نئی دہلی، ۔ جیسس اینڈ میری کا لج کے جشن طلائی کے افتتاح کے موقع پر، یہاں آ کر ،مجھے بڑی مسرت کا احساس ہو رہا ہے اور یہ میری لئے اعزاز کی بات ہے ۔ اس ادارے نے نئی دہلی اور ہمارے پورے ملک میں ،تعلیم کے کاز کو فروغ دینے میں زبردست تعاون دیا ہے ۔ 5 دہا ئیوں سے اس ادارےنے نو خیز لڑکیوں۔دوشیزاؤں کو پڑھا یا ہے ، تیا ر کیا ہے تاکہ وہ شیشے کی اس نا دیدہ دیوار کو پا رہ پارہ کر دیں اور اپنے اندر پوشیدہ مضمرات یا اپنی صلاحیتوں کو جلا بخشیں، معا شرے اور معیشت میں اپنا تعاون دیں اور تعمیر قوم کے عمل کا حصہ بن جا ئیں۔
تعمیر قوم کا عمل، ہم سب کی شراکت چا ہتا ہے ۔ یہ محض حکومت تک ہی محدود نہیں ہے، اس کے لئے نجی اور سرکا ری اداروں، مذہبی اور عام انسانوں اور ہم میں سے ہر ایک فرد واحد کو ،خواہ ہم کچھ بھی کر تے ہوں ، اس عمل میں اپنا تعاون دینے کی ضرورت ہے ۔ اتنی مالا مال گو نا گونی والے ملک میں ،تعمیر قوم کا عمل ،گو نا گوں فرائض کی نجام دہی کا بھی متقاضی ہوتا ہے ۔
یہاں میں اس بات کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ عیسائی برادری ۔ بھا رت میں جس کی تاریخ، 2000 سال پرانی ہے ،اور جس نے ہماری ثقافت میں اپنا تعا ون دیا ہے ، اس برا دری نے تعلیم کے شعبے میں اپنے لئے ایک خصوصی کردار تخلیق کیا ہے ۔ مشنری ادارے جیسا کہ یہ ایک ادارہ ہے ، علمیت ،لگن اور محنت پر مبنی تدریس اور تعلیمی عمدگی کی علا مت رہے ہیں ۔
یہ بات بالکل معقول اور مناسب ہے کہ تمام مذاہب اپنی اصل کے لحاظ سے ہمیں یہی تعلیم دیتے ہیں کہ ہم لگاتار پڑھیں اور بالیدہ ہوں ،ترقی کریں اور علم کے ذریعہ بصیرت حاصل کریں ۔ اور بہتر انسان بنیں۔
جان نے اپنے وعظ میں باب 8 سطر نمبر 12 میں حضرت عیسیٰ کے حوالے سے کہا ہے کہ ‘‘میں عالم کا نور ہوں اور جو میری پیروی کر ے گا، وہ تاریکی میں نہیں رہے گا بلکہ اسے زندگی کا نورحاصل ہو گا ’’۔
اسی جذبے کی ترجمانی کر نے والا ہمیشہ یا د رکھا جا نے والا اشلوک اپنشد میں آ یا ہے :
استو ما سد گمئے
تمسو ما جیو ترگمئے
مجھے باطل سے حق کی جا نب راستہ دکھا ئیے
مجھے تاریکی سے روشنی کی جانب را ستہ دکھا ئیے
یہاں جس روشنی کی تمنا کی جا رہی ہے وہ ایک تمثیل ہے ۔بصیرت کے لئے اور ہمارے اذہان کو بیدار کر نے کے لئے یعنی انہیں تعلیم کے مقدس فریضے کے لئے مبذول کرا یا جا سکتا ہے ۔ ہما رے عقیدے اور ہماری شناخت کی تفریق کے بغیر ،تعلیم کا اصل فریضہ الوہی فریضہ ہے ۔ میں جیسس اینڈ میری کا لج کی برا دری کی ،اس اچھے کام کو آگے بڑھا نے کے لئے ستا ئش کر تا ہوں ۔
