نئی: ستمبر۔نائب صدرجمہوریہ ہند جناب ایم وینکیانائیڈو تعلیمی نظام کی تشکیل نو کی بات کی ہے تاکہ طلباء کو اس انداز سے تیار کیاجاسکے کہ وہ اکیسویں صدی کی چنوتیوں کا سامنا مؤثر انداز میں کرسکیں۔ ساتھ ہی ساتھ بھارتی اقدار اور روایات کا بھی لحاظ رکھیں۔
بی ایچ ایس اعلیٰ تعلیمی سوسائٹی کی پلیٹینم جوبلی تقریبات کا آج یہاں بنگلورو میں افتتاح کرتے ہوئے انہوں نے خواہش ظاہر کی کہ نئی تعلیمی پالیسی کو بھارت کی جامع تاریخ پر زیادہ سے زیادہ احاطہ کرنا چاہئے اور ہماری مالا مال ثقافت اور ورثے کا بھی خیال رکھنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ تاریخ کی کتابوں کو ملک کے مختلف حصوں سے تعلق رکھنے والے عظیم مجاہدین آزادی کے تعاون سے بھی آراستہ کیاجانا چاہئے یعنی ان کے تعاون کا بھی ذکر بھی ان کتابوں میں شامل ہوناچاہئے۔ جناب نائیڈو نے کہا کہ ہمارا تعلیمی نظام ایساہونا چاہئے جو ہمارے اعلیٰ تعلیمی اداروں اور یونیورسٹیوں کو عمدگی کا مرکز بنائے جن کا معیار عالمی ہو۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں ایک ایسا تعلیمی نظام درکار ہے جو طلباء کو ایک مکمل انسان بنائے، جو انسان دیگر لوگوں کی ضرورتوں کا ادراک رکھتا ہو ،دوسرے کے نقطہ نظر کو سمجھنے پر قادر ہو اور اقدار اور روایات کا لحاظ کرے۔
نائب صدر جمہوریہ ہند نے اساتذہ، ماہرین تعلیم، محققین اور والدین کو مشورہ دیا کہ وہ حکومت کے ذریعے پیش کی گئی نئی تعلیمی پالیسی کے مسودے کا مطالعہ کریں اور اسے مزید مضبوط اور زیادہ سے زیادہ ہندوستانی ، مساوی اور شمولیت پر مبنی بنانے کیلئے اپنی تجاویز پیش کریں ۔ انہوں نے کہا کہ پالیسی سازوں اور ماہرین تعلیم کو اس امر کو یقینی بنانا چاہئے کہ ہر بچے کو مجموعی خوبی کی حامل تعلیم حاصل ہوسکے۔
خاص طور پر تعلیم کی بڑھتی ہوئی لاگت کے پہلو پر اپنی تشویش کااظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ ازحد تشویشناک ہے۔ تعلیم بنیادی ضرورت ہے اور اسے قابل استطاعت بنایا جانا چاہئے انہوں نے کہا کہ عمدگی کی حامل تعلیم کو مہنگی تعلیم کے ساتھ نہیں ملایا جانا چاہئے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ تعلیم کو زیادہ سے زیادہ مساوی اور مبنی بر شمولیت بنایا جائے۔ میں تمام اساتذہ جو یہاں جمع ہوئے ہیں، ماہرین تعلیم، محققین اور والدین کو مشورہ دینا چاہوں گا کہ وہ نئی تعلیمی پالیسی کے مسودے کا مطالعہ کریں اور اسے مضبوط اور ہندوستانی بنانے کیلئے اپنی تجاویز پیش کریں۔
نائب صدر جمہور یہ ہند نے کاروباری ایسوسی ایشنوں، کارپوریٹ فرموں ، ٹرسٹوں، صنعت کاروں اور انسان دوست اداروں سے بھی گزارش کی کہ وہ قابل استطاعت تعلیم کو فروغ دینے کیلئے سرمایہ فراہم کریں۔
بھارت ایک زمانے میں علم ودانش کا عظیم مخزن تھا اور اس وقت اسے وشوگورو (یعنی استاذ عالم) کے نام سے جانا جاتا تھا۔ بھارت کا قدیم گوروکُل تعلیمی نظام (یعنی استاذ شاگرد کا مخصوص نظا م) اور گرو ششیہ پرمپرا اقدار پر مبنی مجموعی تعلیم فراہم کرتی تھی جو افراد کو بااختیار بناتی تھی۔ ہمیں ایک مرتبہ پھر اپنے جڑوں کی جانب لوٹنا ہوگا۔ جناب نائیڈو نے خیال ظاہر کیا کہ عمومی تعلیم فراہم کرنے کیلئے کوئی بھی پالیسی یا حکمت عملی ایسی ہونی چاہئے جو اس امر کو یقینی بنائے کہ ہماری آبادی کا کمزور طبقہ ، خواتین ، مختلف طور پر اہل افراد اور اقتصادی طور پر کمزور افراد پر بھی کُلی طور پر احاطہ کیاجاسکے۔
اس امر کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ بھارت کی 65 فیصد آبادی 35 برس سے کم عمر کی ہے، نائب صدر جمہوریہ ہند نے کہا کہ تعلیم آبادی سے متعلق بالادستی اور اس کے فوائد سے استفادہ کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے یعنی محوری حیثیت رکھتی ہے۔ انہوں نے اس امر کو یقینی بنانے کیلئے اقدام کرنے پر زور دیا کہ تعلیم یافتہ اور بااختیار نوجوان ملک کی انسانی دھروہر یا سرمایہ ہیں اور انہیں وافر مواقع ، تعاون اور ہنرمندی فراہم کی جانی چاہئے۔
جناب نائیڈو نے حکومت ، ماہرین تعلیم اور صنعتی اداروں کو مشورہ دیا کہ وہ سخت ترین تعلیمی معیارات کے نفاذ میں ہاتھ بٹائیں اور درکار ضروری بنیادی ڈھانچہ فراہم کریں۔ سماجی اور صنفی تفریق کی مثالوں پر اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے لوگوں کے انداز فکر میں تبدیلی لانے کی تلقین کی۔جناب نائیڈو نے دیہی اور شہری علاقو ں میں واقع فرق کو دور کرنے اور قابل استطاعت تعلیم تک عام رسائی کو یقینی بنانے پر بھی زور دیا۔
رُکن پارلیمنٹ جناب پی سی موہن اور جناب تیجسوی سوریہ ، بی ایچ ایس ہائرایجوکیشن سوسائٹی کے صدر اور خزانچی جناب جی وی وشوناتھ ، بی ایچ ایس ہائر ایجوکیشن سوسائٹی کے نائب صدر جناب این بی بھٹ اور بی ایچ ایس ہائر ایجوکیشن سوسائٹی کے جوائنٹ سکریٹری ڈاکٹر آر وی پربھاکر اور دیگر عمائدین بھی اس موقع پر موجود تھے۔