نئی دہلی، تجارت وصنعت کے وزیر جناب پیوش گوئل نے تمام ممالک کو تلقین کی ہے کہ وہ اپنے تجارتی امور میں شفافیت لائیں اور اس کی مدد سے اعتماد جیتیں اور ایک بااعتبار تجارتی شراکت دار کی حیثیت سے اپنا بھرم نہ کھوئیں۔ یہاں دسویں برکس تجارتی وزرا کی ورچوئل میٹنگ سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ تجارت کو بحالی کے عمل میں اپنا کردار ادا کرنا ہے، تمام شراکت داروں کو معتمد اور شفاف ہوناضروری ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ اعتماد اور شفافیت ہی ہوتی ہے، جو عالمی سپلائی چین کی ہمہ گیری کا تعین کرتی ہے اور تمام ممالک کو عالمی تجارتی آمدورفت کا ایک حصہ بنے رہنے کے لیے عالمی تجارتی قواعد کے نفاذ میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ افزوں طور پر ایسے ممالک، جو ایک دوسرے پر بھروسہ کرتے ہیں، عالمی سپلائی چین قائم کرنے کے لیے آگے آرہے ہیں اور اس کے نتیجے میں اسی لحاظ سے مینوفیکچرنگ اور خدمات کے شعبے میں سرمایہ کاری بھی عمل میں آرہی ہے۔
وزیر موصوف نے کہا کہ جاری بحران نے یہ بات ظاہر کردی ہے کہ حساس اور نازک پہلو کون سے ہیں اور ہم اس کے نتیجے میں ایک دوسرے کا ہاتھ تھامنے اور ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنے کے لیے مجبور ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تجارت اس منظر نامے میں نمو کی بحالی کا ایک وسیلہ ثابت ہوسکتی ہے اور ڈبلیو ٹی او کو مستحکم بنانے کی ضرورت ہے۔ یعنی کھلے پن، ایمانداری، شفافیت، شمولیت اور عدم تفریق جیسے اصولوں کو استحکام حاصل ہونا چاہیے۔
وزیر موصوف نے قابل استظاعت قیمتوں پر ادویہ تک رسائی کے راستے میں موجود متعدد رکاوٹوں کو دور کرنے پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ ڈبلیو ٹی او کے یک رخے قواعد کی وجہ سے ایسا ہوا ہے اور یہ قواعد حقوق املاک دانشوراں کے تحفط کے لیے وضع کیے گئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ٹی آر پی ایس معاہدے میں وبائی مرض کا ذکر نہیں ہے، جبکہ ان حالات میں ٹیکوں اور ادویہ کے لیے مطالبات بیک وقت کئی ممالک کی جانب سے سامنے آئیں گے اور تبدیلیاں بڑی رفتار سے رونما ہوں گی۔ انہوں نے کہا کہ آئی پی آر کو اہم ادویہ تک رسائی کا راستہ نہیں روکنا چاہیے اور ساتھ ہی ساتھ مرض کے علاج کے لیے درکار دیگر آلات کے لیے آسانی پیدا کرنی چاہیے۔
جناب گوئل نے کہا کہ اس وبائی مرض نے خاصا اجتماع ضدین جیسا ماحول پیدا کردیا ہے اور اس نے ایک طرف مواقع کے دروازے بھی کھولیں ہیں، یعنی ہم صلاحیت سازی، مینوفیکچرنگ کی توسیع اور عالمی ویلوچینوں تک رسائی حاصل کرنے کے معاملے میں خود کو مستحکم بناسکتے ہیں۔ وزیر موصوف نے کہا کہ برکس اراکین دنیا میں سب سے زیادہ متاثر ممالک میں ہیں، ہمیں اجتماعی طور پر اس عزم کا مظاہرہ کرنا چاہیے کہ ہم اس طرح کی نادیدہ بحرانی صورتحال کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہیں اور ہر بار ہم مضبوط ترین اور مستحکم بن کر ابھریں گے۔
