نئی دہلی۔ ۔نائب صدر جمہوریہ ہند جناب ایم وینکیا نائیڈو نے کہا ہے کہ تعلیم کو ایک مضبوط کردار کی بنیاد رکھنی چاہئے۔ موصوف سیواسیوانی انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ ،واقع حیدر آباد میں کل یہاں منقعدہ جشن نقرئی جلسہ تقسیم اسناد میں خطاب کررہے تھے۔
نائب صدر جمہوریہ ہند نے کہا کہ تعلیمی اداروں کو باغبانی ، بیرون خانہ کھیل کود ، صنعت وحرفت اور فنون کو طلباء کی ہمہ گیر ترقیات کیلئے شامل نصاب کرنا چاہئے۔ انہو ں نے مزید کہا کہ تعلیم دراصل تاحیات جاری رہنے والی تدریس کے عمل کا نام ہے جس کے تحت ہر تجربہ کچھ نیا سبق دیتا ہے۔ آج کل کی رسمی تعلیم کو طلباء کو نئے انداز حیات کے ہنر سکھانے چاہئیں اور انہیں اختراع کے قابل بنانا چاہئے۔ ساتھ ہی ساتھ انہیں ڈگر سے ہٹ کر غور وفکر کرنے کی عادت ڈلوانی چاہئے تاکہ وہ عالم کاری اور مسابقت کی حامل دنیا کا سامنا کرسکیں۔
نائب صدر جمہوریہ ہند نے کہا کہ تعلیم کا پوری طرح سے کایاکلپ ہونا ضروری ہے تاکہ اس امر کو یقینی بنایا جاسکے کہ تعلیمی اداروں سے آئیڈیل شہری نکلیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسکولی سطح پر نصاب کو مکمل طور پر تخفیف کے عمل سے گزرنا چاہئے تاکہ طلباء پر وزن کم سے کم ہوسکے۔ اسکول میں طلباء جو وقت گزارتے ہیں اسے مساویانہ طور پر درجات کے اندر کے وقت اور کھیل کے میدان میں گزارے جانے والے وقت میں تقسیم کیا جانا چاہئے۔ کھیل کود اور دیگر اضافی نصابی سرگرمیوں میں شرکت جن میں باغبانی اور صنعت وحرفت بھی شامل ہیں، طلباء کو سماجی طور پر بیدار شہری بننے میں مدد دیں گے۔
نائب صدر جمہوریہ ہند نے کہا کہ اعلیٰ تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل ہوکرنکلنے والے طلباء کو اختراعی اور عملی طور پر نئے اور اُبھرتے ہوئے حالات اور صورتحال کا سامنا کرنے کے لائق ہونا چاہئے۔ ایسا ممکن ہو اس کے لئے نصاب اور تدریسی طریقوں کو تشکیل نو کے عمل سے گزارا جانا چاہئے اور انہیں ڈیجیٹل عہد کے تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جانا چاہئے۔
نائب صدر جمہوریہ ہند نے کہا کہ تدریس کا روایتی رٹنے کا طریقہ طلباء کی ہنرمندیوں اور علم کو پرکھنے کا پیمانہ نہیں قرار دیا جانا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ پالیسی سازوں، ماہرین تعلیم ، وائس چانسلر حضرات اور دیگر شرکائے کار کو جو تعلیمی شعبے سے وابستہ ہیں ، پورے نظام کی تشکیل نو پر غور کرنا چاہئے۔
نائب صدر جمہوریہ ہند نے کہا کہ دانشگاہوں میں تعلیمی ماحول ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ وہ ایسی سرگرمیوں سے متاثر ہوجائے جو طلباء کے مفادات میں نہیں ہوتی۔ نائب صدر جمہوریہ ہند نے کہا کہ نوجوان نسل کو درکار ہنرمندی ساز وسامان سے آراستہ کیا جانا چاہئے تاکہ وہ خود روزگار جیسے مواقع سے فائدہ اٹھا کر اپنا کام خود شروع کرسکیں کیوں کہ سبھی لوگوں کو سرکاری شعبے میں روزگار نہیں فراہم کیا جاسکتا۔