تعلیم کا مقصد صرف علم کا حصول نہیں ہے۔ یہ تو محض ایک ابتدائی مرحلہ ہو تا ہے ۔اس کی اہمیت اس علم کے استعمال سے وابستہ ہے جو تعلیم کے ذریعہ حاصل ہو تا ہے اور جس کے توسط سے ہم میں سے نسبتاً کم مراعات والے لوگوں کی فلا ح و بہبود کو فروغ دیا جا تا ہے ۔ صحیح معنی میں تعلیم یا فتہ وہ لو گ نہیں ہیں جو ڈگریاں جمع کر تے ہیں بلکہ وہ ہوتے ہیں جو ڈگریوں کا استعمال اور اس سے حاصل ہو ئے علم سے ہما رے معا شرے میں معمار قوم بنتے ہیں۔
میں ایک با ر پھر سے زور دے کر یہ بات کہنا چا ہتا ہوں کہ تعلیم کا نصب العین بہترین انسانوں کی تخلیق ہے ۔ یہ صرف کسی ملک کے لئے ایک عظیم خدمت نہیں ہے بلکہ پوری بنی نوع انسان کے لئے ایک عظیم خدمت کہی جا سکتی ہے ۔ اگر آپ ایک بہترین انسان ہیں تو آپ ہمیشہ اپنی زندگی میں عمدگی میں یقین رکھیں گے ۔آپ جہاں کہیں بھی ہوں گے وہاں اس سے عملی جا مہ پہنا ئیں گے ۔ مثال کے طور پر اگر آپ ایک استاد ہوں گے تو یقیناً آپ ایک بہترین استاد ہوں گے ۔ اگر آ پ ایک منتظم ہوں گے تو لا زمی طور پر بہترین منتظم ہوں گے ۔ اگر آ پ ایک ڈاکٹر ہوں گے تو آ پ لا زمی طور پر ایک بہتر ین ڈاکٹر ہوں گے وغیرہ وغیرہ ۔
لڑکیوں کی تعلیم ،اس سے کہیں زیادہ اہم ہے جتنا ہم محسوس کر تے ہیں ۔ ایک تعلیم یا فتہ لڑکی معیشت اور کام دونوں میں اپنا تعا ون دیتی ہے ۔ وہ اس عمل کو بھی یقینی بنا تی ہے کہ اس کے کنبہ کے دیگر بچے اور پورا کنبہ جہاں اس کی شا دی ہو ئی ہو ، تعلیم یا فتہ ہو جا ئے ۔ اگلی پیڑھی کو لڑکیوں کی تعلیم کے ذریعہ ذمہ دار اور تعلیم یا فتہ بنا یا جا سکتا ہے ۔ اس طریقے سے لڑکیوں کی تعلیم کا وسیع سما جی اثر از حد قابل ذکر ہے ۔
اس کے بدلے میں کسی کا لج میں کو نسی اقدار اور ثقافت کو زیا دہ پسند کیا جا تا ہے اور وہ اپنے طلبا کو کیا دیتا ہے یہ ایک آ زادانہ عمل ہے ۔ یہاں جیسس اور میری کا لج دوسروں کے لئے ایک نمو نہ ہے ۔ یہ بڑی مسرت کی بات ہے کہ کا لج نے اپنے جشن طلا ئی کو قریبی این ڈی ایم سی اسکول کے ساتھ مل کر منا نے کا فیصلہ کیا ہے اور اس اسکول اور اس کے بچوں کے ترقی میں بھی تعاون دینے کی فکر کی ہے ۔ پورے معاشرے کے لئے یہ ایک مثال ہو نے کے ساتھ ساتھ قابل ستائش نمو نہ ہے ۔ دیگر کا لج بھی اس تقلید کر سکتے ہیں ۔
مجھے بتا یا گیا ہے کہ جیسس اور میری کا لج با قاعدگی سے خون کے عطیات کے کیمپوں کا اہتمام کر تا ہے جس میں اس کے عملہ کے اراکین اور طلبا بڑے جو ش و خروش سے حصہ لیتے ہیں ۔ ابھی حال ہی میں خون کا عطیہ دینے کا کیمپ 14 ستمبر کو منعقد کیا گیا تھا ۔ میں نے با ہر لگی ہو ئی نما ئش میں اس خون کے عطیہ کے کیمپ کی تصاویر دیکھی ہیں ۔ اس قبل یعنی 13 ستمبر کو کا لج نے اعضاکا عطیہ دینے کے لئے ایک کیمپ کا اہتمام کیا تھا جس میں متعدد طالبات نے اپنے نام درج رجسٹر کرا ئے ہیں ۔ مجھے اس رحم دلی اور سما جی ذمہ دا ری کے احساس نے بہت متا ثر کیا ہے ۔ اس طرح کے تمام امور ہما ری نوجوان نسل میں ہمارے یقین کو پختہ بنا تے ہیں ۔