جناب گوئل نے کہا کہ کثیر پہلوئی یا کثیر درجاتی قواعد پر مبنی تجارتی نظام اس وقت سنجیدہ اور سنگین چنوتیوں کے نشانے پر ہے۔ اس میں منمانے طریقے سے کیے جانے والے اقدامات اور برعکس اقدامات،کلیدی تعلقات کے شعبے میں جمود اور اپیلیٹ باڈی میں جمود یا رکاوٹ جیسے معاملے بھی شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ڈبلیو ٹی او کے اراکین کی اکثریت کے لیے اس کے بنیادی اصولوں کا تحفظ اور مقاصد کی حفاظت از حد اہم ہے، تاکہ اس کثیر پہلوئی تجارتی نظام کے معتبریت کو یقینی بنایا جاسکے۔ انہوں نے کہا کہ ڈبلیو ٹی او اصلاحی اقدامات کا عمل اس انداز میں انجام پانا چاہیے کہ وہ ان تمام موجودہ عالمی حقائق کو نظر میں رکھے اور اس لیے اسے مبنی بر شمولیت ، متوازن اور مبنی بر اتفاق رائے ہونا چاہیے۔ تبھی سب کے لیے خوشحالی کا راستہ ہموار ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ یہ بات از حد حوصلہ شکن ہے کہ ہم ڈبلیو ٹی او کے تحت چند تجاویز کے سلسلے میں اس وبائی مرض کا سہارا لے کر اپنے اپنے تجارتی مفادات کے تحفظ کی فکر میں لگے ہوئے ہیں۔ یہ لازمی طور پر ترقی یافتہ ملکوں کی فرموں کے لیے مفید تو ہوگا، یعنی وہ ترقی پذیر ممالک کی منڈیوں میں بلاروک ٹوک رسائی حاصل کرسکیں گے۔ تاہم ترقی پذیز ممالک پر اس طرح کی بندشیں عائد کریں گی کہ وہ اپنے یہاں گھریلو پیمانے پر مینوفیکچرنگ کی صلاحیتوں میں اضافہ نہ کرسکیں۔
2020 کو کثیر پہلوئی نظام کی تاریخ میں ایک اہم موڑ قرار دیتے ہوئے خصوصاً برکس گروپوں کے لیے، اس کی اہمیت اجاگر کرتے ہوئے وزیر موصوف نے کہا کہ کسی بھی طرح کی اقتصادی ترقی کو ہر ملک کے مختلف سائز اور وہاں کی آبادی جیسے حقائق کو، اقتصادی ترقی کی نابرابر سطحوں اور انسانی ترقی کے اشاریوں وغیرہ کو اپنے ذہن میں رکھنا چاہیے۔ ساتھ ہی ساتھ خوشحالی کی باہم متضاد سطحوں، ثقافتی گوناگونی یا تنوع اور خاطر خواہ طور پر مختلف النوع سیاسی اور عدالتی نظام کو بھی ذہن میں رکھنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ہم انسانیت کو عالمی اجتماع اور عالمی مفادات کے معاملے میں مرکزی حیثیت دیتے ہیں اور اس لحاظ سے ہم جہاں وائرس سے بذات خود بری طرح سے متاثر ہیں، اس کے باوجود ہم نے مدد چاہنے والوں کی طرف سے انسانی تقاضوں پر پورا اترتے ہوئے کبھی اپنا رخ نہیں پھیرا ہے۔ اتنی پریشانی کے وقت میں بھی بھارت نے تقریباً 150 ممالک کو اہم طبی سپلائی یعنی ادویہ کی بہم رسانی کا فریضہ انجام دیا ہے۔ دنیا کے دواخانے کے طور پر ہم نے بڑی مقدار میں ہائیڈروکسی کلوروکوئن اور پیراسیٹامول جیسی دوائیں تیار کی ہیں، جن کا استعمال کووڈ-19 کے معالجے میں کیا جارہا ہے۔
