نئیدہلی۔یکم اپریل ۔بھارت کے نائب صدر جمہوریہ جناب ایم وینکیا نائڈونے کہا کہ تعلیم کو ایک ایسے سماج کی تشکیل کرنے کے لئے بنیادڈالنی چاہئے جو زندگی میں امن اور اطمینان کو یقینی بنانے کے لئے اخلاقی اقدار پر مبنی ہو ۔ سماج میں ہر طرف اخلاقی اقدار کی کمی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے جناب نائیڈو نے کہا کہ ناپسندیدہ رجحانات کو پوری طرح روکنا ہوگا اور اس طرح کی کایا پلٹ کرنے کے لئے اسکول بہترین جگہ ہیں ۔
بھوبھنیشور میں آج سائیں انٹر نیشنل اسکول میں دسواں فاؤنڈیشن لیکچر دیتے ہوئے نائب صدر جمہوریہ نے کہا کہ مستقبل کےشہریوں کو علم وعقل سےآراستہ کرنے کے ساتھ ساتھ تعلیم کو سماجی ،اخلاقی اور روحانی اقدار کرنی چاہئیں ۔ انہوں نے کہا کہ ساتھی شہریوں، دیگر جانداروں ، اپنے ماحول اور سماج کے بڑےمفاد کےک تئیں آپ کے عزم کے تئیں آپ کا رویہ اہم ہے ۔جناب نائیڈو نے اس ضرورت پر بھی زور دیا کہ نوخیز طلبا میں رضاکاری کا جذبہ پیدا کیا جانا چاہئے ۔انہوں نے طلبا کو مشورہ دیا کہ وہ زندگی کے ہنر اور رضاکاری سیکھنے کے لئے این سی سی ، این ایس ایس اسکاؤٹس اینڈ گائڈز جیسی تنظیموںمیں شامل ہوں۔
1۔ بابائے قوم مہاتما گاندھی نے جن سات بدترین سماجی گناہوںکا ذکر کیا ہے ان کے بارے میں نائب صدر جمہوریہ نے کہا کہ ایسی تعلیم جو کردار سازی نہ کرے ،ان گناہوں میں سے ایک ہے ۔
یہ اظہار خیال کرتے ہوئے کہ اسکول قوم کے مستقبل کو شکل دینے میں سب سے زیادہ اہم اور بنیادی کردار ادا کرتا ہے ۔ نائب صدر جمہوریہ نے کہا کہ اسکول کو چاہئے کہ وہ محض تعلیمی کامیابیوں پر توجہ نہ دیتے ہوئے بچے کی مجموعی ترقی پر زور دیں ۔ انہوں نے اظہار خیال کیا کہ نوخیز وں کے لئے یہ بہت ہی اہم ہے کہ وہ ملک کے ذمہ دار ،فکر مند اور ہمدرد شہری بنیں ۔
نائب صدر جمہوریہ نے زور دے کر کہا کہ تعلیم کو دنیا میں بہترین تعلیمی طور طریقوں ،پڑھانے کے طریقوںاور تکنیک سے ملایاجائے،جس کے ساتھ ساتھ ہمیں اخلاقی اقدار نہیں کھونی چاہئیں جو بھارت کی وشو گرو کی حیثیت واپس لانے کے لئے لازمی ہیں ۔
انہوں نے اسکولوںکو مشورہ دیا کہ وہ تکنیک کے جدید ترین طریقوںکو اپنائیں اور ملک میں قدیم تہذیب ،ثقافت ،روایات ،وراثت اور تاریخ کی اہمیت کے بارے میں طلبا کو تکنیک سے واقف کرائیں ۔ انہوں نے کہا کہ تاریخ کی سمجھ مکمل اور جامع ہونی چاہئے ،جس میں تعصب کے لئے کوئی جگہ نہ ہو۔
جناب نائیڈو نے اسکولوںکو مشورہ دیا کہ وہ رٹنے کی تعلیم کو مسترد کریں اور اختراعی اور تخلیقی سو چ کو پروان چڑھائیں ۔ انہوں نے کہا کہ طلبا کی ہر حال میں حوصلہ افزائی کی جانی چاہئے کہ وہ تجسس اور سوال پوچھنے والا ایسا ذہن تیار کرے جو ہمیشہ نئی نئی چیزیں اور تابندہ قسم کے نئے طور طریقوںکو جاننے کی جستجو میںرہیں۔
جناب نائیڈو نے اسکولوں سے خواہش ظاہر کی کہ وہ ٹکنالوجی میں تیزی سے ہوتی ہوئی ترقی کو گلے لگائیں اور اکیسویں صدی کی روزگار مارکیٹ کی مطابقت طلبا کے ہنر کو پروان چڑھائیں تاکہ ان میں محنت کاجذبہ پیدا ہو ۔
اس تقریب سے جناب وینکیا نائیڈو کے خطاب کا متن مندرجہ ذیل ہے :
