20 C
Lucknow
Online Latest News Hindi News , Bollywood News

جی ایس ٹی سے جڑے تجربات۔ارون جیٹلی

Urdu News

نئی دہلی: ملک میں نئے بالواسطہ ٹیکس نظام،اشیأ اورخدمات ٹیکس (جی ایس ٹی ) کانفاذ کئے جانے کی ایک سال کی مدت پوری ہوچکی ہے ۔ اس تنہاٹیکس نے ان 17ٹیکسوں اوران گنت ذیلی ٹیکسوں (سیس ) کا مقام لیاہے ، جسے مرکز اورریاستی سرکاروں نے نافذ کیاتھا ۔اس سے پہلے ملک میں انتہائی سخت قسم کا ٹیکس نظام نافذ تھاکیونکہ ہرٹیکس دہندہ کوطرح طرح کے ریٹرن بھرنے پڑتے تھے ، انھیں کئی انسپکٹروں اورمعائنہ کارحکام کا سامنا کرناپڑتاتھا ۔اپنی کسی بھی پیداوارکی آمدودرفت کے لئے ہرریاست میں الگ سے ٹیکس اداکرنا پڑتاتھا اور طرح طرح کی بندشوں کا سامنا کرنے پرٹیکس اداکرنے والے ٹیکس کی ادائیگی سے بچنے کے راستے تلاش کرنے لگتے تھے ۔ جی ایس ٹی کا بنیادی نظریہ مستحکم نہیں تھا۔ دنیا کے کئی ملکوں  میں عملی طورپراسے نافذ کیاجاچکاہے ۔ متعدد حقائق کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہی ہندوستانی ماڈل  کوترقی دیناضروری تھا ۔ ہندوستان ریاستوں کاایک ایسا اتحاد  ہے  ، جس میں مرکز اورریاستو ں دونوں کوہی مالیہ جاتی  یااقتصادی نظریے سے مستحکم ہونا انتہائی ضروری ہے ۔  بھارت ریاستوں کا  اتحاد  نہیں ہے ، اس لئے مرکزی سرکارکے مالیہ کی قیمت پرریاستوں کی مالیاتی حیثیت کو مستحکم نہیں کیاجاسکتاہے ۔ اگرمرکز کا ہی وجود برقرارنہیں رہ پائے گا ، توبھارت یعنی ریاستوں کے اتحاد کاکیاہوگا؟

جی ایس ٹی کے یوپی اے ماڈل کی خامیاں

          یوپی اے  اورکانگریس  میں میرے دوست کبھی کبھی اس طرح کے سوال پوچھتے ہیں کہ یوپی اے کی مدت کے دوران جی ایس ٹی کے نظریات سے کچھ وزرائے اعلیٰ متفق کیوں نہیں تھے ۔ اس کی دو خاص وجوہات تھیں ۔

          پہلی ، یو پی اے حکومت نے کانگریس حکمرانی والی ریاستوں سمیت مختلف ریاستوں میں اپنااعتماد کھودیاتھا۔ ایک ٹیکس نظام کو اپنانے کی سمت میں قدم اٹھاتے ہوئے یوپی اے نے ریاستوں سے سی ایس ٹی کوختم کرنے کو کہاتھا ۔یوپی اے نے ریاستوں سے وعدہ کیاتھا کہ سی ایس ٹی کوختم کرنے کے بدلے میں کچھ برسوں تک انھیں معاوضہ دیاجائیگا۔ ریاستوں نے اسی   کے مطابق عمل کیا، لیکن سی ایس ٹی کے بدلے میں معاوضہ دینے کا وعدہ یوپی اے حکومت نے پورا نہیں کیا ۔ جب میں نے مئی ،2014میں وزیرخزانہ کا عہدہ سنبھالا،توبی جے پی  اقتداروالی  ریاستوں سمیت سبھی ریاستوں نے مجھ سے کہاکہ یوپی اے حکومت نے جیسا کیا ، اسے دیکھتے ہوئے وہ مرکزی سرکارپربھروسہ نہیں کرتے ہیں ۔ ریاستوں نے مجھ سے کہاکہ وہ جی ایس ٹی پرگفت وشنید تبھی کریں گے جب سی ایس ٹی سے جڑا پچھلا معاوضہ انھیں دیا جائیگا۔ میں نے اس کے مطابق ویسا ہی کیااورسی ایس ٹی معاوضہ اداکردیاگیا۔ اس کے بعد ریاستیں جی ایس ٹی پر آگے بات وچیت کرنے کے لئے تیارہوگئیں ۔