وبائی مرض کے نتیجے میں درپیش چنوتیوں کے درمیان میں بھارت کے سرگرم کردار کا تجزیہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ زندگی بچانا بھارت کی اعلی ترین ترجیح رہی ہے۔ اگرچہ بھارت میں دنیا کی تقریباً 17 فیصد آبادی بستی ہے، پھر بھی ہمارے کووڈ-19 سے متاثرہ مریضوں کی تعداد دنیا بھر میں موازنے کے لحاظ سے محض 8 فیصد ہے۔ محترم وزیراعظم جناب نریندر مودی کی قیادت میں ہم نے اوائل دور میں ہی شدید ترین لاک ڈاؤنوں کا نفاذ کیا اور اس کے ذریعہ سے کورونا وائرس کی ترسیل کو توڑا اور ملک کو کووڈ نگہداشت کی سہولت میں خودکفیل بن جانے کے لیے تیار کیا۔ ہم نے خاطر خواہ طور پر دیگر ممالک کے مقابلے میں اپنے یہاں بہتر انتظام کیا ہے اور ہمارے یہاں شرح اموات سب سے کم اور روبہ صحت ہونے والوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ وبائی مرض کے ردعمل کے طور پر بھارت نے اہم طریقے سے اور قابل ذکر طور پر حفظان صحت کے شعبے میں اپنی صلاحیتوں میں اضافہ کیا ہے اور اپنے یہاں حفظان صحت کی صلاحتیوں اور سہولتوں کی بہم رسانی کی ہے، ایمرجنسی روم، تحفظاتی سازوسامان، طبی سپلائی اور حفظان صحت پیشہ وران کی تربیت جیسے اور پر توجہ مرکوز کی ہے اور ان میں اضافہ کیا ہے۔ ہمارے عوام سماجی فاصلہ برقرار رکھنے کے لیے تیار ہیں اور گھروں سے باہر نکلتے وقت ماسک پہنے رہتے ہیں۔
وبائی مرض کے نتیجے میں پیدا ہوئی اقتصادی چنوتیوں کو کم کرنے اور معیشت کو بحالی کے راستے پر واپس لانے کے لیے کیے گئے اقدامات کا ذکر کرتے ہوئے جناب گوئل نے کہا کہ وزیراعظم نے آتم نربھر بھارت کے نام سے 300 امریکی بلین ڈالر سے زائد کے پیکیج کا اعلان کیا تھا، جسے خود پر منحصر بھارت کا نام بھی دیا جاسکتا ہے اور اس کے تحت مالی اور مالیاتی اقدامات دونوں شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس مشن کی بنیاد 5 ستونوں پر قائم ہے۔ ان ستونوں میں معیشت، بڑے پیمانے پر بنیادی ڈھانچہ سازی، ٹیکنالوجی، اچھی حکمرانی کے پہلو، زیادہ آبادی کی بالادستی سے استفادہ حاصل کرنا اور مطالبہ اور مانگ کو فروغ دینا۔
برکس کو ذمہ دارانہ سرمایہ کاری کے پہلو کو اپنی حمایت فراہم کرنے کی تلقین کرتے ہوئے جناب گوئل نے کہا کہ مقصد یہ ہونا چاہیے کہ نتائج متوازن ہوں اور ہر ملک جو بھی رابطے میں آئے اس کے مفادات کا تحفظ ہو۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ روزگار کے مواقع بہم پہنچائے جائیں۔ وزیرموصوف نے کہا کہ اس پریشانی کے دوران برکس ممالک کو یکجہتی کا ثبوت دیتے ہوئے اپنے آپ کو تیار کرنا چاہیے اور عملی قدم بڑھانا چاہیے۔ ہر ایک ملک کے حجم یا سائز اور وہاں دستیاب مواقع سے استفادہ حاصل کرتے ہوئے ایک مضبوط، لچیلا اور اصلاح شدہ تجارتی نظام وضع کیا جانا چاہیے، جو ہماری ساجھا توقعات کی بنیاد پر کھرا اتر سکے۔