نئی دہلی، نائب صدرجمہوریہ جناب ایم وینکیا نائیڈو نے تبدیل شدہ تکنیکی – اقتصادی منظر نامے کے پیش نظر امداد باہمی سیکٹر کو منضبط کرنے والے قوانین کو جدید بنانے پر زور دیا ہے تاکہ یہ ایک جاندار اور متحرک صنعت بن سکے۔ وہ آج ممبئی میں سہکار بھارتی کے ذریعے منعقدہ امداد باہمی پر لکشمن راؤ انعامدار میموریل لیکچر دے رہے تھے۔ اس موقع پر مہاراشٹر کے گورنر ودیاساگر راؤ ، مہاراشٹر کے اعلیٰ اور تکنیکی تعلیم کے وزیر جناب ونود تاؤڑے اور دیگر شخصیات موجود تھیں۔
نائب صدرجمہوریہ نے کہا کہ معلومات میں کمی ، مانسون میں کمی بیشی ، مارکیٹ تک رسائی کی کمی اور ذخیرہ کرنے کی سہولیات کے فقدان کی وجہ سے زراعت ایک غیر مفید پیشہ بنتی جارہی ہے، جس کی وجہ سے لوگ دیہی علاقوں سے شہری علاقوں میں ہجرت کے لئے مجبور ہورہے ہیں۔
نائب صدرجمہوریہ نے دیہی معیشت کو مستحکم کرنے اور کسانوں کی مدد کرنے اور ان کی آمدنی میں اضافہ کرنے کے لئے امداد باہمی سیکٹر کو کلیدی رول ادا کرنے پر زور دیا۔ انہوں نے تحقیقی اداروں سرکاری ایجنسیوں سے کہا کہ وہ کسانوں کو تعلیم دینے میں کوششوں کے لئے امداد باہمی کی مدد کریں اور اس بات کے لئے ان کی حوصلہ افزائی کریں کہ وہ کسانوں کو باغبانی ، ماہی پروری ، مکھی پالن ، دیہی لاجسٹک اور ٹرانسپورٹ ، خوراک کو ڈبہ بند کرنے جیسے دوسرے پیشوں کو اپنانے کے لئے رضامند کریں تاکہ کسانوں کی آمدنی میں اضافہ کیا جاسکے۔
نائب صدر جمہوریہ نے کھیتی اور زراعت پر انحصار کرنے والے لوگوں کے معیار زندگی کو بہتر بنانے کے لئے حکام ، سیاست دانوں ، میڈیا اور سائنس دانوں سے زیادہ توجہ دینے پر بھی زور دیا۔
جناب نائیڈو نے کہا کہ امداد باہمی کے گروپ کسانوں کو کیمیاوی کھاد اور کیڑے مار ادویات کے درست استعمال سے آگاہ کرکے اور کسانوں کو نامیاتی کھاد استعمال کرنے اور پانی کے مناسب استعمال کے بارے میں تربیت فراہم کرکے پیداوار کی لاگت کو کم کرنے میں مدد کرسکتے ہیں۔
نائب صدرجمہوریہ نے کہا کہ اگرچہ بھارت اناج کی پیداوار میں خود کفیل ہوچکا ہے لیکن زرعی سیکٹر میں اب بھی ڈھانچہ جاتی خامیاں موجود ہیں۔ انہوں نے امداد باہمی کی سوسائٹیوں پر زور دیا کہ وہ حکومت اور کسانوں کے درمیان اہم رابطہ کار بنیں اور پردھان منتری فصل بیمہ یوجنا ، کرشی سینچائی یوجنا جن دھن یوجنا، ای- نام ، مدرا یوجنا اور کم از کم امدادی قیمت جیسی حکومت کی اسکیموں کے فوائد کسانوں تک پہنچانے کی کوشش کریں۔
نائب صدرجمہوریہ نے کہا کہ بھارت میں امداد باہمی تحریک کی ایک عظیم تاریخ رہی ہے جس نے بھارتی معیشت کے کئی شعبوں میں شاندار ترقی کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں ساڑھے آٹھ لاکھ سے زیادہ امداد باہمی کے اداروں کے نیٹ ورک میں 25 کروڑ سے زیادہ لوگ ممبر تھے، جو دنیا میں سب سے بڑی امداد باہمی کی مثال ہے ۔ البتہ انہوں نے کہا کہ امداد باہمی کے سیکٹر کو ماضی قریب میں ڈھانچہ جاتی چیلنجوں کا سامنا رہا ہے، جس میں خواتین اور نوجوانوں کی کم شرکت ، امداد باہمی اداروں پر افسر شاہی کنٹرول اور سیاسی مداخلت کی وجہ سے سیکٹر کو چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
جناب نائیڈو نے کہا ہے کہ سنگاپور ، ڈنمارک ، اسکینڈنیویائی ممالک، جاپان اورسوئٹزرلینڈ جیسے دنیا بھر کے ملکوں میں امداد باہمی سیکٹر کامیاب ماڈل ثابت ہوا ہے ۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ حفظان صحت ، خردہ فروخت ، خوراک کی پیداوار اور دیگر شعبوں میں امداد باہمی سے کافی فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔
مختلف ملکوں میں امداد باہمی سیکٹر کی رسائی کا حوالہ دیتے ہوئے نائب صدرجمہوریہ نے کہا کہ سنگاپور میں 55 فیصد خردہ مارکیٹ اور ڈنمارک میں 36 فیصد خردہ مارکیٹ امداد باہمی کے اداروں کے تحت ہیں ۔ انہوں نے مزید کہا کہ صارفین کے امدادی باہمی ادارے جاپان ، سوئٹزرلینڈ ، جرمنی ، فرانس اور نیدرلینڈ جیسے ملکوں میں ٹھوس موجودگی رکھتے ہیں اور عام آدمی کو امداد باہمی کی بنیاد پر سستی حفظان صحت فراہم کررہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں ان ملکوں سے سیکھنا چاہئے اور عام آدمی کی بہتری کے لئے بھارت میں بھی ان ماڈلوں کو نافذ کرنا چاہئے ۔