مجھے اس ادارے کے طلبا ،اساتذہ اورسرپرستوں کے ساتھ گفتگو اورتبادلہ خیال سے ازحد مسرت ہورہی ہے ۔ میں جب بھی کسی اسکول یا کالج جاتا ہوںتو ملک کے روشن مستقبل کی امیدوں سے میرا دل لبریز ہوجاتا ہے ۔ میرا ہمیشہ سے یہ خیال رہا کہ اسکول محض منادر تعلیم ہی نہیں ہے بلکہ ایک ایسے ادارے کی حیثیت رکھتے ہیں جو کسی ملک کے مستقبل کی چہرہ کاری میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں ۔ یہ ادارے ایک ایسی تربیت گاہ کی حیثیت رکھتے ہیں ،جہاں سے مستقبل کے طلبا،سائنس داں ، ڈاکٹرز ، انجیئیرز ،چارٹرڈ، اکاؤنٹنٹس ، سیاستداں اور مختلف شعبوں کے محققین تیار ہوکر نکلتے ہیں ۔ اس لئے محض علمی کامیابی پرتوجہ مرکوز کئے بغیر بچے کی مجموعی ترقی پر زوردیتی ہے ۔ عزیز طلبا ! آپ سب نے ابھی اپنے امتحانات مکمل کئے ہیں اور اب آپ جلدہی اگلے درجے کے نئے تعلیمی سال میں شامل ہوجائیں گے ۔ میں آپ کے علمی کیریئر اور مفید مطلب مستقبل کے لئے ہر کامیابی کے لئے نیاک خواہاشت پیش کرتا ہوں ۔
اسکول وہ مقام ہے جہاں ہم رنگارنگ جدت طرازی اور معصوم اصول پرستی کا جشن مناتے ہیں۔اخلاقی قدروں کو پروان چڑھاتے ہیں اور امید اور آرزومندی کے ساتھ اپنے خوابوں کا تعاقب کرتے ہیں ۔ ہمارے سابق صدر جمہوریہ ہند ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام اکثر طلبا کو خواب دیکھنے کی تلقین کرتے ہوئے کہا کرتے تھے کہ خواب خیال میں بدل جاتے ہیں اور خیالات اقدامات میں تبدیل ہوجاتے ہیں ۔ آپ کے خواب ،آپ کے آدرش اور نظریات اس عظیم ملک کےمستقبل کی چہرہ کاری کریں گے ۔تعلیم محض حصول ملازمت کا ذریعہ نہیں ہے بلکہ اس کا مطلب علم اور خرد کے ذریعہ فرد کو بااختیار بنانا ہے ۔ اسکولوںکو ابتدائی تعلیم کے تازہ ترین طریقوں کے ساتھ طلبا کو علم سے آراستہ کرنے کے عمل میں طلباکو ہماری قدیمی تہذیب ،ثقافت ،روایات ،وراثت اور تاریخ کی اہمیت سے بھی واقف کرانا اور احساس کرایاجانا چاہئے ۔ تاریخ کی تفہیم بغیر کسی قسم کی عصبیت کے مکمل اور جامع کی جانی چاہئے ۔
ہندوستان صدیوں تک استادعالم یعنی وشو گرو رہا ہے ۔ ہم نے تجریدی علوم اور اطلاقی علوم میں مہارت حاصل کی ہے ۔ وہ دانشورانہ اثاثہ جات کا عویٰ ملکیت کرنے کے دن نہیں تھے بلکہ ہمارا خیال ہے کہ علم صحیح معنو ں میں وہ علم ہے ،جسے پھیلایا جاسکے اور دوسروںکو بانٹا جاسکے ۔
طلبا کی حیثیت سے آپ کے لئے لازم ہے کہ آپ اپنے آپ کو زرعی معیشت سے متعلق پیشہ ورانہ ہنر مندی سے لیس کریں جو جواں سال طلبا میں جدت طرازی اور کاروباریت کی حوصلہ افزائی کرتی ہے ۔ میں سختی کے ساتھ اس بات میں یقین رکھتا ہوں کے اسکولی تعلیم طلبا کو درد مند ی اور ہمدردی کے احساس کے ساتھ ہمدر داور فکر مند انسان بناناچاہئے ۔ علاوہ ازیں ہمیں اپنے ہر بچے میں قوم پرستی اور وطن پرستی کا جذبہ پیدا کرنا چاہئے ۔
آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ آپ اس ملک کے مالا مال ثقافتی تنوع کی شاندار وراثت کے مالک ہیں ۔ اس کےساتھ ہی آپ ہندوستان کی زندہ لسانی وراثت کے بھی مالک ہیں۔ آپ کو اس وراثت کو مزید مالا مال بنانا چاہئے ۔ ہمیں اپنی مادر وطن کا احترام کرنا چاہئے اور اپنی مادری زبان پر فخر کرنا چاہئے اور اپنے خلاق اظہار کے لئے آپ کو اپنی مادری زبان استعمال کرکے ادب کو مالا مال بنانا چاہئے ۔
مجھے از حد خوشی ہے کہ آج کھیل کود ہمارے باصلاحیت نوجوانوں کو زبردست مواقع فراہم کرارہے ہیں ۔اس سے نہ صرف یہ کہ آپ کے ذہن وجسم کی تربیت ہوتی ہے بلکہ ٹیم کی صورت میں کام کرنے اور قیادت کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے ۔ آپ کو اپنے مطالعات کے ساتھ کھیل کود میں بھی مہارت حاصل کرنی چاہئے ۔
خدا کرے کہ آپ کے تمام خوابوں کو عملی تعبیر حاصل ہوسکے اور آپ ہر کوشش میں کامیا ب ہوں ۔ میں طلبا کی ان کامیابیوں کے لئے اساتذہ اور طلبا کے سرپرستوںکو بھی مبارکباد پیش کرتا ہوں ۔