          دوسری وجہ یہ تھی کہ ریاستوں کےذہن میں شبہ تھا کہ جی ایس ٹی کو پوری طرح سے نافذ کرنے کے دوران انھیں مالیہ کا نقصان اٹھانا پڑے گا۔ ایسے میں سوال یہ تھا کہ ریاستوں کونقصان کی بھرپائی کس طرح کی جائیگی ۔ ان کامطالبہ بالکل  جائز تھا ، لیکن یوپی اے نے اس کا حل نہیں نکالا ۔  خصوصاً تمل ناڈو ، گجرات ، مہاراشٹراور کرناٹک جیسی  صنعتی ریاستیں اس موضوع پرکافی فکرمند تھیں ۔ انھوں نے صاف کہا کہ ‘معاوضہ نہیں تو جی ایس ٹی نہیں ’۔جی ایس ٹی اجلاس میں تبادلہ خیال کے  بعدریاستوں کو مالیہ کے  نقصان ہونے پرابتدائی پانچ برسوں تک مالیہ میں 14فیصد کے اضافہ کے پررضامند ی حاصل ہوگئی ۔ ریاستوں نے اس تجویز کو منظورکرلیا اور ہم اس طرح جی ایس ٹی نافذکرنے کے لئے ریاستوں کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے ۔

پیٹرولیم مصنوعات کا موضوع

          راہل گاندھی اورپی چدمبرم دونوں حضرات نے متعدد مرتبہ یہ مطالبہ پیش کیاہے کہ پیٹرولیم مصنوعات کوجی ایس ٹی کے دائرہ کارکے تحت لایاجاناچاہیئے ۔ جب میں  ریاستوں کے کانگریسی وزرائے خزانہ سے بات کرتاہوں تو  وہ اس کے لئے تیارنظرنہیں آتے ۔ تاہم پیٹرولیم مصنوعات کے سلسلے میں جی ایس ٹی کے تعلق سے یوپی اے کااپنا ٹریک ریکارڈ رہاہے ۔ یوپی اے حکومت  کے زمانے میں جس آئینی ترمیم کی تجویز رکھی گئی تھی اس کے نتیجے میں تمام پیٹرولیم مصنوعات کو جی ایس ٹی دائرہ کارسےباہررکھاگیاتھا ۔ اس طریقے سے اس وقت تک جب تک آئین میں ترمیم نہ ہو( عام طورپر آئین میں ترمیم کرنا کافی مشکل امرہے ) پیٹرولیم مصنوعات یوپی اے کے مطابق جی ایس ٹی کے تحت کبھی نہیں آئیں گی ۔ ریاستوں کا اعتماد حاصل کرکے میں نے پیٹرولیم مصنوعات کوجی ایس ٹی اورریاستوں کے لئے بھرپائی کی ادائیگی کے ساتھ پیٹرولیم مصنوعات کے سلسلے میں سودے بازی کا موضوع بنایا۔ میں نے  ایک ایسا فارمولہ تیار کیا جس کے تحت پیٹرولیم مصنوعات کو آئینی ترمیم میں جی ایس ٹی کے مقصد سے شامل کرلیاجائیگا تاہم کونسل اس تاریخ کا تعین کریگی، جس تاریخ سے ان مصنوعات کو جی ایس ٹی کے دائرہ کارکے تحت لایاجائے ۔ ریاستوں نے اتفاق کرلیا۔ یوپی اے نے پیٹرولیم مصنوعات کومستقل طورپرجی ایس ٹی سے باہررکھا اس کے برعکس ہم انھیں واپس آئین کے تحت لے آئے اورجی ایس ٹی کے سلسلے میں نافذالعمل بنایااورآہستہ آہستہ جی ایس ٹی نافذ کیاتاہم نفاذ کی تاریخ جی ایس ٹی کونسل کو طے کرنی تھی ۔ اس مقصد کے لئے میں اپنی تمام ترکوششیں جاری رکھوں گا اورامید کرتاہوں ، جب ریاستوں میں مالیہ کی صورت حال بہترہوجائیگی تو ایسا ممکن  ہوسکے گا اوروہی مناسب وقت ہوگا  کہ ان تمام ریاستوں کواس کے نفاذ کے لئے ہموارکرلیاجائے ۔

