بھارت اب تجارت کے لئے تیار ہے۔ بھارت اب چھوٹی صنعتوں کے لئے ایک آزاد ملک ہے۔ آپ اب دنیا میں اس سے زیادہ آزاد اور ابھرتی ہوئی مارکیٹ کہیں نہیں پائیں گے۔ میں آپ کو مزید یقین دلاتا ہوں کہ آپ کے سرمایے کو فروغ اور تحفظ دینے کے لئے جو کچھ بھی درکار ہے، وہ سب کچھ مہیا کرایا جائے گا، کیونکہ ہم اپنی معیشت میں آپ کی سرگرمیوں اور تعاون کی قدر کرتے ہیں۔ میں ذاتی طور پر بھی آپ کو اپنی طرف سے جب کبھی ضرورت ہوگی، پوری مدد کا یقین دلاتا ہوں۔