بھا رت کثیر النوع تبدیلیوں کے مرحلے سے گزر رہا ہے ۔ ہم ایک قدیم تہذیب ہیں ۔ تاہم نوجوان ہیں ۔ اکیسویں صدی کے نصف اول حصے میں ہمارے یہاں دنیا کے کسی دوسرے ملک کے مقابلے میں سب سے زیادہ تعداد میں نوجوان ہوں گے ۔ ہما رے نوجوانوں کی اس توا نا ئی کو برو ئے کا ر لا یا جا نا از حد اہم امرہے۔ اور اس توانائی کو ہما رے ملک کو ایک ترقی یا فتہ معا شرہ کی شکل دینے میں استعمال کیا جا نا چا ہئے ۔ اس کوشش میں تعلیم کی بنیادی اہمیت ہے ۔ تعلیم تک رسا ئی اور تعلیم کی کوا لٹی دونوں اہم امور ہیں ۔
ہما ری معیشت اور کا م کا ج کے مقام کی نوعیت بھی بدل رہی ہے ۔ چوتھے صنعتی انقلاب اور ڈیجیٹائزیشن اور روبوٹکس میں جو پیش رفت حاصل ہو ئی ہے، یہ سب مل کر ،چند پیشوں کو فرسودہ بنا دیں گے اور اس کے ساتھ ہی ساتھ متعدد نئے مواقع بھی فرا ہم کریں گے ۔ ہما را معاشرہ کس طریقے سے اس ڈرامائی تبدیلی سے خود کو ہم آہنگ رکھتا ہے اس کا انحصار، ہمارے اعلیٰ تعلیم کے سر کردہ اداروں پر ہوگا ایسے اداروں پر جیسے جیسس اینڈ میری کا لج ایک ادارہ ہے ،کہ وہ ایسی صورت میں کیسا رد عمل پیش کر تے ہیں ۔
ہمیں اپنے اعلیٰ تعلیمی نظام کو بہتر بنا نا ہو گا ۔ اس حد تک ترقی دینی ہو گی کہ یہ ادارے مستقبل کی ضروریات سے ہم آہنگ ہو سکیں ۔ ہما رےبنیا دی ڈھانچے ، ہما رے نصاب اور تدریس کے انداز کو اکیسویں صدی کے تقاضوں کے مطابق ڈھلنا ہو گا اور ہمیں تبدیلیوں کو ہمہ وقت جذب کر نے کے لئے فعا ل بننا ہو گا ۔ دہلی یونیورسٹی اور دیگرسو سے زائد یو نیورسٹیوں کا دورہ کر نے والے مجھ جیسے شخص کے لئے یہ تشویش کے موضوعات ہیں ۔ آ نے والے دنوں میں مجھے توقع ہے کہ اس طرح کے موضوعات پر تعلیمی برا دری سے با معنی تبادلہ خیالات عمل میں آ ئیں گے ۔
دوستو!
میں سمجھتا ہوں کہ جیسس اینڈ میری کا لج کے لئے یہ دوہرے جشن اور یا دگار لمحوں کا موقع ہے ۔جہاں ایک طرف کالج اپنا جشن طلا ئی منا رہا ہے وہیں جیسس اور میری کا سنگم وہ مقدس سلسلہ جس نے اسے قائم کیا ہے اور اس ادارے کو چلا رہا ہے ساتھ ہی ساتھ دوسرے مقامات پر ملک کے دیگر بہت سے ادارے بھی چلا رہا ہے ، اپنے قیام کے دو سو یں برس میں داخل ہو رہا ہے ۔
مجھے یہ بھی بتا یا گیا ہے کہ سسٹر مونیکا جو زف جو راہباؤں کے عالمی سلسلے کی سپیریر جنرل ہیں ،صرف بھارت کی رہنے والی ہی نہیں ہیں بلکہ اسی کالج سے گریجویٹ ہیں ۔ یہ امر آپ سب کے لئے ایک خصوصی سالگرہ کی حیثیت رکھتا ہے اور میں آپ کو ایک مرتبہ پھر مبارکباد پیش کرتا ہوں ۔ میں جیسس اور میری کالج کو دیگر 50 برسوں اور اس سے زیادہ طویل عرصے کے لئے درس و تدریس ، تعلیمی عمدگی اور علمی حصولیابیوں کے لئے مبا رکبا د پیش کر تا ہوں ۔