ایک سال  بعد کاتجربہ

          یکم جولائی ، 2017کوجب جی ایس ٹی نافذ کیاگیاتھا توکانگریس نے ہمیں اسے منسوخ  کرنے صلاح دی تھی ۔ حالانکہ ایک عدم دلچسپی والی  حکومت کبھی بھی اصلاح کا فیصلہ نہیں لے سکتی ۔ لہذا ہم آگے بڑھ گئے ۔ پہلے مرحلے میں ہم نے ٹیکس کی شرحوں کا پہلاسیٹ طے کیا۔ ایسے میں ہمیں بڑی تعداد میں تاجروں ، صنعت کاروں سے درخواستیں موصول ہوئیں اورہم نے ٹیکس کی شرحوں کو معقول بناناشروع کردیا۔

          جی ایس ٹی کونسل کے ابتدائی اجلاس میں جہا ں بھی ضروری سمجھاگیا ان کے معاملات میں ٹیکس شرحوں کو کم کردیاگیا ۔ہم تمام اشیأ اورخدمات پرغورکرتے ہیں ، تو ہمیں محسوس ہوتاہے کہ آج  ٹیکس  کی شرحوں کی کل تعداد گذشتہ نظام کے مقابلے کافی کم ہے  ۔ ٹیکس پرٹیکس لگائے جانے کا نظام ختم ہونے سے ٹیکس کی دینداری کم ہوگئی ہے ۔

          ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لئے ہم نے آئینی ترمیم بل پاس کیا ، تاکہ سب کی رضامندی سے جی ایس ٹی کونافذ کیاجاسکے ۔ جی ایس ٹی  سے جڑے سبھی بل مکمل رضامندی سے پاس ہوگئے ۔ جی ایس ٹی کونسل کے سامنے متعلقہ قواعد وضوابط پیش کئے گئے ۔ انھیں متفقہ طورپرمنظوری دی گئی ۔ ہم نے اب تک جی ایس ٹی کونسل کے 27اجلاس منعقد کئے ہیں ، جس کےدوران ہرفیصلہ متفقہ طورپرمنظورکیاگیا۔

          ہندوستان بھی ان ممالک میں شامل ہے ، جہاں اتنی بڑی  تعداد میں ٹیکس اصلاحات  کو نرمی کے ساتھ  نافذکیاگیاہے ۔ تمام چیک پوسٹوں کوراتوں رات ختم کردیاگیا۔ ان پٹ  کریڈٹ ٹیکس کے نظام نے تمام ضروری جانکاریوں کومہیاکرانا طے کردیاہے ۔ جی ایس ٹی نے بڑے پیمانے پر رضامندی سے ٹیکس رجسٹریشن  کوفروغ دیاہے ۔ اس سال کے اقتصادی سروے میں کئے  گئے تمام  اعداد وشمارسے پتہ چلاہے کہ دسمبر 2017تک تقریبا1.7ملین رجسٹریشن کرانے والے ایسے افراد  تھے ، جو جی ایس ٹی کی حد سے نیچے آتے تھے ، لیکن اس کے باوجود انھوں نے جی ایس ٹی کا حصہ بننے کا فیصلہ کیا۔