نائب صدر جمہوریہ ہند نے طلباء سے کہا کہ وہ ملک میں موبائل انقلاب سے فائدہ اٹھائیں اور عوام کواپنے اپنے موبائلوں پر اطلاع حاصل کرنے اور اطلاعات تک رسائی بڑھانے کیلئے حوصلہ افزائی فراہم کریں۔ انہوں نے مزید کہا کہ انٹرنیٹ کا پلیٹ فارم اور متعدد ایپ پہلے سے استعمال کیے جارہے ہیں اور ان کے توسط سے تعلیم دی جارہی ہے۔ اس عمل کو مہمیز کیا جانا چاہئے تاکہ یہ دیہی علاقوں میں رہنے والے نوجوانوں کی بڑی تعداد پر احاطہ کرسکیں اور اس کا پھیلاؤ ملک کے دور دراز علاقوں تک ہوسکے۔
نائب صدر جمہوریہ ہند کی تقریر کا متن درج ذیل ہے:
سیواسیوانی انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ کے جشن نقرئی جلسہ تقسیم اسناد میں شریک ہوکر مجھے بڑی مسرت ہوئی ہے۔
ابتدا میں، میں ان طلباء کو مبارکباد پیش کرنا چاہوں جو آج اس تقسیم اسناد کے جلسے میں پوسٹ گریجویٹ اسناد حاصل کریں گے۔ میں دیگر تمام طلباء کو ، انتظامیہ کو ، ا ساتذہ کو اور اس گروپ سے وابستہ تمام دیگر افراد کو بھی مبارکباد پیش کرنا چاہوں گا ،جو کے جی سے پی جی تک تعلیم سے وابستہ رہا ہے۔ میں کھلے دل سے اس گروپ اور اس کے اراکین کی ستائش کرتا ہوں کہ انہوں نے اس مشن کو جاری رکھنے میں لگاتار محنت کی ہے۔
عزیز طلباء ، آپ میں سے جو طلباء آج گریجویشن مکمل کررہے ہیں ، ان کی زندگی کا آج ایک نیا باب شروع ہورہا ہے۔ آپ میں سے کچھ آگے پڑھائی جاری رکھنا چا ہیں گے اور کچھ روزگار کی تلاش کریں گے یا اپنا روزگار خود قائم کرنے کی کوشش کریں گے۔ میں آپ کی مستقبل کی کوششوں میں آپ سب کو کامیاب ہونے کی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
یاد رکھئے کہ تعلیم ایک ڈگری یا پوسٹ گریجویٹ سند حاصل کرنے کے ساتھ ہی مکمل نہیں ہوجاتی، تعلیم ایک تا حیات جاری رہنے والا عمل ہے۔ جہاں ہر تجربہ ایک نیا سبق دیکھتا ہے، لہٰذا آج کی رسمی تعلیم کو طلباء کو ایسی نئی ہنرمندیاں اور زندگی کا سلیقہ فراہم کرنا چاہئے جو انہیں اختراعی انداز میں سوچنے کا راستہ دکھائے اور وہ عالم کاری سے ہم آہنگی اور مسابقتی دنیا میں پیش آنے والی چنوتیوں کا سامنا ڈگر سے ہٹ کر کرسکیں۔ تعلیم انسان کے اندر پہلے سے موجود عوامل کی تکمیل کا اظہار ہے۔ یہ بات سوامی وویکانند نے کہی تھی۔ تعلیم کو مضبوط کردار کی بنیاد رکھنا چاہئے، تعلیمی نظام ایسا ہونا چاہئے جو طلباء کو، نیک رحم دل بنائے اور بنی نوع انسان کا خیال رکھنے والے انسان میں بدل دے۔ اس کے اندر دوسروں کے درد محسوس کرنے کی صلاحیت پیدا کرے، تعلیم کو ہر حال میں طلباء کے اندر مضبوط اخلاقی اور مذہبی اصول اور عمل آوری کا جذبہ پیدا کرنے کے لائق ہونا چاہئے اور ا ن کے اندر قوم پرستی اور حب الوطنی کا جذبہ بھرنے کا ذریعہ ہوناچاہئے۔