          بڑے پیمانے پر ٹیکس پرعمل آوری کو یقینی بنانے کے لئے ای وے بل کوپیش کیاگیاہے ۔ جیسے ہی انوائس کے ملان کا کام شروع ہوجائے گا ، تب ٹیکس کی چوری انتہائی مشکل ہوجائیگی ۔ ٹیکس دہندگان کو اب کافی سہولتیں ہوگئی ہیں ۔ ٹیکس دہندگان اب اپنے ریٹرن آن لائن بھرتے ہیں  اورمتعدد حکام سے ان کا سامنا اب نہیں ہوتاہے ۔ ریٹرن داخل کرنے کا عمل بھی آسان بنادیاگیاہے ۔ٹیکس بنیادبڑھنے پر ٹیکس کی شرحوں اورسلیبوں کومعقول بنانے کی ہماری قوت اورزیادہ بڑھ جائیگی ۔

          بہت چھوٹے تاجروں کو تحفظ دیاگیاہے ۔ جن تاجروں کا ٹرن اوور 20لاکھ روپے سے کم ہے ، و ہ جی ایس ٹی ادانہیں کرتے ہیں ۔ جن تاجروں کا ٹرن اوور ایک کروڑروپے تک ہے ، وہ اپنے ٹر ن اوور پرایک فیصد کی ادائیگی کے ساتھ اپنے جی ایس ٹی کا ارتباط  کرسکتے ہیں اورسہ ماہی ریٹرن داخل کرسکتے ہیں ۔

واحد سلیب

          راہل گاندھی ہندوستان کے لئے ایک واحد سلیب کی وکالت کرتے ہیں ۔ یہ ایک خامی  والا نظریہ ہے ۔ ایک سلیب والا جی ایس ٹی صرف ان ہی ممالک کے لئے کارگرثابت ہوسکتاہے ، جہاں کی مکمل آبادی ایک جیسی ہو اوران کی ادائیگی کی قوت زیادہ ہو۔

ٹیکس کے اثرات

          جی ایس ٹی کے براہ راست ٹیکس کے اثرات صاف نظرآرہے ہیں ۔ جن لوگوں کو اپنے کاروبارکے ٹرن اوور کا خلاصہ کرناپڑتا ہے ، انھیں اب اپنی آمدنی کے لئے آمدنی ٹیکس کا خلاصہ کرناپڑتاہے ۔ایسے میں ابتدائی رجحانوں سے پتہ چلاہے کہ براہ راست ٹیکس کی ادائیگی میں اضافہ ہواہے ۔ جب ہم جولائی ،2017سے لے کرمارچ ،2018تک کے ابتدائی نومہینوں میں جی ایس ٹی کے مظاہرے پرغورکرتے ہیں اورسی جی ایس ٹی، ایس جی ایس ٹی ، آئی جی ایس ٹی اورکمپوزیشن سیس سمیت تمام جمع شدہ رقم کو جوڑتے ہیں ، توہمیں جی ایس ٹی میں جمع کی پوری رقم حاصل ہوتی ہے ۔پہلے 9مہینوں میں 8.2لاکھ کروڑروپے کی کل رقم جمع ہوئی ہے ، جوسالانہ بنیاد پر11لاکھ کروڑروپے بنتی ہے اور 11.9فیصد کا اضافہ ظاہرکرتی ہے یا 1.22کی ٹیکس کی اچھال ظاہرکرتی ہے ، جوتاریخی طورپر بالواسطہ ٹیکسوں کے لئے غیرمعمولی کامیابی  ہے ۔

Related posts

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More