میرا خیال ہے کہ اسکول کی سطح سے اعلیٰ تعلیم تک تعلیم کا نظام ایسا ہونا چاہئے جو پوری طرح سے تشکیل نو کے عمل سے گزارا جائے تاکہ اس امر کو یقینی بنایا جاسکے کہ ہمارے اداروں سے مثالی شہری نکلیں۔ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ اسکولی سطح پر نصاب کو کم کیا جانا چاہئے تاکہ طلباء پر وزن کم ہو۔ جو وقت طلباء اسکول میں گزارتے ہیں اسے مساویانہ طور پر درجات کے اندر اور کھیل کے میدان میں گزارے جانے والے اوقات میں منقسم ہونا چاہئے۔ کھیل کود اور اضافی نصابی سرگرمیوں میں شرکت ، جن میں باغبانی اور صنعت وحرفت جیسے نکات بھی شامل ہیں، طلباء کو اچھا اور سماجی طور پر بیدار شہری بننے میں مدد گار ہوں گے۔
ماضی کی طرح لگاتار جسمانی کسرت ڈرل اور اخلاقی تعلیم پر اسباق کو اسکول کے نصاب میں شامل کیا جانا چاہئے تاکہ بچے ایک مکمل انسان بن سکیں۔
پچھلے کافی دنوں سے جو کچھ ہورہا ہے وہ ہم سب کیلئے باعث تشویش ہے۔ ہم بڑی باقاعدگی سے ایسی مثالوں کا مشاہدہ کررہے ہیں جہاں نابالغ بچے جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں اور یہ جرائم کبھی کبھی ازحد سفاکانہ نوعیت تک کے ہوتے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنی جڑوں کی جانب واپس جائیں ۔ بھارتی ثقافت کا مطالعہ ، تہذیب اور تاریخ کی پرکھ اور سمجھ طلباء کے لئے لازمی ہے تاکہ وہ ہمارے تابناک ماضی سے آگاہی اور اس کی معقول تفہیم حاصل کرسکیں ۔ ہماری ثقافت ہمیشہ سے یہ رہی ہے کہ خواتین ، بزرگوں، اساتذہ ، فطرت اور یہاں تک کہ جانوروں تک کا احترام کیا جائے۔
ٹیکنالوجی ترقیات اور ڈیجیٹل انقلاب کے پس منظر میں تیز رفتا راور سرعت پذیر تبدیلیاں دنیا بھر میں رونما ہورہی ہیں ۔ طلباء اعلیٰ تعلیم کے اداروں سے فارغ التحصیل ہوکر نکل رہے ہیں تاہم انہیں ایسی صلاحیتوں سے آراستہ ہونا چاہئے کہ وہ اختراعاتی لحاظ سے عملی معنوں میں اُبھرتی ہوئی صورتحال کا سامنا کرنے کے لائق ہوں۔ پالیسی سازوں ، ماہرین تعلیم، وائس چانسلر حضرات اور تعلیم کے شعبے سے وابستہ دیگر شرکائے کار کو پورے نظام کی تشکیل نو کے امکانات پر غور کرنا چاہئے ۔ سیکھنے کا رٹنے والا طریقہ کسی طالب علم کی ہنرمندی اور علم کو پرکھنے کی بنیاد نہیں سمجھا جانا چاہئے۔
اعلیٰ تعلیمی اداروں سے نکل کر ا ٓنے والے طلباء کو ایک ایسا فرد بن کر نکلنا چاہئے جس کے پاس خلاقانہ انداز میں سوچنے کی صلاحیت ہو اور وہ ہر طرح کی صورتحال میں اختراعی اندازمیں فیصلہ لے سکیں۔ ان طلباء کو ملٹی ٹاسکنگ کا عادی ہونا چاہئے ، یونیورسٹیوں اور کالجوں کو تعلیمی عمدگی اور اختراعات کے فروغ میں ایک دوسرے سے مسابقت کرنی چاہئے۔ کیمپس میں تعلیمی ماحول ایسا نہیں ہونا چاہئے جو یہاں کے فطری ماحول کو بگاڑے ایسی سرگرمیوں سے متاثر ہو جو طلباء کے مفادات میں نہیں ہوتیں۔
ٹیکنالوجی کے شعبے میں ہونے والی ترقی اور انٹرنیٹ کی توسیع نے رسمی تعلیم کی فراہمی کے نئے مواقع پیدا کئے ہیں ۔ ہمیں اس انقلاب کا فائدہ اٹھانا چاہئے اور عوام کو اپنے موبائل کے ذریعے اطلاعات تک رسائی حاصل کرنے کا حوصلہ دینا چاہئے۔ انٹرنیٹ پلیٹ فارم اور متعدد ا یپ پہلے سے ہی تعلیم دینے کیلئے استعمال کئے جارہے ہیں۔ اس عمل کو مہمیز کیا جانا چاہئے تاکہ دیہی علاقوں میں رہنے والے نوجوانوں کی بڑی تعداد پر احاطہ کیا جاسکے اور دوردراز کے علاقو ں تک بھی یہی عمل دوہرایا جاسکے۔
عزیز طلباء، تعلیم صرف روزگار کے لئے نہیں حاصل کی جانی چاہئے بلکہ یہ ذہن کو روشن کرنے اور بااختیار ہونے کیلئے حاصل کی جانی چاہئے۔ تعلیمی اداروں کو باغبانی، بیرون خانہ کھیل کود، صنعت وحرفت اور فنون کو شامل نصاب کرنا چاہئے تاکہ طلباء کی ہمہ گیر ترقی عمل میں آسکے۔
بھارت ایک نوجوان ملک ہے اور یہاں کی 65 فیصد آبادی 35 برس سے کم کی ہے۔ ہمارے پاس دنیا کا ایک بہت بڑا تعلیمی نظام ہے اور ہر سال لاکھوں طلباء پاس ہوکر نکلتے ہیں۔ ضرورت اس وقت اس بات کی ہے کہ اس وسیع اور کثیر تعداد میں تعلیم یافتہ نوجوانوں کی قوت کا استعمال کرکے انہیں آبادی کی شکل میں حاصل بالادستی کی شکل دے دی جائے تاکہ ملک کی اقتصادی نمو کا راستہ ہموار ہوسکے۔
اکیسویں صدی میں عالمی سطح پر اقتدار کی تقسیم میں علم ، اہم تعین کار کا کردار ادا کریگا اور بھارت کو اپنی آبادی کی شکل میں جو بالادستی حاصل ہے اس کے پس منظر میں ،بھار ت کیلئے اس معاملے میں ایک وسیع میدان موجود ہے۔ نوجوان آبادی کو ہر حال میں درکار ہنرمندی فراہم کی جانی چاہئے اور درکار ساز وسامان بھی دیا جانا چاہئے تاکہ وہ اپنے روزگار خود شروع کرسکیں کیوں کہ سبھی کو سرکاری شعبے میں روزگار نہیں فراہم کرایا جاسکتا۔
عزیز طلباء، آج آپ سب ایک نئے عہد میں داخل ہورہے ہیں جو آپ کے کریئر کا نیا عہد ہے۔ اپنے نصب العینوں کو واضح کیجئے ، بڑے بڑے خواب دیکھئے اور عہدبندگی ، جو ش وجذبے، لگن، نظم وضبط اور تحمل کے ذریعے علم حاصل کیجئے۔ بھارت ایک زمانے میں وشوگرو کہلاتا تھا اور پوری دنیا سے علم حاصل کرنے کے شائقین ہماری قدیم دانشگاہوں کا رخ کیا کرتے تھے۔ ہمیں ایک مرتبہ پھر بھارت کو عالمی علم کا مرکز بنانا ہوگا ۔ بھارت کو سائنس ، ٹیکنالوجی، جدیدکاری ، صنعت کاری اور کاروبار متوجہ کرنے والا ملک بننا چاہئے۔
عزیز طلباء ، آپ سب مینجمنٹ پس منظر کےحامل ہیں، آپ کے لئے یہ بات ازحد لازمی ہے کہ آپ کاروبار کے طریقوں میں اخلاقی اقدا ر سے واقف ہوں۔ کاروبار کے ہر شعبے میں دیانتداری کا امتزاج ہو ، مال کو فروخت کرنے سے لے کر ماحولیاتی تحفظ تک ہر جگہ ایمانداری کا لحاظ رکھا جائے۔ مجھے خوشی ہے کہ متعدد کمپنیاں مختلف النوع ترقیاتی اور فلاحی سرگرمیاں کارپوریٹ سوشل ذمہ داری کے تحت سنبھال رہی ہیں۔
عزیز طلباء ، بھارت ایک متحرک ، کثیر ثقافتی، شمولیت پر مبنی ملک ہے جہاں ہر عقیدے اور ہر مذہب کے لوگ ایک دوسرے کے ساتھ میل محبت سے رہتے آئے ہیں۔ آپ سب کو ہمارے دیرینہ ورثے کی حفاظت کرنی چاہئے، طور طریقوں اقتدار اور رسم ورواج کا لحاظ رکھنا چاہئے، آپ مستقبل میں کسی بھی مقام پر ہوں ، کبھی بھی اپنے والدین ، مادری زبان، جائے پیدائش ، مادر وطن اور اساتذہ کو فراموش نہ کریں، کیوں کہ جو آپ کو تعلیم دیتے ہیں اور جنہوں نے آپ کی شخصیت سازی کی ہے، وہ اس کے حقدار ہیں۔
2017 میں یہاں سے فارغ التحصیل ہوکر نکلنے والے طلباء، مینجمنٹ اور اساتذہ کیلئے میری نیک تمنائیں ۔